نور العین فی مشہد الحسین (کتاب)
نور العین فی مشہد الحسین عربی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جسے شافعی مذہب کے فقیہ ابراہیم بن محمد اسفرائنی نے مقتل امام حسینؑ کے بارے میں تحریر کی ہے۔ وہ ابو اسحاق اسفرائینی (متوفی: 417 یا 418ھ) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اس کتاب کی نسبت اسفرائنی کی جانب دیے جانے میں شک پایا جاتا ہے۔ عاشورا کے موضوع سے متعلق تحقیق کرنے والے اکثر محققین اس کتاب کو صراحت کے ساتھ جعلی قرار دیتے ہیں۔
اسفرائنی کی طرف اس کتاب کی نسبت
بعض علما جیسے آقا بزرگ تہرانی[1]، اسماعیل پاشا بغدادی[2] اور والیان سرکیس[3] اسے ابو اسحاق افرائنی کی کتاب مانتے ہیں؛ لیکن ان میں سےکسی ایک نے بھی قدیمی منابع میں ابو اسحاق کے زندگی نامے میں اس کتاب کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔[4] سید عبد العزیز طباطبائی "اہل البیت فی المکتبہ العربیہ" میں لکھتے ہیں: [5] میں سید عبد العزیز طباطبائی کہتے ہیں : میں احتمال دیتا ہوں کہ یہ کتاب خود ساختہ اور جعلی ہے ، ابو اسحاق اسفرائنی کی طرف صرف نسبت دی گئی ہے۔ کیونکہ اس کتاب کا طرز تحریر چوتھی صدی کے متون کے طرز تحریر سے سازگاری نہیں رکھتا ہے۔[6]
کتاب کے مندرجات
کتاب "نور العین فی مشہد الحسینؑ" میں نہ عناوین موجود ہیں اور نہ ہی فصل بندی۔ اس میں مذکور مطالب اور اقوال کسی بھی مستند سے خالی ہیں۔ کسی بھی واقعہ کو شروع کرنے سے پہلے صرف "قال الراوی" کہہ کر شروع کیا ہے۔ اس نکتے کو مد نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب داستان گوئی اور عوام پسندانہ تحریر پر مشتمل ہے۔
کتاب میں مذکور پہلا مطلب ایک حدیث سے متعلق ہے جس کے مطابق ابن عباس نے رسول خداؐ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: بہترین صدی وہ ہے جس میں زندگی کرنے والوں نے رسول خدا کو دیکھا ہے اور آپؐ پر ایمان لایا ہے، جیسا کہ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 110 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "تم بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی راہنمائی) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔" مصنف نے اس صدی کی مدت کے سلسلے میں چند نظریے بیان کیے ہیں اور سو سال کی مدت والے نظریے کو درست ترین نظریہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصریح کہی ہے کہ پہلی صدی میں زندگی کرنے والوں کا افضل و برتر ہونا مطلق اور ہر لحاظ سے نہیں۔[7] کتاب کے اختتامیے میں قیام مختار کے دوران ابراہیم بن مالک اشتر کی اسارت اور دشمنوں کے ہاتھوں سے اس کے رہا ہونے کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے۔[8]
کتاب پر کی گئی نقدیں
منقول ہے کہ مرزا محمد ارباب "اربعین حسینیہ" میں کہتے ہیں :نور العین غیر معتبر اور اس کا مؤلف مجہول ہے[9]۔
سید محمد علی قاضی طباطبائی چند مقامات پر اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: اسفرائینی کا بیان کردہ مقتل سندی لحاظ سے نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار ہے[10] مقتل اسفرائنی جعلی اور ضعیف ہونے میں مقتل ابی مخنف کی مانند ہے۔[11] قاضی طباطبائی اس کتاب کو جعلی مطالب سے بھر پور سمجھتے ہوئے اسے قصہ گویوں کی باتیں قرار دیتے ہیں۔[12]۔
الامام الحسین و اصحابہ نامی کتاب کے مصنف فضل علی قزوینی لکھتے ہیں: جو بھی نور العین کے مقتل کو دیکھے گا وہ اس کتاب میں موجود جھوٹے مطالب کو جان لے گا نیز اس کتاب میں ایسے مخالف مطالب کو پائے گا جن پر سنی اور شیعہ دونوں اتفاق نظر رکھتے ہیں۔ اس کی نقل کی ہوئی چیزیں ہمارے لئے مہم نہیں ہیں جو چاہتا ہے اسے دیکھ لے کیونکہ جو کوئی بھی اس مقتل سے ایسی خبر نقل کرے جو کسی اور نے نقل نہ کی ہو ہم اسے قابل اعتبار نہیں سمجھتے ہیں۔[13]
عاشورا کے موضوع پر تحقیق کرنے والے بعض محققین لکھتے ہیں: اس کتاب میں عجیب و غریب جھوٹ اور خلاف عقل باتیں فراوان پائی جاتی ہیں کہ کوئی بھی ابو اسحاق جیسے برجستہ شافعی فقیہ کی طرف اس کی نسبت نہیں دے سکتا ہے۔[14]
تحریف کے چند نمونے
نور العین نامی کتاب کے ذریعے واقعہ عاشورا میں داخل ہونے والیں تحریفات:
- امام حسین مدینے سے مکہ گئے تھے واپس مدینہ آئے اور وہاں سے کوفہ اور کربلا گئے۔
- امام حسینؑ کے اصحاب شب عاشور امام کو تنہا چھوڑ کر عمر بن سعد کے لشکر سے جا ملے۔
- حضرت زینب(س) نے اپنے بھائی کے سر کو نیزہ پر دیکھ کر محمل پر سر مارا جس سے آپؑ کا سر زخمی ہوگیا۔[15]
مختلف نسخہ جات
محقق طباطبائی نے کتاب نورالعین کے چند نسخہ جات کو اس طرح بیان کیا ہے:
- نسخہ کتب خانہ مدرسہ سپہسالار، تہران
- جامعہ کمبریج میں موجود نسخہ
- ایران کے قومی کتاب خانے میں موجود نسخہ
- تہران یونیورسٹی کے مرکزی کتب خانے میں موجود نسخہ۔[16]
حوالہ جات
- ↑ الذریعه، ج17، ص72و73۔
- ↑ هدیة العارفین، ج1، ص8۔
- ↑ معجم المطبوعات العربیہ"
- ↑ ریشهری، دانشنامه امام حسین(ع)، 1388ہجری شمسی، ج1، ص97۔
- ↑ اهل البیت فی المکتبہ العربیہ، ص655۔
- ↑ طباطبایی، اهل البیت فی المکتبة العربیة، 1417ھ، ص655۔
- ↑ اسفراینی، نور العین، تونس چاپ منار، ج1، ص3۔
- ↑ اسفراینی، نور العین، تونس چاپ منار، ج1، ص108-112
- ↑ سید حسن فاطمی، منابع تحریف گستر در حادثہ عاشورا به نقل از اربعین حسینیہ، ص272۔
- ↑ تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشہدا، ص32۔
- ↑ تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشہدا، ص42۔
- ↑ تحقیق درباره اول اربعین حضرت سید الشہدا، ص352۔
- ↑ الامام الحسین و اصحابه، ج، ص150۔
- ↑ سید حسن فاطمی، منابع تحریف گستر در حادثه عاشورا۔
- ↑ محمد صحتی سردرودی، تحریف شناسی تاریخ امام حسین با رویکردی کتابشناسانہ۔
- ↑ طباطبایی، اهل البیت فی المکتبة العربیة، ھ، ص655۔
مآخذ
- طباطبایی، عبدالعزیز، أهل البیت فی المکتبة العربیة، قم، آل البیت، 1417ھ۔
- تهرانی، آقابزرگ، الذریعه، بیروت، دارالاضواء۔
- قاضی طباطبائی، سید محمدعلی، تحقیق درباره اول اربعین حضرت سیدالشهداء(ع)، تهران، وزارت ارشاد، 1383ہجری شمسی۔
- ریشهری، محمد، دانشنامه امام حسین (ع)، قم، دار الحدیث، 1388ہجری شمسی۔
- ارباب، محمدتقی، اربعین حسینیه، انتشارات اسوه، 1372ہجری شمسی۔
- قزوینی، فضلعلی، الامام الحسین و اصحابه، قم، 1415ھ۔
- بغدادی، اسماعیل پاشا، هدیة العارفین، بیروت، دار إحیاء التراث العربی۔
- الیان سرکیس، معجم المطبوعات العربیة، قم، کتابخانه آیتالله مرعشی، 1410ھ۔
- صحتی سردرودی، محمد، تحریفشناسی تاریخ امام حسین(ع) با رویکردی کتابشناسانه، کتابهای اسلامی، پاییز 1383، شماره 18۔
- فاطمی، سید حسن، منابع تحریفگستر در حادثه عاشورا، کتابهای اسلامی، تابستان 1383، شماره 17۔