رد مظالم

ویکی شیعہ سے

رَدِّ مَظالِم انسان کے ذمے موجود دوسروں کے ناحق اموال کے ادا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ احادیث کے مطابق توبہ قبول ہونے کی شرائط میں سے ایک رد مظالم ہے۔ شیعہ فقہاء کے مطابق رد مظالم واجب ہے۔

رد مظالم میں مجہول‌ المالک اموال کو مرجع‌ تقلید کی اجازت سے محتاجوں اور فقیروں کو صدقہ دے سکتے ہیں۔ فقہی کتابوں میں خمس، امر بہ معروف، میّت کے احکام، وصیت اور غصب کے ابواب میں رد مظالم سے متعلق بحث کی گئی ہے۔

تعریف‌

ردّ مظالم سے مراد انسان کے ذمے موجود دوسروں کے اموال اور قرضوں کو ادا کرنا ہے؛[1] لیکن ان اموال کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں:

اسداللہ شوشتری (تیرہویں صدی ہجری) لکھتے ہیں:‌ مَظالِم مَظلِمَہ کا جمع ہے جس سے مراد دوسروں کے وہ اموال اور حقوق ہیں جو انسان کے ذمے باقی ہیں؛ مثلا وہ اموال جو غصب یا چوری کے ذریعے انسان کے پاس موجود ہو۔[2] آیت اللہ مکارم شیرازی ان حرام اموال کو مظالم قرار دیتے ہیں جو انسان کے پاس موجود ہو لیکن ان کے مالک کو نہ پہنچانتے ہو۔[3]

آقا محمد علی کرمانشاہی فرزند وحید بہبہانی کے مطابق مظالم ان اموال اور حقوق کو کہا جاتا ہے جو انسان کے اموال سے مخلوط ہو گئے ہوں لیکن نہ ان کی مقدار معلوم ہو اور نہ ان کا مالک۔[4] آیت اللہ سیستانی مظالم ان اموال کو قرار دیتے ہیں جنہیں انسان نے ظلم کے ساتھ دوسروں سے لیا ہو یا ا­نہیں ضایح کیا ہو؛ چاہے ان کا مالک معلوم ہو یا معلوم نہ ہو۔[5]

آیت اللہ صافی گلپایگانی مظالم کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ مظالم ان اموال کو کہا جاتا ہے جن کی مقدار تو معلوم ہے لیکن ان کا مالک مشخص نہ ہو۔[6]

فقہ اور احادیث میں اس کی اہمیت

شیعہ احادیث میں ردّ مظالم کو توبہ کی قبولیت میں شرائط قرار دیتے ہوئے[7] اسے ترک کرنے کو گناہان کبیرہ اور موجب نزول بلا جانا جاتا ہے۔[8] حدیثی منابع میں امر بہ معروف[9] اور فقہی کتابوں میں احکام طہارت (احکام میت[10] خمس،[11] غصب، وصیت[12] اور امر بہ معروف[13] کے ابواب میں رد مظالم سے بحث کی گئی ہے۔

حکم شرعی

شیعہ فقہاء ردّ مظالم کو خمس اور زکات کی طرح واجب مانتے ہیں۔[14] بعض فقہاء مانند آیت اللہ فیاض اسے واجب فوری قرار دیتے ہیں؛[15] لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر موت کی نشانیاں دیکھے تو اس وقت اسے فورا ادا کرنا واجب ہے۔[16]

طریقہ

مراجع تقلید کے فتوا کے مطابق اگر انسان کے ذمے دوسروں کا مال ہو چاہے وہ مجہول ‌المالک ہو یا ان کے مالک تک رسائل ممکن نہ ہو، انہیں یا ان کی قیمت (اس صورت میں کہ جب عین مال تلف ہوئی ہو) کو حاکم شرع یا مرجع تقلید کی احازت سے فقیروں کو صدقہ دے دیں۔[17] بعض فقہاء من جملہ آیت اللہ صافی گلپایگانی رد مظالم کو صرف غیر سید کو دینا چاہئے۔[18]

مذکورہ مال کو صدقہ دینے کے بعد اگر اس کے مالک کا پتہ چل جائے یا اس تک رسائل ممکن ہو جائے تو اس صورت میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پابا جاتا ہے۔ امام خمینی کے فتوے کے مطابق احتیاط واجب کی بنا پر اس مال کے برابر اس کے مالک کو بھی دینا واجب ہے؛ لیکن بعض دوسرے فقہاء من جملہ آیت‌ اللہ خویی کے مطابق صدقہ دینے کے بعد دوبارہ اس کے مالک کو بھی دینا واجب نہیں ہے۔[19]

مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق رد مظالم میں اگر مال کی مقدار معلوم نہ ہو تو اس کے مالک کے ساتھ صلح کرنا چاہئے؛[20] یعنی ایک دوسرے کو راضی کریں؛[21] لیکن اگر صاحب مال راضی نہ ہو جائے تو اس صورت میں صرف اس مقدار کو دینا کافی ہے جس کے بارے میں انسان کو یقین ہو۔[22] البتہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس مقدار سے کچھ اضافہ بھی دے دیا جائے۔[23]

مونوگرافی

آقا محمد علی کرمانشاہی نے "رد مظالم کے مصرف" کے عنوان سے فارسی میں ایک کتاب لکھی ہیں۔

حوالہ جات

  1. کرمانشاہی، مقامع‌ الفضل، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۱۰۵۔
  2. تستری کاظمی، مقباس‌ الانوار، مؤسسہ آل البیت، ص۲۶۴۔
  3. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۵۶۱۔
  4. کرمانشاہی، مقامع‌ الفضل، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۱۰۵۔
  5. "سوال و جواب" مرجع تقلید شیعیان جہان، آیت اللہ سیستانی کا آفیشل ویب سائٹ، تاریخ ویزٹ: 7 اسفند 1395 ش.
  6. صافی گلپایگانی، جامع‌الاحکام، ۱۴۱۷، ج۱، ص۱۶۱۔
  7. حر عاملی، وسایل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۶، ص۵۲؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۱، ص۱۱۳۔
  8. ابو حنیفہ مغربی، دعائم ‌الاسلام، ۱۳۸۵ق، ص۲۷۰۔
  9. رجوع کریں: طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۱۸۱۔
  10. سید بن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۶۴۔
  11. شیخ انصاری، کتاب الخمس، ۱۴۱۵ق، ص۲۶۸؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، دار العلم، ج۱، ص۳۶۳۔
  12. عاملی، مفتاح الكرامۃ، ۱۴۱۹ق، ج۲۳، ص۲۹۰۔
  13. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، ۱۴۱۳ق، ج۴ ص۴۶۱۔
  14. برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ انصاری، صیغ‌ العقود و الایقاعات، ۱۴۲۱ق، ص۱۴۱؛ امام خمینی، توضیح‌ المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۵۷۸؛ بہجت، رسالہ توضیح‌ المسائل، ۱۴۲۸ق، ص۴۳۶۔
  15. فیاض، رسالہ توضیح‌ المسائل، ۱۴۲۶ق، ص۱۱۹۔
  16. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۶۷۶۔
  17. رجوع کریں: امام خمینی، تحریر الوسیلہ، دار العلم، ج۱، ص۳۶۳؛ صافی گلپایگانی، جامع‌ الاحکام، ۱۴۱۷، ج۱، ص۱۶۱؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۵۶۱۔
  18. صافی گلپایگانی، جامع ‌الاحکام، ۱۴۱۷، ج۱، ص۱۶۱۔
  19. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح ‌المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۹-۵۰۔
  20. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، دار العلم، ج۱، ص۳۶۳۔
  21. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۸۔
  22. بنی ‌ہاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۸۔
  23. بنی‌ ہاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل مراجع، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۴۸۔

مآخذ

  • ابو حنیفہ مغربی، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، ۱۳۸۵ق۔
  • امام خمینی، سید روح ‌اللہ، تحریر الوسیلہ، مؤسسہ مطبوعات دار العلم، قم، بی‌تا۔
  • امام خمینی، سید روح ‌اللہ، توضیح‌ المسائل، تصحیح مسلم قلی‌ پور گیلانی، چاپ اول، ۱۴۲۶ق۔
  • بنی‌ ہاشمی خمینی، سید محمد حسن، توضیح‌ المسائل مراجع، مطابق با فتاوای سیزدہ نفر از مراجع معظم تقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۴۲۴ش۔
  • بہجت، محمد تقی، رسالہ توضیح‌ المسائل، قم، شفق، چاپ نود و دوم، ۱۴۲۸ق۔
  • تستری کاظمی، اسد اللہ، مقباس الانوار و نفائس الاسرار فی احکام النبی المختار و عترتہ الاخیار، مؤسسہ آل البیت، قم۔
  • دفتر آیت‌ اللہ سیستانی؛ پرسش و پاسخ » رد مظالم، دسترسی، ۷ اسفند ۱۳۹۵ش
  • سید بن طاووس، رضی الدین، فلاح ‌السائل و نجاح المسائل، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۴۰۶ق۔
  • شیخ انصاری، مرتضی بن محمد امین، صیغ‌العقود و الایقاعات، قم، مجمع اندیشہ اسلامی، چاپ اول، ۱۴۲۱ق۔
  • شیخ انصاری، مرتضی بن محمد امین، کتاب الخمس، کنگرہ بزرگذاشت شیخ انصاری، قم، ۱۴۱۵ق۔
  • صافی گلپایگانی، لطف ‌اللہ، جامع‌ الاحکام، قم، انتشارات حضرت معصومہ، چاپ چہارم، ۱۴۱۷ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ق۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین، حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۴۱۳ق۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق۔
  • عاملی، سیدجواد بن محمد حسینی، مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ، تصحیح محمد باقر خالصی، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۹ق۔
  • فیاض کابلی، محمد اسحاق، رسالہ توضیح ‌المسائل، قم، انتشارات مجلسی، چاپ اول، ۱۴۲۶ق۔
  • کرمانشاہی، محمد علی، مقامع ‌الفضل، قم، مؤسسہ علامہ مجدد وحید بہبہانی، چاپ اول، ۱۴۲۱ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، تحقیق و تصحیح ابو القاسم علیان ‌نژادی، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی ‌طالب، چاپ دوم، ۱۴۲۷ق۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی علی آخوندی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق۔