مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 2: سطر 2:
[[حدیث قرطاس]] یا [[حدیث قرطاس|حدیث قلم و کاغذ]]، [[رسول خدا]] کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے اپنے بعد مسلمانوں کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کا نسخہ لکھنے کیلئے [[صحابہ]] سے قلم اور دوات مانگی جسے حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے یہ کہہ کر رد کیا کہ "یہ شخص بیماری کی وجہ سے ہذیان کہہ رہا ہے"۔ یوں [[رسول اللہ]] امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنی [[وصیت]] نہ لکھ سکے۔  
[[حدیث قرطاس]] یا [[حدیث قرطاس|حدیث قلم و کاغذ]]، [[رسول خدا]] کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے اپنے بعد مسلمانوں کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کا نسخہ لکھنے کیلئے [[صحابہ]] سے قلم اور دوات مانگی جسے حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے یہ کہہ کر رد کیا کہ "یہ شخص بیماری کی وجہ سے ہذیان کہہ رہا ہے"۔ یوں [[رسول اللہ]] امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنی [[وصیت]] نہ لکھ سکے۔  


اس واقعے میں خلیفہ دوم کی جانب سے [[رسول اللہؐ]] کے حکم کی تامیل نہ کرنا، خاص کر آپ کی طرف ہذیان کی نسبت دینے کو [[قرآن کریم]] اور اسلامی تعلیمات کی منافی سمجھتے ہوئے بعض مسلمان مصنفین نے خلیفہ دوم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس واقعے کو [[شیعہ]] [[سنی]] تاریخی اور حدیثی منابع میں مصیبت عظمی سے یاد کیا گیا ہے۔  
اس واقعے میں خلیفہ دوم کی جانب سے [[رسول اللہؐ]] کے حکم کی تعمیل نہ کرنا، خاص کر آپ کی طرف ہذیان کی نسبت دینے کو [[قرآن کریم]] اور اسلامی تعلیمات کی منافی سمجھتے ہوئے بعض مسلمان مصنفین نے خلیفہ دوم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس واقعے کو [[شیعہ]] [[سنی]] تاریخی اور حدیثی منابع میں مصیبت عظمی سے یاد کیا گیا ہے۔  


[[اہل تشیع]] کے مطابق اس موقع پر [[پیغمبر اکرمؐ]] اپنے بعد [[حضرت علیؑ]] کی جانشینی سے متعلق کچھ لکھنا چاہتے تھے۔
[[اہل تشیع]] کے مطابق اس موقع پر [[پیغمبر اکرمؐ]] اپنے بعد [[حضرت علیؑ]] کی جانشینی سے متعلق کچھ لکھنا چاہتے تھے۔

نسخہ بمطابق 06:32، 19 فروری 2018ء

حدیث قرطاس یا حدیث قلم و کاغذ، رسول خدا کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے اپنے بعد مسلمانوں کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کا نسخہ لکھنے کیلئے صحابہ سے قلم اور دوات مانگی جسے حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کیا کہ "یہ شخص بیماری کی وجہ سے ہذیان کہہ رہا ہے"۔ یوں رسول اللہ امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنی وصیت نہ لکھ سکے۔

اس واقعے میں خلیفہ دوم کی جانب سے رسول اللہؐ کے حکم کی تعمیل نہ کرنا، خاص کر آپ کی طرف ہذیان کی نسبت دینے کو قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کی منافی سمجھتے ہوئے بعض مسلمان مصنفین نے خلیفہ دوم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس واقعے کو شیعہ سنی تاریخی اور حدیثی منابع میں مصیبت عظمی سے یاد کیا گیا ہے۔

اہل تشیع کے مطابق اس موقع پر پیغمبر اکرمؐ اپنے بعد حضرت علیؑ کی جانشینی سے متعلق کچھ لکھنا چاہتے تھے۔

واقعے کی تفصیل

تاریخی اور حدیثی کتابوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر بیماری پر 25 صفر سنہ 11 ہجری کو جب بستر بیماری پر تھے تو حاضرین سے فرمایا: مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ دوں، جس کی بدولت تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے مخالفت کی جس کی وجہ سے حضور اکرمؐ کی وصیت نہ لکھی جا سکی. وہاں پر حاضر ایک شخص نے کہا پیغمبرؐ بے ہوشی کے عالم میں بول رہے ہیں، ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے. یہ سننے کے بعد صحابہ کے درمیان نزاع شروع ہو گئی۔ پیغمبر نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ اکثر مآخذ میں پیغمبرؐ کی مخالفت کرنے والا شخص دوسرا خلیفہ تھا.[1] لیکن بعض مآخذ میں اس کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا. [2]

علماء شیعہ کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ چاہتے تھے کہ اپنے بعد امام علیؑ کو اپنا جانشین ہونے کی تاکید کریں. لیکن بعض حاضرین کو اس کی خبر ہو گئی اس لئے انہوں نے آپؐ کو یہ لکھنے سے روک لیا. [3] دوسرے خلیفہ اور ابن عباس کے درمیان جو گفتگو ہو رہی تھی اس میں دوسرے خلیفہ نے کہا: پیغمبر اکرمؐ بیماری کی حالت میں اپنے بعد امام علیؑ کو اپنا خلیفہ لکھنا چاہتے تھے کہ میں نے اسلام کی حفاظت اور اس کی دلسوزی کی خاطر آپؐ کو اس کام سے روک لیا. [4]


مآخذ حدیث

مآخذ اہل سنت

یہ حدیث اہل سنت کے بہت سے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا:

شیعہ مآخذ

مختلف مؤقف

شیعہ کا مؤقف

علمائے شیعہ اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے رسول اللہ کے وصیت لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ [27] اہل سنت کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رسول اللہ کی وصیت میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔[28]

شرف الدین عاملی المراجعات میں قرآنی آیات کے تناظر میں حضرت عمر پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:[29]

  1. رسول خداؐ کے حکم کی نافرمانی اور رسول کی مخالفت ۔
  2. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا حضرت عمر رسول اللہ سے زیادہ دانا تر ہے۔
  3. رسول کی نسبت ہذیان گوئی کا الزام لگانا۔

شیعوں کے نزدیک حضرت عمر کا یہ رویہ قرآن کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا:

  • وَمَا آتَاکمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکمْ عَنْهُ فَانتَهُواآیت ۷سورہ حشر

جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔

  • مَا ضَلَّ صَاحِبُکمْ وَمَا غَوَیٰ ﴿۲﴾ وَمَا ینطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ ﴿۳﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَیٰ ﴿۴﴾ عَلَّمَهُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ﴿۵﴾سورہ نجم
کہ تمہارا یہ ساتھی پیغمبرِ اسلامؐ نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4)

اہل سنت کا مؤقف

اہل سنت علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا:

  • بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اورغیر معتبر سمجھتے ہیں ۔
  • بعض اس حدیث کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور ترک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ پیغمبر ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی پیغمبر ہذیان نہیں کہتا ہے ؟
  • عمر کا قرآن کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔
  • بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں۔

حضورؐ نے کیوں لکھنے کا ارادہ ترک کیا

بعض شیعہ علماء کے مطابق، پیغمبرؐ کے لکھنے کا ارادہ ترک کرنے کی دلیل، وہی گفتگو تھی جو اس کے مقابلے میں کہی گئی، کیونکہ حضور اکرمؐ کی وفات کے بعد، اب اس لکھے ہوئے کا کوئی اثر باقی نہیں رہنا تھا، سوائے اختلاف کے. اس لئے اگر پیغمبر اکرمؐ لکھنے کا حکم بھی دیتے تو ممکن ہے کہا جاتا کہ یہ لکھا ہوا بے ہوشی کے عالم میں تھا. [30]


حوالہ جات

  1. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹؛ مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۵-۷۶؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۲-۲۴۵.
  2. ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۴۵؛ بیہقی، السنن الکبری، دارالفکر، ج۹، ص۲۰۷.
  3. شرف الدین، المراجعات، المجمع العالمی لاہل البیت، ص۵۲۷.
  4. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۲، ص ۲۰-۲۱.
  5. صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.
  6. صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.
  7. صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.
  8. صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.
  9. صحیح البخاری، ج۷، ص۹.
  10. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۵.
  11. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  12. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  13. مسند الامام احمد بن حنبل، ج۲، ح۱۹۶۳، ص۴۵.
  14. بیہقی، السنن الکبری، ج۹، ص۲۰۷.
  15. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
  16. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
  17. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
  18. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
  19. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۳.
  20. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
  21. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
  22. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۵.
  23. شیخ مفيد، الإرشاد، ج۱، ص۱۸۴
  24. شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۴۰۶
  25. نعماني الغيبت، ص ۸۱-۸۲
  26. ابن شہرآشوب، المناقب، ج۱، ص۲۳۶
  27. جوہري، مقتضب الأثر، ص1
  28. صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  29. شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.
  30. شرف الدین، المراجعات، المجمع العالمی لاہل البیت، ص۵۲۷.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم،‌دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق.-۱۹۵۹م.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت:‌دار صادر، بی‌تا.
  • بخاری، صحیح البخاری، ج۱، بیروت: دارالفکر، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
  • بیہقی، احمد بن الحسین، السنن الکبری، بیروت: دارالفکر، بی‌تا.
  • احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، حققه ووضع حواشیہ ورقم احادیثہ: محمد عبدالقادر عطا، ج۲، بیروت:‌دار الکتب العلمیہ، ۲۰۰۸م.
  • شرف الدین العاملی، المراجعات، قدم لہ: حامد حفنی داود، محمد فکری عثمان ابوالنصر، الطبعہ العشرون، مصر: قاہرہ، ۱۳۹۹ق-۱۹۷۹م. ترجمہ فارسی: مناظرات، مترجم: حیدرقلی بن نور محمدخان سردار کابلی، با مقدمہ کیوان سمیعی، تہران: نشر سایہ، ۱۳۸۰ش.
  • الصنعانی، عبدالرزاق، المصنف، تحقیق وتخریج وتعلیق: حبیب الرحمن الاعظمی، بی‌جا: منشورات المجلس العلمی، بی‌تا.
  • القاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ج۲، مذیلاً بالحاشیة المسماة مزیل الخفاء عن ألفاظ الشفاء للعلامہ أحمد بن محمد بن محمد الشمنی (۸۷۳ هـ)، بیروت:‌دار الفکر، ۱۴۰۹ - ۱۹۸۸ م.
  • نیسابوری، مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح (صحیح مسلم)، بیروت: دارالفکر، بی‌تا.
  • متقی ہندی، کنز العمال، تحقیق، ضبط و تفسیر: بکری حیانی، تصحیح وفہرسہ: صفوة السقا، بیروت: مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۹ق-۱۹۸۹م.