یزید بن زیاد بن مہاصر کندی

ویکی شیعہ سے
(ابو الشعثاء کندی سے رجوع مکرر)
یزید بن زیاد بن مہاصر کندی
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
حرم امام حسینؑ میں بعض شہدائے کربلا کی آرامگاہ
کوائف
نام:یزید بن زیاد بن مہاصر کندی
نسبقبیلہ کندہ(بنی بہدلہ کی شاخ)
مقام سکونتکوفہ
شہادتروز عاشورا 61ھ
مقام دفنحرم امام حسینؑ
اصحابامام حسینؑ


یزید بن زیاد بن مہاصر مشہور بنام ابو الشعثاء کندی شہدائے کربلا میں سے ہے.

ایک نقل کے مطابق وہ واقعہ کربلا کے ابتدا میں لشکر عمر بن سعد کا حصہ تھا لیکن بعد میں جب امام حسین (ع) کی تجاویز کو اس نے قبول ہوتے نہیں دیکھا تو وہ امام حسین کے اصحاب میں شامل ہو گیا۔

نام، کنیت، نسب

یزید بن زیاد بن مہاصر کندہ قبیلہ سے تھا جو بنی بہدلہ کی شاخ ہے اور اس کی کنیت ابوالشعثاء تھی۔[1]

اصحاب امام حسین میں شمولیت

اصحاب امام حسین کے اصحاب میں شمولیت کے متعلق دو روایات ہیں:

  1. وہ لشکر عمر بن سعد کے ساتھ کوفہ سے کربلا آیا لیکن جب اس نے دیکھا کہ امام حسین(ع) کی تجاویز قبول نہیں ہوئیں تو اس نے اصحاب امام کے ملنے کا ارادہ کر لیا۔[2]
  2. وہ حر بن یزید اور اس کی سپاہ کے امام حسین (ع) تک پہنچنے سے پہلے کوفہ سے نکل آیا اور امام حسین کے کاروان میں شامل ہو گیا۔

جب ابن زیاد نے حر کو خط بھیجا تو ابو الشعثاء نے خط کے قاصد کو پہچان (اس کے قبیلے سے تھا) کر اسے کہا:

تیری ماں تیری عزا میں بیٹھے! کیا پیغام لائے ہو؟
اس نے جواب دیا: میں نے اپنے امام کی اطاعت کی ہے اور اپنے پیمان بیعت کی وفا کی ہے۔
ابوالشعثاء نے جواب دیا: تم نے اپنے پروردگار کی نا فرمانی کی اور اپنے امام کی راہِ ہلاکت میں پیروی کی ہے جس کے نتیجے میں ننگ و آتش جہنم کسب کی ہے۔ کیا تو نے خدا کا کلام نہیں سنا:وَجَعَلْناہُمْ ائِمَّةً يَدْعُونَ الَی النَّارِ وَيَومَ القیامَةِ لا يُنْصَرُون[3][4]

واقعہ کربلا

اس نے روز عاشورا گھوڑے پر سوار ہو کر جنگ کی اور گھوڑے کے پے ہو جانے کے بعد حضرت امام حسین کے سامنے دو زانو بیٹھ کر سو تیر دشمن کی طرف چلائے۔ ہر تیر کے چلانے سے پہلے درج ذیل رجز پڑھتا:

انا ابن بہدلہفرسان العرجلہ
میں قبیلہ بہدلہ کا فرزند ہوںمیں پیادہ لشکر کا جوان کارزار ہوں

امام حسین نے اس کا یہ حال دیکھ کر اس کے حق میں یوں دعا کی:

اللَّہُمَّ سَدِّدْ رَمْيَتَہُ وَاجْعَلْ ثَوابَہَ الْجَنَّة
خداوندا اس کے تیر نشانے پر لگیں اور اس کی جزا جنت قرار دے۔[5]

تیر ختم ہونے کے بعد اس نے کہا: میرے صرف پانچ تیر نشانے پر نہیں لگے۔ یہ کہہ کر تلوار سونت کر درج ذیل رجز پڑھتا ہوا دشمن پر حملہ آور ہوا :

انَا یزیدُ وابِی مُہاصراشْجَعُ مِنْ لیثٍ بِغَیلٍ خادِر
میں یزید و میرا باپ مہاصر ہے، میں شیر سے زیادہ دلیر ہوں
یا رَبِّ انّی لِلْحُسین ناصروَلِابْنِ سَعْدٍ تارِكٌ و ہاجر
اے خدا! میں یاور حسین ہوںاور میں عمر بن سعد کو چھوڑنے اور ہجرت کرنے والا ہوں

اور اس نے شہید ہونے تک اپنی جنگ کو جاری رکھا۔[6]

متعلقہ روابط

حوالہ جات

  1. ابصار العین، سماوی، ص۱۷۱
  2. تاریخ طبری، ج۵، ص۴۴۵-۴۴۶
  3. قصص، ۴۱
  4. تاریخ طبری، ج۵، ص۴۰۸؛ ذخیرہ الدارین، ص۲۳۹
  5. ابصار العین، سماوی، ص۱۷۲
  6. تاریخ طبری، ج۵، ص۴۴۵؛ ابصار العین، سماوی، ص۱۷۲

مآخذ

  • إبصار العين في أنصار الحسين، سماوی، زمزم ہدایت، قم، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
  • تاریخ الامم و الملوک، طبری، موسسہ الاعلمی، بیروت، ۱۴۰۳ھ۔