کرامت

ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


کرامت ایسے شخص کے غیر معمولی کام کو کہا جاتا ہے جو نبوت کا دعوے دار نہ ہو۔ کرامت نہ کسی سے سیکھی جاسکتی ہے اور نہ کسی کو سکھائی جاسکتی ہے اور یہ کسی مافوق طاقت کے ماتحت نہیں ہوتی ہے۔

اصل کرامت پر شیعہ، وہابی اور اشاعرہ ایمان رکھتے ہیں جبکہ معتزلہ اور دوسرے فرقے اس کو قبول نہیں کرتے۔ جو اس کے حق میں ہیں وہ قرآن کریم کی بعض آیتوں جیسے: آصف بن برخیا کے ذریعے ملکہ سبا بلقیس کے تخت کے لانے کی آیت اور عقلی اور نقلی دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس کی مخالفت کرنے والوں نے بھی اپنے دلائل پیش کئے ہیں جیسے ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ معجزہ نبوت پر دلالت نہیں کرتا۔

کرامت میں معجزہ کے برعکس نبوت اور اس جیسا کام انجام دینے کا چیلیج نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسرے غیر طبیعی کام جیسے جادو اور ریاضت کشی کی طرح محدود نہیں ہے اور اسے سیکھا اور سکھایا نہیں جا سکتا ہے۔

بہت سے مآخذ میں ائمہ اور اولیائے الہٰی کی کرامات کو ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سید ہاشم بحرانی کی کتاب مدینہ المعاجز الآئمۃ الاثنی عشر ؑ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔

مفہوم کرامت

کرامت کا مطلب کسی غیر معمولی کام کا ایسے شخص کے ذریعے انجام پانا ہے جو نبوت کا دعوی کا دعویدار نہ ہو۔[1] کرامت کا مصدر کرم ہے اور اس کا لغوی معنی بزرگواری، بزرگواری کا اظہار اور سخاوت ہے۔[2] کرامت صرف خدا کے مخصوص بندوں کے لئے ہے۔[3] لیکن نبوت کے دعوے یا چیلنج یا حق کےاثبات کے ہمراہ نہیں ہے۔[4] علامہ طباطبائی کے مطابق کرامت ایسا کام ہے جو خدا کے تقرب اور روح کی لطافت اور باطن کی پاکیزگی سے انسان سے انجام پاتی ہے لیکن حق کو ثابت کانے کے لیے نہیں۔ اگر چہ ممکن ہے اتفاقی طور پر اس سے حق ثابت ہو۔[5] اس لحاظ سے جتنے بھی غیر معمولی کام انبیا، ائمہ اور اولیائے الہٰی خدا کے حکم سے انجام دیتے ہیں اور اس کے ساتھ نبوت کا دعویٰ نہیں کرتے وہ کرامت کہلائے گا۔[6] کرامات کی خصوصیات ذیل میں ہیں:

  • خدا کے حکم سے انجام پاتی ہے۔[7]
  • اسے نہ سیکھا جا سکتا ہے اور نہ سکھایا جا سکتا ہے۔
  • کسی مافوق طاقت کے زیر اثر نہیں آتی اور کسی چیز سے مغلوب نہیں ہوتی۔[8]

کہا جاتا ہے کہ کرامت کی نسبت خدا کی طرف دی جا سکتی ہے کیونکہ اس طرح کے کام کا انجام پانا خدا کے خاص حکم سے ہی ممکن ہے۔ اسی طرح اس کی نسبت فرشتوں کی طرف، ذریعہ بننے کی وجہ سے یا اولیائے الہی کی طرف، انجام دینے والے کی وجہ سے دی جاتی ہے۔[9]

کرامت اور دوسرے غیر معمولی کاموں میں فرق

کرامت اورمعجزے فرق

بعض افراد کی نظر میں معجزہ اور کرامت قدر مشترک رکھتے ہیں۔[10] یعنی ایک جیسے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں جیسے:

  • دعوائے نبوت چیلنج کے ساتھ

معجزے میں دعوائے نبوت کے ساتھ چیلنج بھی ہوتا ہے جبکہ کرامت میں ایسا نہیں ہوتا۔[11] اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ جب کسی خارق العادہ کام میں نبوت کا دعوی بھی ہو تو وہ معجزہ ہے۔ لیکن جب کسی ولی کے ارادہ اور تذکیہ نفس کے ذریعے انجام پائے تو کرامت کہلائے گا۔[12] بعض افراد کے مطابق معجزہ اور کرامت میں فرق صرف نبوت کا ہے۔[13] جبکہ بعض کے نزدیک معجزہ کا دائرہ عام ہے اور وہ ہر اس چیز اور دلیل کو معجزہ مانتے ہیں کو مقام نبوت اور امامت کو ثابت کرے۔ اس لحاظ سے معجزے میں امامت کا دعوی بھی ہو سکتا ہے جبکہ کرامت میں کوئی دعوی ٰ ضروی نہیں بلکہ یہ خدا وند عالم کا اپنے خاص بندوں پر لطف و عنایت ہے۔[14]

  • ظاہر کرنا

پیغمبر معجزہ ظاہر کرنے پر مامور ہوتے ہیں جبکہ اولیائے الہی کو کرامت ظاہر کرنے کی ذمہ داری نہیں دی گئی اور یہ کام ان پر واجب نہیں ہے۔[15] کہا جاتا ہے کہ معجزہ انسان کی طاقت سے باہر ہے لیکن کرامت انسان کی توانائی سے باہر نہیں ہے چاہے وہ غیر معمولی اور عجیب ہی کیوں نہ ہو۔[16]

کرامت، جادو اور ریاضت کشوں کے کاموں میں فرق

کرامت جادو اور ریاضت کشوں کے چمکتار سے مختلف ہے۔ جادو اور ریاضت کش کے کام کرامت کے برعکس محدود ہیں اور جادو گر اور اہل ریاضت صرف کچھ خاص کام ہی انجام دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جادو اور ریاضت کشی کا کام کرامت کے بر خلاف سیکھا اور سکھایا جا سکتا ہے۔ [17] ہر کرامت غیر معمولی ہے لیکن ہر غیر معمولی کام کرامت نہیں ہے۔ کرامت کے لئے شرط ہے کہ وہ صرف صالح افراد کے ذریعے اچھی نیت اور خیر کے لیے انجام پائے نہ کہ صرف جستجو کی غرض سے اور بلا مقصد انجام پائے۔ [18] جادو میں عام طور سے نظر بندی کی جاتی ہے، یا انسانی نظر کی سرعت سے بہت تیز کوئی کام انجام دیا جاتا ہے، یا ابہام اور تخیل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اگر بعض چیزوں میں اس کا سرچشمہ طبیعی بھی ہو پھر بھی ان کا مقصد شر ہوتا ہے جو کہ جہالت اور خرافات پر مشتمل ہوتا ہے۔[19]

اولیائے الہی کی کرامات

بعض مشہور کرامت ذیل میں درج ہیں سچے خواب (وہ خواب جو سچ ثابت ہوتے ہیں )، فکر پر تسلط (سوچ کا پڑھنا، دوسروں کے باطن سے با خبر ہون)، پانی پر چلنا، آگ پر چلنا اور نہ جلنا، طی الارض۔ [20] غیر معمولی کاموں کا ظہور جیسے معجزہ اور کرامت ولایت تكوینی کے آثار میں سمجھے جاتے ہیں۔[21] ائمہ ؑ کی کرامات میں سے ایک مثال: ابو نصیر سے نقل ہوا ہے کہ امام باقر ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا: کیا آپ مردے کو زندہ کر سکتے ہیں؟ پیدائشی اندھے، جذام کے مرض میں مبتلا شخص کو شفایاب کر سکتے ہیں؟ آپ نے جواب فرمایا: خدا کے حکم سے کر سکتا ہوں۔ پھر آپ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے اور آنکھوں پر پھیرا کیونکہ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا، اور میں نے سورج، آسمان زمین، گھر اور وہاں موجود سب چیزوں کو دیکھا۔[22]

نظریات

اصل کرامت کا وقوع اور اس کی تصدیق ان مسلمہ اصولوں میں سے ہیں جنہیں شیعہ[23] اشاعرہ[24] اور وہابی[25] تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ معتزلہ، خوارج اور بعض اشاعرہ اس کے جواز کے منکر ہیں۔[26]

فخر رازی نے کرامات کو جائز دینے پر اشاعرہ کے علما کا اجماع اور اس کے جائز ہونے پر قرآنی، روائی اور عقلی دلائل اور بہت سی مثالوں کو بھی ذکر کیا ہے۔[27]

جو لوگ کرامت کے قائل ہیں اور اس کو جائز قرار دیتے ہیں اور قرآنی ایات کا حوالہ دیتے ہیں۔[28] ایسی آیات جن میں کرامات کو غیر انبیا سے نسبت دی گئی ہے۔ جیسے بلقیس کے تخت کو آصف برخیا کے ذریعے سے لایا جانا[29]، حضرت مریم کے لیے آسمان سے رزق و طعام کا انتظام[30]، اور اصحاب کہف کا قصہ۔[31]۔

اسی طرح اس کے مخالفین بھی غیر انبیا سے اس کے جائز نہ ہونے کے دلائل پیز کئے ہیں جیسے پیغمبر اور غیر پیغمبر کے فرق کا واضح ہونا اور معجزہ کا نبوت کی دلیل نہ ہونا۔[32]

مسلمان فلاسفہ بھی کرامت کو اولیائے الہی سے انجام پانے، معجزے اور کرامت کے واقع ہونے اور مجموعی طور غیر معمولی کاموں کو انسان نفس کی قدرت اور کمال کی بنیاد پر (عقلی قوت پر کمال، تخیلی قوت پر کمال اور حسی قوت پر کمال) صحیح سمجھتے اور اس کی وضاحت کرتے ہیں۔[33]

کتاب شناسی

ائمہ اور اولیا الہی کی کرامات کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت نے بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں۔ اہل سنت نے اولیائے کی کرامات کے بارے میں جو کتابیں لکھی ہیں ان میں سبکی کی کتاب (طبقات الشافعیہ الکبری) [34] «، شبلنجی کی کتاب (نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار) [35] اور ابن صباغ مالکی کی (الفصول المهمۃ فی معرفة الائمۃ) [36] کے نام لئے جا سکتے ہیں۔

شیعوں کے بعض اہم آثار جن میں ائمہ کی کرامت کو جمع کیا گیا ہے درج ذیل ہیں:

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. جرجانی، التعریفات، ناصر خسرو، ص۷۹؛ سجادی،‌ فرہنگ معارف اسلامی، ۱۳۶۳ش، ج۴، ص۱۵۔
  2. دہخدا،‌ لغت نامہ، ج۱۲، واژه کرامت؛ قرشی، قاموس قرآن، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۱۰۳۔
  3. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۲۲۱۔
  4. احمدی، تناقض نما یا غیب نمون؛ نگرشی نو بہ معجزه، ۱۳۸۹ش، ص۳۵۵۔
  5. علامہ طباطبائی، اعجاز قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۱۱۶۔
  6. مصباح یزدی، راه و راہنما شناسی، ۱۳۹۷ش، ص۱۷۸؛ جرجانی، التعریفات، ناصر خسرو، ص۷۹۔
  7. مصباح یزدی، راه و راہنما شناسی، ۱۳۹۷ش، ص۱۷۸۔
  8. مصباح یزدی، آموزش عقائد، ۱۳۸۴ش، ص۲۲۱۔
  9. مصباح یزدی، آموزش عقاید، ۱۳۸۴ش، ص۲۲۲۔
  10. قدردان قراملکی، معجزه در قلمرو عقل و دین، ۱۳۸۱ش، ص۷۶۔
  11. قدردان قراملکی، معجزه در قلمرو عقل و دین، ۱۳۸۱ش، ص۷۶۔
  12. جوادی آملی، تبیین براہین اثبات خدا، ۱۳۷۸ش، ص۲۵۱۔
  13. مصباح یزدی، راه و راہنما شناسی، ۱۳۹۷ش، ص۱۷۸؛ جرجانی، التعریفات، ناصر خسرو، ص۷۹۔
  14. سعیدی روشن، معجزه‌شناسی، ۱۳۷۹ش، ص۲۶۔
  15. سید عرب،‌ «کرامت»، ص۶۰۵۔
  16. سیدعرب،‌ «کرامت»، ص۶۰۵۔
  17. مصباح یزدی، راه و راہنما شناسی، ۱۳۹۷ش، ص۱۷۹۔
  18. سیدعرب،‌ «کرامت»، ص۶۰۸۔
  19. سیدعرب،‌ «کرامت»، ص۶۰۹۔
  20. سید عرب،‌ «کرامت»، ص۶۰۷۔
  21. جوادی آملی، شمیم نور، ۱۳۸۳ش، ص۸۹۔
  22. کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۵۲۳و۵۲۴، ح۳؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۲۶۲، ح۱۔
  23. رجوع کیجئے:‌ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۹؛ قدردان قراملکی، معجزه در قلمرو عقل و دین، ۱۳۸۱ش، ص۷۶؛ سید عرب،‌ «کرامت»، ص۶۰۷۔
  24. ملاحظہ کریں: هیتمی، الفتاوی الحدیثیۃ، دار الفکر، ص۷۸؛ سبکی، طبقات الشافعیہ الکبری، ۱۳۸۳ق-۱۹۶۴م، ج۲، ص۳۱۵و۳۳۴؛ فخر رازی، تفسیر کبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۱،‌ ص۴۳۱۔
  25. ابن تیمیة، مجموع الفتاوی، ۱۴۱۶ق-۱۹۹۵م، ج۳، ص۱۵۶۔
  26. قدردان قراملکی، معجزه در قلمرو عقل و دین، ۱۳۸۱ش، ص۷۶ و ۷۷۔
  27. فخر رازی، تفسیر کبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۱،‌ ص۴۳۱-۴۳۷۔
  28. ملاحظہ کریں:‌ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۹؛ فخر رازی، تفسیر کبیر،‌۱۴۲۰ق، ج۲۱، ص۴۳۱؛ قدردان قراملکی، معجزه در قلمرو عقل و دین، ۱۳۸۱ش،، ص۷۷۔
  29. سوره نحل، آیہ ۴۰۔
  30. سوره آل عمران، آیہ ۳۷۔
  31. سوره کهف، آیات ۹-۱۲۔
  32. قاضی عبدالجبار، المغنی، ۱۹۶۵- ۱۹۶۲م، ج۱۵، ص۲۱۷ و ۲۱۸؛ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۵۹-۱۶۳۔
  33. نگاه کنید بہ: احمدی، تناقض نما یا غیب نمون؛ نگرشی نو بہ معجزه، ۱۳۸۹ش، ص۸۸-۹۲۔
  34. بطور مثال رجوع کیجئے: سبکی، طبقات الشافعیہ الکبری، ۱۳۸۳ق-۱۹۶۴م، ج۲، ص۳۲۸و۳۲۹۔
  35. بطور مثال رجوع کیجئے:‌ شبلنجی، نور الأبصار، دار القلم، ص۲۹۱و۲۹۲، ۲۹۵-۲۹۷، ۳۰۲-۳۰۵، ۳۲۱-۳۲۳، ۳۲۸-۳۳۰۔
  36. بطور مثال رجوع کیجئے:‌ ابن ­صباغ، الفصول المهمۃ، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۸۲۱، ۱۰۴۸و۱۰۴۹۔
  37. بحرانی، مدینۃ المعاجز الائمہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۰، مقدمہ کتاب۔

مآخذ

  • ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاوی، تحقیق عبدالرحمن بن محمد بن قاسم، مدینہ، مجمع الملک فہد، ۱۴۱۶ھ-۱۹۹۵ء۔
  • ابن صباغ، علی بن محمد، الفصول المهمۃ فی معرفۃ الائمۃ، تحقیق سامی الغریری، قم، دارالحدیث، چاپ اول، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • احمدی، محمد امین، تناقض نما یا غیب نمون: نگرشی نو بہ معجزہ، قم، پژوہشگاه علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
  • جرجانی، علی بن محمد، التعریفات، تہران، ناصر خسرو، بی‌تا۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، تبیین براہین اثبات خدا، تنظیم و ویرایش حمید پارسا نیا، قم، نشر اسرا، چاپ سوم، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، شمیم ولایت (در آثار آیت اللہ جوادی آملی، تنظیم و تدوین سید محمود صادقی، چاپ دوم، قم، اسراء، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، دانشگاه تہران، چاپ دوم، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • سبکی شافعی، عبدالوہاب بن علی، طبقات الشافعیۃ الکبری، تحقیق محمود محمد الطناحی و عبدالفتاح محمد الحلو، قاہره، دارإحیاء الکتب العربیۃ، ۱۳۸۳ھ-۱۹۶۴م۔
  • سجادی،‌ سید جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، شرکت مؤلفان و مترجمان ایران، جاپ اول، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • سعیدی روشن، محمد باقر، معجزه شناسی، تہران، مؤسسہ فرہنگی دانش و اندیشہ معاصر، چاپ اول، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • سید عرب، حسن، «کرامت» در دایرة المعارف تشیع، ج۱۳، تہران، انتشارات حکمت، چاپ دوم، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  • شبلنجی شافعی، مؤمن بن حسن، نور الأبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار(ص)، دارالقلم-دارالشامیة، بی‌تا۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّدص)، قم، مکتبة آیة الله المرعشی النجفی، چاپ دوم ۱۴۰۴ق۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، اعجاز قرآن، تهران،‌ مرکز نشر فرهنگی رجاء، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔
  • علامه حلی و جعفر سبحانی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد قسم الاهیات، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، تفسیر کبیر‌ (مفاتیح الغیب)،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم،‌ ۱۴۲۰ھ۔
  • قاضی عبدالجبار، المغنی فی ابواب التوحید و العدل، قاہره، الدار المصریہ، ۱۹۶۵- ۱۹۶۲ء۔
  • قدردان قراملکی، محمد حسن، معجزه در قلمرو عقل و دین، قم، بوستان کتاب، چاپ اول، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • قرشی بنایی، علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ ششم، ۱۴۱۲ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دارالحدیث، چاپ اول، ۱۴۲۹ھ۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقاید، تہران، نشر بین الملل، چاپ هفدهم، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، راه و راہنما شناسی، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(ره)، چاپ سوم، ۱۳۹۷ہجری شمسی۔
  • ہیتمی، أحمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیۃ، بیروت، دارالفکر، بی­ تا۔