سحر

ویکی شیعہ سے
(جادو گری سے رجوع مکرر)

سِحر یا جادو اس خارق‌ العادہ کام کو کہا جاتا ہے جو کسی شخص یا چیز میں تصرف کے عنوان سے انجام دیا جاتا ہے۔ شیعہ فقہاء جادو کرنے، سیکھنے، سکھانے اور اس کے ذریعے کسب معاش کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔ علمائے علم اخلاق بھی اسے گناہ کبیرہ میں شمار کرتے ہیں۔ شیعہ ائمہؑ سے منقول احادیث میں سِحر یا جادو کو کفر کا مترادف قرار دیتے ہوئے اس سے ممانعت کی گئی ہے۔

مفسرین کے مطابق قرآن میں جادو کی دو قسم کا ذکر آیا ہے: جادو کی بعض اقسام تخیلاتی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے؛ لیکن اس کی بعض قسموں کے خارج میں اثرات دیکھے جا سکتے ہیں جیسے میاں بیوی میں جدائی وغیرہ۔

مسلمان علماء سحر اور معجزہ میں فرق کے قائل ہیں: معجزہ نبوت کا ادعا کے ساتھ ہوتا ہے اور معجزہ چونکہ خدا کے ارادہ اور قدرت سے محقق ہوتا ہے، لھذا کسی پیشگی تمرین یا ریاضت کی ضرورت نہیں ہوتی؛ جبکہ سحر اور جادو میں نبوت کا دعوا نہیں کر سکتا اور دوسری طرف سے ساحر صرف وہی امور انجام دے سکتا ہے جس کی اس نے پیشگی تمرین اور ریاضت کی ہو۔

بعض فقہاء سحر کو باطل کرنے یا نبوّت کے جھوٹے دعویدار کو رسوا کرنے کے لئے جادو سیکھنا جائز بلکہ واجب کفایی سمجھتے ہیں۔ سحر کو قرآنی آیات اور دعا کے ذریعے باطل کیا جا سکتا ہے۔ سحر کو سحر کے ذریعے سے بھی باطل کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

فقہاء کے مطاق ساحر اگر کافر ہو تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی؛ لیکن اگر مسلمان ہو اور سحر کو حلال سمجھ کر انجام دیا ہو تو اس پر ارتداد کے احکام لاگو ہونگے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو سحر کے ذریعے قتل کر دیا جائے تو بعض فقہاء کے مطابق مقتول کا قصاص اور دیہ اس کی سزا ہو گی، لیکن بعض فقہاء نے اس حکم کی مخالفت کی ہیں۔

سِحر کا مقام

سحر یا جادو کی یوں تعریف کی گئی ہے: «اشخاص یا اشیاء میں تصرف کی خاطر مختلف افسانوں اور طلسم کے ذریعے فطری اور ما فوق فطری طاقتوں کو تسخیر کرنا۔»[1]

قرآن[2] اور احادیث[3] میں سحر اور جادو کا تذکرہ ملتا ہے۔ مفسرین[4] اور محدثین[5] نے بھی سحر سے مربوط آیات اور روایات کے ذیل میں اس سے بحث کی ہیں۔ اسی طرح فقہ میں بھی سحر کے جائز ہونے اور نہ ہونے،[6] ساحر کی سزا اور مجازات[7] اور اس سے متعلق دوسرے امور[8] کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

تاریخی پس منظر

تفسیر نمونہ کے مطابق یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ سحر کس زمانے سے شروع ہوا، البتہ صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ بہت پرانے زمانے سے یہ چیز لوگوں کے یہاں رائج تھی۔[9] امام حسن عسکریؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ سحر اور جادو حضرت نوح کے زمانے میں کثرت سے پائے جاتے تھے۔[10]

معجزہ اور سحر میں فرق

تاریخ بشریت میں انبیاء خاص کر پیغمبر اسلامؐ کی طرف نسبت دی جانے والی بے بنیاد چیزوں میں سے ایک جادوگری ہے؛[11]لیکن مسلمان علماء اس بات سے انکار کرتے ہوئے معجزہ اور سحر میں تفاوت‌ کے قائل ہیں جو درج ذیل ہیں:

  • سحر اور معجزہ دو‌نوں کے اثرات خارج میں پائے جاتے ہیں؛ لیکن معجزہ حق ہے اور سحر باطل ہے۔ معجزہ اصلاح اور تربیت کی خاطر انجام دیا جاتا ہے؛ لیکن سحر بے مقصد یا سطحی اور کم وقعت اہداف کی خاطر انجام دیا جاتا ہے۔[12]
  • سحر بشری امور پر موقوف ہے۔ اسی بنا پر ساحر صرف وہی امور انجام دے سکتا ہے جس کا اس نے تمرین اور ریاضت کی ہو؛ لیکن معجزہ الہی امور پر موقوف ہوتا ہے اس بنا پر انبیاء ان کاموں کو انجام دیتے ہیں جس کی لوگ فرمائش کرتے ہیں۔[13]
  • معجزہ‌‌ نبوت کے دعوے کے ساتھ ہوتا ہے؛ لیکن ساحر نبوّت کا دعوا نہیں کر سکتا؛ کیونکہ حکمت الہی اس چیز میں مانع بنتی ہے تاکہ اگر کوئی نبوت کا جھوٹا دعوا کرے تو اسے ذلیل اور رسوا کیا جا سکے۔[14]

قرآن میں سحر کا تذکرہ

تفسیر نمونہ کے مصنفین نے قرآن میں استعمال ہونے والے سحر کے 51 موارد کی چھان بین کے بعد اسے دو حصوں میں تقسیم کی ہیں:

  1. سِحری کی ایک قسم دھوکہ بازی اور نظر بندی ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے؛ جیسے سورہ طہ آیت نمبر 66 [یادداشت 1] اور سورہ اعراف آیت نمبر 116 [یادداشت 2]
  2. سحری کی دوسری قسم حقیقت پر مبنی ہے اور اس کا خارج میں اثر بھی مترتب ہوتا ہے؛ جیسے سورہ بقرہ آیت نمبر 102 جس میں سحر کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائی اور طلاق کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[15]

مفسرین نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 102 کی تفسیر میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں کی داستان نقل کی ہیں جو انسانوں کی شکل میں حضرت سلیمان کے دور میں بنی‌ اسرائیل کے پاس آئے اور ان میں سحر کے رائج ہونے کی بنا پر پیدا ہونے والے مختلف فتنوں سے نجات اور سحر کو باطل کرنے کا طریقہ لوگوں کو سکھائے۔ اس آیت کے مطابق یہ دو فرشتے لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اسے صرف اور صرف جادو کو باطل کرنے کے لئے استعمال کریں اور یہ ان کے لئے آزمائش ہے لیکن انہوں نے سحر کا غلط استعمال کرتے ہوئے بعض غلط امور میں استعمال کئے۔[16]

سحر کے مقابلے میں ائمہ کا رد عمل

سحر کی مذمت

سَكونى نے امام صادقؑ سے اور امام صادقؑ نے امام باقرؑ سے روايت كی ہیں کہ رسول خداؐ نے ایک عورت سے فرمایا جس نے اپنے بداخلاق شوہر کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے سحر سے مدد لی تھی: «افّ ہو تم پر۔ دریا کے پانی کو تم نے کالا کیا اور آسمان اور زمین کے فرشتے تم پر لعنت کرتے ہیں۔»

شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1367ہجری شمسی، ج5، ص95

کلینی نے امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کی ہیں جس میں امام نے اس شخص سے جس نے اپنی پوری زندگی سحر کے ساتھ گزاری ہے اب وہ پشیمان ہو کر اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے طریقہ کار کا تقاضا کر رہا تھا، سحر کو باطل کرنے کے لئے اس علم سے استفادرہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔[17] علامہ مجلسی اس روایت سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ سحر کو باطل کرنے کے لئے خود سحر کو سیکھنا جائز ہے۔[18]

امام علیؑ سے بھی ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں سحر سیکھنے کو کفر کی طرح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سحر میں مشغول ہو اور اس سے توبہ نہ کرے تو اس پر حدّ جاری ہو گا اور اس کا حد قتل کر دینا ہے۔[19] ابن‌ادریس حلّی نے بھی امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کی ہیں جس کے مطابق ایک شخص آپؑ کے پاس آیا اور ایک ایسے شخص کی طرف رجوع کرنے کے بارے میں حکم دریافت کیا جو چوری ہونے والے اموال کی جگہ کے بارے میں معلومات دیتا ہے۔ امام صادقؑ اس کے جواب میں رسول خداؐ سے ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ جو بھی کسی کاہن یا ساحر کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے تو گویا یہ شخص جو کچھ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ان سب کا منکر ہے۔[20]

سحر کو باطل کرنے کا طریقہ

علامہ مجلسی نے کتاب بحارالانوار میں «سحر اور نظر بد کو باطل کرنے کی دعا» کے عنوان سے بعض احادیث کو جمع‌ کئے ہیں۔[21] اسی طرح کتاب طب الائمہ میں بھی «سحر کو باطل کرنے کے تعویذات» کے عنوان سے بعض احادیث کو جمع کی گئی ہیں۔[22] مثال کے طور پر امام علیؑ نے اپنے بعض اصحاب کی درخواست پر ن کو بعض دعاؤں کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ سفارش کرتے ہیں کہ ان دعاؤں کو ہرن کے چمڑے پر لکھ کر اپنے ساتھ رکھیں۔[23] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو بھی سحر یا شیطان سے ڈرتا ہو اسے چاہئے کہ سورہ اعراف کی آیت نمبر 54 کی تلاوت کرے۔[24]

سحر کی ماہیت فقہی تعریف اور اس کے مصادیق

سحر اور جادو کے لئے لکھی گئی ایک تعویز کا نمونہ

سحر کی ماہیت اور اس کی تعریف کے بارے میں فقہاء مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ بعض اس کے وجود خارجی کے قائل ہیں جبکہ بعض اس کے وجود خارجی کے منکر ہیں اور ایک گروہ کہتے ہیں کہ اس کے واقعی اور خیالی ہونے کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے:

سحر کی ماہیت اور حقیقت

شیخ طوسی اور شہید ثانی سحر کے وجود خارجی کے قائل ہیں۔[25] آیت اللہ‌ خوئی کہتے ہیں کہ سحر کسی شخص کے حواس اور خیال میں تصرف ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔[26] شہید اوّل کے مطابق اکثر علما اسی نظریے کو قبول کرتے ہیں۔[27] محقق کرکی اس بات کے معتقد ہیں کہ سحر کے واقعی‌ یا خیالی ہونے کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔[28]

سحر کی تعریف اور اس کے مصادیق

ملا احمد نراقی کے مطابق فقہاء کے کلام میں سحر کی کوئی ایسی تعریف پیدا نہیں کر سکتے ہیں جو اس کے تمام پہلوں کو شامل کرتی ہو۔[29] وہ سحر کے مفہوم کا مرجع عرف کو قررا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عرف کی نگاہ میں سحر ایک خفیہ چیز ہے جو معمول کے مطابق رونما نہیں ہوتا۔[30] علامہ حلی سحر کو ایسی لکھائی، کلام، یا عمل قرار دیتے ہیں جو بالواسطہ کسی شخص کے بدن، دل یا عقل پر اثر کرتا ہے۔[31]سحر کسی شخص کے قتل یا بیماری، میاں بیوی میں جدائی، کسی شخص کے ساتھ محبت یا کینہ اور دشمنی پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔[32] امام خمینی نیز سحر کی یہی تعریف کرتے ہیں۔[33] شہید اول کسی گمشدہ چیز کو پیدا کرنے یا کسی بیماری کی علاج کے لئے اجنّہ، شیاطین اور فرشتوں کو احضار کرنا یا کسی شخص کے روح کے ساتھ رابطہ برقرار کر کے اس کے ساتھ گفتگو کرنا یا کسی چیز کے ناشناختہ خواص کو ظاہر کرنے کو سحر کے مصادیق میں شمار کرتے ہیں۔[34]

فخر المحقّقین اندرونی اور نفسانی طاقت یا اجرام آسمانی کی مدد یا آسمانی طاقت کو زمینی طاقت کے ساتھ ملانے یا بسیط ارواح سے مدد لینے کے ذریعے خارق العادہ امور کی انجام دہی کو سحر قرار دیتے ہیں۔[35] آیت‌ اللہ گلپایگانی اس بات کے معتقد ہیں کہ سحر ہر اس کام کو کہا جاتا ہے جو غیر مانوس اور غیر عادی آثار کا حامل ہو اور کرامات اور معجزات کے ساتھ شباہت رکھتا ہو؛ چاہے مسحور کے بدن میں کوئی اثر چھوڑے یا نہ چھوڑے؛ چاہے مسحور حیوان ہو یا انسان یا جماد؛ مثلا کسی محسوس عوامل یا شرعی امور جیسے آیات اور ائمہ معصومینؑ سے نقل ہونی والی دعاؤں سے مدد لئے بغیر کسی درخت کو ہلانا یا چھت اور دیوار میں لرزہ پیدا کرنا یا جاری پانی کو ٹھہرانا وغیرہ ۔[36] آیت اللہ خوئی کے مطابق تصفیہ نفس یا ریاضت کے ذریعے کسی خارق العادہ کام کو انجام دینا سحر شمار نہیں ہوگا۔[37]

سحر کے جائز ہونے اور نہ ہونے کا حکم

سحر اور جادو کے استعمال، اسے سیکھنے، سکھانے اور ذریعہ معاش قرار دینے کی حرمت پر شیعہ فقہاء کا اجماع ہے۔[38]اخلاقی کتابوں میں بھی سحر کو من جملہ کبیرہ گناہوں میں شمار کئے گئے ہیں۔[39] عبد الحسین دستغیب کے مطابق سحر کا گناہ کبیرہ میں سے ہونے پر احادیث میں تصریح کی گئی ہے۔ اس بارے میں امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں سحر کو کبیرہ گناہوں میں شمار کئے ہیں۔[40]

ان سب باتوں کے باوجود بعض شرائط کے ساتھ اس کا حکم متفاوت ہے۔ مثلاً فقہاء کا ایک گروہ دوسروں کے سحر کے مقابلے میں اپنی حفاظت کے لئے سحر کرنا جائز سمجھتے ہیں۔[41] صاحبْ‌ جواہر کہتے ہیں کہ سحر کو بوقت ضرورت استعمال کرنے کی نیت سے سکھنے میں بذات خود کوئی حرج نہیں ہے۔[42] شہید اول اور شہید ثانی بھی کہتے ہیں کہ نبوت کے کسی جھوٹے دعویدار کو ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے سحر سیکھنا واجب کفایی ہے۔[43] صاحبْ‌ جواہر کہتے ہیں کہ قرآن، دعا اور ذکر کے ذریعے سحر کو باطل کیا جا سکتا ہے۔[44]

ساحر کی سزا

شیعہ فقہاء کے مطابق اگر ساحر کافر ہو تو اس پر تعزیری سزا ہوگی؛[45] لیکن اگر مسلمان ہو اور سحر کو حلال سمجھ کر انجام دے تو وہ کافر اور مرتدّ شمار ہو گا اور اس پر مرتد کے احکام جاری ہونگے۔[46] لیکن اگر سحر کو حلال سمجھے بغیر انجام دے تو بعض فقہاء کے نزدیک اس پر سحر کی سزا یا یہاں بھی قتل کر دینا اس کی سزا ہوگی؛[47] لیکن بعض دوسرے فقہاء اس صورت میں اسے قتل کر دئے جانے کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں۔ [48]

سحر کے ذریعے قتل کرنے کا حکم

سحر کے ذریعے قتل کرنے والے شخص کی سزا کے بارے میں فقہاء مختلف نظریات کے حامل ہیں: شیخ طوسی کے مطابق اگر کوئی شخص سحر کی وجہ سے مارا گیا ہو تو اس کا قصاص اور دیہ نہیں ہے۔[49] لیکن محقق حلّی سحر کی حقیقت اور اس کے ذریعے قتل کا مرتکب ہونے کی صورت میں دیہ اور قصاص ہونے کے احتمال کو تقویت دیتے ہیں۔[50] علّامہ حلّی[51] اور شہید ثانی[52] قصاص کو ساحر کے اقرار کا تابع قرار دیتے ہیں: اگر ساحر اقرار کرے کہ اس نے قتل کرنے کی قصد سے سحر کیا تھا تو قصاص ہوگا۔[53] امام خمینی کے مطابق اگر قتل میں سحر کی مداخلت ثابت ہو جائے اور ساحر کا قصد بھی قتل کرنا ہی تھا تو قتل عمد شمار ہو گا لیکن اگر بغیر قصد کے رونما ہوا ہو تو قتلِ شبہ‌ عمد شمار ہوگا۔ اسی طرح اگر سحر اس طرح انجام دیا ہو کہ عموما قتل تک منتہی ہوتا ہو تو بھی قتل عمد شمار ہوگا۔[54]

نوٹ

  1. «فَإِذا حِبالُہُمْ وَ عِصِيُّہُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ أَنَّہا تَسْعى‏؛ پس اچانک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے موسیٰ کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔»
  2. «فَلَمَّا أَلْقَوْا سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْہَبُوہُمْ؛ پھر جب انہوں نے (اپنی لاٹھیاں اور رسیاں) پھینکیں تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور کر دیا (ان کی نظر بندی کر دی) اور انہیں خوف زدہ کر دیا۔»

حوالہ جات

  1. انوری و دیگران، فرہنگ روز سخن، 1383ہجری شمسی، ص368۔
  2. ملاحظہ کریں: سورہ طہ، آیہ 66؛ سورہ اعراف، آیہ 116۔
  3. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص115؛ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1367ہجری شمسی، ج5، ص95؛ حمیری، قرب الاسناد، 1413ھ،‌ ص152؛ ابن‌ادریس حلّی، السرائر، 1410ھ، ج3، ص593۔
  4. ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج1، ص336-342؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص233-236؛ صادقی تہرانی، الفرقان، 1406ھ، ج2، ص79-84؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج1، ص374۔
  5. ملاحظہ کریں: علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج19، ص73۔
  6. ملاحظہ کریں: حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، 1419ھ، ج12، ص226؛ نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص78؛ شہید اول، الدروس، موسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص164؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیّۃ، 1410ھ، ج3، ص215۔
  7. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص86؛ خوانساری، جامع المدارك في شرح المختصر النافع، 1405ھ، ج7، ص113؛ خوئی، مصباح الفقاہۃ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص459۔
  8. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص329؛ محقق حلّی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج4، ص973؛ علامہ حلّی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص425؛ امام خمینی، تحریر الوسلیہ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص546۔
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج1، ص377۔
  10. شیخ صدوق، عيون أخبار الرضا عليہ السلام، 1378ھ، ج1،‌ 267۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،‌ 1371ہجری شمسی، ج8، ص437۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،‌ 1371ہجری شمسی، ج8، ص438۔
  13. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)،‌ 1386ہجری شمسی، ج7، ص519۔
  14. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)،‌ 1386ہجری شمسی، ج7، ص519-520۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج1، ص378-379۔
  16. طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج1، ص336-342؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص233-236؛ صادقی تہرانی، الفرقان، 1406ھ، ج2، ص79-84؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج1، ص374۔
  17. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص115۔
  18. علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج19، ص73۔
  19. حمیری، قرب الاسناد، 1413ھ،‌ ص152۔
  20. ابن‌ادریس حلّی، السرائر، 1410ھ، ج3، ص593۔
  21. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج92، ص124۔
  22. ابنا بسطام،‌ طب الأئمہ، 1411ھ،‌ ص35۔
  23. ابنا بسطام،‌ طب الأئمہ، 1411ھ،‌ ص35؛‌ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج92، ص124۔
  24. سید ابن‌طاووس، الأمان، 1409ھ،‌ ص130؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج92، ص132۔
  25. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص327؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیّۃ، 1410ھ، ج3، ص215۔
  26. خوئی، مصباح الفقاہۃ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص453۔
  27. شہید اول، الدروس، موسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص164۔
  28. محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج4، ص30۔
  29. نراقی، مستند الشیعۃ، 1415ھ، ج14،‌ ص114۔
  30. نراقی، مستند الشیعۃ، 1415ھ، ج14،‌ ص114۔
  31. علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہاء، 1422ھ، ج12، ص144۔
  32. علامہ حلّی، تحرير الأحكام الشرعيۃ على مذہب الإماميۃ،‌ 1420ھ، ج5،‌ ص396۔
  33. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ،‌ 1392ہجری شمسی، ج1، ص529۔
  34. شہید اول، الدروس، موسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص164۔
  35. فخر المحقّقین حلَی، إيضاح الفوائد، 1387ھ، ج1، ص405۔
  36. گلپایگانی، ہدایۃ العباد، 1371ہجری شمسی، ج1، ص342۔
  37. خوئی، مصباح الفقاہۃ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص453۔
  38. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، 1419ھ، ج12، ص226۔
  39. گلستانہ، منہج الیقین، 1388ہجری شمسی، ص136؛ شبّر، الأخلاھ، مطبعۃ النعمان، ص216؛ دستغیب، گناہان کبیرہ، 1388ہجری شمسی، ج2، ص77۔
  40. دستغیب، گناہان کبیرہ، 1388ہجری شمسی، ج2، ص77۔
  41. شہید اول، الدروس، موسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص164؛ آل عصفور، سداد العباد، 1379ہجری شمسی، ص430۔
  42. نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص78۔
  43. شہید اول، الدروس، موسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص164؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیّۃ، 1410ھ، ج3، ص215۔
  44. نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص77۔
  45. نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص86؛ خوانساری، جامع المدارك في شرح المختصر النافع، 1405ھ، ج7، ص113؛ خوئی، مصباح الفقاہۃ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص459۔
  46. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص329؛ نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص86؛ حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، 1419ھ، ج12، ص226؛ خوئی، مصباح الفقاہۃ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص459۔
  47. نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص86؛ خوئی، مصباح الفقاہۃ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص459۔
  48. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص329؛ نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج22، ص86؛ خوئی، مصباح الفقاہۃ، 1377ہجری شمسی، ج1، ص459۔
  49. شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج5، ص329؛ محقق حلّی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج4، ص973۔
  50. محقق حلّی، شرایع الاسلام، 1409ھ، ج4، ص973۔
  51. علامہ حلّی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص425۔
  52. شہید ثانی، مسالک الأفہام، 1413ھ، ج15، ص77۔
  53. علامہ حلّی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص425۔
  54. امام خمینی، تحریر الوسلیہ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص546۔

مآخذ

  • آل عصفور،‌ حسین بن‌محمد، سداد العباد و رشاد العباد، قم، محلاتی، 1379ہجری شمسی۔
  • ابنا بسطام،‌‌ عبداللہ‌ و حسین، طب الأئمہ، تحقیق محمد مہدی خرسان، قم، دارالشریف الرضی، 1411ھ۔
  • ابن‌ادریس حلّی، محمد‌ بن‌احمد، السرائر الحاوي لتحرير الفتاوي (و المستطرفات)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1410ھ۔
  • امام خمینی،‌ روح‌اللہ، تحریر الوسیلۃ،‌ تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (س)، 1392ہجری شمسی۔
  • انوری، حسن و دیگران، فرہنگ روز سخن، تہران، سخن، 1383ہجری شمسی۔
  • بحرانی، یوسف بن‌احمد، الحدائق الناضرۃ في أحكام العترۃ الطاہرۃ، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامي، 1363ہجری شمسی۔
  • بہجت، محمدتقی، وسیلۃ النجاۃ،‌ قم، شفق، 1423ھ۔
  • حسینی عاملی، سید جواد، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلامۃ،‌‌‌ قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامي، 1419ھ۔
  • حمیری،‌ عبداللہ‌ بن‌جعفر، قرب الاسناد، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام‏، 1413ھ۔
  • خوئی،‌ سید‌ ابوالقاسم، مصباح الفقاہۃ، قم، داوری، 1377ہجری شمسی۔
  • خوانساری،‌ سید‌‌ احمد، جامع المدارك في شرح المختصر النافع، تہران، مکتبۃ الصدوق، 1405ھ۔
  • دستغیب، عبدالحسین، گناہان کبیرہ، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم۔ دفتر انتشارات اسلامی، 1388ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسين بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، بیروت، دارالقلم، 1412ھ۔
  • سید ابن‌طاووس،‌‌ علی بن‌موسی، الأمان من أخطار الأسفار و الأزمان‏، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام، ‏1409ھ۔
  • شبّر، عبداللہ، الأخلاھ، نجف، مطبعۃ النعمان، بی‌تا۔
  • شہید اول،‌‌ محمد بن‌مکّی العاملی، الدروس الشرعيۃ في فقہ الإماميۃ، موسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • شہید‌ ثانی، زین‌‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ في شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، مکتبۃ الداوری، 1410ھ۔
  • شہید‌ ثانی، زین‌‌الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام،‌ قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، ابن بابویہ محمد بن‌علی، عيون أخبار الرضا عليہ السلام، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • شیخ صدوق، ابن بابویہ محمد بن‌علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ترجمہ على اكبر غفارى، محمد جواد غفارى و صدر بلاغى، تہران، نشر صدوق، 1367ہجری شمسی۔
  • شیخ‌‌‌ طوسی، محمد بن‌حسن، الخلاف، قم، جماعۃ المدرسين في الحوزۃ العلمیۃ بقم۔ مؤسسۃ النشر الإسلامي، 1407ھ۔
  • طبرسی،‌ فضل‌ بن‌حسن، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • علامہ حلّی،‌ حسن‌‌ بن‌یوسف، تحرير الأحكام الشرعيۃ على مذہب الإماميۃ، قم،‌ مؤسسۃ الإمام الصادق علیہ السلام، 1420ھ۔
  • علامہ حلّی،‌ حسن‌‌ بن‌یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث، 1422ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر بن‌محمد تقی، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1404ھ۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر بن‌محمد تقی،‌‌ بحارالانوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار إحياء التراث العربي‏، 1403ھ۔
  • فخر المحقّقین حلَی،‌ محمد بن الحسن بن يوسف، إيضاح الفوائد في شرح إشكالات القواعد، قم، المطبعۃ العلميۃ، 1387ھ۔
  • کلینی،‌محمد‌بن‌یعقوب، الکافی، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1407ھ۔
  • گلپایگانی، سید محمد رضا، ہدایۃ العباد، قم، دارالقرآن الکریم، 1371ہجری شمسی۔
  • گلستانہ، علاء الدین محمد، منہج الیقین، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحديث، 1388ہجری شمسی۔
  • محقق حلّی،‌ جعفر‌ بن‌حسن، شرائع الإسلام في مسائل الحلال و الحرام، تہران،‌ استقلال، 1409ھ۔
  • محقق کرکی، علی بن‌حسین، جامع المقاصد‌ فی شرح القواعد، قم، مؤسسۃ آل البیت (علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1414ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمومنین(ع)،‌ تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی،‌ ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد‌حسن، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحياء التراث العربي، 1362ہجری شمسی۔
  • نراقی، ملا احمد بن‌محمد مہدی، مستند الشیعۃ في أحکام الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت (علیہم السلام) لإحیاء التراث، 1415ھ۔