تحریفات عاشورا

ویکی شیعہ سے
(تحریفات واقعہ کربلا سے رجوع مکرر)
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


تحریفات عاشورا، واقعہ کربلا سے منسوب بعض واقعات اور حوادث کو کہا جاتا ہے جنہیں بعض علماء اور محققین جعلی اور نادرست قرار دیتے ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد مختلف زمانوں خاص کر صفویہ اور قاجاریہ دور میں غلط اسناد یا بغیر سند کے مختلف واقعات واقعہ کربلا سے مربوط منابع میں درج ہوئے ہیں۔ بعض علماء اور دانشوروں نے واقعہ عاشورا میں شامل ہونے والے ان تحریفات کا مقابلہ کرتے ہوئے مختلف کتابیں تحریر کی ہیں۔

بعض کتابیں جو واقعہ عاشورا کے بارے میں جعلی گزراشات درج کرنے میں متہم ہیں ان میں حسین بن علی واعظ کاشفی سبزواری (متوفی 910ھ۔) کی روضۃالشہدا، فاضل دربندی کی کتاب اسرارالشہادۃ اور ملا احمد نراقی کی مُحرِقُ‌القلوب کے نام شامل ہیں۔ بعض علما نے واقعہ کربلا میں تحریف پر تنقید کرتے ہوئے اس سلسلے میں بعض کتابیں بھی تالیف کی ہیں جن میں محدث نوری کی لؤلؤ و مرجان اور مرتضی مطہری کی حماسہ حسینی قابل ذکر ہیں۔

کُلُّ یَومٍ عاشورا و کُلُّ أرضٍ کَربَلا (ہر روز عاشورا اور ہر زمین کربلا ہے) اور ھل مِن ناصرٍ یَنصُرُنی (کیا کوئی مددگار ہے جو میری مدد کرے؟)، طفلان مسلم کی شہادت کا واقعہ جس طرح سے مشہور ہے اور زَعفر جِنّی کا واقعہ تحریفاتِ عاشورا میں سے ہیں۔

تعریف

تحریف لغت میں کسی چیز کو دوسری چیز میں تبدیل کرنا یا کسی واقعے کو غلط طور پر پیش کرنے کو کہاجاتا ہے۔[حوالہ درکار]

تحریفات عاشورا، واقعہ کربلا سے مربوط غیر واقعی واقعات اور غلط تجزیہ و تحلیل کو کہا جاتا ہے جسے مختلف لوگوں نے قیام امام حسینؑ سے اخذ کئے ہیں۔ شہید مطہری اپنی کتاب حماسہ حسینی میں واقعہ کربلا کے غلط تجزیہ و تحلیل کو معنوی تحریفات[1] اور غلط تاریخی واقعات کو واقعہ عاشورا سے منسوب کرنے کو تحریفات لفظی کا نام دیتے ہیں۔[2]

اسی طرح واقعہ عاشورا سے مربوط بعض آداب و رسومات کے لئے بھی تحریفات عاشورا کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جن کو بعض علماء نامشروع قرار دیتے ہیں۔[حوالہ درکار]

علل و اسباب

تحریفات عاشورا کے مختلف علل اسباب ذکر کئے گئے ہیں۔ محدث نوری کے مطابق عزاداری کی مجلسوں میں رونق پیدا کرنا،[3] مصنفین کی جانب سے اس واقعے سے متعلق جامع کتب کی اشاعت کی کوشش،[4] فضائل اہل بیتؑ کی نشر و اشاعت کا جذبہ اور اہل بیت کے مصائب پر لوگوں رلانا[5] واقعہ عاشورا میں غیر واقع داستانوں اور حوادیث کو شامل کرنے کا سبب بنا ہے۔ اسی طرح امام حسینؑ اور آپ کی اہل بیتؑ کی مظلومیت کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنا، خاندان عصمت و طہارت کی عظمت کو بیان کرنا، لوگوں کے مختلف مطالبات اور توقعات کو پورا کرنا، دشمن کے چہرے کو زیادہ سے زیادہ کریہ پیش کرنا[6] تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں دقت سے کام نہ لینا، ضعیف منابع کا استعمال، شعر اور نثر میں امتزاج، ذہنی حافظے پر اعتماد کر کے زبانی بیانات پر اکتفا کرنا، تاریخی واقعات کو نقل کرنے میں مختلف کہانیوں سے مدد لینا اور زبان حال کو واقعیت میں تبدیل کرنا واقعہ عاشورا میں تحریف اور جعل سازی کے دیگر علل و اسباب میں سے ہیں۔[7]

واقعہ عاشورا کے معاصر محقق محمد صحتی سردرودی کے مطابق بعض اہل‌ سنت مورخین نے بنی امیہ کی خلافت کا دفاع کرتے ہوئے قیام امام حسینؑ کا تجزیہ کیا ہے۔ اس بنا پر امام حسینؑ کے مقابلے میں حکومتی پالیسی کو حکومت کے دینی وظائف میں قرار دیتے ہوئے یزید اور اس کے کارندوں کے کرتوتوں کو ان کی دینداری کی علامت قرار دیتے ہیں اور اسے صحابہ کا اپنی اجتہاد پر عمل کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔[8]

امام حسینؑ سے منسوب کلمات

بعض مصنفین امام حسینؑ کی طرف منسوب کرنے والے بعض کلمات اور اشعار جو تاریخ اسلام کے ابتدائی منابع میں مذکور نہیں، کو بھی تحریفات عاشورا میں قرار دیتے ہیں من جملہ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • إنّ الحیاۃ عقیدۃ و جہاد: شہید مطہری اس کلام کو بے بنیاد اور مفہوم کے اعتبار سے بھی غلط قرار دیتے ہیں۔[9] محمد صحتی سرودرودی اس کلام کو معاصر شاعر احمد شوقی (1247-1311ہجری شمسی) کے اشعار کا حصہ قرار دیتے ہیں۔[10]
  • إن کان دین محمد...: محمد صحتی سردرودی "إن کانَ دینُ محمدٍ لم یستَقِم إلا بقتلی یا سُیوفُ خُذینی کی عبارت کو امام حسینؑ سے منسوب ہونے میں شک و تردید کا اظہار کرتے ہوئے اسے ابوالحب حویزی (1235-135ھ) کے اشعار کا حصہ قرار دیتے ہیں۔[11]
  • أُسقونی شربۃً من الماء: شہید مطہری کہتے ہیں کہ اس عبارت کو مقاتل کی کسی منابع میں نہیں دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ شہید مطہری اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ عبارت امام حسینؑ کی شخصیت کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے کیونکہ امام حسینؑ کوئی ایسی ہستی نہیں تھی جو ایسے لوگوں سے پانی کی درخواست کریں۔[12]
  • هل من ناصرٍ ینصرُنی: محمد صحتی سردرودی اس عبارت کو امام حسینؑ سے منسوب ہونے میں اشکال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ منابع میں اس عبارت امام حسینؑ سے منسوب ہونے کے بارے میں کوئی سند موجود نہیں ہے۔[13] لیکن فرہنگ عاشورا نامی کتاب کے مصنیف جواد محدثی اسے نقل بہ معنا قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ عبارت تاریخی منابع میں مختلف تعابیر کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔[14]
  • یا کوکبا ما کان اقصرَ عُمرَہ/ و کذلک عمرُ کواکبِ الاسحار؛ محدث نوری کے مطابق یہ شعر ابو الحسن تِہامی(متوفی 416ھ) کی ہے جو اس نے اپنے بیٹے کے سوگ میں لکھی ہے لیکن اسے امام حسینؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے گویا آپؑ نے اسے علی اکبر کے سرہانے پڑھی ہیں۔[15]
  • شیعتی ما إن شربتم ماء عذب فاذکرونی/او سمعتم بغریب او شہید فاندبونی؛ شیخ عباس قمی کہتے ہیں کہ سکینہ بنت امام حسینؑ نے مصیبت کے عالم میں صرف یہی بیت اپنے والد گرامی سے سنی ہے جبکہ اس کے ساتھ پڑھی جانے والے دوسرے اشعار امام حسینؑ کی نہیں ہے۔[16]

اسی طرح محمد صحتی سردرودی کے مطابق کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا کی عبارت بھی کسی معتبر سند کا حامل نہیں ہے اگرچہ بعض منابع میں اسے امام صادقؑ سے منسوب کی گئی ہے۔[17]

تحریفات عاشورا کے مختلف نمونے

کتاب لؤلؤ و مرجان، منتہی الآمال اور حماسہ حسینی وغیرہ میں واقعہ کربلا کے بعض تحریفات کا ذکر کیا گیا ہے:

محدث نوری کی تالیف لؤلؤ و مرجان

محدث نوری نے کتاب لؤلؤ و مرجان میں جن واقعات کو بے بنیاد، غیر معتبر اور جعلی قرار دئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

  1. امام حسینؑ نے قتلگاہ سے آنکھوں کے اشارے سے حضرت زینب کو خیمہ گاہ واپس جانے کا کہا۔[18]
  2. امام حسینؑ نے روز عاشورا کئی حملے کئے اور ہر حملے میں 10 ہزار دشمنوں کو قتل کیا۔[19]
  3. اسرائے اہل بیت کا اربعین کے دن کربلا میں واپس پہنچ جانا۔[20]
  4. عطیہ کوفی جابر بن عبداللہ انصاری کا غلام تھا جس نے جابر کو اسرائے اہل بیت کی آمد کی خبر دی جس کی بنا پر جابر نے انہیں آزاد کیا۔[21]
  5. ہاشم مرقال کا زندہ ہونا اور عاشورا کے واقعے میں حاضر ہونا۔[22]
  6. اصحاب امام حسینؑ کا حبیب بن مظاہر کی قیادت میں شب عاشورا عہد کرنا کہ جب تک ہم زندہ ہیں بنی ہاشم میں سے کسی کو میدان میں جانے نہیں دیں گے۔[23]
  7. زعفر جن کا واقعہ؛[24] جنات کا سردار جس نے واقعہ عاشورا میں امام حسینؑ کو مدد کی تجویز دی لیکن امام حسینؑ نے قبول نہیں کیا۔[25]
  8. امام سجادؑ بیماری کی وجہ سے روز عاشورا کے واقعات سے بے خبر تھے اور امام حسینؑ آپ کے پاس آئے اور پیش آمدہ تمام واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا: "جان لو بیٹا خیموں میں میرے اور تمہارے علاوہ کوئی مرد نہیں بچا۔"[26]
  9. آخری وداع کے وقت جب امام حسینؑ کی مدد کرنے کے لئے کوئی نہ رہا تو حضرت زینب(س) نے آپ کو گھوڑے پر سوار کیا۔[27]
  10. حضرت زینب(س) کا قتلگاہ میں امام حسینؑ کے سرہانے یہ کہنا "أأنت أخی، أأنت رجائنا، أأنت..."[28]
  11. ایک دن میں امام سجادؑ دو دفعہ گریہ کرنے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے اور ابوحمزہ ثمالی نے آپ کو تسلی دی اور نصیحت کی۔[29]
  12. کربلا میں قاسم کی شادی کا واقعہ۔[30]
  13. صفین میں حضرت عباس کی جنگ کی داستان۔[31]
  14. بچپن میں حضرت عباسؑ کا امام حسینؑ کے لئے پانی لانے کا واقعہ۔[32]
  15. جب علی اکبر میدان کارزار میں چلے گئے تو امام حسینؑ نے آپ کی والدہ ام لیلا سے علی اکبر کے حق میں دعا کرنے کی درخواست کی کیونکہ پیغمبر اکرمؑ نے فرمایا ہے کہ ماں کی دعا بیٹے کے حق میں قبول ہوتی ہے۔[33]

محدث قمی کی تالیف، منتہی الآمال

شیخ عباس قمی کتاب منتہی الآمال میں درج ذیل واقعات کے صحیح ہونے میں شک و تردی کا اظہار کرتے ہوئے ان میں سے بعض کو نادرست یا بعید قرار دیا ہے۔

  1. عوام میں مشہور ہے کہ عمر بن سعد واقعہ کربلا میں سب سے بوڑھا شخص تھا۔[34]
  2. طفلان مسلم کی شہادت کے سلسلے میں جو کیفیت اور تفصیل مشہور ہے۔[35]
  3. حضرت زینب کی طرف نسبت دینا کہ آپ نے امام حسین کی مصیبت میں اپنے سر کو زخمی کیا تھا اسی طرح اس شعر "یا ہلالا لما استتم کمالا" کی نسبت آپ کی طرف دینا۔[36]
  4. اربعین کے دن امام حسینؑ اور دوسرے شہداء کا سر امام سجادؑ کے ذریعے کربلا لایا جانا اور انہیں ان کے جسموں کے ساتھ محلق کرنا۔[37]

شیخ عباس قمی اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ معتبر مقتل‌ نویسوں نے شام غریبان میں امام حسینؑ کے اہل بیت کی حالات کے بارے میں کچھ ذکر نہیس کی ہیں۔[38]

شہید مطہری کی تالیف، حماسہ حسینی

شہید مطہری نیز درج ذیل موارد کو تحریفات عاشورا میں شمار کرتے ہیں۔

  1. شب عاشورا کو امام حسینؑ کی تقریر کے بعد آپ کے ساتھیں کا آپ کو چھوڑ کر چلے جانا۔ شہید مطہری کے مطابق یہ بات صرف کتاب ناسخ التواریخ میں ذکر ہوئی ہے۔[39]
  2. شیر اور فضہ کی داستان[40]
  3. یہودی لڑکی کی داستان جو فالج کی بیماری میں مبتلا تھی اور ایک پرندے کے ذریعے امام حسینؑ کے خون کا ایک قطرہ اس لڑکی کے بدن پر لگنے کی وجہ سے اس لڑکی کو شفا ملی۔[41]

صالحی نجف‌آبادی کی تالیف، نگاہی بہ حماسہ حسینی استاد مطہری

  1. اسیران کربلا کا قتلگاہ سے گزر کر جانے کی درخواست۔[42]
  2. اسرا کا اپنے آپ کو سواریوں سے نیچے گرانا۔[43]
  3. کوفہ والوں کی طرف سے اسرائے آل محمدؑ کو صدقہ دینا۔[44]

دوسرے محققین کے نقطہ نگاہ سے

درج ذیل موارد کو بعض محققین نے تحریفات عاشورا کے عنوان سے ذکر کیا ہے:

  1. فضل‌ علی قزوینی اپنی کتاب الامام الحسین و اصحابہ میں لکھتے ہیں کہ یہ عبارت: "امام حسینؑ نے شب عاشورا کو اپنے اصحاب سے فرمایا جو جانا چاہے جا سکتے ہیں اور جو بھی جائے میری اہل بیتؑ میں سے کسی ایک کو بھی ساتھ لے کر جائے" صرف محمد بن جریر طبری نے ضحاک مشرقی سے نقل کیا ہے اور اس سے پہلے والے منابع میں سے کسی ایک میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے اس بنا پر یہ معتبر نہیں ہے۔[45] اسی طرح وہ یہ احتمال دیتے ہیں کہ شاید یہ عبارت اصل میں اس طرح تھی: "اصحاب میں سے جو بھی جانا چاہے اپنے اہل و عیال کو ساتھ لے کر جائے" چنانچہ یہ عبارت کتاب روضۃ الصفا میں آیا ہے۔[46]
  2. امام حسینؑ کو جب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی گئی تو آپ مدینہ واپس جانے چاہتے تھے لیکن عقیل کی اوالاد مانع بنی۔[47]
  3. تیر سہ‌ شعبہ کی داستان اور یہ کہ یہ تیر امام حسینؑ کے سینہ مبارک میں پیوست ہونا اور پیچھے کی جانب سے نکالا جانا بھی مستند نہیں ہے۔[48]
  4. اسرائے آل محمد کا کوفہ اور دمشق میں داخل ہوتے وقت ان شہروں میں چراغان اور تزیین کرنا وغیرہ میں بھی تحقیق کی ضرورت ہے؛ خاص کر شہر کوفہ کے حوالے سے یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے۔[49]
  5. امام حسینؑ کا یمن کے تجارتی قافلے کو اپنے قبضے میں لے لینا[50]
  6. قاضی شریح کا امام حسینؑ کے قتل کا فتوا دینے کے بارے میں کوئی معتبر سند موجود نہیں ہے۔[51]
  7. کوفیوں کی بے وفائی کی شہرت اور "الکوفی لا یوفی" کا ضرب المثل بنی امیہ اور شامیوں کی طرف سے پھیلائے گئے پروپیگنڈا کی وجہ سے ہے۔[52]

تحریف کے متہم مآخذ

واعظ کاشفی کی کتاب روضۃ الشہدا تحریفات عاشورا کے منابع میں سے ہے

وہ منابع جن میں نادرست اور غیر واقع امور نقل ہوئے ہیں کو تحریفات میں مؤثر منابع کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔[53] ذیل میں اس طرح کے بعض منابع کا تذکرہ کرتے ہیں:

  • مقتل الحسین: محدث نوری کے مطابق ابومخنف کی اصل کتاب نہایت کتاب تھی لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچی۔ جو کتاب اس وقت مقتل ابی‌ مخنف کے نام سے ممنظر عام پر ہے وہ معتبر نہیں ہے۔[54]
  • روضہ الشہدا: اس کتاب کے مصنف واعظ کاشفی (متوی 910ھ) ہیں؛ محدث نوری زعفر جن کی داستان کو تحریفات عاشورا میں قرار دیتے ہیں جسے پہلی بار اس کتاب میں مطرح کیا گیا ہے۔[55]
  • فاضل دربندی کی کتاب اسرار الشہادۃ؛ محدث نوری کے مطابق لشکر عمر بن سعد کی تعداد اور امام حسینؑ اور حضرت عباس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے یزدی سپاہیوں کی تعداد اس کتاب کی تحریفات کے نمونے ہیں کیونکہ اس کتاب میں امام حسینؑ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 3 لاکھ اور حضرت عباسؑ کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2 لاکھ 50 ہزار ذکر کی گئی ہیں۔[56]
  • ملا احمد نراقی کی کتاب محرق القلوب؛ محدث نوری اور شہید مطہری ہاشم مرقال کا کربلا میں زندہ ہونے کی داستان کو اس کتاب کی تحریفات میں شمار کرتے ہیں۔[57]
  • ملا محمدباقر فِشارکی کی کتاب عنوان الکلام: "حضرت علی اصغر کی شہادت کے بعد رات کو ان کی والدہ رباب کے پستانوں میں دودھ جمع ہوا، جب رباب نے یہ دیکھا تو کہا: علی‌ اصغر کہاں ہو..."، " علی‌ اصغر کے گہوارے کو قبر سے باہر نکالا اور ان کا سر بدن سے جدا کر کے نیزے پر چڑھایا" اور "امام حسینؑ کے کاروان میں سے ایک بچی کےدامن کو آگ لگ جاتی ہے اور وہ قتلگاہ کی طرف دوڑتی ہے، ابن سعد کے سپاہیوں میں سے ایک ان سے پوچھتا ہے کہاں جا رہی ہو؟ کہتی ہے میں چچا عباس کے پاس جانا چاہتی ہوں اور اس بے مروت قوم کی شکایت کروں گی" یہ واقعات اس کتاب کی تحریفات کے نمونے ہیں۔[58]

ابواسحاق اسفراینی سے منسوب کتاب نور العین فی مشہد الحسین، طریحی کی کتاب المنتخب فی جمع المراثی و الخطب، محمدتقی سپہر کی کتاب تظلم الزہراء، ناسخ التواریخ، محمدمہدی حائری مازندرانی کی کتاب معالی السبطین اور محمد باقر بہبہانی (متوفی 1275ھ) کی کتاب الدمعۃ الساکبۃ دیگر منابع میں سے ہیں جنہیں تحریف‌ ساز یا تحریف‌ گستر قرار دئے گئے ہیں۔[59]

تحریف‌ کا مقابلہ

واقعہ عاشورا کی تحریفات سے مقابلہ قاجاریہ دور سے شروع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں محدث نوری کو پہلا شیعہ عالم قرار دیا جاتا ہے جنہوں نے تحریفات عاشورا کے خلاف کتاب لکھی۔[60] ان کے بعد محمد باقر خراسانی بیرجندی اور شہید مطہری نے تحریفات عاشورا کے خلاف کتابیں تحریر کی ہیں:

  • لؤلؤ و مرجان: محدث نوری کی یہ کتاب عاشورا کے بارے میں لوگوں کے درمیان رائج آداب و رسوم کے بارے میں تحریر کی ہیں۔ محدث نوری نے اس کتاب کو سنہ 1319ھ کے اواخر میں اپنی وفات سے ایک سال قبل مکمل کی ہیں۔ کتاب لؤلؤ و مرجان کے اکثر مطالب فاضل دربندی کی کتاب اکسیر العبادہ فی اسرار الشہادہ کی تنقید پر مشتمل ہے۔ بعض جگہوں پر ملا حسین کاشفی کی کتاب روضۃ الشہدا پر بھی تنقید کی گئی ہے۔[61]
  • حماسہ حسینی: یہ کتاب شہید مطہری نے تحریر کی ہیں جس میں تحریفات کو معنوی اور لفظی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شہید مطہری کے مطابق قیام امام حسینؑ کے مقصد کو بھول جانا اور اس کی عوامانہ تفسیر معنوی تحریف میں شمار ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں لفظی تحریفات کے بعض نمونے بھی ذکر کئے گئے ہیں۔[62]

اسی طرح صالحی نجف‌ آبادی نے کتاب شہید جاوید میں قیام امام حسینؑ کے اکثر معنوی تحریفات کا ذکر کیا ہے۔ علی شریعتی نے بھی اپنی کتابوں میں قیام امام حسینؑ پر کی جانے والی تجزیہ اور تحلیل اور بعض آداب و رسوم پر تنقید کی ہیں۔

حوالہ جات

  1. مطہری، حماسہ حسینی، صدرا، ج۱، ص۷۰۔
  2. مطہری، حماسہ حسینی، صدرا، ج۱، ص۶۶۔
  3. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۶۔
  4. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۳۔
  5. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۴۔
  6. سلطانی، «گزارش‌ہاى نادرست از حادثہ کربلا»، ص۶۸-۷۱۔
  7. فاطمی، «منابع تحریف‌گستر در حادثہ عاشورا»، ص۵۳-۵۴۔
  8. ملاحظہ کریں: صحتی سرورودی، عوامل تحریف در تاریخ عاشورا، ص۲۹-۳۶۔
  9. مطہری، انسان کامل، ص۱۳۰-۱۳۱، ۲۴۰-۲۴۴۔
  10. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی۔ ص۴۲۳۔
  11. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی۔ ص۴۲۵۔
  12. مطہری، حماسہ حسینی، ج۲، ص۲۱۸۔
  13. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی، ۱۳۸۵ش، ص۴۳۱۔
  14. محدثی، فرہنگ عاشورا، ١٣٧٤ش، ص٤٧١ـ٤٧٢۔
  15. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۰-۲۶۱۔
  16. قمی، منتہی آلامال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۷۸۷، پانویس۱۔
  17. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی، ص۴۳۷۔
  18. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۱۴۴۔
  19. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۱۴۴۔
  20. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۱۶-۲۱۸۔
  21. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۱۸۔
  22. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ق، ص۲۲۰۔
  23. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۳۸۔
  24. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۵۲۔
  25. کاشفی، روضۃ الشہداء، نوید اسلام، ص۴۳۱۔
  26. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۳۷۔
  27. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۳۷۔
  28. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۳۸۔
  29. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۳۸۔
  30. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۵۲۔
  31. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۱۔
  32. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۶۱۔
  33. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۱۴۴۔
  34. قمی، منتہی آلامال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۶۹۱، پانویس۲۔
  35. قمی، منتہی آلامال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۷۵۲۔
  36. قمی، منتہی آلامال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۹۳۸۔
  37. قمی، منتہی آلامال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۱۰۰۸۔
  38. قمی، منتہی آلامال، ۱۳۷۹ش، ج۲، ص۹۲۲۔
  39. مجموعہ آثار شہید مطہری، ج۱۷، ص۲۵۶۔
  40. مجموعہ آثار شہید مطہری، ج۱۷، ص۵۸۵۔
  41. مجموعہ آثار شہید مطہری، ج۱۷، ص۵۸۶۔
  42. صالحی نجف‌آبادی، نگاہی بہ حماسہ حسینی استاد مطہری، ۱۳۸۴ش، ص۳۴۴۔
  43. صالحی نجف‌آبادی، نگاہی بہ حماسہ حسینی استاد مطہری، ۱۳۸۴ش، ص۳۴۸۔
  44. صالحی نجف‌آبادی، نگاہی بہ حماسہ حسینی استاد مطہری، ۱۳۸۴ش، ص۳۶۲۔
  45. قزوینی، الامام الحسین و اصحابہ، ۱۴۱۵ق، ص۳۶۔
  46. قزوینی، الامام الحسین و اصحابہ، ۱۴۱۵ق، ص۳۶۔
  47. قزوینی، الامام الحسین و اصحابہ، ۱۴۱۵ق، ص۱۷۵۔
  48. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی، ۱۳۸۵ش، ص۱۱۹۔
  49. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی، ۱۳۸۵ش، ص۱۱۹۔
  50. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی، ۱۳۸۵ش، ص۱۱۹۔
  51. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی، ۱۳۸۵ش، ص۱۲۰۔
  52. صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی، ۱۳۸۵ش، ص۱۱۸-۱۱۹۔
  53. رجوع کریں: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام حسین، ج۱، ص۹۵-۱۰۶۔
  54. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۱۱۔
  55. نوری، لؤلؤ و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۵۲۔
  56. نوری، لولو و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۵۴؛ مطہری، حماسہ حسینی، صدرا، ج۱، ص۷۰۔
  57. نوری، لولو و مرجان، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۰؛ مطہری، مجموعہ آثار، ج۱۷، ص۵۹۱۔
  58. فاطمی، «منابع تحریف‌گستر در واقعہ عاشورا»، ص۶۱-۶۲۔
  59. آلاندوزلی، «کتابشناسی توصیفی- انتقادی پیرامون تحریف‌ہای عاشورا»، ص۱۶۰-۱۷۰۔
  60. پیشینہ و جریان‌شناسی مبارزہ با آسیب‌ہای فرہنگ عاشورا، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  61. پیشینہ و جریان‌شناسی مبارزہ با آسیب‌ہای فرہنگ عاشورا، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  62. مطہری، حماسہ حسینی، صدرا، ج۱، ص۶۷۔

مآخذ

  • آلاندوزلی، محمد، «کتابشناسی توصیفی-انتقادی پیرامون تحریف‌ہای عاشورا»، آینہ پژوہش، شمارہ ۷۷ و ۷۸، آذر و اسفند ۱۳۸۱ش۔
  • قاضی طباطبایی، سید محمدعلی، تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہداء، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۸۳ش۔
  • محمد صحتی سردرودی، عاشوراپژوہی با رویکردی بہ تحریف‌شناسی تاریخ امام حسین(ع)، قم، خادم الرضا، چاپ دوم، ۱۳۸۵ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار شہید مطہری، ج۱۷۔
  • سلطانی، محمدعلی، «گزارش‌ہاى نادرست از حادثہ کربلا»، آینہ پژوہش، شمارہ۷۷-۷۸، آذر و اسفند ۱۳۸۱ش۔
  • قزوینی، فضل‌علی، الامام الحسین و اصحابہ، تحقیق احمد حسینی اشکوری، قم، محمود شریعت المہدوی، ۱۴۱۵ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الامال فی تواریخ النبی و الآل، قم، دلیل ما، ۱۳۷۹ش۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، نشر معروف، قم، ١٣٧٤ش۔
  • نوری، میرزا حسین، لؤلؤ و مرجان در شرط پلہ اول و دوم روضہ‌خوانان، آفاق، تہران، ۱۳۸۸ش۔
  • فاطمی، سید حسن، «منابع تحریف‌گستر در حادثہ عاشورا»، کتاب‌ہای اسلامی، شمارہ ۱۷، تابستان ۱۳۸۳ش۔
  • صالحی نجف‌آبادی، نعمت‌اللہ، نگاہی بہ حماسہ حسینی استاد مطہری، تہران، کویر، ۱۳۸۴ش۔
  • پیشینہ و جریان‌شناسی مبارزہ با آسیب‌ہای فرہنگ عاشورا، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، مجلہ پگاہ حوزہ، بیست نہم فروردین ۱۳۸۶، شمارہ ۱۲۷۔
  • جریان‌شناسی تاریخی قرائت‌ہا و رویکردہای تاریخی عاشورا، پاتوق کتاب فردا، تاریخ بازدید: ۲۱ دی ۱۳۹۹ش۔