امام حسن کے نام امام علی کا خط

ویکی شیعہ سے
(امام حسن(ع)کے نام سے رجوع مکرر)

امام حسنؑ کے نام امامؑ علی کا خط، اخلاقی اور توحیدی نکات پر مشتمل ہے جسے امیر المؤمنینؑ حضرت علیؑ نے جنگ صِفّین سے واپسی پر اپنے بیٹے امام حسنؑ کے نام تحریر کیا۔یہ خط اخلاقی اور تربیتی مسائل کو بیان کرنے میں ایک جامع تحریر ہے۔ اس خط میں مطرح شدہ بعض اہم مسائل کچھ یوں ہیں: خودسازی کے مراحل اور اخلاقی فضائل، سماجی اخلاق، اولاد کی تربیت اور اس کی کا طریقہ کار، معنونیات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت اور سماجی روابط کے معیارات۔

محققین کے مطابق اس خط میں ایسے اصول، اہداف اور طریقوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کا حصول امام علیؑ کے ترجیحات میں سے تھا؛ من جملہ ان میں اخلاق الہی سے متخلق ہونا، اوامر و نواہی الہی کا ملتزم ہونا، انسانی کرامت اور انفرادی خصوصیات کی طرف توجہ دینا، اعتدال اور تدبر و تعقل کو زندگی کا سرلوحہ قرار دینا، موعظہ، عملی نمونہ فراہم کرنا اور تاریخ سے عبرت‌ لینا۔

اس مکتوب کے بعض حصوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ یہ خط ائمہ کی عصمت کے ساتھ ناسازگار ہے؛ البتہ اس ادعا کے جواب میں اس بات کی تأکید کی گئی ہے کہ اگرچہ یہ خط امام حسنؑ کے نام تحریر کیا گیا ہے؛ لیکن حقیقت میں امام علیؑ نے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب قرار دیا ہے کیونکہ اگر امام علیؑ کا مقصد صرف امام حسنؑ ہوتا تو بہت عمیق مسائل پر مشتمل ہوتا جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتا۔

یہ وصیت‌ نامہ امام علیؑ کے مشہور خطوط میں سے ایک ہے جو نہج‌ البلاغہ کے علاوہ اس سے پہلے والے منابع میں بھی نقل ہوا ہے۔ اس خطبے کے مختلف اسناد اور عظیم مضامین کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء اس خطبے کو سند کے اعتبار سے معتبر قرار دیتے ہیں۔ نہج البلاغہ کے ترجموں اور شروحات کے علاوہ اس خط کا مستقل ترجمے اور شروحات بھی منظر عام پر آگئی ہے جن میں محمد تقی مصباح یزدی کی کتاب پند جاوید اور سید محمد محسن حسینی طہرانی کی کتاب حیات جاوید کا نام لیا جا سکتا ہے۔

معرفی اور اہمیت

شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید


امام حسنؑ کے نام امام علیؑ کا خط نہج البلاغہ کے مکتوبات میں سے ایک ہے جس میں اخلاقی مسائل کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔[1] بعض محققین اس خط کو نفس کی تربیت، خودسازی اور سیر و سلوک کا ایک مکمل دورہ[2] بلکہ تربیت کا ایک مکمل دایرۃ المعارف قرار دیتے ہیں۔[3] اس خط کے شارع محمد تقی مصباح یزدی اس بات کے معتقد ہیں کہ اس خط میں موجود اعلی اسلامی معارف کے علاوہ امام علیؑ نے اس خط میں مذکورہ مطالب کو بیان کرنے میں تربیتی اور نفسیاتی نکات کی بھی رعایت کی ہے۔[4]

نہج البلاغہ میں سید رضی کے مطابق امام علیؑ نے اس خط کو جنگ صِفّین (سنہ 37ھ[5]) سے واپسی پر «حاضِرِین» یا «حاضِرَیْن» (شام کا ایک علاقہ[یادداشت 1]) کے مقام پر تحریر کیا ہے۔[6] اگرچہ نہج‌ البلاغہ اور دیگر اکثر منابع میں[7] اس وصیت کا مخاطب امام حسنؑ کو قرار دیا گیا ہے،[8] لیکن بعض نسخوں کے مطابق اس خط کا مخاطب محمد حنفیہ تھا۔[9] اسی طرح دیگر منابع میں ذکر شدہ مطالب کے مطابق نہج‌ البلاغہ کے 31ویں مکتوب کے بعض حصوں کا مخاطب امام حسنؑ اور بعض حصوں کا مخاطب محمد حنفیہ تھا۔[10]

بعض محققین کے مطابق اس خط کو امام علیؑ نے کچھ مقاصد کی خاطر تحریر کیا تھا جن تک رسائی کے لئے آپ نے مختلف اصول اور طریقوں سے مدد لیا ہے۔[11] یہ اہداف، اصول اور طریقے درج ذیل ہیں:

  • اہداف: اخلاق الہی سے متخلق ہونا، خدا کی معرفت اور شناخت، خودسازی، زہد، صبر اور اوامر ور نواہی الہی کا ملتزم ہونا؛
  • اصول: کرامت، انفرادی خصوصیات، اعتدال، تعقل، تفکر اور تدبر؛
  • طریقے: تذکُّر، موعظہ، عملی نمونہ پیش کرنا، محبت، عبرت‌ لینا، توبہ، مراقبہ اور محاسبہ؛[12]

نہج‌ البلاغہ کے اکثر نسخوں میں یہ خط مکتوبات کی ترتیب میں 31ویں نمبر پر ہے:[13]

نسخے کا نام خط نمبر[14]
المعجم المفہرس، صبحی صالح، فیض الاسلام، خوئی، ملاصالح، ابن ابی الحدید، ابن میثم، عبدہ، ذیشان حیدر جوادی (اردو) 31
ملافتح اللہ 34
فی ظلال، مفتی جعفر حسین (اردو) 30

خط کا مضمون اور ائمہ کی عصمت میں سازگاری

نہج البلاغہ کے 31ویں مکتوب کے بعض مطالب کو ائمہ کی عصمت کے ساتھ ناسازگار قرار دیا گیا ہے۔[15] نہج البلاغہ کے اہل سنت شارح ابن‌ ابی‌ الحدید اس بات کے معتقد ہیں کہ «أَوْ أَنْ أُنْقَصَ فِی رَأْیِی» (یعنی: اس سے پہلے کہ میری رائ میں کوئی نقص پیش آئے) ک تعبیر اس خط کے تحریر کرنے والے یعنی امام علیٌ کی عصمت جبکہ «یَسْبِقَنِی إِلَیْکَ بَعْضُ غَلَبَاتِ الْہَوَی وَ فِتَنِ الدُّنْیَا» (یعنی: اس سے پہلے کہ ہوا و ہوس اور دنیا کے فتنے تم پر ہجوم لے آئے) کی تعبیر اس کے مخاطب یعنی امام حسن کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہے؛ کیونکہ ان تعابیر کے مطابق امام علیؑ کی رائ تغییر پذیر ہے اور اسی طرح امام حسنؑ ہوا و ہوس سے متأثیر ہونے کا امکان ہے۔[16]

اس ناسازگاری کی توجیہ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ اس خط کا ظاہری مخاطب امام حسنؑ ہیں لیکن حقیقت میں یہ خط تمام بنی نوع انسان کو مخاطب قرار دیتا ہے[17] اور امام علیؑ نے عام انسانوں کی طرح باپ اور بیٹے کے لحاظ سے یہ خط تحریر کیا ہے؛ کیونکہ اگر امام علیؑ ایک معصوم ہونے کے ناطے دوسرے معصوم کے نام خط لکھتے تو ممکن تھا یہ خط ایسے عظیم مطالب پر مشتمل ہوتے جو عام انسانوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتے جس کا عام انسانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔[18]

سند

شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ مکاری شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 31 کو امام علیؑ کی طرف نسبت دینے میں کوئی شک و تردید نہیں ہے؛ کیونکہ ایک طرف سے وصیت‌ نامہ مختلف اسناد کا حامل ہے اور دوسری طرف سے اس کے مضامین بہت بلند و بالا ہیں کہ جن کا بیا سوائے معصومینؑ کے کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔[19]یہ وصیت شیعوں کے پہلے امام کی مشہور وصیتوں میں سے ہے جسے سید رضی سے پہلے والے علماء نے بھی نقل کیا ہے؛[20] من جملہ ان میں:

  1. محمد بن یعقوب کلینی (متوفی:: 328ھ) کتاب الرسائل[21] اور کافی؛[22] میں
  2. حسن بن عبد اللہ عسکری جو کہ شیخ صدوق کے اساتید میں سے تھے نے کتاب الزَّواجِر و الْمَواعظ میں؛[23]
  3. اِبن‌عَبدِرَبّہ، اہل‌ سنت علماء میں سے تھے (متوفی: 328ق) جنہوں نے کتاب العِقدُ الفَرید میں؛[24]
  4. شیخ صدوق (متوفی:: 381ق) نے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں؛[25]
  5. اِبن شُعبہ حَرّانی (چودہویں صدی کے علماء میں سے تھے) نے کتاب تُحَفُ‌الْعُقول میں۔[26]

مضامین

یہ خط اخلاق کے موضوع پر امام علی کی طرف سے اپنے بیٹے امام حسن کے نام لکھا گیا ہے۔ [27] من جملہ اس خط میں ذکر کئے گئے مطالب میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • مراحل خودسازی
  • سماجی اخلاق
  • اولاد کی تربیت اور اس کا طریقہ
  • معنویات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت
  • آخرت پر ایمان کی ضرورت
  • سماجی تعقلات کے معیارات
  • آخرت کے لئے سامان جمع کرنے کی کوشش
  • خدا کی رحمت کی نشانی
  • شرایط اجابت دعا
  • موت کو یاد کرنے کی ضرورت
  • دنیا پرستوں کی شناخت
  • زندگی میں واقع نگری کی ضرورت
  • دوستوں کے حقوق
  • اخلاقی اقدار
  • عورتوں کا مقام۔[28]
کتاب پند جاوید، نہج‌ البلاغہ کے 31ویں مکتوب کی شرح، تحریر: محمد تقی مصباح یزدی

ترجمے اور شروحات

نہج البلاغہ کے مکمل ترجموں اور شروحات کے علاوہ اس خط کا فارسی اور عربی میں مستقل ترجمے اور شروحات بھی لکھی گئ ہے جن میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:

  • پند جاوید، فارسی شرح، تحریر محمدتقی مصباح یزدی؛[29]
  • حیات جاوید، فارسی شرح، تحریر سید محمدمحسن حسینی طہرانی؛[30]
  • فرزندم این چنین باید بود، تحریر اصغر طاہرزادہ؛[31]
  • حکمت و معیشت‌، تألیف عبدالکریم سروش‌؛[32]
  • علی و استمرار انسان، تحریر سید عبدالمجید فلسفیان؛[33]
  • تعلیم و تربیت در نہج البلاغہ، تحریر عبدالمجید زَہادت؛[34]
  • بہ سوی مدینہ فاضلہ، فارسی شرح، تحریر علی کریمی جہرمی‌۔[35]
  • آموزہ‌ہای تربیتی نامہ امام علیؑ بہ امام حسنؑ، تحریر محمدیونس عارفی؛[36]
  • مہربان‌ترین نامہ، تحریر سید علاءالدین موسوی اصفہانی؛[37]
  • آیین زندگی، تألیف سید مہدی شجاعی؛[38]
  • توصیہ‌ہای پدرانہ، ترجمہ محمد دشتی؛[39]
  • نَمی از یَمی، ترجمہ کرم‌خدا امینیان و علی افراسیابی؛[40]
  • بہ پسرم، ترجمہ فاطمہ شہیدی؛[41]
  • نامہ حکیمانہ،‌ ترجمۀ علیرضا علی‌دوست؛[42]

متن اور ترجمہ

خطبہ کا متنترجمہ: ذیشان حیدر جوادی
لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیؑ، کَتَبَها إلَیْهِ «بِحاضِرَیْنِ» عِنْدَ انْصِرافِهِ مِنْ صِفینجنگ صفین کے بعد حاضرین کی سرزمین سے واپس آتے ہوئے امام علیؑنے حسن بن علیؑ کے نام لکھا۔
مِنَ الْوَالِدِ الْفَانِ، الْمُقِرِّ لِلزَّمَانِ، الْمُدْبِرِ الْعُمُرِ، الْمُسْتَسْلِمِ لِلدُّنْیا، السَّاكِنِ مَسَاكِنَ الْمَوْتَی، وَالظَّاعِنِ عَنْهَا غَداً;

إِلَی الْمَوْلُودِ الْمُؤَمِّلِ مَا لایدْرِكُ، السَّالِكِ سَبِیلَ مَنْ قَدْ هَلَكَ، غَرَضِ الاَْسْقَامِ، وَ رَهِینَةِ الاَْیامِ، وَ رَمِیةِ الْمَصَائِبِ، وَ عَبْدِ الدُّنْیا، وَ تَاجِرِ الْغُرُورِ، وَ غَرِیمِ الْمَنَایا، وَأَسِیرِ الْمَوْتِ، وَحَلِیفِ الْهُمُومِ، وَقَرِینِ الاَْحْزَانِ، وَنُصُبِ الاْفَاتِ، وَصَرِیعِ الشَّهَوَاتِ، وَخَلِیفَةِ الاَْمْوَاتِ.

یہ وصیت ایک ایسے باپ کی ہے۔جو فنا ہونے والا اور زمانہ کے تصرفات کا اقرار کرنے والا ہے۔جس کی عمر خاتمہ کے قریب ہے اور وہ دنیا کے مصائب کے سامنے کھڑا ہے۔مرنے والوں کی بستی میں مقیم ہے اور کل یہاں سے کوچ کرنے والا ہے ۔ اس فرزند کے نام جو دنیا میں وہ امیدیں رکھے ہوئے ہے جو حاصل ہونے والی نہیں ہیں اور ہلاک ہو جانے والوں کے راستے پر گامزن ہے ' بیماریوں کا نشانہ اور روز گار کے ہاتھوں گوی ہے۔مصائب زمانہ کا ہدف اور دنیا کا پابند ہے۔اس کی فریب کاریوں کا تاجر اوروت کا قرضدار ہے۔اجل کا قیدی اور رنج و غم کا ساتھی مصیبتوں کا ہمنشیں ہے اورآفتوں کا نشانہ ' خواہشات کا مارا ہوا ہے اور مرنے والوں کا جانشین۔
أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ فِیمَا تَبَینْتُ مِنْ إِدْبَارِ الدُّنْیا عَنِّی، وَجُمُوحِ الدَّهْرِ عَلَیَّ، وَإِقْبَالِ الاْخِرَةِ إِلَیَّ، مَا یزَعُنِی عَنْ ذِکْرِ مَنْ سِوَای، وَالاِْهْتِمَامِ بِمَا وَرَائِی،

غَیرَ أَنِّی حَیثُ تَفَرَّدَ بی‌دُونَ هُمُومِ النَّاسِ هَمُّ نَفْسِی، فَصَدَفَنِی رَأْیی، وَصَرَفَنِی عَنْ هَوَای، وَصَرَّحَ لِی مَحْضُ أَمْرِی، فَأَفْضَی بی‌إِلَی جِدّ لایكُونُ فِیهِ لَعِبٌ، وَصِدْق لایشُوبُهُ كَذِبٌ. وَ وَجَدْتُكَ بَعْضِی، بَلْ وَجَدْتُكَ كُلِّی، حَتَّی كَأَنَّ شَیئاً لَوْ أَصَابَكَ أَصَابَنِی، وَكَأَنَّ الْمَوْتَ لَوْ أَتَاكَ أَتَانِی، فَعَنَانِی مِنْ أَمْرِكَ مَا یعْنِینِی مِنْ أَمْرِ نَفْسِی، فَكَتَبْتُ إِلَیكَ كِتَابِی مُسْتَظْهِراً بِهِ إِنْ أَنَا بَقِیتُ لَكَ أَوْ فَنِیتُ.

اما بعد! میرے لئے دنیا کے منہ پھیر لینے ۔زمانہ کے ظلم و زیادتی کرنے اورآخرت کے میری طرف آنے کی وجہ سے جن باتوں کا انکشاف ہو گیا ہے انہوں نے مجھے دوسروں کے ذکر اور اغیار کے اندیشہ سے روک دیا ہے۔مگر جب میں تمام لوگوں کی فکر سے الگ ہو کر اپنی فکر میں پڑا تو میری رائے نے مجھے خواہشات سے روک دیا اور مجھ پرواقعی حقیقت منکشف ہو گئی جس نے مجھے اس محنت و مشقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کا کیل نہیں ہے اور اس صداقت تک پہنچا دیا جس میں کسی طرح کی غلط بیانی نہیں ہے۔میں نے تم کو اپنا ہی ایک حصہ پایا بلکہ تم کو اپنا سراپا وجود سمجھا کہ تمہاری تکلیف میری تکلیف ہے اور تمہاری موت میری موت ہے اس لئے مجھے تمہارے معاملات کی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنے معاملات کی ہوتی ہے اور اسی لئے میں نے یہ تحریر لکھی دی ہے جس کے ذریعہ تمہاری امداد کرنا چاہتا ہوں چاہیے میں زندہ رہوں یا مر جاؤں۔
فَإِنِّی أُوصِیكَ بِتَقْوَی اللهِ أَی بُنَی وَلُزُومِ أَمْرِهِ، وَعِمَارَةِ قَلْبِكَ بِذِکْرِهِ، الاِعْتِصَامِ بِحَبْلِهِ. وَأَی سَبَب أَوْثَقُ مِنْ سَبَب بَینَكَ وَبَینَ اللهِ إِنْ أَنْتَ أَخَذْتَ بِهِ. فرزند! میں تم کو خوف خدا اور اس کے احکام کی پابندی کی وصیت کرتا ہوں۔اپنے دل کواس کی یاد سے آباد رکھنا اوراس کی ریسمان ہدایت سے وابستہ رہنا کہ اس سے زیادہ مستحکم کوئی رشتہ تمہارے اور خدا کے درمیان نہیں ہے۔
أَحْی قَلْبَكَ بِالْمَوْعِظَةِ، وَأَمِتْهُ بِالزَّهَادَةِ، وَقَوِّهِ بِالْیقِینِ، وَنَوِّرْهُ بِالْحِکْمَةِ، ذَلِّلْهُ بِذِکْرِ الْمَوْتِ، وَقَرِّرْهُ بِالْفَنَاءِ، وَبَصِّرْهُ فَجَائِعَ الدُّنْیا، وَحَذِّرْهُ صَوْلَةَ الدَّهْرِ وَ فُحْشَ تَقَلُّبِ اللَّیالِی وَالاَْیامِ،

وَ اعْرِضْ عَلَیهِ أَخْبَارَ الْمَاضِینَ، ذَكِّرْهُ بِمَا أَصَابَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ مِنَ الاَْوَّلِینَ، وَسِرْ فِی دِیارِهِمْ آثَارِهِمْ، فَانْظُرْ فِیمَا فَعَلُوا وَعَمَّا انْتَقَلُوا، وَأَینَ حَلُّوا وَنَزَلُوا! فَإِنَّكَ تَجِدُهُمْ قَدِ انْتَقَلُوا عَنِ الاَْحِبَّةِ، وَحَلُّوا دِیارَ الْغُرْبَةِ، وَكَأَنَّكَ عَنْ قَلِیل قَدْ صِرْتَ كَأَحَدِهِمْ.

اپنے دل کو موعظہ سے زندہ رکھنا اور اس کے خواہشات کو زہد سے مردہ بنا دینا۔اسے یقین کے ذریعہ مضبوط رکھنا اور حکمت کے ذریعہ نورانی رکھنا۔ذکر موت کے ذریعہ رام کرنااور فنا کے ذریعہ قابو میں رکھنا۔دنیا کے حوادث سے آگاہ رکھنا اور زمانہ کے حملہ اور لیل و نہار کے تصرفات سے ہوشیار رکھنا۔اس پر گذشتہ لوگوں کے اخبار کو پیش کرتے رہنا اور پہلے والوں پر پڑنے والے مصائب کو یاد دلاتے رہنا۔ان کے دیار و آثار کے سفر میں سر گرم رہنا اور دیکھتے رہنا کہ انہوں نے کیا کیا ہے اور کہاں سے کہاں چل گئے ہیں۔کہاں داخل ہوئے ہیں اور کہاں ڈیرہ ڈالا ہے۔پھر تم دیکھو گے کہ وہ احباب کی دنیا سے منتقل ہوگئے ہیں اور دیار غربت میں وارد ہو گئے ہیں اور گویا کہ عنقریب تم بھی انہیں میں شامل ہو جاؤ گے۔
فَأَصْلِحْ مَثْوَاكَ، وَلاَ تَبِعْ آخِرَتَكَ بِدُنْیاكَ; وَدَعِ الْقَوْلَ فِیمَا لاتَعْرِفُ، الْخِطَابَ فِیمَا لَمْ تُكَلَّفْ. وَأَمْسِکْ عَنْ طَرِیق إِذَا خِفْتَ ضَلاَلَتَهُ، فَإِنَّ الْكَفَّ عِنْدَ حَیرَةِ الضَّلاَلِ خَیرٌ مِنْ رُكُوبِ الاَْهْوَالِ.

وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ تَكُنْ مِنْ أَهْلِهِ، وَأَنْكِرِ الْمُنْكَرَ بِیدِكَ وَلِسَانِكَ، وَبَاینْ مَنْ فَعَلَهُ بِجُهْدِكَ، وَجَاهِدْ فِی اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ، وَلاَ تَأْخُذْكَ فِی اللهِ لَوْمَةُ لاَئِم. وَخُضِ الْغَمَرَاتِ لِلْحَقِّ حَیثُ كَانَ، وَتَفَقَّهْ فِی الدِّینِ، وَعَوِّدْ نَفْسَكَ التَّصَبُّرَ عَلَی الْمَکْرُوهِ، وَنِعْمَ الْخُلُقُ التَّصَبُرُ فِی الْحَقِّ.

لہٰذا اپنی منزل کو ٹھیک کر لو اور خبردار آخرت کو دنیا کے عوض فروخت نہ کرنا ۔جن باتوں کو نہیں جانتے ہو ان کے بارے میں بات نہ کرنا اور جن کے مکلف نہیں ہوان کے بارے میں گفتگو نہ کرنا جس راستہ میں گمراہی کا خوف ہو ادھر قدم آگے نہ بڑھانا کہ گمراہی کے تحیر سے پہلے ٹھہر جانا ہولناک مرحلوں میں وارد ہو جانے سے بہتر ہے۔نیکیوں کا حکم دیتے رہنا تاکہ اس کے اہل میں شمار ہو اور برائیوں سے اپنے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے منع کرتے رہنا اور برائی کرنے والوں سے جہاں تک ممکن ہو دور رہنا۔راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کر دینا اور خبردار اس راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا۔حق کی خاطر جہاد بھی ہو سختیوں میں کود پڑنا۔اور دین کا علم حاصل کرنا اپنے نفس کو ناخوشگوار حالات میں صبر کا عادی بنانا اور یاد رکھنا کہ بہترین اخلاق حق کی راہ میں صبر کرنا ہے۔
وَأَلْجِئْ نَفْسَكَ فِی أُمُورِكَ كُلِّهَا إِلَی إِلَهِكَ، فَإِنَّكَ تُلْجِئُهَا إِلَی كَهْف حَرِیز، مَانِع عَزِیز. وَأَخْلِصْ فِی الْمَسْأَلَةِ لِرَبِّكَ، فَإِنَّ بِیدِهِ الْعَطَاءَ وَالْحِرْمَانَ، أَکْثِرِ الاِسْتِخَارَةَ، وَتَفَهَّمْ وَصِیتِی، وَلاَ تَذْهَبَنَّ عَنْكَ صَفْحاً، فَإِنَّ خَیرَ الْقَوْلِ مَا نَفَعَ وَاعْلَمْ أَنَّهُ لاخَیرَ فِی عِلْم لاینْفَعُ، وَلاَ ینْتَفَعُ بِعِلْم لایحِقُّ تَعَلُّمُهُ. اپنے تمام امور میں پروردگار کی طرف رجوع کرنا کہ اس طرح ایک محفوظ ترین پناہ گاہ کا سہارا لو گے اور بہترین محافظ کی پناہ میں رہو گے۔ پروردگار سے سوال کرنے میں مخلص رہنا کہ عطا کرنا اور محروم کر دینا اسی کے ہاتھ میں ہے مالک سے مسلسل طلب خیر کرتے رہنا اور میری وصیت پر غور کرتے رہنا۔اس سے پہلو بچا کر گزر نہ جانا کہ بہترین کلام وہی ہے جو فائدہ مند ہواور یاد رکھو کہ جس علم میں فائدہ نہ ہو اس میں کوئی خیر نہیں ہے اور جو علم سیکھنے کے لائق نہ ہو اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔
أَی بُنَی، إِنِّی لَمَّا رَأَیتُنِی قَدْ بَلَغْتُ سِنّاً، وَرَأَیتُنِی أَزْدَادُ وَهْناً، بَادَرْتُ بِوَصِیتِی إِلَیكَ، وَأَوْرَدْتُ خِصَالاً مِنْهَا قَبْلَ أَنْ یعْجَلَ بی‌أَجَلِی دُونَ أَنْ أُفْضِی إِلَیكَ بِمَا فِی نَفْسِی، أَوْ أَنْ أُنْقَصَ فِی رَأْیی كَمَا نُقِصْتُ فِی جِسْمِی، أَوْ یسْبِقَنِی إِلَیكَ بَعْضُ غَلَبَاتِ الْهَوَی وَفِتَنِ الدُّنْیا، فَتَكُونَ كَالصَّعْبِ النَّفُورِ.

وَإِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ كَالاَْرْضِ الْخَالِیةِ مَا أُلْقِی فِیهَا مِنْ شَیء قَبِلَتْهُ. فَبَادَرْتُكَ بِالاَْدَبِ قَبْلَ أَنْ یقْسُوَ قَلْبُكَ، وَیشْتَغِلَ لُبُّكَ، لِتَسْتَقْبِلَ بِجِدِّ رَأْیكَ مِنَ الاَْمْرِ مَا قَدْ كَفَاكَ أَهْلُ التَّجَارِبِ بُغْیتَهُ وَتَجْرِبَتَهُ، فَتَكُونَ قَدْ كُفِیتَ مَئُونَةَ الطَّلَبِ، وَعُوفِیتَ مِنْ عِلاَجِ التَّجْرِبَةِ، فَأَتَاكَ مِنْ ذَلِكَ مَا قَدْ كُنَّا نَأْتِیهِ، وَاسْتَبَانَ لَكَ مَا رُبَّمَا أَظْلَمَ عَلَینَا مِنْهُ.

میرے بیٹے! میں نے دیکھا کہ اب میری عمر بہت زیادہ ہو چکی ہے اور مسلسل کمزور ہوتا جا رہا ہوں لہٰذا میں نے فوراً یہ وصیت لکھ دی اور ان مضامین کو درج کر دیا کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے دل کی بات کہنے سے پہلے مجھے موت آ جائے یا جسم کے نقص کی طرح رائے کو کمزور تصور کیا جانے لگے یا وصیت سے پہلے ہی خواہشات کے غلبے اور دنیا کے فتنے تم تک نہ پہنچ جائیں۔ اور تمہارا حال بھڑک اٹھنے والے اونٹ جیسا ہو جائے۔ یقینا نوجوان کا دل ایک خالی زمین کی طرح ہوتا ہے کہ جو چیز اس میں ڈال دی جائے اسے قبول کر لیتا ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ تمہیں دل کے سخت ہونے اور عقل کے مشغول ہو جانے سے پہلے وصیت کر دوں تاکہ تم سنجیدہ فکر کے ساتھ اس امر کو قبول کر لو جس کی تلاش اور جس کے تجربہ کی زحمت سے تمہیں تجربہ کار لوگوں نے بچا لیا ہے۔اب تمہاری طلب کی زحمت ختم ہوچکی ہے اورتمہیں تجربہ کی مشکل سے نجات مل چکی ہے۔تمہارے پاس وہ حقائق ازخود آ گئے ہیں جن کو ہم تلاش کیا کرتے تھے اور تمہارے لئے وہ تمام باتیں واضح ہو چکی ہیں جو ہمارے لئے مبہم تھیں۔
أَی بُنَی، إِنِّی وَإِنْ لَمْ أَكُنْ عُمِّرْتُ عُمُرَ مَنْ كَانَ قَبْلِی، فَقَدْ نَظَرْتُ فِی أَعْمَالِهِمْ، فَكَّرْتُ فِی أَخْبَارِهِمْ، وَسِرْتُ فِی آثَارِهِمْ، حَتَّی عُدْتُ كَأَحَدِهِمْ; بَلْ كَأَنِّی بِمَا انْتَهَی إِلَی مِنْ أُمُورِهِمْ قَدْ عُمِّرْتُ مَعَ أَوَّلِهِمْ إِلَی آخِرِهِمْ، فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِكَ مِنْ كَدَرِهِ، وَنَفْعَهُ مِنْ ضَرَرِهِ،

فَاسْتَخْلَصْتُ لَكَ مِنْ كُلِّ أَمْر نَخِیلَهُ، وَتَوَخَّیتُ لَكَ جَمِیلَهُ، وَصَرَفْتُ عَنْكَ مَجْهُولَهُ، وَرَأَیتُ حَیثُ عَنَانِی مِنْ أَمْرِكَ مَا یعْنِی الْوَالِدَ الشَّفِیقَ، وَأَجْمَعْتُ عَلَیهِ مِنْ أَدَبِكَ أَنْ یكُونَ ذَلِكَ وَأَنْتَ مُقْبِلُ الْعُمُرِ وَمُقْتَبَلُ الدَّهْرِ، ذُو نِیة سَلِیمَة، وَنَفْس صَافِیة.

اے میرے بیٹے! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور کیا ہے اور ان کے اخبار میں فکر کی ہے اور ان کے آثار میں سیرو سیاحت کی ہے اور میں اچھائی اور برائی کو خوب پہچانتا ہوں۔نفع و ضرر میں امتیاز رکھتا ہوں۔میں نے ہر امر کی چھان پھٹک کر اس کا خالص نکال لیا ہے۔اور بہترین تلاش کر لیا ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کر دیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ تمہیں اسی وقت ادب کی تعلیم دے دوں جب کہ تم عمر کے ابتدائی حصہ میں ہو اور زمانہ کے حالات کا سامنا کر رہے ہو۔تمہاری نیت سالم ہے اور نفس صاف و پاکیزہ ہے اس لئے کہ مجھے تمہارے بارے میں اتنی ہی فکر ہے جتنی ایک مہربان باپ کو اپنی اولاد کی ہوتی ہے۔
وَأَنْ أَبْتَدِئَكَ بِتَعْلِیمِ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ وَتَأْوِیلِهِ، وَشَرَائِعِ الاِْسْلاَمِ أَحْكَامِهِ، وَحَلاَلِهِ وَحَرَامِهِ، لاأُجَاوِزُ ذَلِكَ بِكَ إِلَی غَیرِهِ. ثُمَّ أَشْفَقْتُ أَنْ یلْتَبِسَ عَلَیكَ مَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیهِ مِنْ أَهْوَائِهِمْ وَ آرَائِهِمْ مِثْلَ الَّذِی الْتَبَسَ عَلَیهِمْ، فَكَانَ إِحْكَامُ ذَلِكَ عَلَی مَا كَرِهْتُ مِنْ تَنْبِیهِكَ لَهُ أَحَبَّ إِلَی مِنْ إِسْلاَمِكَ إِلَی أَمْر لاآمَنُ عَلَیكَ بِهِ الْهَلَكَةَ، وَرَجَوْتُ أَنْ یوَفِّقَكَ اللهُ فِیهِ لِرُشْدِكَ، وَأَنْ یهْدِیكَ لِقَصْدِكَ فَعَهِدْتُ إِلَیكَ وَصِیتِی هَذِهِ۔اب میں اپنی تربیت کا آغاز کتاب خدا اور اس کی تاویل ۔قوانین اسلام اور اس کے احکام حلال و حرام سے کر رہا ہوں اور تمہیں چھوڑ کردوسرے کی طرف نہیں جانا۔پھر مجھے یہ خوف بھی ہے کہ کہیں لوگوں کے عقائد و افکار و خواہشات کااختلاف تمہارے لئے اسی طرح مشتبہ نہ ہو جائے جس طرح ان لوگوں کے لئے ہو گیا ہے لہٰذا ان کا مستحکم کر دینا میری نظر میں ا سے زیادہ محبوب ہے کہ تمہیں ایسے حالات کے حوالے کر دوں جن میں ہلاکت سے محفوظ رہنے کا اطمینان نہیں ہے۔اگرچہ مجھے یہ تعلیم دیتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا ہے۔لیکن مجھے امید ہے کہ پروردگار تمہیں نیکی کی توفیق دے گا اور سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرے گا۔اسی بنیاد پر یہ وصیت نامہ لکھ دیا ہے۔
وَاعْلَمْ یا بُنَی أَنَّ أَحَبَّ مَا أَنْتَ آخِذٌ بِهِ إِلَی مِنْ وَصِیتِی تَقْوَی اللهِ الاِقْتِصَارُ عَلَی مَا فَرَضَهُ اللهُ عَلَیكَ، وَالاَْخْذُ بِمَا مَضَی عَلَیهِ الاَْوَّلُونَ مِنْ آبَائِكَ، الصَّالِحُونَ مِنْ أَهْلِ بَیتِكَ، فَإِنَّهُمْ لَمْ یدَعُوا أَنْ نَظَرُوا لاَِنْفُسِهِمْ كَمَا أَنْتَ نَاظِرٌ، وَفَكَّرُوا كَمَا أَنْتَ مُفَكِّرٌ،

ثُمَّ رَدَّهُمْ آخِرُ ذَلِكَ إِلَی الاَْخْذِ بِمَا عَرَفُوا، الاِْمْسَاكِ عَمَّا لَمْ یكَلَّفُوا، فَإِنْ أَبَتْ نَفْسُكَ أَنْ تَقْبَلَ ذَلِكَ دُونَ أَنْ تَعْلَمَ كَمَا عَلِمُوا فَلْیكُنْ طَلَبُكَ ذَلِكَ بِتَفَهُّم وَتَعَلُّم، لابِتَوَرُّطِ الشُّبُهَاتِ، وَعُلَقِ الْخُصُومَاتِ.

فرزند! یاد رکھو کہ میری بہترین وصیت جسے تمہیں اخذ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ تقویٰ الٰہی اختیار کرو اور اس کے فرائض پر اکتفا کرو اور وہ تمام طریقے جن پر تمہارے باپ دادا اور تمہارے گھرانے کے نیک کردار افراد چلتے رہے ہیں انہیں پر چلتے رہو کہ انہوں نے اپنے بارے میں کسی ایسی فکر کو نظرانداز نہیں کیا جو تمہاری نظر میں ہے اور کسی خیال کو فرو گذاشت نہیں کیا ہے اور اسی فکرونظر نے ہی انہیں اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ معروف چیزوں کوحاصل کرلیں اور لا یعنی چیزوں سے پرہیز کریں۔اب اگر تمہارا نفس ان چیزوں کو بغیر جانے پہچانے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اس کی تحقیق باقاعدہ علم و فہم کے ساتھ ہونی چاہیے اور شبہات میں مبتلا نہیں ہونا چاہیےاور نہ جھگڑوں کا شکار ہونا چاہیے۔
وَابْدَأْ قَبْلَ نَظَرِكَ فِی ذَلِكَ بِالاِْسْتِعَانَةِ بِإِلَهِكَ، وَالرَّغْبَةِ إِلَیهِ فِی تَوْفِیقِكَ، وَتَرْكِ كُلِّ شَائِبَة أَوْلَجَتْكَ فِی شُبْهَة، أَوْ أَسْلَمَتْكَ إِلَی ضَلاَلَة.

فَإِنْ أَیقَنْتَ أَنْ قَدْ صَفَا قَلْبُكَ فَخَشَعَ، وَتَمَّ رَأْیكَ فَاجْتَمَعَ، وَكَانَ هَمُّكَ فِی ذَلِكَ هَمّاً وَاحِداً، فَانْظُرْ فِیمَا فَسَّرْتُ لَكَ، وَإِنْ لَمْ یجْتَمِعْ لَكَ مَا تُحِبُّ مِنْ نَفْسِكَ، وَفَرَاغِ نَظَرِكَ وَفِکْرِكَ، فَاعْلَمْ أَنَّكَ إِنَّمَا تَخْبِطُ الْعَشْوَاءَ، وَتَتَوَرَّطُ الظَّلْمَاءَ. وَلَیسَ طَالِبُ الدِّینِ مَنْ خَبَطَ أَوْ خَلَطَ وَالاِْمْسَاكُ عَنْ ذَلِكَ أَمْثَلُ.

اور ان مسائل میں نظر کرنے سے پہلے اپنے پروردگار سے مدد طلب کرو اور توفیق کے ئے اس کی طرف توجہ کرو اور ہر اس شائبہ کو چھوڑ دو جو کسی شبہ میں ڈال دے یا کسی گمراہی کے حوالے کردے ۔پھر اگر تمہیں اطمینان ہو جائے کہ تمہارا دل صاف اور خاشع ہو گیا ہے اور تمہاری رائے تام و کامل ہو گئی ہے اور تمہارے پاس صرف یہی ایک فکر رہ گئی ہے تو جن باتوں کو میں نے واضح کیا ہے ان میں غورو فکر کرنا ورنہ اگر حسب منشاء فکر و نظر کا فراغ حاصل نہیں ہوا ہے تو یاد رکھو کہ اس طرف صرف شبکور اونٹنی کی طرح ہاتھ پیر مارتے رہو گے اور اندھیرے میں بھٹکتے رہو گے اور دین کا طلب گار وہ نہیں ہے جواندھیروں میں ہاتھ پاؤں مارے اور باتوں کو مخلوط کردے۔اس سے تو ٹھہر جانا ہی بہتر ہے۔
فَتَفَهَّمْ یا بُنَی وَصِیتِی، وَاعْلَمْ أَنَّ مَالِكَ الْمَوْتِ هُوَ مَالِكُ الْحَیاةِ، وَأَنَّ الْخَالِقَ هُوَ الْمُمِیتُ، وَأَنَّ الْمُفْنِی هُوَ الْمُعِیدُ، وَأَنَّ الْمُبْتَلِی هُوَ الْمُعَافِی، وَأَنَّ الدُّنْیا لَمْ تَكُنْ لِتَسْتَقِرَّ إِلاَّ عَلَی مَا جَعَلَهَا اللهُ عَلَیهِ مِنَ النَّعْمَاءِ، وَالاِْبْتِلاَءِ، وَالْجَزَاءِ فِی الْمَعَادِ، أَوْ مَا شَاءَ مِمَّا لاتَعْلَمُ، فَإِنْ أَشْكَلَ عَلَیكَ شَیءٌ مِنْ ذَلِكَ فَاحْمِلْهُ عَلَی جَهَالَتِكَ،

فَإِنَّكَ أَوَّلُ مَا خُلِقْتَ بِهِ جَاهِلاً ثُمَّ عُلِّمْتَ، وَمَا أَکْثَرَ مَا تَجْهَلُ مِنَ الاَْمْرِ، یتَحَیرُ فِیهِ رَأْیكَ، وَیضِلُّ فِیهِ بَصَرُكَ ثُمَّ تُبْصِرُهُ بَعْدَ ذَلِكَ! فَاعْتَصِمْ بِالَّذِی خَلَقَكَ وَرَزَقَكَ وَسَوَّاكَ، وَلْیكُنْ لَهُ تَعَبُّدُكَ، وَإِلَیهِ رَغْبَتُكَ، وَمِنْهُ شَفَقَتُكَ.

فرزند! میری وصیت کو سمجھو اور یہ جان لو کہ جو موت کا مالک ہے وہی زندگی کا مالک ہے اور جو خالق ہے وہی موت دینے والا ہے اور جو فنا کرنے والا ہے وہی دوبارہ واپس لانے والا ہے اور جو مبتلا کرنے والا ہے وہی عافیت دینے والا ہے اور یہ دنیا اسی حالت میں مستقر رہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت، آزمائش ، آخرت کی جزا یا وہ بات جو تم نہیں جانتے ہو۔اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس اپنی جہالت پر محمول کرنا کہ تم ابتدا میں جب پیدا ہو ئے ہو تو جاہل ہی پیداہوئے ہو بعد میں علم حاصل کیا ہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد کثیر ہے جس میں انسانی رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے۔لہٰذا اس مالک سے وابستہ رہو جس نے پیدا کیا ہے۔روزی دی ہے اور معتدل بنایا ہے۔اسی کی عبادت کرو' اسی کی طرف توجہ کرو اور اسی سے ڈرتے رہو۔
وَاعْلَمْ یا بُنَی أَنَّ أَحَداً لَمْ ینْبِئْ عَنِ اللهِ سُبْحَانَهُ كَمَا أَنْبَأَ عَنْهُ الرَّسُولُ(صلی الله علیه وآله)فَارْضَ بِهِ رَائِداً، وَإِلَی النَّجَاةِ قَائِداً، فَإِنِّی لَمْ آلُكَ نَصِیحَةً. وَإِنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ فِی النَّظَرِ لِنَفْسِكَ وَإِنِ اجْتَهَدْتَ مَبْلَغَ نَظَرِی لَكَ. بیٹا! یہ یاد رکھو کہ تمہیں خدا کے بارے میں اس طرح کی خبریں کوئی نہیں دے سکتا ہے جس طرح رسول اکرم (ص) نے دی ہیں لہٰذا ان کو بخوشی اپنا پیشوا اور راہ نجات کا قائد تسلیم کرو۔میں نے تمہاری نصیحت میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور نہ تم کوشش کے باوجود اپنے بارے میں اتنا سوچ سکتے ہو جتنا میں نے دیکھ لیا ہے۔
وَاعْلَمْ یا بُنَی أَنَّهُ لَوْ كَانَ لِرَبِّكَ شَرِیکٌ لاََتَتْكَ رُسُلُهُ، وَلَرَأَیتَ آثَارَ مُلْكِهِ سُلْطَانِهِ، وَلَعَرَفْتَ أَفْعَالَهُ وَصِفَاتِهِ، وَلَكِنَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ، لایضَادُّهُ فِی مُلْكِهِ أَحَدٌ، وَلاَ یزُولُ أَبَداً وَلَمْ یزَلْ.

أَوَّلٌ قَبْلَ الاَْشْیاءِ بِلاَ أَوَّلِیة، وَآخِرٌ بَعْدَ الاَْشْیاءِ بِلاَ نِهَایة. عَظُمَ عَنْ أَنْ تَثْبُتَ رُبُوبِیتُهُ بِإِحَاطَةِ قَلْب أَوْ بَصَر. فَإِذَا عَرَفْتَ ذَلِكَ فَافْعَلْ كَمَا ینْبَغِی لِمِثْلِكَ أَنْ یفْعَلَهُ فِی صِغَرِ خَطَرِهِ، وَقِلَّةِ مَقْدِرَتِهِ، وَكَثْرَةِ عَجْزِهِ، و عَظِیمِ حَاجَتِهِ إِلَی رَبِّهِ، فِی طَلَبِ طَاعَتِهِ، وَالْخَشْیةِ مِنْ عُقُوبَتِهِ، وَالشَّفَقَةِ مِنْ سُخْطِهِ: فَإِنَّهُ لَمْ یأْمُرْكَ إِلاَّ بِحَسَن، وَلَمْ ینْهَكَ إِلاَّ عَنْ قَبِیح.

فرزند ! یاد رکھو اگر خدا کے لئے کوئی شریک بھی ہوتا تو اس کے بھی رسول آتے اور اس کی سلطنت اور حکومت کے بھی آثار دکھائی دیتے اور اس کے افعال وصفات کا بھی کچھ پتہ ہوتا۔لیکن ایسا کچھ نہں ہے لہٰذا خدا ایک ہے جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے۔اس کے ملک میں اس سے کوئی ٹکرانے والا نہیں ہے اور نہ اس کے لئے کسی طرح کا زوال ہے۔وہ اولیت کی حدوں کے بغیر سب سے اول ہے اور کسی انتہا کے بغیر سب سے آخر تک رہنے والا ہے وہ اس بات سے عظیم تر ہے کہ اس کی ربوبیت کا اثبات فکرو نظر کے احاطہ سے کیاجائے اگر تم نے اس حقیقت کو پہچان لیا ہے تو اس طرح عمل کرو جس طرح تم جیسے معمولی حیثیت ' قلیل طاقت ' کثیر عاجزی اور پروردگار کی طرف اطاعت کی طلب' عتاب کے خوف اور ناراضگی کے اندیشہ میں حاجت رکھنے والے کیا کرتے ہیں اس نے جس چیز کا حکم دیا ہے وہ بہترین ہے اور جس سے منع کیا ہے وہ بد ترین ہے۔
یا بُنَی إِنِّی قَدْ أَنْبَأْتُكَ عَنِ الدُّنْیا وَحَالِهَا، وَزَوَالِهَا وَانْتِقَالِهَا، وَأَنْبَأْتُكَ عَنِ الاْخِرَةِ وَمَا أُعِدَّ لاَِهْلِهَا فِیهَا، وَضَرَبْتُ لَكَ فِیهِمَا الاَْمْثَالَ، لِتَعْتَبِرَ بِهَا وَتَحْذُوَ عَلَیهَا.

إِنَّمَا مَثَلُ مَنْ خَبَرَ الدُّنْیا كَمَثَلِ قَوْم سَفْر نَبَا بِهِمْ مَنْزِلٌ جَدِیبٌ، فَأَمُّوا مَنْزِلاً خَصِیباً وَجَنَاباً مَرِیعاً، فَاحْتَمَلُوا وَعْثَاءَ الطَّرِیقِ، وَفِرَاقَ الصَّدِیقِ، خُشُونَةَ السَّفَرِ، وَجُشُوبَةَ المَطْعَمِ، لِیأْتُوا سَعَةَ دَارِهِمْ، وَمَنْزِلَ قَرَارِهِمْ، فَلَیسَ یجِدُونَ لِشَیءٍ مِنْ ذَلِكَ أَلَماً، وَلاَ یرَوْنَ نَفَقَةً فِیهِ مَغْرَماً. وَلاَ شَیءَ أَحَبُّ إِلَیهِمْ مِمَّا قَرَّبَهُمْ مِنْ مَنْزِلِهِمْ، وَأَدْنَاهُمْ مِنْ مَحَلَّتِهِمْ. وَمَثَلُ مَنِ اغْتَرَّ بِهَا كَمَثَلِ قَوْم كَانُوا بِمَنْزِل خَصِیب، فَنَبَا بِهِمْ إِلَی مَنْزِل جَدِیب، فَلَیسَ شَیءٌ أَکْرَهَ إِلَیهِمْ وَلاَ أَفْظَعَ عِنْدَهُمْ مِنْ مُفَارَقَةِ مَا كَانُوا فِیهِ، إِلَی مَا یهْجُمُونَ عَلَیهِ، یصِیرُونَ إِلَیهِ.

میرے بیٹے! میں ںے تمہیں دنیا۔اس کے حالات۔ تصرفات، زوال اور انتقال سب کے بارے میں با خبر کر دیا ہے اورآخرت اور اس میں صاحبان ایمان کے لئے مہیا نعمتوں کا بھی پتہ بتا دیا ہے اور دونوں کے لئے مثالیں بیان کردی ہیں تاکہ تم عبرت حاصل کر سکو اور اس سے ہوشیار رہو۔

یاد رکھو کہ جس نے دنیا کو بخوبی پہچان لیا ہے اس کی مثال اس مسافر قوم جیسی ہے۔جس کاقحط زدہ منزل سے دل اچٹ ہو جائے اوروہ کسی سرسبز و شاداب علاقہ کا ارادہ کرے اور راستے کی زحمت، اپنوں کی دوری، سفر کی دشواری اور کھانے کی بدمزگی وغیرہ جیسی تمام مصیبتیں برداشت کرلے تا کہ وسیع گھر اور قرار کی منزل تک پہنچ جائے کہ ایسے لوگ ان تمام باتوں میں کسی تکلیف کا احساس نہیں کرتے اور نہ اس راہ میں خرچ کو نقصان تصور کرتے ہیں اور ان کی نظر میں اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے جو انہیں منزل سے قریب تر کر دے اور اپنے مرکز تک پہنچادے ۔

اوراس دنیا سے دھوکہ کھا جانے والوں کی مثال اس قوم کی ہے جو سرسبز و شاداب مقام پر رہے اور وہاں سے دل اچٹ جائے تو قحط زدہ علاقہ کی طرف چلی جائے کہ اس کی نظر میں قدیم حالات کے چھٹ جانے سے زیادہ ناگوار اور دشوار گذار کوئی شے نہیں ہے کہ اب جس منزل پر وارد ہوئے ہیں اور جہاں تک پہنچے ہیں وہ کسی قیمت پر اختیار کرنے کے قابل نہیں ہے۔
یابُنَیَّ، اِجْعَلْ نَفْسَكَ مِیزَاناً فِیمَا بَینَكَ وَبَینَ غَیرِكَ، فَأَحْبِبْ لِغَیرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، وَاکْرَهْ لَهُ مَا تَکْرَهُ لَهَا، وَلاَ تَظْلِمْ كَمَا لاتُحِبُّ أَنْ تُظْلَمَ، وَأَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ أَنْ یحْسَنَ إِلَیكَ،

وَاسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُهُ مِنْ غَیرِكَ، وَارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاهُ لَهُمْ مِنْ نَفْسِكَ، وَلاَ تَقُلْ مَا لاتَعْلَمُ، وَإِنْ قَلَّ مَا تَعْلَمُ وَلاَ تَقُلْ مَا لاتُحِبُّ أَنْ یقَالَ لَكَ.

بیٹا! دیکھو اپنے اور غیر کے درمیان میزان اپنے نفس کو قرار دو اور دوسرے کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے بھی وہ بات ناپسند کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو۔ کسی پر ظلم نہ کرنا کہ اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے ہو اور ہر ایک کے ساتھ نیکی کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کریں اور جس چیز کو دوسرے سے برا سمجھتے ہو اسے اپنے لئے بھی برا ہی تصور کرنا۔لوگوں کی اس بات سے راضی ہو جانا جس سے اپنی بات سے لوگوں کو راضی کرنا چاہتے ہو۔ بلا علم کوئی بات زبان سے نہ نکالنا اگرچہ تمہارا علم بہت کم ہے اور کسی کے بارے میں وہ بات نہ کہنا جو اپنے بارے میں پسند نہ کرتے ہو۔
وَاعْلَمْ أَنَّ الاِْعْجَابَ ضِدُّ الصَّوَابِ، وَآفَةُ الاَْلْبَابِ، فَاسْعَ فِی كَدْحِكَ، وَلاَ تَكُنْ خَازِناً لِغَیرِكَ، وَإِذَا أَنْتَ هُدِیتَ لِقَصْدِكَ فَكُنْ أَخْشَعَ مَا تَكُونُ لِرَبِّكَ. یاد رکھو کہ خود پسندی راہ صواب کے خلاف اور عقلوں کی بیماری ہے لہٰذا اپنی کوشش تیز تر کرواور اپنے مال کو دوسروں کے لئے ذخیرہ نہ بناؤ اور اگر درمیانی راستہ کی ہدایت مل جائے تو اپنے رب کے سامنے سب سے زیادہ خضوع و خشوع سے پیش آنا۔
وَاعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ طَرِیقاً ذَا مَسَافَة بَعِیدَة، وَمَشَقَّة شَدِیدَة، وَأَنَّهُ لاغِنَی بِكَ فِیهِ عَنْ حُسْنِ الاِرْتِیادِ، وَقَدْرِ بَلاَغِكَ مِنَ الزَّادِ، مَعَ خِفَّةِ الظَّهْرِ، فَلاَ تَحْمِلَنَّ عَلَی ظَهْرِكَ فَوْقَ طَاقَتِكَ، فَیكُونَ ثِقْلُ ذَلِكَ وَبَالاً عَلَیكَ، وَإِذَا وَجَدْتَ مِنْ أَهْلِ الْفَاقَةِ مَنْ یحْمِلُ لَكَ زَادَکْ إِلَی یوْمِ الْقِیامَةِ، فَیوَافِیكَ بِهِ غَداً حَیثُ تَحْتَاجُ إِلَیهِ فَاغْتَنِمْهُ وَحَمِّلْهُ إِیاهُ، وَأَکْثِرْ مِنْ تَزْوِیدِهِ وَأَنْتَ قَادِرٌ عَلَیهِ، فَلَعَلَّكَ تَطْلُبُهُ فَلاَ تَجِدُهُ وَاغْتَنِمْ مَنِ اسْتَقْرَضَكَ فِی حَالِ غِنَاكَ، لِیجْعَلَ قَضَاءَهُ لَكَ فِی یوْمِ عُسْرَتِكَ.اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے وہ راستہ ہے جس کی مسافت بعید اور مشقت شدید ہے اس میں تم بہترین زاد راہ کی تلاش اور بقدر ضرورت زاد راہ کی فراہمی سے بے نیاز ہو سکتے ہو۔البتہ بوجھ ہلکا رکھو اور اپنی طاقت سے زیادہ اپنی پشت پر بوجھ مت لادو کہ یہ گراں باری ایک و بال بن جائے ۔اور پھر جب کوئی فقیر مل جائے اور تمہارے زاد راہ کو قیامت تک پہنچا سکتا ہو اور کل وقت ضرورت مکمل طریقہ سے تمہارے حوالے کر سکتا ہو تو اسے غنیمت سمجھو اورمال اسی کے حوالے کردو اور زیادہ سے زیادہ اس کو دے دو کہ شائد بعد میں تلاش کرو اور وہ نہ مل سکے اور اسے بھی غنیمت سمجھو جو تمہاری دولت مندی کے دورمیں تم سے قرض مانگے تاکہ اس دن ادا کردے جب تمہاری غربت کا دن ہو۔
وَاعْلَمْ أَنَّ أَمَامَكَ عَقَبَةً كَئُوداً، الْمُخِفُّ فِیهَا أَحْسَنُ حَالاً مِنَ الْمُثْقِلِ، وَالْمُبْطِئُ عَلَیهَا أَقْبَحُ حَالاً مِنَ الْمُسْرِعِ، وَأَنَّ مَهْبِطَكَ بِهَا لامَحَالَةَ إِمَّا عَلَی جَنَّة أَوْ عَلَی نَار، فَارْتَدْ لِنَفْسِكَ قَبْلَ نُزُولِكَ، وَوَطِّئِ الْمَنْزِلَ قَبْلَ حُلُولِكَ، «فَلَیسَ بَعْدَ الْمَوْتِ مُسْتَعْتَبٌ»، وَلاَ إِلَی الدُّنْیا مُنْصَرَفٌ.اور یاد رکھو کہ تمہارے سامنے بڑی دشوار گزار منزل ہے جس میں ہلکے بوجھ والا سنگین بار والے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گا اور دھیرے چلنے والا تیز رفتار سے کہیں زیادہ بد حال ہو گا اور تمہاری منزل بہرحال جنت یا جہنم ہے لہٰذا اپنے نفس کے لئے منزل سے پہلے جگہ تلاش کر لو اور ورود سے پہلے اسے ہموار کرلو کہ موت کے بعد نہ خوشنودی حاصل کرنے کا کوئی امکان ہو گا اور نہ دنیا میں واپس آنے کا۔
وَاعْلَمْ أَنَّ الَّذِی بِیدِهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ قَدْ أَذِنَ لَكَ فِی الدُّعَاءِ، تَكَفَّلَ لَكَ بِالاِْجَابَةِ، وَأَمَرَكَ أَنْ تَسْأَلَهُ لِیعْطِیكَ، وَتَسْتَرْحِمَهُ لِیرْحَمَكَ، وَلَمْ یجْعَلْ بَینَكَ وَبَینَهُ مَنْ یحْجُبُكَ عَنْهُ، وَلَمْ یلْجِئْكَ إِلَی مَنْ یشْفَعُ لَكَ إِلَیهِ، وَلَمْ یمْنَعْكَ إِنْ أَسَأْتَ مِنَ التَّوْبَةِ،

وَلَمْ یعَاجِلْكَ بِالنِّقْمَةِ، وَلَمْ یعَیرْكَ بِالاِْنَابَةِ، وَلَمْ یفْضَحْكَ حَیثُ الْفَضِیحَةُ بِكَ أَوْلَی، وَلَمْ یشَدِّدْ عَلَیكَ فِی قَبُولِ الاِْنَابَةِ، وَلَمْ ینَاقِشْكَ بِالْجَرِیمَةِ

وَلَمْ یؤْیسْكَ مِنَ الرَّحْمَةِ، بَلْ جَعَلَ نُزُوعَكَ عَنِ الذَّنْبِ حَسَنَةً، وَحَسَبَ سَیئَتَكَ وَاحِدَةً، وَحَسَبَ حَسَنَتَكَ عَشْراً، وَفَتَحَ لَكَ بَابَ الْمَتَابِ، وَبَابَ الاِسْتِعْتَابِ،
یاد رکھو کہ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کے تمام خزانے ہیں اس نے تم کو دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور قبولیت کی ضمانت دی ہے اور تمہیں مامور کیا ہے کہ تم سوال کرو تاکہ وہ عطا کرے اور تم طلب رحمت کرو تا کہ وہ تم پر رحم کرے اس نے تمہارے اور اپنے درمیان کوئی حاجب نہیں رکھا ہے اور نہ تمہیں کسی سفارش کرنے والے کا محتاج بنایا ہے ۔گناہ کرنے کی صورت میں توبہ سے بھی نہیں روکا ہے اور عذاب میں جلدی بھی نہیں کی ہے اور توبہ کرنے پر طعنے بھی نہیں دیتا ہے اور تمہیں رسوا بھی نہیں کرتا ہے اگر تم اس کے حقدار ہو۔اس نے توبہ قبول کرنے میں بھی کسی سختی سے کام نہیں لیا ہے اور جرائم پر سخت محاسبہ کر کے رحمت سے مایوس بھی نہیں کیا ہے بلکہ گناہوں سے علیحدگی کو بھی ایک حسنہ بنادیا ہے اور پھر برائی میں ایک کو ایک شمار کیا ہے اور نیکیوں میں ایک کو دس بنادیا ہے۔توبہ اور طلب رضا کا دروازہ کھول دیا ہے کہ جب بھی آواز دو فوراً سن لیتا ہے.
فَإِذَا نَادَیتَهُ سَمِعَ نِدَاكَ، وَإِذَا نَاجَیتَهُ عَلِمَ نَجْوَاكَ، فَأَفْضَیتَ إِلَیهِ بِحَاجَتِكَ، وَأَبْثَثْتَهُ ذَاتَ نَفْسِكَ، وَشَكَوْتَ إِلَیهِ هُمُومَكَ، اسْتَکْشَفْتَهُ كُرُوبَكَ، وَاسْتَعَنْتَهُ عَلَی أُمُورِكَ، وَسَأَلْتَهُ مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَتِهِ مَا لایقْدِرُ عَلَی إِعْطَائِهِ غَیرُهُ، مِنْ زِیادَةِ الاَْعْمَارِ، وَصِحَّةِ الاَْبْدَانِ، سَعَةِ الاَْرْزَاقِ. ثُمَّ جَعَلَ فِی یدَیكَ مَفَاتِیحَ خَزَائِنِهِ بِمَا أَذِنَ لَكَ فِیهِ مِنْ مَسْأَلَتِهِ، فَمَتَی شِئْتَ اسْتَفْتَحْتَ بِالدُّعَاءِ أَبْوَابَ نِعْمَتِهِ، وَاسْتَمْطَرْتَ شَآبِیبَ رَحْمَتِهِ، اور جب مناجات کرو تو اس سے بھی با خبر رہتا ہے تم اپنی حاجتیں اس کے حوالے کر سکتے ہو۔اسے اپنے حالات بتا سکتے ہو ۔اپنے رنج و غم کی شکایت کر سکتے ہو۔ اپنے حزن و الم کے زوال کا مطالبہ کر سکتے ہو۔انپے امور میں مدد مانگ سکتے ہو اور اس کے خزانہ رحمت سے اتنا سوال کر سکتے ہو جتنا کوئی دوسرا بہرحال نہیں دے سکتا ہے چاہے وہ عمر میں اضافہ ہو یا بدن کی صحت یا رزق کی وسعت۔اس کے بعد اس نے دعا کی اجازت دے کر گویا خزائن رحمت کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں کہ جب چاہو ان کنجیوں سے نعمت کے دروازے کھول سکتے ہواور رحمت کی بارشوں کو برسا سکتے ہو۔
فَلاَ یقَنِّطَنَّكَ إِبْطَاءُ إِجَابَتِهِ، فَإِنَّ الْعَطِیةَ عَلَی قَدْرِ النِّیةِ، وَرُبَّمَا أُخِّرَتْ عَنْكَ الاِْجَابَةُ، لِیكُونَ ذَلِكَ أَعْظَمَ لاَِجْرِ السَّائِلِ، وَأَجْزَلَ لِعَطَاءِ الاْمِلِ. وَرُبَّمَا سَأَلْتَ الشَّیءَ فَلاَ تُؤْتَاهُ، وَأُوتِیتَ خَیراً مِنْهُ عَاجِلاً أَوْ آجِلاً، أَوْ صُرِفَ عَنْكَ لِمَا هُوَ خَیرٌ لَكَ، فَلَرُبَّ أَمْر قَدْ طَلَبْتَهُ فِیهِ هَلاَكُ دِینِكَ لَوْ أُوتِیتَهُ، فَلْتَكُنْ مَسْأَلَتُكَ فِیمَا یبْقَی لَكَ جَمَالُهُ، وَینْفَی عَنْكَ وَبَالُهُ; فَالْمَالُ لایبْقَی لَكَ وَلاَ تَبْقَی لَه.لہٰذا خبردار قبولیت کی تاخیر تمہیں مایوس نہ کردے کہ عطیہ ہمیشہ بقدر نیت ہوا کرتا ہے اور کبھی کبھی قبولیت میں اس لئے تاخیر کردی جاتی ہے کہ اس میں سائل کے اجر میں اضافہ اور امیدوار کے عطیہ میں زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کا سوال کرو اور وہ نہ ملے لیکن اس کے بعد جلد یا بدیر اس سے بہتر مل جائے یا اسے تمہاری بھلائی کے لئے روک دیا گیا ہو۔اس لئے کہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس چیز کو تم نے طلب کیا ہے وہ اگر مل جائے تو دین کی بربادی کا خطرہ ہے۔ لہٰذا اسی چیز کا سوال کرو جس میں تمہارا حسن باقی رہے اور تم وبال سے محفوظ رہو۔ مال نہ باقی رہنے والا ہے اور نہ تم اس کے لئے باقی رہنے والے ہو۔
وَاعْلَمْ یا بُنَی أَنَّكَ إِنَّمَا خُلِقْتَ لِلاْخِرَةِ لالِلدُّنْیا، وَلِلْفَنَاءِ لالِلْبَقَاءِ، وَلِلْمَوْتِ لالِلْحَیاةِ، وَأَنَّكَ فِی قُلْعَة وَدَارِ بُلْغَة، وَطَرِیقٍ إِلَی الاْخِرَةِ، وَأَنَّكَ طَرِیدُ الْمَوْتِ الَّذِی لاینْجُو مِنْهُ هَارِبُهُ، وَلاَ یفُوتُهُ طَالِبُهُ، وَلاَ بُدَّ أَنَّهُ مُدْرِكُهُ، فَكُنْ مِنْهُ عَلَی حَذَرِ أَنْ یدْرِكَكَ وَأَنْتَ عَلَی حَال سَیئَة، قَدْ كُنْتَ تُحَدِّثُ نَفْسَكَ مِنْهَا بِالتَّوْبَةِ، فَیحُولَ بَینَكَ وَبَینَ ذَلِكَ، فَإِذَا أَنْتَ قَدْ أَهْلَکْتَ نَفْسَكَ.فرزند ! یاد رکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایا گیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ۔تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے لئے نہیں اور تم اس گھر میں ہو جہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے۔اور تم آخرت کے راستہ پر ہو۔موت تمہارا پیچھا کئے ہوئے ہے جس سے کوئی بھاگنے والا بچ نہیں سکتا ہے اور اس کے ہاتھ سے نکل نہیں سکتا ہے۔وہ بہر حال اسے پالے گی۔لہٰذا اس کی طرف سے ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں کسی برے حال میں پکڑ لے اورتم خالی توبہ کے لئے سوچتے ہی رہ جائو اور وہ تمہارے اور توبہ کے درمیان حائل ہو جائے کہ اس طرح گویا تم نے اپنے نفس کو ہلاک کردیا۔
یا بُنَی أَکْثِرْ مِنْ ذِکْرِ الْمَوْتِ، وَذِکْرِ مَا تَهْجُمُ عَلَیهِ، وَتُفْضِی بَعْدَ الْمَوْتِ إِلَیهِ، حَتَّی یأْتِیكَ وَقَدْ أَخَذْتَ مِنْهُ حِذْرَكَ، وَشَدَدْتَ لَهُ أَزْرَكَ، وَلاَ یأْتِیكَ بَغْتَةً فَیبْهَرَكَ.فرزند! موت کو برابر یاد کرتے رہو اور ان حالات کو یاد کرتے رہو جن پراچانک وارد ہونا ہے اور جہاں تک موت کے بعد جانا ہے تاکہ وہ تمہارے پاس آئے تو تم احتیاطی سامان کر چکے ہو اور اپنی طاقت کو مضبوط بنا چکے ہو اور وہ اچانک آکر تم پر قبضہ نہ کرلے.
وَإِیاكَ أَنْ تَغْتَرَّ بِمَا تَرَی مِنْ إِخْلاَدِ أَهْلِ الدُّنْیا إِلَیهَا، وَتَكَالُبِهِمْ عَلَیهَا، فَقَدْ نَبَّأَكَ اللهُ عَنْهَا، وَنَعَتْ هِی لَكَ عَنْ نَفْسِهَا، وَتَكَشَّفَتْ لَكَ عَنْ مَسَاوِیهَا، فَإِنَّمَا أَهْلُهَا كِلاَبٌ عَاوِیةٌ، وَسِبَاعٌ ضَارِیةٌ، یهِرُّ بَعْضُهَا عَلَی بَعْض، وَیأْكُلُ عَزِیزُهَا ذَلِیلَهَا، وَیقْهَرُ كَبِیرُهَا صَغِیرَهَا. نَعَمٌ مُعَقَّلَةٌ، وَأُخْرَی مُهْمَلَةٌ، قَدْ أَضَلَّتْ عُقُولَهَا، رَكِبَتْ مَجْهُولَهَا. سُرُوحُ عَاهَة بِوَاد وَعْث، لَیسَ لَهَا رَاع یقِیمُهَا، وَلاَ مُسِیمٌ یسِیمُهَا.اور خبردار اہل دنیا کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پر مرتے دیکھ کر تم دھوکہ میں نہ آ جانا کہ پروردگار تمہیں اس کے بارے میں بتا چکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سنا چکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کر چکی ہے۔دنیا دار افراد صرف بھونکنے والے کتے اور پھاڑ کھانے والے درندے ہیں جہاں ایک دوسرے پر بھونکتے ہیں اور طاقت والا کمزور کو کھا جاتا ہے اور بڑا چھوٹے کو کچل ڈالتا ہے۔ یہ سب جانور ہیں جن میں بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض آوارہ جنہوں نے اپنی عقلیں گم کردی ہیں اور نا معلوم راستے پر چل پڑے ہیں۔ گویا دشوار گذار وادیوں میں مصیبتوں میں چرنے والے ہیں جہاں نہ کوئی چرواہا ہے جو سیدھے راستے پر لگا سکے اور نہ کوئی چرانے والا ہے جو انہیں چرا سکے۔
سَلَكَتْ بِهِمُ الدُّنْیا طَرِیقَ الْعَمَی وَأَخَذَتْ بِأَبْصَارِهِمْ عَنْ مَنَارِ الْهُدَی، فَتَاهُوا فِی حَیرَتِهَا، وَغَرِقُوا فِی نِعْمَتِهَا وَاتَّخَذُوهَا رَبّاً، فَلَعِبَتْ بِهِمْ لَعِبُوا بِهَا، وَنَسُوا مَا وَرَاءَهَا. دنیا نے انہیں گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا ہے اور ان کی بصارت کو منارہ ٔ ہدایت کے مقابلہ میں سلب کر لیا ہے اور وہ حیرت کے عالم میں سر گرداں ہیں اور نعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔دنیا کو اپنا معبود بنا لیا ہے اور وہ ان سے کھیل رہی ہے اور وہ اس سے کھیل رہے ہیں اور سب نے آخرت کو یکسر بھولا دیا ہے۔
رُوَیداً یسْفِرُ الظَّلاَمُ، كَأَنْ قَدْ وَرَدَتِ الاَْظْعَانُ، یوشِكُ مَنْ أَسْرَعَ أَنْ یلْحَقَ! وَاعْلَمْ یا بُنَی أَنَّ مَنْ كَانَتْ مَطِیتُهُ اللَّیلَ وَالنَّهَارَ، فَإِنَّهُ یسَارُ بِهِ وَإِنْ كَانَ وَاقِفاً، وَیقْطَعُ الْمَسَافَةَ وَإِنْ كَانَ مُقِیماً وَادِعاً. ٹھہرو! اندھرے کو چھٹنے دو۔ایسا محسوس ہو گا جیسے قافلے آخرت کی منزل میں اتر چکے ہیں اور قریب ہے کہ تیز رفتار افراد اگلے لوگوں سے ملحق ہو جائیں۔ بیٹا! یاد رکھو کہ جو شب و روز کی سواری پر سوار ہے وہ گویا سر گرم سفر ہے چاہے ٹھہرا ہی کیوں نہ رہے اور مسافت قطع کررہا ہے چاہے اطمینان سے مقیم ہی کیوں نہ رہے۔
وَاعْلَمْ یقِیناً أَنَّكَ لَنْ تَبْلُغَ أَمَلَكَ، وَلَنْ تَعْدُوَ أَجَلَكَ، وَأَنَّكَ فِی سَبِیلِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ.

فَخَفِّضْ فِی الطَّلَبِ. وَأَجْمِلْ فِی الْمُکْتَسَبِ، فَإِنَّهُ رُبَّ طَلَب قَدْ جَرَّ إِلَی حَرَب; فَلَیسَ كُلُّ طَالِب بِمَرْزُوق، وَلاَ كُلُّ مُجْمِل بِمَحْرُوم.

وَأَکْرِمْ نَفْسَكَ عَنْ كُلِّ دَنِیة وَإِنْ سَاقَتْكَ إِلَی الرَّغَائِبِ، فَإِنَّكَ لَنْ تَعْتَاضَ بِمَا تَبْذُلُ مِنْ نَفْسِكَ عِوَضاً. وَلاَ تَكُنْ عَبْدَ غَیرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً.

وَمَا خَیرُ خَیر لاینَالُ إِلاَّ بِشَرّ، وَیسْر لاینَالُ إِلاَّ بِعُسْر.
یہ بات یقین کے ساتھ سمجھ لو کہ تم نہ ہر امید کو پا سکتے ہو اور نہ اجل سے آگے جا سکتے ہو تم اگلے لوگوں کے راستہ ہی پر چل رہے ہو لہٰذا طلب میں نرم رفتاری سے کام لو اور کسب معاش میں میانہ روی اختیار کرو۔ورنہ بہت سی طلب انسان کو مال کی محرومی تک پہنچا دیتی ہے اور ہر طلب کرنے والا کامیاب بھی نہیں ہوتا ہے اور نہ ہر اعتدال سے کام لینے والا محروم ہی ہوتا ہے۔اپنے نفس کو ہر طرح کی پستی سے بلند تر رکھو چاہے وہ پستی پسندیدہ اشیاء تک پہنچا ہی کیوں نہ دے ۔اس لئے کہ جو عزت نفس دے دو گے اس کا کوئی بدل نہیں مل سکتا اورخبردار کسی کے غلام نہبن جانا جب کہ پروردگار نے تمہیں آزاد قرار دیا ہے۔دیکھو اس خیر میں کوئی خیر نہیں ہے جو شر کے ذریعہ حاصل ہو اور وہ آسانی، آسانی نہیں ہے جو دشواری کے راستہ سے ملے۔
وَإِیاكَ أَنْ تُوجِفَ بِكَ مَطَایا الطَّمَعِ، فَتُورِدَكَ مَنَاهِلَ الْهَلَكَةِ. وَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلاَّ یكُونَ بَینَكَ وَبَینَ اللهِ ذُو نِعْمَة فَافْعَلْ، فَإِنَّكَ مُدْرِکٌ قَسْمَكَ، وَآخِذٌ سَهْمَكَ، وَإِنَّ الْیسِیرَ مِنَ اللهِ سُبْحَانَهُ أَعْظَمُ وَأَکْرَمُ مِنَ الْكَثِیرِ مِنْ خَلْقِهِ وَإِنْ كَانَ كُلٌّ مِنْهُ.خبردار طمع کی سواریاں تیز رفتاری دکھلا کر تمہیں ہلاکت کے چشموں پر نہ وارد کردیں اور اگر ممکن ہو کہ تمہارے اور خدا کے درمیان کوئی صاحب نعمت نہ آنے پائے تو ایسا ہی کرو کہ تمہیں تمہارا حصہ بہر حال ملنے والا ہے۔اور اپنا نصیب بہر حال لینے والے ہو اور اللہ کی طرف سے تھوڑا بھی مخلوقات کے بہت سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔اگرچہ سب اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔
وَتَلاَفِیكَ مَا فَرَطَ مِنْ صَمْتِكَ أَیسَرُ مِنْ إِدْرَاكِكَ مَا فَاتَ مِنْ مَنْطِقِكَ، وَحِفْظُ مَا فِی الْوِعَاءِ بِشَدِّ الْوِكَاءِ، وَحِفْظُ مَا فِی یدَیكَ أَحَبُّ إِلَی مِنْ طَلَبِ مَا فِی یدَی غَیرِكَ.خاموشی سے پیدا ہونے والی کوتاہی کی تلافی کر لینا گفتگو سے ہونے والے نقصان کے تدارک سے آسان تر ہے برتن کے اندر رکھی چیز کو محفوظ کرنے کے لئے اس کا منہ بند کیا جاتا ہے اور اپنے ہاتھ کی دولت کا محفوظ کر لینا دوسرے کے ہاتھ کی نعمت کے طلب کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
وَمَرَارَةُ الْیأْسِ خَیرٌ مِنَ الطَّلَبِ إِلَی النَّاسِ، وَالْحِرْفَةُ مَعَ الْعِفَّةِ خَیرٌ مِنَ الْغِنَی مَعَ الْفُجُورِ، وَالْمَرْءُ أَحْفَظُ لِسِرِّهِ، وَرُبَّ سَاع فِیمَا یضُرُّهُ! مایوسی کی تلخی کو برداشت کرنا لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے اور پاکدامانی کے ساتھ محنت مشقت کرنا فسق و فجور کے ساتھ مالداری سے بہتر ہے۔
مَنْ أَکْثَرَ أَهْجَرَ، وَمَنْ تَفَكَّرَ أَبْصَرَ. قَارِنْ أَهْلَ الْخَیرِ تَكُنْ مِنْهُمْ، وَبَاینْ أَهْلَ الشَّرِّ تَبِنْ عَنْهُمْ،

بِئْسَ الطَّعَامُ الْحَرَامُ! وَظُلْمُ الضَّعِیفِ أَفْحَشُ الظُّلْمِ! إِذَا كَانَ الرِّفْقُ خُرْقاً كَانَ الْخُرْقُ رِفْقاً.

رُبَّمَا كَانَ الدَّوَاءُ دَاءً، وَالدَّاءُ دَوَاءً، وَرُبَّمَا نَصَحَ غَیرُ النَّاصِحِ، وَغَشَّ الْمُسْتَنْصَحُ.
ہر انسان اپنے راز کو دوسروں سے زیادہ محفوظ رکھ سکتا ہے اور بہت سے لوگ ہیں جو اس امر کے لئے دوڑ رہے ہیں جوان کے لئے نقصان دہ ہے ۔زیادہ بات کرنے والا بکواس کرنے لگتا ہے اور غوروفکر کرنے والا بصیر ہو جاتا ہے۔اہل خیر کے ساتھ رہو تا کہ انہی میں شمار ہواوراہل شر سے الگ رہو تاکہ ان سے الگ حساب کئے جاؤ۔بدترین طعام مال حرام ہے اور بد ترین ظلم کمزورآدمی پر ظلم ہے۔نرمی نا مناسب ہو تو سختی ہی مناسب ہے۔کبھی کبھی دوا مرض بن جاتی ہے اور مرض دوا اور کبھی کبھی غیر مخلص بھی نصیحت کی بات کر دیتا ہے اورکبھی کبھی مخلص بھی خیانت سے کام لے لیتا ہے۔
وَإِیاكَ وَالاِتِّكَالَ عَلَی الْمُنَی فَإِنَّهَا بَضَائِعُ النَّوْكَی وَالْعَقْلُ حِفْظُ التَّجَارِبِ، وَخَیرُ مَا جَرَّبْتَ مَا وَعَظَكَ. بَادِرِ الْفُرْصَةَ قَبْلَ أَنْ تَكُونَ غُصَّةً. لَیسَ كُلُّ طَالِب یصِیبُ، وَلاَ كُلُّ غَائِب یئُوبُ. دیکھو خبردار خواہشات پر اعتماد نہ کرنا کہ یہ احمقوں کا سرمایہ ہیں۔ عقلمندی تجربات کے محفوظ رکھنے میں ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے نصیحت حاصل ہو۔ فرصت سے فائدہ اٹھاؤ قبل اس کے کہ رنج و اندوہ کا سامنا کرنا پڑے۔ ہر طلب گار مطلوب کو حاصل بھی نہیں کرتا ہے اور ہر غائب پلٹ کر بھی نہیں آتا ہے۔
وَمِنَ الْفَسَادِ إِضَاعَةُ الزَّادِ، وَمَفْسَدَةُ الْمَعَادِ. وَلِكُلِّ أَمْر عَاقِبَةٌ، سَوْفَ یأْتِیكَ مَا قُدِّرَ لَكَ. التَّاجِرُ مُخَاطِرٌ، وَرُبَّ یسِیر أَنْمَی مِنْ كَثِیر! لاخَیرَ فِی مُعِین مَهِین، وَلاَ فِی صَدِیق ظَنِین. سَاهِلِ الدَّهْرَ مَا ذَلَّ لَكَ قَعُودُهُ، وَلاَ تُخَاطِرْ بِشَیء رَجَاءَ أَکْثَرَ مِنْهُ، وَإِیاكَ أَنْ تَجْمَحَ بِكَ مَطِیةُ اللَّجَاجِ. فساد کی ایک قسم زاد راہ کا ضائع کر دینا اورعاقبت کو برباد کر دینا بھی ہے۔ہر امر کی ایک عاقبت ہے اور عنقریب وہ تمہیں مل جائے گا جو تمہارے لئے مقدر ہوا ہے۔ تجارت کرنے والا وہی ہوتا ہے جو مال کو خطرہ میں ڈال سکے ۔ بسا اوقات تھوڑا مال زیادہ سے زیادہ با برکت ہوتا ہے۔اس مدد گار میں کوئی خیر نہیں ہے جو ذلیل ہو اور وہ دوست بیکار ہے جو بد نام ہو۔زمانہ ک ساتھ سہولت کا برتاؤ کرو جب تک اس کا اونٹ قابو میں رہے اور کسی چیز کو اس سے زیادہ کی امید میں خطرہ میں مت ڈالو۔خبردار کہیں دشمنی اور عناد کی سواری تم سے منہ زوری نہ کرنے لگے۔
اِحْمِلْ نَفْسَكَ مِنْ أَخِیكَ عِنْدَ صَرْمِهِ عَلَی الصِّلَةِ، وَعِنْدَ صُدُودِهِ عَلَی اللَّطَفِ وَالْمُقَارَبَةِ، وَعِنْدَ جُمُودِهِ عَلَی الْبَذْلِ، وَعِنْدَ تَبَاعُدِهِ عَلَی الدُّنُوِّ، وَعِنْدَ شِدَّتِهِ عَلَی اللِّینِ، وَعِنْدَ جُرْمِهِ عَلَی الْعُذْرِ، حَتَّی كَأَنَّكَ لَهُ عَبْدٌ، وَكَأَنَّهُ ذُو نِعْمَة عَلَیكَ وَإِیاكَ أَنْ تَضَعَ ذَلِكَ فِی غَیرِ مَوْضِعِهِ، أَوْ أَنْ تَفْعَلَهُ بِغَیرِ أَهْلِهِ.اپنے نفس کو اپنے بھائی کے بارے میں قطع تعلق کے مقابلہ میں تعلقات، اعراض کے مقابلہ میں مہربانی، بخل کے مقابلہ میں عطا ' دوری کے مقابلہ میں قربت ' شدت کے مقابل میں نرمی اور جرم کے موقع پر معذرت کے لئے آمادہ کرو گویا کہ تم اس کے بندے ہو اور اس نے تم پر کوئی احسان کیا ہے اور خبردار احسان کو بھی بے محل نہ قرار دینا اور نہ کسی نااہل کے ساتھ احسان کرنا۔
لاَ تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِیقِكَ صَدِیقاً فَتُعَادِی صَدِیقَكَ، وَامْحَضْ أَخَاكَ النَّصِیحَةَ، حَسَنَةً كَانَتْ أَوْ قَبِیحَةً،

وَتَجَرَّعِ الْغَیظَ فَإِنِّی لَمْ أَرَ جُرْعَةً أَحْلَی مِنْهَا عَاقِبَةً، وَلاَ أَلَذَّ مَغَبَّةً.

وَلِنْ لِمَنْ غَالَظَكَ، فَإِنَّهُ یوشِكُ أَنْ یلِینَ لَكَ، وَخُذْ عَلَی عَدُوِّكَ بِالْفَضْلِ فَإِنَّهُ أَحْلَی الظَّفَرَینِ. وَإِنْ أَرَدْتَ قَطِیعَةَ أَخِیكَ فَاسْتَبْقِ لَهُ مِنْ نَفْسِكَ بَقِیةً یرْجِعُ إِلَیهَا إِنْ بَدَا لَهُ ذَلِكَ یوْماً مَا. وَمَنْ ظَنَّ بِكَ خَیراً فَصَدِّقْ ظَنَّهُ.
اپنے دشمن کے دوست کو اپنا دوست نہ بنانا کہ تم اپنے دوست کے دشمن ہو جاؤ اور اپنے بھائی کو مخلصانہ نصیحت کرتے رہنا چاہے اسے اچھی لگیں یا بری۔غصہ کو پی جائو کہ میں نے انجام کار کے اعتبار سے اس سے زیادہ شیریں کوئی گھونٹ نہیں دیکھا ہے اور نہ عاقبت کے لحاظ سے لذیذ تر۔اور جو تمہارے ساتھ سختی کرے اس کے لئے نرم ہو جاؤ شاید کبھی وہ بھی نرم ہو جائے ۔اپنے دشمن کے ساتھ احسان کرو کہ اس میں دو میں سے ایک کامیابی اور شیریں ترین کامیابی ہے اور اگر اپنے بھائی سے قطع تعلق کرنا چاہو تو اپنے نفس میں اتنی گنجائش رکھو کہ اگر اسے کسی دن واپسی کا خیال پیدا ہو تو واپس آسکے ۔جو تمہارے بارے میں اچھا خیال رکھے اس کے خیال کو غلط نہ ہونے دینا۔
وَلاَ تُضِیعَنَّ حَقَّ أَخِیكَ اتِّكَالاً عَلَی مَا بَینَكَ وَبَینَهُ، فَإِنَّهُ لَیسَ لَكَ بِأَخ مَنْ أَضَعْتَ حَقَّهُ.

وَلاَ یكُنْ أَهْلُكَ أَشْقَی الْخَلْقِ بِكَ، وَلاَ تَرْغَبَنَّ فِیمَنْ زَهِدَ عَنْكَ، وَلاَ یكُونَنَّ أَخُوكَ أَقْوَی عَلَی قَطِیعَتِكَ مِنْكَ عَلَی صِلَتِهِ،

وَلاَ تَكُونَنَّ عَلَی الاِْسَاءَةِ أَقْوَی مِنْكَ عَلَی الاِْحْسَانِ. وَلاَ یکْبُرَنَّ عَلَیكَ ظُلْمُ مَنْ ظَلَمَكَ، فَإِنَّهُ یسْعَی فِی مَضَرَّتِهِ وَنَفْعِكَ، وَلَیسَ جَزَاءُ مَنْ سَرَّكَ أَنْ تَسُوءَهُ.
باہمی روابط کی بناپر کسی بھائی کے حق کو ضائع نہ کرنا کہ جس کے حق کو ضائع کردیا پھر وہ واقعاً بھائی نہیں ہے اور دیکھو تمہارے گھر والے تمہاری وجہ سے بدبخت نہ ہونے پائیں اور جو تم سے کنارہ کش ہونا چاہے اس کے پیچھے نہ لگے رہو۔تمہارا کوئی بھائی تم سے قطع تعلقات میں تم پر بازی نہ لے جائے اور تم تعلقات مضبوط کر لو اور خبردار برائی کرنے میں نیکی کرنے سے زیادہ طاقت کا مظاہرہ نہ کرنا اور کسی ظالم کے ظلم کو بہت بڑا تصور نہ کرنا کہ وہ اپنے کو نقصان پہنچا رہا ہے اور تمہیں فائدہ پہنچا رہا ہے اور جو تمہیں فائدہ پہنچائے اس کی جزا یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ برائی کرو۔
وَاعْلَمْ یا بُنَی أَنَّ الرِّزْقَ رِزْقَانِ: رِزْقٌ تَطْلُبُهُ، وَرِزْقٌ یطْلُبُكَ، فَإِنْ أَنْتَ لَمْ تَأْتِهِ أَتَاكَ.اور فرزند! یاد رکھو کہ رزق کی دو قسمیں ہیں۔ایک رزق وہ ہے جسے تم تلاش کررہے ہو اورایک رزق وہ ہے جو تم کو تلاش کر رہا ہے کہ اگر تم اس تک نہ جاؤ گے تو وہ خود تم تک آجائے گا۔
مَا أَقْبَحَ الْخُضُوعَ عِنْدَ الْحَاجَةِ، وَالْجَفَاءَ عِنْدَ الْغِنَی. إِنَّمَا لَكَ مِنْ دُنْیاكَ، مَا أَصْلَحْتَ بِهِ مَثْوَاكَ، وَإِنْ كُنْتَ جَازِعاً عَلَی مَا تَفَلَّتَ مِنْ یدَیكَ، فَاجْزَعْ عَلَی كُلِّ مَا لَمْ یصِلْ إِلَیكَ. ضرورت کے وقت خضوع وخشوع کا اظہار کس قدر ذلیل ترین بات ہےاور بے نیازی کے عالم میں بد سلوکی کس قدر قبیح حرکت ہے۔اس دنیا میں تمہارا حصہ اتنا ہی ہے جس سے اپنی عاقبت کا انتظام کر سکو۔اور کسی چیز کے ہاتھ سے نکل جانے پر پریشانی کا اظہار کرنا ہے تو ہر اس چیز پر بھی فریاد کرو جو تم تک نہیں پہنچی ہے۔
اِسْتَدِلَّ عَلَی مَا لَمْ یكُنْ بِمَا قَدْ كَانَ، فَإِنَّ الاُْمُورَ أَشْبَاهٌ; وَلاَ تَكُونَنَّ مِمَّنْ لاتَنْفَعُهُ الْعِظَةُ إِلاَّ إِذَا بَالَغْتَ فِی إِیلاَمِهِ، فَإِنَّ الْعَاقِلَ یتَّعِظُ بِالاْدَابِ الْبَهَائِمَ لاتَتَّعِظُ إِلاَّ بِالضَّرْبِ. جو کچھ ہو چکا ہے اس کے ذریعہ اس کاپتہ لگاؤ جو ہونے والا ہے کہ معاملات تمام کے تمام ایک ہی جیسے ہیں اور خبردار ان لوگوں میں نہ ہو جاؤ جن پر اس وقت تک نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی ہے جب تک پوری طرح تکلیف نہ پہنچائی جائے اس لئے کہ انسان عاقل ادب سے نصیحت حاصل کرتا ہے اور جانور مار پیٹ سے سیدھا ہوتا ہے۔
اِطْرَحْ عَنْكَ وَارِدَاتِ الْهُمُومِ بِعَزَائِمِ الصَّبْرِ وَحُسْنِ الْیقِینِ. مَنْ تَرَكَ الْقَصْدَ جَارَ، وَالصَّاحِبُ مُنَاسِبٌ، وَالصَّدِیقُ مَنْ صَدَقَ غَیبُهُ. الْهَوَی شَرِیكُ الْعَمَی وَ رُبَّ بَعِید أَقْرَبُ مِنْ قَرِیب، وَقَرِیب أَبْعَدُ مِنْ بَعِید، وَالْغَرِیبُ مَنْ لَمْ یكُنْ لَهُ حَبِیبٌ.دنیا میں وارد ہونے والے ہموم و آلام کو صبر کے عزائم اور یقین کے حسن کے ذریعہ کردو۔ یاد رکھو کہ جس نے بھی اعتدال کو چھوڑا وہ منحرف ہو گیا۔ساتھی ایک طرح کا شریک نسب ہوتا ہے اور دوست وہ ہے جو غیبت میں بھی سچا دوست رہے۔خواہش اندھے پن کی شریک کار ہوتی ہے۔بہت سے دور والے ایسے ہوتے ہیں جو قریب والوں سے قریب تر ہوتے ہیں اور بہت سے قریب والے دور والوں سے زیادہ دور تر ہوتے ہیں ۔غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو۔
مَنْ تَعَدَّی الْحَقَّ ضَاقَ مَذْهَبُهُ، وَمَنِ اقْتَصَرَ عَلَی قَدْرِهِ كَانَ أَبْقَی لَهُ. وَأَوْثَقُ سَبَب أَخَذْتَ، بِهِ سَبَبٌ بَینَكَ وَبَینَ اللهِ سُبْحَانَهُ. وَمَنْ لَمْ یبَالِكَ فَهُوَ عَدُوُّكَ. قَدْ یكُونُ الْیأْسُ إِدْرَاکاً، إِذَا كَانَ الطَّمَعُ هَلاَکاً.جو حق سے آگے بڑھ جائے اس کے راستے تنگ ہو جاتے ہیں اور جو اپنی حیثیت پر قائم رہتا ہے اس کی عزت باقی رہ جاتی ہے۔تمہارے ہاتھوں میں مضبوط ترین وسیلہ تمہارا اور خدا کا رشتہ ہے۔اور جو تمہاری پروا نہ کرے وہی تمہارادشمن ہے کبھی کبھی مایوسی بھی کامیابی بن جاتی ہے جب حرص و طمع موجب ہلاکت ہو
لَیسَ كُلُّ عَوْرَة تَظْهَرُ، وَلاَ كُلُّ فُرْصَة تُصَابُ، وَرُبَّمَا أَخْطَأَ الْبَصِیرُ قَصْدَهُ، وَأَصَابَ الاَْعْمَی رُشْدَهُ. أَخِّرِ الشَّرَّ فَإِنَّكَ إِذَا شِئْتَ تَعَجَّلْتَهُ، وَقَطِیعَةُ الْجَاهِلِ تَعْدِلُ صِلَةَ الْعَاقِلِ.ہر عیب ظاہر نہیں ہوا کرتا ہے اور نہ ہر فرصت کا موقع بار بار ملا کرتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھوں والا راستہ سے بھٹک جاتا ہے اور اندھا سیدھے راستے کو پا لیتا ہے۔برائی کو پس پشت ڈالتے رہو کہ جب بھی چاہو اس کی طرف بڑھ سکتے ہو۔جاہل سے قطع تعلق عاقل سے تعلقات کے برابر ہے۔
مَنْ أَمِنَ الزَّمَانَ خَانَهُ، وَمَنْ أَعْظَمَهُ أَهَانَهُ. لَیسَ كُلُّ مَنْ رَمَی أَصَابَ. إِذَا تَغَیرَ السُّلْطَانُ تَغَیرَ الزَّمَانُ. سَلْ عَنِ الرَّفِیقِ قَبْلَ الطَّرِیقِ، وَعَنِ الْجَارِ قَبْلَ الدَّارِ. إِیاكَ أَنْ تَذْكُرَ مِنَ الْكَلاَمِ مَا یكُونُ مُضْحِکاً، وَإِنْ حَكَیتَ ذَلِكَ عَنْ غَیرِكَ.جو زمانہ کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے زمانہ اس سے خیانت کرتا ہےاور جو اسے بڑا سمجھتا ہے اسے ذلیل کر دیتا ہے ہر تیرانداز کا تیر نشانہ پر نہیں بیٹھتا ہے جب حاکم بدل جاتا ہے تو زمانہ بدل جاتا ہے رفیق سفر کے بارے میں راستہ پر چلنے سے پہلے دریافت کرو اور ہمسایہ کے بارے میں اپنے گھر سے پہلے خبر گیری کرو۔خبردار ایسی کوئی بات نہ کرنا جو مضحکہ خیز ہو چاہے دوسروں ہی کی طرف سے نقل کی جائے۔
وَإِیاكَ وَمُشَاوَرَةَ النِّسَاءِ فَإِنَّ رَأْیهُنَّ إِلَی أَفْنٍ، وَعَزْمَهُنَّ إِلَی وَهْنٍ. وَاکْفُفْ عَلَیهِنَّ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ بِحِجَابِكَ إِیاهُنَّ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحِجَابِ أَبْقَی عَلَیهِنَّ،

وَلَیسَ خُرُوجُهُنَّ بِأَشَدَّ مِنْ إِدْخَالِكَ مَنْ لایوثَقُ بِهِ عَلَیهِنَّ، وَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَلاَّ یعْرِفْنَ غَیرَكَ فَافْعَلْ. وَلاَ تُمَلِّكِ الْمَرْأَةَ مِنْ أَمْرِهَا مَا جَاوَزَ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ رَیحَانَةٌ، لَیسَتْ بِقَهْرَمَانَة.

وَلاَ تَعْدُ بِكَرَامَتِهَا نَفْسَهَا، وَلاَ تُطْمِعْهَا فِی أَنْ تَشْفَعَ لِغَیرِهَا. وَإِیاكَ وَالتَّغَایرَ فِی غَیرِ مَوْضِعِ غَیرَة، فَإِنَّ ذَلِكَ یدْعُو الصَّحِیحَةَ إِلَی السَّقَمِ وَالْبَرِیئَةَ إِلَی الرِّیبِ.
خبردار۔عورتوں سے مشورہ نہ کرنا کہ ان کی رائے کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو باقی رکھنے والی ہے اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھر میں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔اگر ممکن ہو کہ وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پچانیں توایسا ہی کرو اور خبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیارات نہ دو اس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور حاکم و متصرف نہیں ہے۔اس کے پاس و لحاظ کو اس کی ذات سے آگے نہ بڑھاؤ اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ نہ پیدا ہونے دو۔دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہار مت کرنا کہ اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستے پر چلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔
وَاجْعَلْ لِكُلِّ إِنْسَان مِنْ خَدَمِكَ عَمَلاً تَأْخُذُهُ بِهِ، فَإِنَّهُ أَحْرَی أَلاَّ یتَوَاكَلُوا فِی خِدْمَتِكَ وَأَکْرِمْ. عَشِیرَتَكَ، فَإِنَّهُمْ جَنَاحُكَ الَّذِی بِهِ تَطِیرُ، وَأَصْلُكَ الَّذِی إِلَیهِ تَصِیرُ، وَیدُكَ الَّتِی بِهَا تَصُولُ. اپنے ہر خادم کے لئے ایک عمل مقرر کردو جس کا محاسبہ کر سکو کہ یہ بات ایک دوسرے کے حوالہ کرنے کہیں زیادہ بہتر ہے۔اپنے قبیلہ کا احترام کرو کہ یہی تمہارے لئے پر اور بازو کا مرتبہ رکھتے ہیں اور یہی تمہاری اصل ہیں جن کی طرف تمہاری باز گشت ہے اور تمہارے ہاتھ ہیں جن کے ذریعہ حملہ کر سکتے ہو۔
اِسْتَوْدِعِ اللهَ دِینَكَ وَدُنْیاكَ، وَاسْأَلْهُ خَیرَ الْقَضَاءِ لَكَ فِی الْعَاجِلَةِ وَالاْجِلَةِ، وَالدُّنْیا وَالاْخِرَةِ، وَالسَّلاَمُ.اپنے دین و دنیا کو پروردگار کے حوالہ کر دو اور اس سے دعا کرو کہ تمہارے حق میں دنیا و آخرت میں بہترین فیصلہ کرے ۔والسلام

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج9، ص458۔
  2. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج9، ص458۔
  3. طاہرزادہ، فرزندم این چنین باید بود، 1393ہجری شمسی، ج1، ص20۔
  4. مصباح یزدی، پند جاوید، 1391ہجری شمسی، ج1، ص23۔
  5. بلاذری، انساب الاشراف، 1394ھ، ج2، ص305۔
  6. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، 1414ھ، نامہ 31، ص391۔
  7. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص510؛ ابن‌شعبہ حرّانی، تحف العقول،1404ھ، ص68۔
  8. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج9، ص459۔
  9. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص384۔
  10. ابن‌عبد ربّہ، العقد الفرید، 1407ھ، ج3، ص100-102۔
  11. بہشتی، دیگران، «نظام تربیتی اخلاقی در نامہ 31 نہج البلاغہ»، ص20۔
  12. بہشتی و دیگران، «نظام تربیتی اخلاقی در نامہ 31 نہج البلاغہ»، ص20۔
  13. دشتی، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، 1375ہجری شمسی، ص515۔
  14. محمدی، دشتی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، جدول اختلاف نسخ انتہای کتاب، 1369ش، ص 235.
  15. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج16، ص66-67۔
  16. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج16، ص66-67۔
  17. مصباح یزدی، پند جاوید، 1391ہجری شمسی، ج1، ص24-25؛ مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج9، ص460۔
  18. مصباح یزدی، پند جاوید، 1391ہجری شمسی، ج1، ص25۔
  19. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج9، ص457۔
  20. الحسینی الخطیب، مصادر نہج البلاغہ، 1409ھ، ج‌3، ص296۔
  21. بہ نقل از: سید ابن طاووس، کشف المحجّہ، 1375ہجری شمسی، ص220-234۔
  22. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص510۔
  23. بہ نقل از: سید ابن طاووس، کشف المحجّہ، 1375ہجری شمسی، ص218۔
  24. ابن‌عبد ربّہ، العقد الفرید، 1407ھ، ج3، ص100-102۔
  25. شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص384-392۔
  26. ابن‌شعبہ حرّانی، تحف العقول،1404ھ، ص68-88۔
  27. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی، ج9، ص458۔
  28. نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی، نامہ 31، ص518-538۔
  29. مصباح یزدی، پند جاوید، 1391ہجری شمسی، ج1، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  30. حسینی طہرانی، حیات جاوید، 1390ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  31. طاہرزادہ، فرزندم این چنین باید بود، 1393ہجری شمسی، ج1، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  32. سروش، حکمت و معیشت، 1387ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  33. فلسفیان، علی و استمرار انسان، 1398ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  34. زہادت، تعلیم و تربیت در نہج البلاغہ، 1390ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  35. کریمی جہرمی، بہ سوی مدینہ فاضلہ، 1376ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  36. عارفی، آموزہ‌ہای تربیتی نامہ امام علیؑ بہ امام حسنؑ، 1396ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  37. موسوی اصفہانی، مہربان‌ترین نامہ، 1382ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  38. شجاعی، آیین زندگی، 1388ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔
  39. دشتی، توصیہ‌ہای پدرانہ، 1386ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ۔
  40. امینیان، و علی افراسیابی، نمی از یمی، 1399ہجری شمسی۔
  41. شہیدی، بہ پسرم، 1398ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ۔
  42. علی‌دوست، نامۀ حکیمانہ، 1389ہجری شمسی، صفحہ شناسنامہ کتاب۔

نوٹ

  1. اس لفظ کے دیگر احتمالات سے آشنائی کے لئے ملاحظہ کریں: شوشتری، بہج الصباغہ، 1376ہجری شمسی، ج8، ص313-315۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • الحسینی الخطیب، سید عبدالزہراء، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، بیروت، دار الزہراء، 1409ھ۔
  • امینیان، کرم‌خدا، و علی افراسیابی، نمی از یمی، قم، نہاوندی، 1399ہجری شمسی۔
  • اَبن‌عَبدِ رَبِّہ، احمد بن محمد، العِقْدُ الفَرید، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1407ھ۔
  • اِبن‌شُعبہ حَرّانی، حسن بن علی، تُحَفُ العُقول عن آل‌الرسولؐ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1404ھ۔
  • بہشتی، سعید و دیگران، «نظام تربیتی اخلاقی در نامہ 31 نہج البلاغہ»، در مجلہ قرآن و طب، شمارہ 1، 1397ہجری شمسی۔
  • بَلاذُری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1394ھ۔
  • حسینی طہرانی، سید محمدمحسن، حیات جاوید، تہران، مکتب وحی، 1390ہجری شمسی۔
  • دشتی، محمد، توصیہ‌ہای پدرانہ، قم، مؤسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمؤمنینؑ، 1386ہجری شمسی۔
  • دشتی، محمد، و کاظم محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم، موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امیرالمؤمنینؑ، 1375ہجری شمسی۔
  • زہادت، سید عبدالمجید، تعلیم و تربیت در نہج البلاغہ، قم، بوستان کتاب، 1390ہجری شمسی۔
  • سروش، عبدالکریم، حکمت و معیشت، تہران، صراط، 1387ہجری شمسی۔
  • سید ابن طاووس، علی بن موسی، کَشْفُ المَحَجَّۃ لثَمَرَۃِ المُہجَہ، قم، بوستان کتاب، 1375ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی، قم، مشہور، 1375ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، 1414ھ۔
  • شجاعی، سید مہدی، آیین زندگی، تہران، نیستان، 1388ہجری شمسی۔
  • شہیدی، فاطمہ، بہ پسرم، قم، دفتر نشر معارف، 1398ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، مَن لا یَحْضُرُہُ الفَقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
  • طاہرزادہ، اصغر، فرزندم این چنین باید بود، اصفہان، لب المیزان، 1393ہجری شمسی۔
  • عارفی، محمدیونس، آموزہ‌ہای تربیتی نامہ امام علیؑ بہ امام حسنؑ، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی، 1396ہجری شمسی۔
  • علی‌دوست، علیرضا، نامۀ حکیمانہ، تہران، مؤسسہ اندیشہ کہن‌پرداز، 1389ہجری شمسی۔
  • فلسفیان، سید عبدالمجید، علی و استمرار انسان، قم، لیلۃ القدر، 1398ہجری شمسی۔
  • کریمی جہرمی، علی، بہ سوی مدینہ فاضلہ، قم، راسخون، 1376ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، 1407ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، پند جاوید، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی(رہ)، 1391ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمؤمنینؑ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • موسوی اصفہانی، سید علاءالدین، مہربان‌ترین نامہ، قم، مؤسسہ جہانی سبطین، 1382ہجری شمسی۔