آیت صلح

ویکی شیعہ سے
(آیتِ صلح سے رجوع مکرر)
آیتِ صلح
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامصلح
سورہانفال
آیت نمبر61
پارہ10
محل نزولمدینہ
موضوعاخلاقی-فقہی
مضموناسلام کی صلح ‌طلبی
مربوط آیاتآیہ سلم



آیہ صُلْح (انفال: 61) پیغمبر اکرمؐ کو یہ حکم دیتی ہے کہ اگر کچھ لوگ اپنا پیمان توڑ دیں اور مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دیں مگر پھر صلح کی درخواست کر دیں تو مسلمانوں کے حاکم کی حیثیت سے ان کی صلح کی درخواست کو قبول کر لیں اور اس کے ممکنہ احتمالی نتائج وغیرہ کے خوف سے تردید کا شکار نہ ہوں اور خدا پر توکل کریں۔ اس آیت کو اسلام کی صلح پسندی کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔

آیت کا متن اور ترجمہ

وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ


اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے!



سورہ انفال: آیت 61

اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

سورہ انفال کی آیت نمبر ۶۱ ’’آیتِ صلح‘‘ یا ’’آیتِ سلم‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ [1] یہ آیت جو آیات جہاد کے بعد اور بعض دیگر آیات جیسے سوره بقره کی آیات ۱۹۰ تا ۱۹۳ اور سوره نساء کی آیت ۹۰ سے مربوط ہے؛ کو اس امر کی علامت قرار دیا جاتا ہے کہ اسلام نے جنگ کو بنیادی حیثیت نہیں دی ہے اور جہاں تک ممکن ہو صلح کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔[2]

آیت کا مضمون

اس آیت میں خدا پیغمبر اسلامؐ کو حکم دیتا ہے کہ اگر کفار یا دوسرے گروہ جیسے بنی قریظہ اور بنی نضیر جنہوں نے اپنے پیمان صلح کو توڑ دیا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں؛ اگر صلح اور امن و امان کی طرف مائل ہونے کا ثبوت دیں تو آپ بھی مصلحت کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ صلح کر لیں۔[3] یہ آیت پہلی آیت کہ جو دفاعی آمادگی اور مسلمانوں کی فوجی قوت کو مضبوط کرنے پر زور دیتی ہے؛ کے تسلسل میں صلح پسندی اور دوسروں کی جانب سے صلح کی تجویز کو قبول کر لینے کی آمادگی پر اصرار کرتی ہے۔[4]
اس آیت میں خدا اپنے پیغمبرؐ سے چاہتا ہے کہ اگر شرائط، عادلانہ ہوں تو بلاتردید صلح کو قبول کر لیں۔[5] اور اس پر توکل کرتے ہوئے ان امور سے خوفزدہ نہ ہوں جو پس پردہ ہیں اور ممکن ہے کہ اچانک ظاہر ہو جائیں اور آمادگی نہ ہونے کے باعث ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ ہو؛ کیونکہ خدائے سمیع و علیم نے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کیلئے کافی ہے۔ [6]
’’کلمہ سلم‘‘ اس آیت میں صلح و سیز فائز کر کے جنگ کو ترک کرنے، جزیہ دینے اور دین اسلام کو قبول کرنے کے معنی میں ہے۔[7] محمد جواد مغنیہ کا تفسیر الکاشف میں یہ خیال ہے کہ جو بھی صلح چاہتا ہو اس کے ساتھ صلح واجب ہے سوائے اس صورت کہ صلح ایک قسم کا فریب ہو تاکہ دشمن کو حملے یا دہشت گردی کی تیاری کا موقع مل سکے۔ وہ اس آیت میں صلح سے مراد ہر ایک کے ساتھ صلح لیتے ہیں خواہ وہ حالت جنگ میں ہو یا نہ ہو۔[8]

صلح کا جواز

فقہا، صلح کے ابواب (مهادنه) میں اس آیت اور صلح حدیبیہ میں پیغمبر کی سیرت سے استدلال کرتے ہوئے اور مسلمانوں کے حاکم کی مصلحت اندیشی کی بنیاد پر ان لوگوں کے مقابلے میں صلح کی مشروعیت اور جواز کے قائل ہوئے ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں۔[9] فقہا کا خیال ہے کہ صلح کے معاہدے کے بعد ضروری ہے کہ امن و آشتی سے زندگی بسر کریں اور ان کے حقوق کے تحفظ اور احترام کا خیال رکھا جائے اور ان کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات بھی قائم کیے جا سکتے ہیں۔[10]

نسخِ آیت

علامہ طباطبائی، ابن عباس سے منقول روایات کی بنیاد پر یہ سمجھتے ہیں کہ آیت صلح، سورہ توبہ کی آیات ۵ و ۲۹ جو مشرکین اور اہل کتاب میں سے سازشی ٹولوں کے خلاف اعلان جنگ کے بارے میں ہیں اور سورہ محمد کی آیت ۳۵ جو کافروں کے خلاف جہاد میں سستی نہ کرنے کے بارے میں ہے؛ کے ذریعے منسوخ ہو چکی ہے۔[11] علامہ طباطبائی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ آیت اس حکم کے وقتی ہونے کی طرف اشارے سے خالی نہیں ہے اور اسے ایک محدود مدت کیلئے تشریع کیا گیا اور یہ حکم دائمی نہیں ہے۔[12] اس کے مقابلے میں، طبرسی، تفسیر مجمع البیان میں یہ سمجھتے ہیں کہ آیتِ صلح اہل کتاب کے بارے میں ہے جبکہ سورہ توبہ کی آیات بت پرستوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛ لہٰذا ان کے نزدیک آیتِ صلح منسوخ نہیں ہوئی ہے۔ پیغمبر اسلامؐ نے بھی سنہ نو ہجری میں سورہ توبہ کی آیات کے نازل ہونے کے بعد نجران کے عیسائیوں سے صلح کر لی تھی۔[13]ٰ

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. معرفت، التمهید، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۵۵۔
  2. قرشی بنایی، احسن الحدیث، ۱۳۷۵ش، ج۴، ص۱۶۰۔
  3. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۹، ص۱۴۳؛ صادقی تهرانی، الفرقان، ۱۴۰۶ق، ج۱۲، ص۲۷۸
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه،‌۱۳۷۱ش، ج۷، ص۲۲۹۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه،‌۱۳۷۱ش، ج۷، ص۲۳۰۔
  6. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۹، ص۱۱۷۔
  7. مغنیه، تفسیر الکاشف، ۱۳۷۸ش، ج۳، ص۷۷۱۔
  8. مغنیه، تفسیر الکاشف، ۱۳۷۸ش، ج۳، ص۷۷۱۔
  9. طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۵۰؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۲۱، ص۲۹۳۔
  10. منتظری، مبانی فقهی حکومت اسلامی، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۴۳۔
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۹، ص۱۳۱۔
  12. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۹، ص۱۳۱۔
  13. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۸۵۳۔

مآخذ

  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان في تفسير القرآن‏، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۴۰۸ھ۔
  • صادقی تهرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن، قم، فرهنگ اسلامی، ۱۴۰۶ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۳۹۰ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقه الامامیه، تهران، المكتبة المرتضوية لإحياء الآثار الجعفرية‌، ۱۳۸۷ھ۔
  • قرشی بنایی، علی اکبر، تفسير احسن الحديث‏، تهران، بنیاد بعثت، ۱۳۷۵شمسی۔
  • معرفت، محمدهادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، نشر اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
  • مغنیه، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تهران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۴۲۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دارالکتب العلمیه، ۱۳۷۱شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، مبانی فقهی حکومت اسلامی، مترجم محمود صلواتی، ابوالفضل شکوری، قم، موسسه کیهان، ۱۴۰۹ھ۔
  • نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔