مندرجات کا رخ کریں

امیر الحاج

ویکی شیعہ سے
شرعی منصب
پیامبر
امام
قاضی
حاکم شرع
امام جمعہ
امام جماعت
ولی فقیہ
مرجع تقلید
امیر الحاج
نائب خاص
نائب عام

امیر الحاج اس شخص کو کہا جاتا ہے جو حاجیوں کے امور کی سرپرستی اور نگرانی کی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ امامیہ نقطۂ نظر کے مطابق، یہ ذمہ داری امامِ معصوم کے زمانۂ ظہور میں براہِ راست امام یا ان کے مقرر کردہ نمائندے کی ہوتی ہے، اور زمانۂ غیبت میں یہ فقیہِ جامع الشرائط یا اس کے مقرر کردہ نمائندے کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔

امیر الحاج کے لیے عدالت، شجاعت، احکامِ حج اور مناسک حج کی آگاہی شرط ہے، اور ان کی کچھ اہم ذمہ داریاں بھی ہیں۔

نبی اکرمؐ نے 9 ہجری میں ابوبکر کو امیر الحاج مقرر کر کے مکہ روانہ کیا، لیکن ان کے مکہ پہنچنے سے پہلے ہی حضرت علیؑ کو اس عہدے پر مقرر کر دیا۔ شیعہ ائمہؑ کے ادوار میں، بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمران حج کی نگرانی کرتے تھے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد، امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای (رہبرانِ انقلاب) نے مختلف افراد کو ایران کے امیر الحاج مقرر کیا۔

تعریف اور مقام

امیر الحاج وہ شخص ہے جو حاجیوں کی سرپرستی کرتا ہے[1] اور ان کے تمام امور کی نگرانی کرتا ہے۔[2] اسے امام الحاج،[3] امامت الحج،[4] ولایت الحج،[5] امام موسم،[6] امیر الموسم[7] اور ولایت الموسم[8] جیسے مختلف القاب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔

امامیہ عقیدہ کے مطابق، حاجیوں کی سرپرستی امامت کے فرائض میں شامل ہے، جو عصر حضورِ امام میں امام معصوم یا ان کا نمائندہ انجام دیتا ہے۔ غیبت کے زمانے میں یہ کام فقیہ جامع الشرائط انجام دیتا ہے۔[9] امیر الحاج کے لئے بعض شرائط بیان کی گئی ہیں جن میں عدالت،[10] شجاعت،[11]احکامِ حج اور مناسک حج سے آگاہی،[12] حاجیوں کی رہنمائی کی صلاحیت[13] اور وہ تمام شرائط جو امام جماعت کے لئے ضروری ہیں۔[14]

ذمہ داریاں

شیعہ فقہی کتابوں میں امیر الحاج کی کچھ ذمہ داریاں بھی بیان ہوئی ہیں جن میں ہلالِ ذوالحجہ کا تعین کرنا،[15] عرفات، مزدلفہ، منٰی میں وقوف اور بروقت ان مقامات سے روانگی،[16] حاجیوں کو مناسکِ حج کی تعلیم دینا اور ان کی رہنمائی نیز مختلف مقامات میں وقوف اور حرکت کو منظم کرنا،[17] حاجیوں کی جان و مال کی حفاظت اور گمشدگان اور پیچھے رہ جانے والوں کی دیکھ بھال،[18]حاجیوں کے درمیان فیصلہ کرنا[19] اور مجرموں کو سزا دینا[20] یومیہ نمازوں میں جماعت کی امامت کرانا[21] شامل ہیں۔

ان کے علاوہ امیر الحاج کے لئے مستحب ہے کہ بعض مخصوص مواقع پر حاجیوں کو خطبہ دے اورانہیں حج کی عبادتوں سے آشنا کرائے۔ جن میں 7 ذی الحجہ کو نمازِ ظہر کے بعد، احرامِ حج باندھنے کے بعد، عرفہ کے دن نماز سے پہلے، عید قربان کے دن (10 ذی الحجہ) اور 12 ذی الحجہ کو منٰی سے روانگی کے وقت شامل ہیں۔[22]

تاریخی پس منظر

شیعہ مشہور محدث شیخ کلینی (وفات: 329ھ) نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ کعبہ کی دوبارہ تعمیر کے بعد حضرت اسماعیلؑ اور ان کی اولاد نے امورِ حج سنبھالے۔ اور تاریخی شواہد کے مطابق رسول خداؐ کے اجداد ہاشم بن عبدمناف[23] اور قُصَی بن کِلاب[24] بھی اس عہدے پر فائز رہے ہیں۔

مسلمانوں نے [25] اور [26] میں رسول اللہؐ کی قیادت میں عمرہ انجام دینے کے لئے مکہ کی جانب حرکت کی۔ سنہ 8ھ میں رسول اللہؐ نے عَتَّاب بن اَسید کو امیر الحاج مقرر کیا۔[27] البتہ بعض کا کہنا ہے کہ اس سال مسلمانوں نے امیر الحاج کے بغیر مناسک حج انجام دئے۔[28] تاریخی اسناد کے مطابق 9 ہجری میں پیغمبر اکرمؐ نے پہلے ابوبکر کو امیر الحاج بنا کر مکہ بھیجا؛[29] لیکن مکہ پہنچنے سے پہلے حضرت علیؑ کو اس ذمہ داری پر مقرر کیا۔[30] البتہ بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر ہی اسی عہدے پر باقی رہے۔[31] 10 ہجری کے حج (حجۃ الوداع) میں خود رسول اللہؐ امیر الحاج تھے۔[32]

مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کیجئے: ابلاغ آیات برائت


مسلمان مورخ مسعودی، (280-345ھ) لکھتے ہیں کہ خلفا کے دور میں ابوبکر،[33] عمر بن خطاب،[34] عثمان بن عفان،[35] عبدالرحمن بن عوف[36] اور عبداللہ بن عباس[37] اس منصب پر فائز رہے۔ امام علیؑ نے 37ھ میں عبداللہ بن عباس کو امیر الحاج مقرر کیا؛ لیکن معاویۃ بن ابی‌سفیان نے یزید بن شجرہ رہاوی کو اپنا نمائندہ مقرر کیا. ان دونوں افراد کی لڑائی کے سبب شیبۃ بن عثمان[یادداشت 1] اس منصب پر فائز ہوا۔[39] اسی طرح امام علیؑ نے 38ھ میں قُثَم بن عباس کو امیر الحاج مقرر کیا۔[40] تاہم، بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں یہ ذمہ داری ان کے حکمرانوں کے ہاتھ میں رہی۔[41] چوتھی صدی ہجری کے مورخ مسعودی نے پیغمبر اکرمؐ کے دور سے سنہ 335ھ تک کے امیر الحاج حضرات کے نام قلمبند کیے ہیں۔[42]

جمہوری اسلامی ایران کے امیر الحاج

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی نے محی‌الدین انواری[43] فضل‌اللہ محلاتی،[44] محمدرضا توسلی،[45]سید محمد موسوی خوئینی‌ہا،[46] اور مہدی کروبی[47] کو ایرانی حجاج کا امیر الحاج مقرر کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے بھی محمد محمدی ری‌شہری 20 سال کی مدت کے لئے [48][49] ان کے بعد سید علی قاضی‌عسکر[50] اور عبدالفتاح نواب[51] کو اس منصب پر مقرر کیا۔

حوالہ جات

  1. نعمتی، قاموس الحرمین الشرفین، 1418ھ، ص73۔
  2. مکارم شیرازی، دائرۃالمعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ص544۔
  3. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص672۔
  4. ابن‌کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج8، ص304۔
  5. ابن‌کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج12، ص91۔
  6. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص672.
  7. ابن اثیر جزری، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج6، ص306۔
  8. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج8، ص376۔
  9. جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج1، ص672۔
  10. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص495۔
  11. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص495۔
  12. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج4، ص287۔
  13. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص495۔
  14. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج4، ص287۔
  15. مختاری، صادقی، رؤیت ہلال، 1426ھ، ج2، ص1404۔
  16. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج4، ص287۔
  17. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص495-496۔
  18. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص496۔
  19. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج4، ص288۔
  20. شہید اول، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، 1417ھ، ج1، ص496۔
  21. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج4، ص288۔
  22. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص496۔
  23. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج2، ص401؛ زرکلی، الاعلام، 1989م، ج8، ص66۔
  24. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص254۔
  25. ذہبی، تاریخ الاسلام، 1409ھ، ج2، ص622۔
  26. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص465۔
  27. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص301۔
  28. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص301۔
  29. ابن‌کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج5، ص36؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج5، ص293۔
  30. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص65۔
  31. ابن‌کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج5، ص37۔
  32. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص301۔
  33. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص301۔
  34. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص301-302۔
  35. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص302۔
  36. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص301-302۔
  37. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص302۔
  38. تحویل پردہ جدید خانہ خدا بہ پردہ ذدار کعب
  39. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص302۔
  40. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص461۔
  41. منتظری نجف‌آبادی، نظام الحکم فی الاسلام، 1417ھ، ص57۔
  42. مسعودی، مروج الذہب، 1409ھ، ج4، ص303-313۔
  43. خمینی، صحیفہ امام خمینی، 1389ش، ج10، ص61۔
  44. خمینی، صحیفہ امام خمینی، 1389ش، ج10، ص61۔
  45. خمینی، صحیفہ امام خمینی، 1389ش، ج13، ص37۔
  46. خمینی، صحیفہ امام خمینی، 1389ش، ج16، ص400۔
  47. خمینی، صحیفہ امام خمینی، 1389ش، ج19، ص321 و ج19، ص394۔
  48. خبرگزاری فارس. تقدیر از دو دہہ سرپرستی حجاج
  49. «انتصاب سرپرست حجاج ایرانی»، وبگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  50. «انتصاب سرپرست حجاج ایرانی»، وبگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  51. «انتصاب سرپرست حجاج ایرانی»، وبگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔

نوٹ

  1. اسلام سے پہلے جاہلیت کے دور میں کعبہ کا پردہ دار جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوا۔ حجاز پر آل سعود کی چڑھائی کے بعد سنہ 1343ھ میں انہوں نے بنی شیبہ کو کعبہ کی پردہ داری پر باقی رکھا اور کعبہ کا لباس اور اس کے لوازمات کو ان کے سپرد کردیا۔ آج کل شیخ صالح بن زین العابدین الشیبی» کعبہ کے پردہ داروں کے سرپرست ہیں۔[38]

مآخذ

  • «انتصاب سرپرست حجاج ایرانی»، وبگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای، تاریخ اشاعت: 14 اردیبہشت 1398، تاریخ مشاہدہ: 4 بہمن 1401ہجری شمسی۔
  • «انتصاب سرپرست حجاج ایرانی»، وبگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای، تاریخ اشاعت: 6 اردیبہشت 1370ش، تاریخ مشاہدہ: 4 بہمن 1401ہجری شمسی۔
  • «انتصاب سرپرست حجاج ایرانی»، وبگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای، تاریخ اشاعت: 20 دی 1388ش، تاریخ مشاہدہ: 4 بہمن 1401ہجری شمسی۔
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون(دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب)، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت،‌ دار الفکر، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌ دار الفکر، 1407ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،‌ دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
  • بیہقی، ابوبکر احمد بن حسین، دلائل النبوۃ، تحقیق: عبدالمعطی قلعجی، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1405ھ۔
  • جمعی از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، زیر نظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، 1426ھ۔
  • خمینی، روح‌اللہ، صحیفہ امام خمینی، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق: عمر عبد السلام تدمری، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت،‌ دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، 1989ء۔
  • شہید اول، محمد بن مکی عاملی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، قم، دفتر اشاعتات اسلامی، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، تحقیق: محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت،‌ دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، محقق: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مختاری، رضا و صادقی، محسن، رؤیت ہلال، قم، اشاعتات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ، چاپ اول، 1426ھ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم،‌ دار الہجرۃ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، اشاعتات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، قم، چاپ اول، 1427ھ۔
  • منتظری نجف‌آبادی، حسین‌علی، نظام الحکم فی الاسلام، قم، نشر سرایی‌، چاپ دوم‌، 1417ھ۔
  • نعمتی، محمدرضا، قاموس الحرمین الشرفین، تہران، مشعر، چاپ اول، 1418ھ۔