صدقہ
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
صدقہ، اس مال کو کہتے ہیں جو راہ خدا میں دیا جائے۔ دین اسلام میں جس طرح رزق و روزی حاصل کرنے کے لئے ہر طریقہ صحیح نہیں ہے اسی طرح سے اس مال کو ہر راہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ اسلام میں مال استعمال کرنے کا ایک بہترین راستہ، خدا کی راہ میں صدقہ دینا ہے۔ قرآن کی آیات کے مطابق، صدقہ واجب اور مستحب دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور اسی طرح اس کے استعمال کے شرائط بھی بیان کئے گئے ہیں۔ روایات کے مطابق، صدقہ دینے سے نہ صرف یہ کہ انسان کے مال و اموال کم نہیں ہوتے، بلکہ یہ مال میں زیادتی اور برکت کا باعث بنتا ہے۔
صدقے کا معنی
صدقہ ایسی چیز ہے جسے انسان قربۃً الی اااللہ کی نیت سے (خداوند کے نزدیک ہونے کے لئے) اپنے مال سے نکالتا ہے، جیسے زکات، لیکن لفظ (صدقہ) کو مستحب صدقہ کے لئے اور (زکات) واجب صدقہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. [1] خدا کی راہ میں مال دینے کو (تصدق) اور جو مال دیا گیا ہے اس کو (صدقہ) کہا جاتا ہے۔
صدقے کی اہمیت
سورہ توبہ کی آیت 104 میں یوں آیا ہے، خداوند خود صدقے کو لیتا ہے: أَلَمْ یعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ یقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَیأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ ﴿۱۰۴﴾ ترجمہ: کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور زکات و خیرات کو وصول کرتا ہے اور وہی بڑا توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔(104) تفسیر نمونہ میں اس آیت کے ذیل کے اس طرح آیا ہے: یہ تعبیر، اس اسلامی حکم کی عظمت کو مجسم کرتی ہے اور مسلمانوں کو اس الہی فریضہ میں رغبت دلانے کے علاوہ، یہ بھی سکھا رہی ہے کہ زکات اور صدقات کو نہایت ادب واحترام سے خرچ کریں، کیونکہ اس کا لینے والا خود خداوند ہے. اسی طرح ایک روایت میں امام سجاد(ع) فرماتے ہیں: إنَّ الصَّدَقَة لاتَقَع فی یدِ العَبدِ حتّی تَقَعُ فی یدِ الرَّب[2] ترجمہ: صدقہ بندے کے ہاتھ میں قرار نہیں دیا جاتا مگر یہ کہ اس سے پہلے یہ خدا کے ہاتھ میں جاتا ہے۔[3]
صدقہ کی اقسام
صدقات کی دو اقسام ہیں:
- واجب: صدقے کی اس قسم میں، انسان اپنے اموال کے کچھ حصے کو خاص شرائط کے تحت خاص لوگوں میں تقسیم کرتا ہے. صدقہ واجب جیسے زکات، خمس اور فطرہ۔
- مستحب: اس کا کوئی خاص اندازہ نہیں انسان جس مقدار میں چاہے اپنے مال کو خدا کی راہ میں فقیروں اور نیاز مندوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔[4]
صدقہ کے شرائط
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ کالَّذِی ینفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ کمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَکهُ صَلْدًا ۖ لَّا یقْدِرُونَ عَلَیٰ شَیءٍ مِّمَّا کسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرِینَ﴿۲۶۴﴾ایمان والو اپنے صدقات کو منّت گزاری اور اذیت سے برباد نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو دنیا دکھانے کے لئے صرف کرتاہے اور اس کا ایمان نہ خدا پر ہے اور نہ آخرت پر اس کی مثال اس صاف چٹان کی ہے جس پر گرد جم گئی ہو کہ تیز بارش کے آتے ہی بالکل صاف ہوجائے یہ لوگ اپنی کمائی پر بھی اختیار نہیں رکھتے اور اللہ کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا .
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکینِ وَالْعَامِلِینَ عَلَیهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۖ فَرِیضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَکیمٌ ﴿۶۰﴾
ترجمہ: صدقات و خیرات بس فقرائ ,مساکین اور ان کے کام کرنے والے اور جن کی تالیف هقلب کی جاتی ہے اور غلاموں کی گردن کی آزادی میں اور قرضداروں کے لئے اور راسِ خدا میں غربت زدہ مسافروں کے لئے ہیں یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ خوب جاننے والا اور حکمت والا ہے
قرآن کی آیات اور آئمہ معصومین(ع) کے اقوال کو مدنظر رکھتے ہوئے صدقے کے درج ذیل شرائط ہیں:
- ہر چیز سے پہلے صدقہ پاک اور حلال مال سے نکالنا چاہیے.[5]
- بہتر یہ ہے کہ صدقہ مخفی طور پر دیا جائے.[6]
- صدقہ آزار اور منت کے ساتھ نہ ہو. [7]
- صدقہ دیتے وقت نیت خالص ہونی چاہیے. [8]
- اپنے پسندیدہ اور اچھے مال سے صدقہ دینا چاہیے. [9]
- صدقہ دینے والا ہر گز خود کو اس مال کا حقیقی مالک نہ سمجھے بلکہ خود کو خدا اور اسکی خلق کے درمیان وسیلہ سمجھے. [10][11]
صدقے کا استعمال
خداوند نے قرآن کی آیات میں صدقہ کے استعمال کے آٹھ مورد بیان کئے ہیں:[12]
- فقرا
- مساکین
- زکات جمع کرنے والے. درحقیقت جو ان کو دیا جاتا ہے وہ انکی اجرت کے طور پر ہوتا ہے.
- مُؤلِفَة قلوبُهُ یعنی جو اسلام کی مدد کرنے کا انگیزہ نہیں رکھتے لیکن مالی لحاظ سے انکی تعریف کر کے انکی محبت کو جلب کیا جا سکتا ہے. غلام کو آزاد کرنا
- ان کے قرض کو ادا کرنا جو بغیر جرم اور قصور کے مقروض ہوں اور قرضہ ادا کرنے سے عاجز ہوں.
- خدا کی راہ میں استعمال کرنا. اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام وہ راہ جس سے دین الہی کی گسترش اور تقویت ہو.
- جو اپنا راستہ بھول گئے (وابن سبیل)، یعنی وہ مسافر جو اپنے راہ سے بھٹک گئے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے ان کے پاس زاد راہ موجود نہ ہو.[13]
صدقہ دینے کا طریقہ
- قرآن کی نگاہ میں دو ناپسند طریقے:
- خداوند نے صدقہ دینے کے لئے دو طریقوں سے منع کیا ہے:[14]
- صدقہ ریا اور دکھاوے کے لئے ہو۔ اس صورت میں صدقہ ابتداء سے ہی باطل ہے۔
ایسا صدقہ جس کو دینے کے بعد اذیت اور منت کے ذریعے اس کی اہمیت کو ختم کیا جائے۔ ان دو قسم کے صدقے کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ رضای خدا کے لئے انجام نہیں دیئے گئے یا اگر بھی خدا کی رضا کے لئے انجام دیئے گئے تھے لیکن اس شخص نے منت لگا کر اور اذیت دے کر اپنی نیت کو ناخالص کر دیا جس کی وجہ سے یہ عمل باطل ہو گیا. [15]
- قرآن کی نگاہ میں اچھے کام:
خداوند نے قرآن میں دو قسم کے صدقے کو بیان کیا ہے اور ان دو قسموں کو درست قرار دیا ہے:
- چھپ کر صدقہ دیںا: اس طرح انسان ریا اور دکھاوے سے دور ہوتا ہے اور فقیر کی عزت بھی محفوظ رہتی ہے اور فقیر اپنی ذلت کا احساس نہیں کرتا۔ جہاں تک کہ دین کی بنیاد اخلاص پر ہے جتنا عمل خالص تر ہو گا، اتنی ہی اس کی فضیلت زیادہ ہو گی اسی لئے خداوند نے بغیر دکھاوے کے صدقہ دینے کو، دکھاوے کے صدقہ پر ترجیع دی ہے اور فرمایا ہے: اگر بغیر دکھاوے کے صدقہ دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔[16]
- سب کو دکھا کر صدقہ دینا: کہ جو لوگوں کو اس نیک کام کے بجا لانے کی عملی دعوت ہے اور یہ فقرا اور مساکین کی دلگرمی کا باعث ہے کیونکہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو انکے حال پر ترحم کرتے ہیں، اور اس کام سے ان کی یاس اور ناامیدی ختم ہوتی ہے۔[17]
صدقہ کے مصادیق
صدقہ حقیقی اور حقوقی افراد کی طرف سے تحفہ ہے جو محتاج افراد کو دیا جاتا ہے. صدقہ ممکن ہے نقد رقم، خدمات، استعمال شدہ یا غیر استعمال شدہ اشیاء، کپڑے، کھانے پینے کا سامان، کھلونے یا دوسری انسان دوستانہ مدد، اسی طرح دوسری جسمانی مدد جیسے خون یا بدن کے اعضاء ہدیہ دینا وغیرہ... رسول خدا(ص) نے فرمایا: ہر اچھائی صدقہ ہے اور ہر وہ چیز جو مومن اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے اور بیوی کے لئے جمع کرتا ہے اور ہر وہ چیز جس سے اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ کے طور پر لکھا جاتا ہے. [18] اور یہ کہ کن چیزوں سے صدقہ دیا جائے، اس بارے میں قرآن کی آیات اور روایات میں یوں آیا ہے: طیبات سے صدقہ دیں، یعنی پاک اور حلال مال جسے انسان نے حلال طریقے سے حاصل کیا ہو، اور کوشش کرے کہ گھٹیا اور پست مال کو صدقے کے لئے استعمال نہ کرے، کیونکہ صدقہ دینے سے خدا کی رضایت حاصل ہوتی ہے اور اس کے ایک طرف فقیروفقراء، اور دوسری طرف خدا ہے اور اگر مومنین ان نکات کی رعایت نہ کریں، تو ایک طرف خداوند کی توہین اور دوسری طرف فقیروفقراء کی توہین ہے. [19]
صدقہ کی مقدار
صدقہ دیتے وقت میانہ روی اختیار کرنی چاہیے، یعنی نہ یہ کہ صدقہ دینے میں کنجوسی اختیار کرے اور نہ یہ کہ صدقہ دے کر اپنے لئے مشکل ایجاد کر لے. [20]صدقہ کی مقدار خود اس شخص کے مطابق ہے، حتی بعض روایات میں ایک چلو پانی بھی صدقہ کے عنوان سے بیان ہوا ہے. [21]
صدقہ کے آثار و برکات
بہت سی روایات صدقہ کی فضیلت اور برکت کے لئے نقل ہوئی ہیں اور ان کے لئے بہت سے فائدے اور آثار بیان ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں: [22]
مصیبت اور بری موت سے دوری صدقہ مصیبت اور بری موت کو دور کرتا ہے۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں: صدقہ انسان سے ستر بلاؤں کو دور کرتا ہے اور نیز بری موت کو انسان سے دور کرتا ہے، کیونکہ صدقہ دینے والا ہرگز بری موت کے ذریعے دنیا سے نہیں جاتا۔[23][24]
اَلبِرُّ وَ الصَّدَقَةُ ینفیانِ الفَقرَ وَ یزیدانِ فِی العُمرِ وَ یدفَعانِ عَن صاحِبِهِما سَبعینَ میتَةَ سوءٍ
ترجمہ: صدقہ اور اچھا کام، فقر کو دور کرتا ہے، عمر کو زیادہ کرتا ہے اور ستر بری موت کو اپنے مالک سے دور کرتا ہے۔
لمبی عمر
پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: صدقہ اور صلہ رحم شہروں کو آباد اور عمروں کو زیادہ کرتا ہے۔[25]
بیماروں کی شفا
صدقہ دینے کی ایک اور برکت بیماروں کی شفا ہے۔ معصومین (ع) کی حدیث میں بیان ہوا ہے: اپنے بیماروں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ مستحب ہے کہ مریض خود اپنے ہاتھ سے صدقہ دے۔[26]
فقر کو دور کرتا ہے
امام باقر (ع) فرماتے ہیں: نیکی اور صدقہ فقر کو دور کرتے ہیں۔[27]
صدقہ کے معنوی اثرات
قرآن کریم کی نگاہ میں خدا کی راہ میں صدقہ دینا، ایک سودمند تجارت ہے جس کا انعام بہشت ہے اور جو انسان کو قیامت کی ھولناک سختیوں سے دور کرتا ہے اور دردناک عذاب الہی سے نجات کا ذریعہ ہے۔
نحوست سے دوری
پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں: جب رات گزار کر صبح کرتے ہو، تو صدقہ دو تا کہ اس دن کی نحوست تم سے دور ہو جائیں اور جس وقت دن گزار کر رات کرتے ہو، صدقہ دو تا کہ رات کی نحوست تم سے دور ہو جائیں۔[28]
پل صراط سے گزرنا
امام صادق (ع) فرماتے ہیں: صراط سے گزرنے کی تلاش تھی اس کو صدقہ میں پایا ہے۔[29]
بہشت کی ضمانت
امام علی (ع) فرماتے ہیں: چھ گروہ کے لئے بہشت کی ضمانت لیتا ہوں۔ ایک وہ مرد جو کوئی چیز صدقہ دینے کے لئے الگ رکھتا ہے، لیکن مر جاتا ہے، وہ اہل بہشت ہے۔ دوسرے پانچ گروہ درج ذیل ہیں: بیمار کی عیادت کرنے والے، جہاد کرنے والے، حج گزار، نماز جمعہ اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلیں اور گھر واپس آنے سے پہلے فوت ہو جائیں۔[30]
حوالہ جات
- ↑ راغب، مفردات، ج۱، ص۲۷۸.
- ↑ عیاشی، تفسیر العیاشی، ج۲، ص۱۰۸. این حدیث در دیگر منابع با اندکی اختلاف در تعبیر آمده است. ر.ک: کلینی، الکافی، ج۴، ص۳. صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۶، حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۹، ص۳۷۰.
- ↑ تفسیر نمونہ، ج۸، ص۱۲۳.
- ↑ طباطبایی، تفسیر المیزان، ج۲، ص۴۰.
- ↑ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَیبَاتِ مَا کسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَیمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِیهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِی حَمِیدٌ﴿۲۶۷﴾ (ترجمه: ای کسانی که ایمان آوردهاید، از چیزهای پاکیزهای که به دست آوردهاید، و از آنچه برای شما از زمین برآوردهایم، انفاق کنید، و در پی ناپاک آن نروید که [از آن] انفاق نمایید، در حالی که آن را [اگر به خودتان میدادند] جز با چشمپوشی [و بیمیلی] نسبت به آن، نمیگرفتید، و بدانید که خداوند، بینیازِ ستوده [صفات] است.)[ سوره بقره–آیه ۲۶۷]
- ↑ إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِی ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَیرٌ لَّکمْ ۚ وَیکفِّرُ عَنکم مِّن سَیئَاتِکمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ ﴿۲۷۱﴾ (ترجمه: اگر صدقهها را آشکار کنید، این، کار خوبی است، و اگر آن را پنهان دارید و به مستمندان بدهید، این برای شما بهتر است؛ و بخشی از گناهانتان را میزداید، و خداوند به آنچه انجام میدهید آگاه است.)[ سوره بقره–آیه۲۷۱]
- ↑ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ کالَّذِی ینفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ کمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَکهُ صَلْدًا ۖ لَّا یقْدِرُونَ عَلَیٰ شَیءٍ مِّمَّا کسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرِینَ﴿۲۶۴﴾ (ترجمه: ای کسانی که ایمان آوردهاید، صدقههای خود را با منّت و آزار، باطل مکنید، مانند کسی که مالش را برای خودنمایی به مردم، انفاق میکند و به خدا و روز بازپسین ایمان ندارد. پس مَثَل او همچون مَثَل سنگ خارایی است که بر روی آن، خاکی [نشسته] است، و رگباری به آن رسیده و آن [سنگ] را سخت و صاف بر جای نهاده است. آنان [=ریاکاران] نیز از آنچه به دست آوردهاند، بهرهای نمیبرند؛ و خداوند، گروه کافران را هدایت نمیکند.)[ سوره بقره–آیه۲۶۴]
- ↑ وَمَثَلُ الَّذِینَ ینفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِیتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ کمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکلَهَا ضِعْفَینِ فَإِن لَّمْ یصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ﴿۲۶۵﴾ (ترجمه: و مَثَل [صدقات] کسانی که اموال خویش را برای طلب خشنودی خدا و استواری روحشان انفاق میکنند، همچون مَثَل باغی است که بر فراز پشتهای قرار دارد [که اگر] رگباری بر آن برسد، دو چندان محصول برآورد، و اگر رگباری هم بر آن نرسد، بارانِ ریزی [برای آن بس است]، و خداوند به آنچه انجام میدهید بیناست.)[ سوره بقره–آیه۲۶۵]
- ↑ لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَیءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِیمٌ ﴿۹۲﴾ (ترجمه: هرگز به نیکوکاری نخواهید رسید تا از آنچه دوست دارید انفاق کنید؛ و از هر چه انفاق کنید قطعاً خدا بدان داناست.)[ سوره آل عمران–آیه۹۲]
- ↑ آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَکم مُّسْتَخْلَفِینَ فِیهِ ۖ فَالَّذِینَ آمَنُوا مِنکمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ کبِیرٌ﴿۷﴾ (ترجمه: به خدا و پیامبر او ایمان آورید، و از آنچه شما را در [استفاده از] آن، جانشین [دیگران] کرده، انفاق کنید. پس کسانی از شما که ایمان آورده و انفاق کرده باشند، پاداش بزرگی خواهند داشت.)[ سوره حدید–آیه۷]
- ↑ تفسیر نمونه، ج۲۳، ص۳۲۴.
- ↑ سوره توبه، آیه۶۰
- ↑ تفسیر نمونه، ج۸، ص۵.
- ↑ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکم بِالْمَنِّ وَالْأَذَیٰ کالَّذِی ینفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا یؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ کمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَکهُ صَلْدًا ۖ لَّا یقْدِرُونَ عَلَیٰ شَیءٍ مِّمَّا کسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا یهْدِی الْقَوْمَ الْکافِرِینَ﴿۲۶۴﴾ (ترجمہ: ای کسانی که ایمان آوردهاید، صدقههای خود را با منّت و آزار، باطل مکنید، مانند کسی که مالش را برای خودنمایی به مردم، انفاق میکند و به خدا و روز بازپسین ایمان ندارد. پس مَثَل او همچون مَثَل سنگ خارایی است که بر روی آن، خاکی [نشسته] است، و رگباری به آن رسیده و آن [سنگ] را سخت و صاف بر جای نهاده است. آنان [=ریاکاران] نیز از آنچه به دست آوردهاند، بهرهای نمیبرند؛ و خداوند، گروه کافران را هدایت نمیکند.)[ سوره بقره–آیه۲۶۴]
- ↑ طباطبایی، المیزان، ج ۲، ص ۶۰۱.
- ↑ بقره: ۲۷۱.
- ↑ طباطبائی، المیزان، ج ۲، ص ۶۱۰.
- ↑ جوادی آملی، مفاتیح الحیاة.
- ↑ داور پناه، انوار العرفان فی تفسیر القرآن،ج ۴، ص ۵۰۰.
- ↑ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج ۲، ص ۱۲۹.
- ↑ طیب، سید عبد الحسین، تفسیر اطیب البیان، ج ۱، ص ۲۳۰.
- ↑ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج ۶، ص ۲۵۷.
- ↑ و در جایی دیگر آمده است:«با دست خود صدقه دادن، انسان را از مرگ سوء حفظ میکند و هفتاد نوع از انواع بلایا را از انسان دور می کند».
- ↑ طباطبایی، المیزان، ج ۲، ص ۴۲۰ و ص ص ۴۳۳.
- ↑ طباطبایی، المیزان،ج ۲، ص ۴۲۰ و ۴۳۳.
- ↑ طباطبایی، المیزان،ج ۲، ص ۴۲۰ و ۴۳۳.
- ↑ طباطبایی، المیزان،ج ۲، ص ۴۲۰ و ص ص ۴۳۳
- ↑ جوادی آملی، مفاتیح الحیات، ص۵۵۲.
- ↑ جوادی آملی، مفاتیح الحیات، ص۵۵۶.
- ↑ جوادی آملی، مفاتیح الحیات، ص۵۵۶.
مآخذ
- جوادی آملی، عبد الله، مفاتیح الحیات، قم، مرکز بین المللی نشر اسراء، بهار ۱۳۹۱ش.
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت علیهم السلام، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ
- داور پناه، ابوالفضل، انوار العرفان فی تفسیر القرآن، تهران، انتشارات صدر، ۱۳۷۵ش.
- راغب اصفهانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بیروت، دار القلم، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ
- صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ (۲ جلد)، قم، جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ۱۳۶۳ش.
- صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ
- طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان، قم، مرکز نشر و توزیع کتاب.
- طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان، ترجمہ موسوی همدانی، جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۷۴ش.
- طیب، سید عبد الحسین، تفسیر اطیب البیان، انتشارات اسلام، تهران، ۱۳۷۸ش.
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تهران، المطبعة العلمیة، چاپ اول، ۱۳۸۰ھ
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چهارم، ۱۴۰۷ھ
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ (تفسیر و بررسی تازهای درباره قرآن مجید) (۲۷ جلد)، تهران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۰ش.