واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ

ویکی شیعہ سے
(واقعہ سقیفہ سے رجوع مکرر)

واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ، سنہ 11 ہجری میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد وہ پہلا واقعہ ہے جس میں ابوبکر ابن ابی قحافہ مسلمانوں کا خلیفہ منتخب ہوا۔ پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد امام علیؑ اور بعض اصحاب آنحضرتؐ کی آخری رسومات میں مشغول تھے اسی دوران انصار کا ایک گروہ سعد بن عبادہ کی سربراہی میں سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوا تاکہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد اپنا رہبر انتخاب کر سکے۔

بعض مورخین کے مطابق انصار کا یہ اجتماع صرف مدینہ کے حاکم کی تعیین کے لئے منعقد ہوا تھا۔ لیکن بعض مہاجرین کا اس جلسے میں حاضر ہونے کے بعد بحث کا رخ پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کی طرف موڑ دیا گیا اور آخر میں ابوبکر کی بعنوان خلیفہ بیعت کی گئی۔ اس جلسے میں مہاجرین کی ترجمانی ابوبکر کر رہے تھے جن کے ساتھ عمر ابن خطاب اور ابوعبیدہ جراح بھی سقیفہ میں حاضر تھے۔

اہل‌ سنت ابوبکر کی حاکمیت اور خلافت کی مشروعیت کو ثابت کرنے کے لئے مذکورہ اجتماع سے استناد کرتے ہیں جبکہ مورخین کے مطابق ابوبکر کا انتخاب سب کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ کیونکہ اس واقعہ کے بعد حضرت علیؑ، فاطمہ زہراؑ، پیغمبر کے چچا عباس کے بیٹے فضل اور عبداللہ سمیت سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد بن عمرو اور زبیر بن عوام جیسے بعض صحابہ نے سقیفہ کے اجتماع اور اس کے فیصلے پر اعتراض کیا۔ شیعہ حضرات سقیفہ کے واقعے کو امام علیؑ کی جانشینی کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی صریح اعلانات خاص کر غدیر خم کے واقعے کے خلاف سمجھتے ہیں۔

تاریخی کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر ہوا ہے اور اس کے تجزیہ و تحلیل کے سلسلہ میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مغربی اسلام شناس اور بعض مستشرقین (اورینٹالسٹ) جیسے ہنری لامنس (Henri Lammens)، کایٹانی (Leone Caetani) و ویلفرڈ میڈلنگ (Wilferd Ferdinand Madelung) نے اپنی کتابوں میں سقیفہ کے واقعے کو بیان کیا ہے جن میں سے ویلفرڈ میڈلنگ کی کتاب حضرت محمدؐ کے جانشین (The Succession to Muhammad) اور ہنری لامنس کی کتاب «نظریہ مثلث قدرت» ان میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔

واقعے کا محل وقوع

سقیفہ بنی‌ ساعدہ پندرہویں صدی ہجری میں

سقیفہ سایبان کی مانند ایک جگہ تھی جہاں عرب قبائل عوامی مسائل پر مشاورت کے لئے جمع ہوتے تھے۔[1] پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد انصار اور مہارین کے ایک گروه نے یہاں جمع ہو کر رسول خداؐ کی جانشینی اور خلافت کے بارے میں مشاورت کی جس کے نتیجے میں ابوبکر کی بعنوان خلیفۃ المسلمین بیعت کی گئی۔ یہ جگہ انصار اور قبیلہ خزرج کے بنی ساعدہ نامی طائفے کی تھی اور اسلام سے پہلے ان کے عوامی جلسے اسی جگہ منعقد ہوتے تھے۔ اسلام کی آمد اور پیغمبر اکرمؐ کا مدینہ تشریف لانے کے بعد سے آپؐ کی رحلت تک عملی طور پر سقیفہ اپنی اہمیت کھو چکی تھی کیونکہ پیغمبر اکرمؐ مسلمانوں کے تمام امور مسجد میں انجام دیتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ کے کی رحلت کے بعد آپ کی جانشینی اور مسلمانوں کے رہبر اور رہنما کے انتخاب کے لئے انصار اور مہاجرین کا سقیقہ بنی ساعدہ میں جمع ہونا تاریخ اسلامی میں مسلمانوں کا پہلا اجتماع تھا۔[2]

واقعہ کی تفصیل

سقیفہ بنی‌ ساعدہ میں بعض مسلمانوں کے اجتماع کی اصل روایت کو عبد اللہ بن عباس نے عمر بن خطاب سے نقل کیا ہے جو اس سلسلے کی باقی تمام روایات کا سرچشمہ ہے۔ باقی روایات کو ابن ہشام طبری، عبد الرزاق بن ہمّام، بخاری اور ابن حنبل نے مختصر کمی بیشی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ [3]

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے اعلان کے بعد بعض انصار مستقبل میں اپنی حیثیت کی تعیین اور پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی سے متعلق مشاورت کے لئے سقیفہ بنی سعدہ میں جمع ہوئے۔ تاریخی منابع کے مطابق اس جلسے کی ابتدا میں قبیلے خزرج کے بزرگ سعد بن عبادہ نے بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے اپنے بیٹے کے لوگوں سے خطاب کیا۔ انہوں نے مختلف دلائل کے ساتھ انصار کو پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کا حقدار ٹھہراتے ہوئے انصار کو جاری امور کی بھاگ دوڑ سنبھالنے کی دعوت دی۔ سامعین نے سعد کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے خود ان کو اپنا حاکم انتخاب کرتے ہوئے ان کی مخالف نہ کرنے کی تاکید کی۔[4] لیکن حاضرین میں سے بعض نے مہاجرین کی طرف سے ان کے اس فیصلے کو نہ ماننے اور ان کا ساتھ نہ دینے کے خدشے کے پیش نظر مہاجرین اور انصار دونوں میں سے ایک ایک امیر انتخاب کرنے تجویز بھی پیش کی۔ [5]

مذکورہ اجتماع اور ان کے عزائم کی خبر جب ابوبکر اور عمر تک پہنچی تو انہوں نے ابوعبیدہ جراح سمیت سقیفہ کا رخ کیا۔ وہاں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے عمر کو تقریر کرنے سے روکا اور خود آگے بڑھ کر سامعین سے مطاطب ہوتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے مہاجروں اور قریش کی برتری کو ثابت کردیا۔[6] سامعین میں سے بعض نے ان باتوں کی حمایت اور بعض نے مخالفت کی یہاں تک کہ بعض نے اس منصب کے لئے حضرت علیؑ کو لایق سمجھتے ہوئے ان کے علاوہ کسی اور کی بیعت سے انکار کردیا؛[7] لیکن آخر کار ابوبکر نے عمر اور ابوعبیدہ کو اس مقام کے لئے مناسب قرار دیا۔ اس پر ان دونوں نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ابوبکر کی تجویز کی مخالفت کی۔[8]

تاریخ طبری کے مطابق عمر ابن خطاب اس واقعے کے بارے میں کہتا ہے: «اس وقت ہر طرف سے شور و غل اور چہ میگویاں شروع ہوئی اور ہر طرف سے کوئی آواز آنے لگی اور کسی کی بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ مجھے خوف ہونے لگا کہ کہیں اختلافات کی وجہ سے ہمارے کام کا شیرازہ نہ بکھیر جائے۔ اس لئے میں نے ابوبکر سے کہا: آپ ہاتھ پھیلاؤ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں؛ لیکن میرا ہاتھ ابوبکر کے ہاتھ تک پہنچنے سے پہلے سعد ابن عبادہ کے رقیب بشیر بن سعد خزرجی نے ابوبکر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ان کی بیعت کی۔[9][10] اس کے بعد ابوبکر کی بیعت کے لئے سقیفہ میں حاضر لوگ کا ہجوم ہونے لگا یہاں تک کہ بیمار سعد بن عبادہ پاوں تلے روندے جانے لگا۔ اس پر عمر کے ساتھ سعد کے بیٹے اور قیس کی تلخ کلامی بھی ہوئی جو ابوبکر کی میانجگری سے ختم ہوئی۔[11][یادداشت 1]

سقیفہ کے مناظرے

سقیفہ میں انصار اور بعد میں پہنچنے والے مہاجروں کے درمیان بہت ساری گفتگو ہوئی جس میں سے ہر ایک موثر تھی لیکن سب سے زیادہ موثر ابوکر اور ان کے ساتھیوں کی باتیں تھیں۔ تاریخ میں ذکر شدہ اہم باتیں مندرجہ ذیل افراد کی تھیں:

سعد بن عبادہ: انہوں نے ابوبکر اور اس کے ہمراہ کے آنے سے پہلے جلسے کی ابتدا میں بات کی اور وہ بھی بیماری اور ناتوانی کے بابت اس کا بیٹا ان کی باتوں کو سامعین تک پہنچاتا تھا۔ اس کی اہم باتیں مندرجہ ذیل ہیں: انصار کی فضیلت اور تعریف، ان کی دیگر مسلمانوں پر برتری، اسلام اور پیغمبر کے لئے ان کی خدمات، اور پیغمبر اکرم کی رحلت کے وقت آنحضرتؐ انصار سے راضی ہونے کو بیان کیا۔ اور انہی دلائل کے پیش نظر پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے انصار کو برتر قرار دیا اور ان کو امور سنبھالنے کی دعوت کی اور مہاجر اور انصار میں سے ہر ایک سے ایک امیر کی تجویز کو شکست اور عقب نشینی سمجھتا تھا۔[12]

ابوبکر: اس اجتماع میں ان کی باتیں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں اور چند مرتبہ گفتگو کی جن کا خلاصہ یہ ہے: انصار پر مہاجرین کی برتری، جیسے پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کی تصدیق میں دوسروں سے سبقت، اللہ پر ایمان لانے اور ان کی عبادت میں سبقت، پیغمبر اکرمؐ سے مہاجرین کی رشتہ داری یا دوستی، انہی دلیلوں کی بنیاد پر مہاجرین جانشین بننے کے لئے دوسروں پر فوقیت رکھتے ہیں اور انصار کی فضیلت کے بابت وہ بھی وازرت کے مقام کے لئے باقیوں پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن حکومت کے لئے نہیں اور نیز مہاجروں کی جانشینی کی مخالفت کرنے پر منع کیا۔[13]

حباب بن منذر: انہوں نے بھی سقیفہ میں دو یا تین مرتبہ بات کی اور ہر دفعہ مہاجروں کے خلاف بالخصوص ابوبکر اور عمر کے خلاف لوگوں کو ابھارا اور ان کو دھمکیاں دی۔[14] اس نے بھی ہر قوم سے ایک امیر انتخاب کرنے کی تجویز پیش کی۔[15]

عمر بن خطاب: عمر نے زیادہ تر ابوبکر کی باتوں کی تائید کی ہے اور ان کی باتوں پر استدلال کرتے ہوئے تایید کی ہے۔ جن میں سے بعض دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں: پیغمبر کا جانشین ان کے رشتہ داروں میں سے بننے کی صورت میں اعراب کی مخالفت نہ ہونا، دونوں گروہ میں سےہر ایک سے ایک امیر کا امکان نہ ہونا، کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نیام نہیں ہوسکتی ہیں۔[16]

ابوعبیدہ جراح: انہوں نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے دین اور مسلمانوں کے اتحاد میں تبدیلی لانے کی نہی ہے۔ [17]

بشیر بن سعد: وہ خزرج اور انصار میں سے ہے۔ انہوں نے بھی کئی مرتبہ ابوبکر اور ان کے ساتھیوں کی باتوں کی تایید کی ہے اور خدا سے ڈرو، ایک مسلّم حق کی مخالف نہ کریں، اور انصار کو مہاجروں کی مخالفت سے منع کیا ہے۔[18]

عبدالرحمن بن عوف: انہوں نے حضرت علیؑ، ابوبکر اور عمر کی عظمت اور فضیلت بیان کی ہے اور انصار میں ایسی شخصیات نہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ [19]

زید بن ارقم: وہ انصار میں سے تھا اور ابوبکر اور عبد الرحمن بن عوف کے استدلال کے برخلاف وہ حضرت علیؑ کی حمایت کرتے ہوئے آپؑ کو مذکورہ تمام خصوصیات کا حامل سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اگر آپؑ بیعت کے لئے ہاتھ پھیلاتے تو کوئی بھی ان کی مخالفت نہ کرتا۔[20]

سقیفہ میں موجود گروہ

سقیفہ بنی ساعدہ کے بارے میں اہل سنت مآخذ میں موجود گزارشات میں مہاجر اور انصار میں سے عام لوگوں کی سیاسی مشارکت کا ذکر آیا ہے،[21] جبکہ بہت سارے مآخذ میں ابوبکر کی بیعت دو مرحلوں میں انجام پانے کا ذکر آیا ہے یعنی سقیفہ کے دن اور باقی لوگوں کی بیعت مدینہ شہر میں سقیفہ کے دوسرے دن واقع ہوئی اور اسے عام بیعت سے یاد کیا ہے۔[22]؛ ان گزارشات سے عام لوگوں کی سیاسی شرکت کرنے والی بات مخدوش ہوتی ہے۔

تاریخی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سقیفہ کے جلسے میں مہاجروں میں سے صرف ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ حاضر تھے اور ان کے علاوہ ان کے نوکر اور گھر کے بعض افراد کا حاضر ہونا بھی بعید نہیں ہے۔ اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ ابو حذیفہ کا آزاد شدہ غلام سالم بھی سقیفہ میں حاضر تھا جو ابوبکر کی بیعت کرنے والے ابتدائی افراد میں سے تھا؛ اگرچہ ابتدائی معتبر تاریخی مآخذ میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ مآخذ میں دوسرے مہاجرین یہاں تک کہ درمیانی یا آخرین درجے کے افراد کا بھی ذکر نہیں ملتا ہے۔[23] بعض محققوں نے بعض استناد کے مطابق کہا ہے کہ سقیفہ میں موجود مہاجروں کی تعداد بہت کم تھی۔[24]

مآخذ کی گزارش کے تحت سقیفہ میں انصار میں سے مندرجہ ذیل مشہور افراد موجود تھے: سعد بن عبادہ، پسرش قیس ابن سعد، بشیر بن سعد سعد کا رقیب اور چچا زاد بھائی اسید بن حضیر بن سماک، ثابت بن قیس، براء بن عازب اور حباب بن منذر.[25]

ابن قتیبہ کی یہ عبارت «اگر سعد کے پاس ان سے لڑنے کے لئے کوئی مددگار ہوتے تو ضرور ان کا مقابلہ کرتا۔»[26]، یہ جملہ کنایہ ہے اس بات کی طرف کہ انصار کا اجماع نہیں تھا اور سقیفہ کے اجتماع میں ان کی تعداد کم تھی۔[27]

سقیفہ کا اجتماع اور انصار کا مقصد

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انصار کا سقیفہ میں جمع ہونے کی اصل وجہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں پایا جانے والا خوف تھا خاص کر اس بات سے پریشان تھے کہ فتح مکہ کے بعد قریش کا باہمی اتحاد ان کے ضرر میں ایک متحدہ محاز کی شکل اختیار کرے گا۔ اس نظرئے کے حامی اس بات کا بھی احتمال دیتے ہیں کہ مہاجروں میں بعض لوگوں کا پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے کی جانے والی سازشوں کا انصار کو شاید علم ہوجانا بھی موثر تھا۔[28] جبکہ بعض دوسرے مصنفین کے مطابق سقیفہ کا اجتماع مندرجہ ذیل مسائل کا نتیجہ تھا:

  • انصار کی طرف سے دی جانے والی جان مال اور اولاد کی قربانیوں کی وجہ سے وہ اسلام کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے اور اس کی حفاظت کے لئے خود ان سے بڑھ کر کسی و لایق اور دلسوز نہیں سمجھتے تھے۔
  • انصار کو قریش کے انتقام کا خوف، کیونکہ اس قوم کے اکثر بزرگ غزوات نبی میں انصار کی تلواروں سے مارے گئے تھے۔ اور پیغمبر اکرمؐ نے بھی اپنے بعد ان پر ظلم و ستم اور استبداد کی خبر دی تھی اور انصار کو اس موقعے پر صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین بھی کیا تھا۔
  • انصار یہ احساس کر رہے تھے کہ حضرت علیؑ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے کہی گئی باتوں پر قریش عمل نہیں کرینگے۔[29]

بعض کا کہنا ہے کہ ابوبکر نے مسجد میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کی خبر سنادی تو مدینہ کے کچھ لوگوں نے ابوبکر کو گھیر لیا اور اس کی بیعت کی اور یہ بات سبب بنی کہ انصار نے بھی سوچا خلیفہ انتخاب کرنا سب کے لئے جائز ہے اور اسی وجہ سے وہ سقیفہ میں جمع ہوگئے۔[30]

پیغمبر کے اصحاب اور قریش کے بزرگوں کا موقف

سقیفہ اور عمر ابن خطاب کا اعتراف

ابوبکر کی بیعت ایک غلطی تھی جو انجام پائی اور گزر گئی، ہاں ایسا ہی تھا، لیکن اللہ تعالی نے اس غلطی کی شر سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔»، جس نے بھی خلیفے کے انتخاب میں ایسا کیا اسے قتل کردو۔[31]۔

امام علیؑ، پیغمبر اکرمؐ کے اہل بیت اور بعض مہاجر اور انصار نے ابوبکر کی بیعت کی مخالفت کی تاریخی شواہد کے مطابق ان میں سے اہم شخصیات: عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو، سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار بن یاسر، براء بن عازب اور ابی بن کعب تھے۔[32]

ان اصحاب اور قریش کے بزرگوں نے مختلف موقعوں پر پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے لئے ابوبکر کی نا اہلی کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے بعض بیانات مندرجہ ذیل ہیں:

  • فضل بن عبّاس نے قریش کو غفلت اور حقیقت چھپانے کی نسبت دیتے پیغمبر کے جانشین کے لئے پیغمبر کی اہل بیت بالخصوص امام علیؑ کو سب سے زیادہ مستحق قرار دیا۔[33]
  • سلمان فارسی نے مسلمانوں سے ہم کلام ہوتے ہوئے سقیفہ کی بیعت کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے پیغمبر اکرمؐ کی اہلبیت کا حق سمجھا جو معاشرے کے لئے خیر کے باعث ہیں۔[34]
  • ابوذر غفاری اس دن مدینہ میں موجود نہیں تھے اور جب شہر پہنچا تو ابوبکر کی خلافت کی خبر ملی۔ مآخذ کے مطابق انہوں نے ایک بار وقعہ کی خبر سنتے ہی اس ابتدا میں [35] اور ایک مرتبہ بعد میں عثمان ابن عفان کے دور میں پیغمبر اکرم کے جانشین بننے کا حق اہل بیت کا ہونے کے بارے میں بات کی ہے اور ان کی حکومت کو خیر و برکت کا سبب قرار دیا ہے۔[36]
  • مقداد بن عمر نے سقیفہ کے فیصلوں پر بیعت کرنے پر تعجب اور امیر المومنینؑ کی حقانیت کی تصریح کی ہے۔[37]
  • عمر بن خطّاب نے اپنی عمر کے آخر سال میں کہا:« ابوبکر کی بیعت ایک غلطی تھی جو انجام پائی اور گزر گئی، ہاں ایسا ہی تھا، لیکن اللہ تعالی نے اس غلطی کی شر سے لوگوں کو محفوظ رکھا۔»، جس نے بھی خلیفے کے انتخاب میں ایسا کیا اسے قتل کردو۔[38]
  • ابوسفیان جو اس واقعے سے پہلے پیغمبر اکرمؐ نے کسی کام سے مدینہ سے باہر بھیجا تھا مدینہ پہنچنے اور پیغمبرؐ کی وفات کی خبر سننے کے بعد علیؑ اور عباس ابن عبدالمطلب کے عکس العمل کے بارے میں سوال کیا۔ اور ان دونوں شخصیات کی گوشہ نشینی کا سن کر کہا: « خدا کی قسم اگر ان کے لئے زندہ رہوں تو ان کے پیر کو بلندیوں پر لے جاوں گا۔ اور پھر کہا:« میں ایسے گرد وغبار دیکھ رہا ہوں جو خون کے بارش کے بغیر نہیں ختم ہوگا۔[39] منابع کے مطابق مدینہ آتے ہی امام علیؑ کی خلافت کی حمایت اور ابوبکر و عمر کی مذمت میں کچھ اشعار پڑھے ہیں۔.[40] [یادداشت 2]
  • معاویہ بن ابوسفیان نے سقیفہ کے چند سال بعد ایک خط میں محمد بن ابی‌بکر سے کہا ہے: «۔۔۔ تمہارا باپ اور اس کا فاروق عمر، وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے علی سے حق چھین لیا اور ان کی مخالفت کی۔ ان دونوں نے آپس میں اتفاق کیا اور علی سے بیعت مانگی اور چونکہ علی نے انکار کیا تو ان کے خلاف ناروا فیصلے کئے اور ان کے بارے میں خطرناک عزائم سوچے جس کی وجہ سے علی نے ان کی بیعت کی ۔.[41]

حضرت علی کا عکس العمل

خطبہ شقشقیہ کا حصہ

خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں علم کا وہ بلند پہاڑ ہوں جس پر سے علم کا سیلاب کا میرے وجود سے سیلاب کی طرح نیچے گرتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔

سقیفہ کے واقعے کے بعد علیؑ نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ اور بعض کے کہنے کے مطابق امیر المومنینؑ نے کبھی بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ [42] ایک اور گروہ کا کہنا ہے کہ حضرت زہراؑ کی شہادت کے بعد علیؑ نے ابوبکر کی بیعت کی۔[43] سقیفہ کے ابتدائی دنوں میں جب سقیفہ کے آلۂ کار، امام علیؑ سے زبردستی ابوبکر کی بیعت لینا چاہتے تھے تو آپؑ نے ان کو مخاطب کر کے فرمایا: «بیعت کے لئے تم لوگوں سے زیادہ میں شایستہ ہوں اور تمہاری بیعت نہیں کرونگا بلکہ تم لوگوں کو میری بیعت کرنی چاہیے، تم نے پیغمبر اکرمؐ سے رشتہ داری کی بنا پر انصار سے خلافت چھین لیا اور ان سے کہا ہے: چونکہ ہم پیغمبر اکرمؐ کے رشتہ دار ہیں اور اور خلافت کے لئے شایستہ ہیں، اور انہوں نے بھی اسی بنا پر امامت اور خلافت کو تمہارے حوالے کیا۔ میں بھی اسی وجہ سے جو تم لوگوں نے انصار کے سامنے دلیل بنا کر پیش کیا تھا، اسی کو پیش کر رہا ہوں (پیغمبر اکرمؐ سے قرابت) پس اگر خدا سے ڈرتے ہو تو ہمارے ساتھ انصاف کرو اور جس بات کو انصار نے تمہارے ساتھ مان لیا ہے تم لوگ میرے لئے مان لو وگرنہ جانتے ہوئے ظلم و ستم کے مرتکب ہوگے»۔.».[44]

بعض تاریخی گزارشات کے مطابق علیؑ نے ابوبکر کے ساتھ ایک نرم لہجے میں مفصل اور واضح اور شفاف مناظرہ کیا اور اس میں ابوبکر کو سقیفہ میں اہل بیتؑ کی حق تلفی کرنے پر محکوم کیا، اور ابوبکر آپؑ کی باتوں سے متاثر ہوکر آپؑ، پیغمبر اکرم کے جانشین ہونے کے ناطے آپؑ کی بیعت پر بھی راضی ہوا لیکن بعض دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس کام سے منصرف ہوا۔[45] علیؑ نے مختلف موقعوں پر متعدد کلمات میں سقیفہ پر اعتراض کیا ہے اور پیغمبر کا جنشین ہونے کا اپنے حق کی یاد دہانی کرایی ہے۔ [[خطبہ شقشقیثہ] وہ معروف خطبہ ہے جس میں آپ نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اور جس کے ابتدا میں فرماتا ہے: «خدا کی قسم خدا کی قسم ! فلان (ابوبکر) نے پیراہنِ خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں علم کا وہ بلند پہاڑ ہوں جس پر سے علم کا سیلاب کا میرے وجود سے سیلاب کی طرح نیچے گرتا ہے اور مجھ تک پرندہ َپر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں جس میں سنِ رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے۔ اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہذا میں نے صبر کیا۔ حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم ورنج) كے پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا »۔[46] بعض دیگر کتابوں کی گزارشات کے مطابھ، حضرت علیؑ سقیفہ کے واقعے کے بعد حضرت زہرا کی حیات میں آپ کو ایک سواری پر سوار کر کے انصار کے گھر گھر اور مجالسوں میں لے جاتے تھے اور ان سے مدد مانگتے تھے لیکن وہاں سے ان کا یہ جواب سننے کو ملتا تھا: « اے رسول اللہ کی بیٹی! ہم نے ابوبکر کی بیعت کی ہے اور اگر علی اس سے پہلے آتے تو ان کی بیعت کرتے» اور علیؑ جواب میں فرماتے تھے:« کیا میں پیغبمر اکرمؐ کو دفنائے بغیر خلافت کے لئے جھگڑتا؟»[47][48]

فاطمہ زہراؑ کا عکس العمل

فاطمہ زہراؑ نے سقیفہ کے واقعہ اور اس کے نتائج کے بارے میں بہت مخالفت کی اور اسے پیغمبر اکرمؑ کی مخالفت قرار دیا۔ ان مخالفتوں میں سے سب سے واضح مخالفت وہ کلمات تھے جو علیؑ سے بیعت لینے اور گھر کا محاصرہ کرنے کے دوران آپ نے فرمایا۔[49] اور اسی طرح علنی اعتراضات میں سے ایک، مسجد نبوی میں دیا گیا خطبہ ہے جو کہ خطبہ فدکیہ کے نام سے مشہور ہے۔[50]

تاریخی شواہد کے مطابق حضرت زہراؑ نے بیماری کے بستر پر اپنی عمر کے آخری دنوں میں مہاجر اور انصار کی خواتین سے جو عیادت کے لئے آئی تھیں ان سے سقیفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے پیغمبر اکرم کے فرامین کی نافرمانی قرار دیتے ہوئے اس سے اسلام کے لئے مستقبل میں آنے والی نقصانات کی طرف توجہ دلائیں۔[51][52]

سقیفہ اور مستشرقین

  • ہنری لامنس اور مثلث قدرت کا نظریہ: سنہ 1910 ء کو بلجیم کے صاحب نظر ہنری لامنس (1862-1937 ء) کو ایک مقالہ «ابوبکر، عمر اور ابو عبیدہ کی قدرت کا مثلث» کے نام سے لکھا اور اس مقالے میں انہوں نے یہ دعوا کیا کہ ان تینوں کا مشترک ہدف اور ایک دوسرے سے تعاون پیغمبر اکرمؐ کی حیات میں شروع ہوا اور یہ طاقت انہیں ملی کہ ابوبکر اور عمر کی خلافت کا سنگ بنیاد رکھا اور اگر ابو عبیدہ عمر کے دور میں نہ مرتا تو یقینی طور پر وہ عمر کے بعد خلیفہ ہوتا۔ اگرچہ لامنس نے خلافت کے حصول کے لئے کسی سازش کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے لیکن «قدرت کا مثلث» معرف کرکے غیر مستقیم طور پر اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔

وہ کہتا ہے کہ ابوبکر و عمر کی بیٹیاں اور پیغمبر اکرمؐ کی بیویاں عایشہ و حفصہ اپنے شوہر کی ہر حرکت سے اپنے والدوں کو باخبر کر دیتی تھیں اور یہ دونوں پیغمبر اکرمؐ کے امور میں کافی حد تک دخیل ہوتے اور اسی طریقے سے قدرت تک پہنچے۔[53]

  • کایتانی کا نظریہ: اٹلی کے مشرق شناس لئون کایتانی نے تاریخ اسلام کی کتاب کے دیباچے میں ابوبکر اور بنی ہاشم کے شدید اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے سقیفہ بنی ساعدہ میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے چند گھنٹے بعد ہی ابوبکر کی طرف سے خلافت کا دعوی کرنے پر تعجب کا اظہار کیا ہے۔

ابوبکر کی طرف سے انصار کے اجتماع میں اپنی جانشینی اور قریش کا پیغمبر کا قبیلہ ہونے کے ناطے انصار پر فوقیت رکھنے کے بارے میں بیان کی جانے والی روایات کو کایتانی رد کرتے ہوئے علیؑ کا آیندہ ادعا کرنے کی تائید کرتا ہے کیونکہ اس بحث میں علیؑ کا پیغمبر اکرمؐ کا سب سے قریبی رشتہ دار ہونے کی تائید کرتا ہے۔ اس کی نظر کے مطابق اگر محمدؐ اپنا جانشین انتخاب کرتے تو ابوبکر کو دوسروں پر ترجیح دینے کا احتمال تھا؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ اسلام کے بعد والے ایک اور مجلے میں لامنس کا نظریہ «ابوبکر، عمر اور ابو عبیدہ مثلث قدرت» کو خلافت کے بارے میں ہونے والی اختلافات میں سے سب سے زیادہ مناسب نظریہ قرار دیتا ہے۔[54]

  • ویلفرڈ میڈلنگ: وہ ان مستشرقوں میں سے ایک ہے جس نے حضرت محمد کی جانشینی کے بارے میں اپنی کتاب (The Succession to Muhammad) میں پوری تفصیل سے بحث کی ہے۔ اکثر مورخوں کے برخلاف اس کا کہنا ہے کہ شقیفہ کی شورای شروع میں مسلمانوں کا خلیفہ معین کرنے کے لئے تشکیل نہیں پائی تھی۔ اور چونکہ پیغمبر کا جانشین اسلامی معاشرے میں اس سے پہلے موجود نہیں تھا، تو انصار کا اس کام کے لئے جمع ہونا کچھ بعید نظر آتا ہے۔[55] ماڈلونگ کا کہنا ہے: انصار اس تصور کے پیش نظر کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے ساتھ ساتھ ان کی بیعت بھی ختم ہوگئی ہے اور اسلامی معاشرے کا زوال ممکن ہے اس لئے مہاجرین سے مشورہ لئے بغیر انصار ہے اپنے میں سے کسی کو مدینہ شہر کے امور سنبھالنے کے لئے رہبر انتخاب کرنے کے لئے جمع ہوگئے۔[56]

انصار کا تصور یہ تھا کہ اب مہاجروں کے مدینہ میں قیام کی کوئی دلیل نہیں ہے اور وہ اپنے شہر مکہ واپس لوٹیں گے اور جو رہنا چاہیں وہ انصار کی حکومت کو تسلیم کرینگے۔[57] اور یہ فرضیہ پیش کرتا ہے کہ صرف ابوبکر و عمر قائل تھے کہ محمدؐ کا جانشین تمام عرب پر حاکم ہوگا اور ایسی خلافت کا لایق صرف قریش ہیں۔[58]

ماڈلونگ کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت سے پہلے ہی ابوبکر خلافت کے منصب پر فائز ہونا چاہتا تھا اور اس آرزو تک پہنچنے کے لئے اپنے اس راستے میں موجود تمام رکاوٹوں کو ہٹانا چاہتا تھا۔[59] ان مخالفوں میں سرفہرست اہلبیتؑ تھے جن کے لئے قرآن میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت بڑا مقام اور مرتبہ عطا ہوا تھا۔[60] انصار کے اس اجتماع سے ابوبکر کو اپنے ہدف پہنچنے میں آسانی ہوئی اور عمر اور ابوعبیدہ جن کا اس اجتماع میں کامیاب ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا ابوبکر نے شروع میں ان کو خلیفہ کے طور پر پیش کیا اور اس تجویز کا وہ معتقد بھی نہیں تھے صرف حاضرین کو اس بارے میں بحث کرنے پر ابھارنے کی قصد سے کیا تھا تاکہ آخر میں اس کے نفع میں کام تمام ہو جائے۔[61]

اہل سنت اور مغربی دانشوروں کا یہ استدلال کہ علیؑ جوان اور بے تجربہ ہونے کی وجہ سے ابوبکر اور عمر جیسے اصحاب کے درمیان خلافت کے لئے ان کا نام نہیں تھا، ماڈلونگ کے مطابق یہ بات حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ اور ابوبکر کی طرف سے علیؑ مطرح نہ ہونے پر کچھ اور دلایل پیش کئے ہیں۔[62]

سقیفہ کا واقعہ اور شیعہ کلام

پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد سقیفہ کا اجتماع اور اس کے نتائج، پیغمبر اکرم کے بعد، علیؑ کی جانشینی کے بارے میں آنحضرتؐ کی صریح فرمایشات کے خلاف تھا۔ شیعہ، سقیفہ کی مشروعیت کے رد اور پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ کی جانشینی کی حقانیت کے بارے میں قرآن کی بعض آیات، تاریخی واقعات اور ایسی روایات سے استناد کرتے ہیں جو اہل سنت کی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں ان میں سے سب سے مہم غدیر کا واقعہ اور اس سے مربوط روایات ہیں۔ شیعوں کے عقیدے کے مطابق غدیر خم میں پیغمبر اکرمؐ نے علیؑ کی جانشینی کو اپنی رسالت کے اکمال کے عنوان سے مسلمانوں کو اعلان کیا۔[63]

محمد رضا مظفر 17 ایسی روایات نقل کرتے ہیں جو مختلف واقعات کے بارے میں ہیں اور ان میں پیغمبرؐ نے اپنے بعد علیؑ کی جانشینی کی طرف صریح یا اشاروں میں بیان کیا ہے۔ آیہ انذار دعوت ذوالعشیرہ، حدیث غدیر، جریان بھائی چارگی، جنگوں کے واقعات جیسے خندق، خیبر، امام علیؑ کے گھر کے دروازے کے علاوہ باقی سب دروازوں کو مسجد کی طرف بند کرنا اور اس جیسی دیگر احادیث جیسے: «إن علیا منی و أنا من علی،و هو ولی کل مؤمن بعدی»، «لکل نبی وصی و وارث و إن وصیی و وارثی علی بن ابی طالب» و «أنا مدینة العلم و علی بابہا» ان میں سے بعض موارد ہیں۔[64] سورہ مائدہ کی آیہ نمبر 55 [یادداشت 3]جو آیۂ ولایت سے مشہور ہے، سورہ احزاب کی آیہ نمبر 33 [یادداشت 4]جو آیۂ تطہیر سے مشہور ہے، آیہ ۶۱ سورہ آل عمران [یادداشت 5]جو آیۂ مباہلہ سے مشہور ہے اور شیعہ متکلمین نے پیغمبر اکرم کے بعد علیؑ کی جانشینی کے اثبات کو ان آیات سے بھی استناد کیا ہے۔[65]

سقیفہ اور اس کے نتائج

بعض محققین پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد رونما ہونے والے اکثر تاریخی واقعوں کو سقیفہ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور ان میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں:

  • حضرت علیؑ سے زبردستی بیعت لینے کے لئے حضرت زہراؑ کے گھر پر حملہ اور اس کا محاصرہ جس کے نتیجے میں سیدہ شہید ہوگئیں۔[66]
  • فدک غصب ہونا: بعض تحلیل کرنے والے اس بات کے قائل ہیں کہ سقیفہ کے بعد حضرت فاطمہ زہراؑ سے فدک کا چھیننا حقیقت میں اہلبیتؑ کے ساتھ اقتصادی مقابلہ کرنا مقصود تھا۔ اس اقدام سے پہلے خلیفہ کی حکومت کی بنیاد مضبوط ہوتی تھی اور اہل بیت رسول اللہ کو مقابلہ اور مبارہ کرنے سے روکتی تھا۔[67]
  • واقعۂ عاشورا: بعض کے عقیدے کے مطابق سقیفہ میں رسول اللہ کے جانشین کا درست انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے جانشینی کا راستہ غلط سمت چلا گیا اور یہ باعث بنا کہ پہلا خلیفہ کسی بھی قانون کا پابند نہ ہو۔ اسی وجہ سے کسی دن کسی دن قریش کے چند لوگ اور انصار کی بحث میں مسلمانوں کا خلیفہ بنا تو کبھی پہلے خلیفے کی وصیت پر تو کبھی چھ نفری شورا کے ذریعے سے اس کا انتخاب ہوا تو کسی دن معاویہ نے یزید کے لئے بیعت مانگی۔ اور یزید عاشورا کا موجد بنا۔[68]

شیعہ عالم محمد حسین غروی اصفہانی، (1296-1361ھ)، نے اپنے اشعار میں اس مضمون کو بیان کیا ہے: فما رَماہ اِذْ رَماہُ حَرمَلہ|و انَما رَماہُ مَن مَہَّدَ لہ سَہمٌ اَتی مِن جانب السقیفہ|و قَوسُہ عَلی یدِ الخلیفہ و ما اصاب سَہْمُہُ نَحرَالصّبی|بَل کَبدَ الدینِ و مُہجۃ النَبی[69]}} ترجمہ: حرملہ نے تیر نہیں مارا بلکہ جو اس کا باعث بنا ہے اس نے تیر مارا ہے، ایک تیر سقیفہ سے نکلا جس کی کمان خلیفہ کے ہاتھ میں تھا اور یہ تیر کسی بچے کے گردن پر نہیں بلکہ پیغمبرؐ کے دل پر پیوست ہوگیا۔

سقیفہ اور اجماع

اجماع، اہل سنت کے ہاں احکام استنباط کرنے کے منابع میں سے ایک ہےجو سقیفہ کے واقعے میں بھی ابوبکر کے انتخاب کی مشروعیت کی علتوں میں سے ایک کے عنوان سے استناد کیا جاتا ہے۔[70]

بعض شیعہ محققوں کے مطابھ، اہل سنت نے ابوبکر کی خلافت اور حاکمیت کو مشروعیت دینے کے لئے امت کے اجماع سے تمسک اور استناد کیا ہے۔[71] وہ امامت عامہ اور امامت خاصہ میں لوگوں کا متفق ہونا اور اجماع کرنے کو صحیح سمجھتے ہیں اور یہ شیعوں کا عقیدہ عصمت جو امام کو معصوم ہونا شرط ہے کے مقابل اور منافی ہے۔[72] محققین کی نظر میں اجماع کا نظریہ سقیفہ کے واقعہ اور ابوبکر کی خلافت کا عکس العمل اور اس کی توجیہ ہے اور اس کو دوسرے معارف جیسے امامت عامہ اور فقہی مسائل میں اس کو رواج دینا اس عقیدے کو ترویج دینے کی خاطر ہے۔[73]

سقیفہ اور تصنیفات

سقیفہ کا واقعہ اسلامی تاریخ کی کتابیں جیسے تاریخ طبری، تاریخ یعقوبی اور دیگر کتابوں میں پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔[حوالہ درکار]

لیکن ان کے علاوہ صرف سقیفہ ہی پر بھی بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض اہم تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:

  • السقیفۃ: تالیف ابی صالح السلیل بن أحمد بن عیسی (حیات تقریبا قرن سوم ہجری)
  • السقیفۃ و بیعۃ أبی ‌بکر: تالیف ابی ‌عبد اللہ محمد بن عمر الواقدی (130-207)
  • السقیف : تالیف ابی‌ مخنف لوط بن یحیی بن سعید (متوفی 157 ھ)
  • سقیفہ و اختلاف در تعیین خلیفہ: تحریر، سحاب بن محمد زمان التفرشی. چاپ سال 1334 ہجری شمسی، تہران.
  • السقیفۃ: تالیف ابی عیسی الوراہق محمد بن ہارون.[74]
  • السقیفۃ: محمد رضا مظفر
  • جانشینی محمد (کتاب)|جانشینی محمد: ویلفرڈ میڈلنگ
  • سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌ گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، نویسندہ: مرتضی عسکری
  • السقیفہ و الخلافہ: عبد الفتاح عبد المقصود
  • السقیفۃ و فدک: احمد بن عبد العزیز جوہری بصری
  • مؤتمر السقیفۃ، دراسۃ موضوعیۃ لأخطر حادث فی تأریخ الإسلام السیاسی: باقر شریف قرشی
  • مؤتمر السقیفۃ نظرۃ جدیدۃ فی التاریخ الاسلامی: سید محمد تیجانی سماوی
  • ناگفتہ‌ہایی از سقیفہ (رویکردہا، پیامدہا و واکنشہا): نجم الدین طبسی

شعر کے آئینے میں

ابوبکر کا پیغمبر اکرم کے خلیفہ کے عنوان سے انتخاب ہونا اور اہلبیتؑ کے حق کو نظر انداز کرنے کے بارے میں مختلف زبانوں کے بہت سارے شاعروں نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے۔[75] ان اشعار میں سے بعض میں تو سقیفہ کا واقعہ اور سقیفہ کے شورای کے بارے میں اشارہ ہوا ہے۔

نوٹ

  1. سعد کے ایک رشتہ دار بلند آواز میں چلاتے ہوئے لوگوں کو سعد کی نسبت آگاہ کرتا ہے لیکن عمر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ اس کو مارو خدا انہیں مار ڈالے! پھر سعد کے قریب جا کر کہتا ہے اسطرح سے پامال کرنا چاہتا تھا کہ تمہارے بدن کا ایک عضو بھی باقی نہ رہے۔ سعد کا بیٹا قیس کھڑے ہوکر عمر کی داڑھی پکڑتا ہے اور کہتا ہے: خدا کی قسم اس کی داڑھی کا ایک بال بھی کم کرو گے تو تمہارا ایک بھی دانت باقی نہیں رہے گا! سعد بھی عمر سے مخاطب ہوکر کہتا ہے: خدا کی قسم، اگر میں بیمار نہ ہوتا اور اپنی جگہ سے کھڑا ہونے کے لئے تھوڑی بہت توانائی ہوتی تو مدینہ کی گلی کوچوں میں تمہارے خلاف ایسی آواز بلند کرتا کہ تم اور تمہارے چاہنے والے گھر کے کونے میں چھپنے پر مجبور ہوتے اور خدا کی قسم تمہیں پھر ان لوگوں کے پاس پہنچا دیتا جن کے کل تک تم فرمانبردار تھا نہ کہ آقا و سردار۔(ابن‌قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۷.)
  2. ابوسفیان کے بعض اشعار: بنی ہاشم لا تطمعوا النّاس فیکم/ و لا سیما تیم بن مرّۃ او عدی/ فما الامر الاّ فیکم و الیکم/ و لیس لہا الاّ ابو حسن علی : اے بنی ہاشم، لوگوں سے حکومت کی لالچ کا دروازہ بند کردو خاص کر تیم اور عدی قبیلوں پر (ابوبکر اور عمر کے قبیلے)۔ یہ حکومت تمہاری تھی تمہاری ہے اور تمہیں پھر سے لوٹ آئے گی اور ابوالحسن علیؑ کے علاوہ کوئی اور اس کے لائق نہیں ہے۔ ابا حسن فاشدد بہا کفّ حازم/ فانّک بالامر الّذی یرتجی ملی/ و انّ امرءا یرمی قصی وراءہ/ عزیز الحمی و النّاس من غالب قصی: اے ابو الحسن، اپنے تنومن اور کام والے ہاتھ سے حکومت پر قبضہ کر لو؛ اور جس چیز کی امید رکھی جارہی ہے آپ اس پر قدرت اور توانائی رکھتے ہیں۔ اور جس کی پشت پناہی میں قصی ہوگا اس کا حق پامال نہیں ہوسکتا ہے۔ اور صرف قصی کی نسل ہی غالب آتی ہے۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبہ آیۃاللہ العظمی المرعشی النجفی، ج۶، ص۱۷-۱۸.
  3. إِنَّمٰا وَلِیکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یقِیمُونَ الصَّلاٰۃَ وَ یؤْتُونَ الزَّکٰاۃَ وَ ہُمْ رٰاکِعُونَ. «ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں۔»
  4. إِنَّمَا یرِیدُ اللَّہُ لِیذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیتِ وَیطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا. «بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔»
  5. فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَکُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَکُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل‌لَّعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکَاذِبِینَ. «پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔»

حوالہ جات

  1. یاقوت حموی، معجم البلدان،‌دار صادر، ج۳، ص۲۲۹-۲۲۸.
  2. رجبی دوانی، تحلیل واقعہ سقیفہ بنی‌ساعدہ با رویکرد بہ نہج‌البلاغہ، ۱۳۹۳ہجری شمسی، ص۸۰.
  3. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۴۷.
  4. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۲.
  5. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۲.
  6. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۷.
  7. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ،‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۵.
  8. طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق ج۳، ص۲۰۶.
  9. طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق ج۳، ص۲۰۶.
  10. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ‌دار صادر، ج۲، ص۳۲۷.
  11. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ،۱۴۱۰ ھ، ج۱، ص۲۷.
  12. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۲.
  13. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۲۰۲.
  14. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵.
  15. زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث، دارالکتب العلمیہ، ج۳، ص۷۳.
  16. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵.
  17. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲،ص۱۲۳.
  18. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۲۰۲.
  19. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۳.
  20. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۳.
  21. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ ہجری شمسی، ص۵۲-۵۳.
  22. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج۲، ص۶۶۰. بلاذری، أنساب الأشراف، اعلمی، ج۱، ص۵۶۷.
  23. ماڈلونگ، ویلفرڈ، جانشینی محمد،۱۳۷۷ ہجری شمسی، ص۵۲-۵۳.
  24. عبدالمقصود، السقیفہ و الخلافہ، ۱۴۲۷ھ، ص۳۱۷.
  25. ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۱-۲۶.
  26. ابن قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۷.
  27. معیر و دیگران، بررسی تاثیر اعزام لشکر اسامہ بر چگونگی مشارکت سیاسی نخبگان مہاجر و انصار در سقیفہ، ص۱۵۵.
  28. بیضون، رفتارشناسی امام علی(ع)، ۱۳۷۹ہجری شمسی، ص۲۹-۳۰.
  29. مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ھ، ص۹۵-۹۷.
  30. ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۱۴۰۸ھ، ج۵، ص۲۶۵.
  31. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۲۰۵.۔ بلاذری، انساب الاشراف، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ج۱، ص۵۸۱. ذہبی، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام،‌دار الکتاب العربی، ج۳، ص۸۔ مقدسی،
  32. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۴.
  33. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۴.
  34. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبہ نینوی الحدیثہ، ص۴۲.
  35. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبہ نینوی الحدیثہ، ص۶۲.
  36. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی،‌دار صادر، ج۲، ص۱۷۱.
  37. عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷ہجری شمسی، ص۷۶.
  38. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۲۰۵.۔ بلاذری، انساب الاشراف، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ج۱، ص۵۸۱. ذہبی، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام،‌دار الکتاب العربی، ج۳، ص۸۔ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبہ الثقافہ الدینی، ج۵، ص۱۹۰
  39. جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، مکتبہ نینوی الحدیثہ، ص۳۷.
  40. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۶، ص۱۷.
  41. نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی النجفی، ص۱۱۹-۱۲۰.
  42. مفید، الفصول المختارۃ من العیون و المحاسن، قم، ص۵۶.
  43. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۳۰-۳۱۔
  44. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ،مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۶، ص۱۱.
  45. مراجعہ کریں: طبرسی، الاحتجاج، نشر المرتضی، ج۱، ص۱۱۵-۱۳۰.
  46. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغۃ،مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۱، ص۱۵۱.
  47. ابن قتیبہ،الامامۃ والسیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۹-۳۰.
  48. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی، ج۶، ص۱۳.
  49. ابن‌قتیبہ، الإمامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۳۰-۳۱.
  50. تیجانی، مؤتمر السقیفۃ، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۷۵.
  51. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی، ج۱۶، ص۲۳۳-۲۳۴.
  52. اربلی، کشف الغمۃ، ۱۳۸۱ھ، ج۱،ص۴۹۲.
  53. لامنس، مثلث قدرت ابوبکر، عمر ابو عبیدہ، ص۱۲۶، منقول از: ماڈلونگ، ویلفرڈ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۱۵.
  54. مراجعہ کریں: ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۱۷-۱۸.
  55. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۵۱.
  56. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۵۱.
  57. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۵۱.
  58. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۵۱-۵۲.
  59. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۶۲.
  60. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۶۲.
  61. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۶۲.
  62. ماڈلونگ، جانشینی محمد، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ص۶۵.
  63. مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ھ، ص۶۰-۶۵.
  64. مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ھ، ص۶۰-۶۶.
  65. مظفر، السقیفۃ، ۱۴۱۵ھ، ص۶۶.
  66. ابن‌ شہر آشوب، المناقب، علامہ، ج۲، ص۲۰۶.
  67. عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل ‌گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷، ص۱۱۵.
  68. داودی و رستم نژاد، عاشورا، ریشہ ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۱۱۵-۱۲۶.
  69. منقول از: داودی و رستم نژاد، عاشورا، ریشہ ہا، انگیزہ ہا، رویدادہا، پیامدہا، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۱۲۶.
  70. حسینی خراسانی، بازکاوی دلیل اجماع، ۱۳۸۵، ص۱۹-۵۷.
  71. حسینی خراسانی، بازکاوی دلیل اجماع، ۱۳۸۵، ص۱۹-۵۷.
  72. حسینی خراسانی، بازکاوی دلیل اجماع، ۱۳۸۵، ص۱۹-۵۷.
  73. حسینی خراسانی، بازکاوی دلیل اجماع، ۱۳۸۵، ص۱۹-۵۷.
  74. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، ‌دار الاضواء، ج۱۲،ص۲۰۵-۲۰۶.
  75. مراجعہ کریں: عسکری، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل‌ گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، ۱۳۸۷، ص۷۳ و ۷۶. یعقوبی، احمد بن اسحاھ، تاریخ الیعقوبی، ‌دار صادر، ج۲، ص۱۲۶.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبہ اللہ، شرح نہج البلاغہ، گرداورندہ: شریف الرضی، محمد بن حسین، محقق: ابراہیم، محمد ابوالفضل، مکتبہ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی (رہ)، قم، ایران.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ‌دار صادر، بیروت، لبنان.
  • ابن‌ شہرآشوب، محمد بن علی، المناقب، مصحح: رسول ہاشمی، محمد حسین آشتیانی، علامہ، قم، ایران.
  • ابن ‌قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، الإمامۃ و السیاسۃ، محقق: شیری، علی، ‌دار الاضواء، بیروت، لبنان، ۱۴۱۰ھ.
  • ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، اسماعیل بن عمر، تحقیق علی شیری، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ء.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، مکتبۃ بنی ہاشمی، تبریز، ایران، ۱۳۸۱ھ.
  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، گرد اورندہ: احمد بن محمد حسینی، ‌دار الاضواء، بیروت، لبنان.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، محقق: محمد باقر محمودی، احسان عباس، عبد العزیز دوری، محمد حمید اللہ، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان.
  • بیضون، ابراہیم، رفتار شناسی امام علی (ع)، ترجمۃ علی اصغر محمدی سیجانی، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، تہران، ایران، ۱۳۷۹.
  • تیجانی، محمد، موتمر السقیفہ، موسسہ الفجر، لندن، بریتانیا، ۱۴۲۴ھ.
  • حموی، یاقوت بن عبد اللہ، معجم البلدان،‌دار صادر، بیروت، لبنان، ۱۹۹۵ء.
  • جوہری بصری، احمد بن عبد العزیز، السقیفۃ و فدک، محقق: امینی، محمد ہادی، مکتبہ نینوی الحدیثہ، تہران، ایران.
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، محقق: تدمری، عمر عبد السلام،‌دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان.
  • زمخشری، محمود بن عمر، الفائق فی غریب الحدیث، ‌دار الکتب العلمیہ، منشورات محمد علی بیضون، بیروت، لبنان.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الأمم و الملوک، محقق: ابراہیم، محمد ابو الفضل، ‌دار التراث، بیروت، لبنان، ۱۳۸۷ھ.
  • عبد المقصود، عبدالفتاح، السقیفہ و الخلافہ، ‌دار المحجہ البیضاء، بیروت، لبنان، ۱۴۲۷ھ.
  • عسکری، مرتضی، سقیفہ: بررسی نحوہ شکل گیری حکومت پس از رحلت پیامبر، بہ کوشش: دشتی، مہدی، دانشکدہ اصول الدین، قم، ایران، ۱۳۸۷.
  • ماڈلونگ، ویلفرڈ، جانشینی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، مترجم: احمد نمایی، محمد جواد مہدوی، جواد قاسمی، حیدر رضا ضابط، بنیاد پژوہش‎ہای اسلامی آستان قدس رضوی، مشہد، ایران، ۱۳۷۷ش.
  • مظفر، محمد رضا، السقیفۃ، با مقدمہ محمود مظفر، مؤسسۃ أنصاریان للطباعۃ و النشر، قم، ایران، ۱۴۱۵ھ.
  • معیر، زیبا و حسین مفتخری؛ صادق آیینہ وند؛ علی رجبلو، «بررسی تأثیراعزام لشکر اسامہ بر چگونگی مشارکت سیاسی نخبگان مہاجر و انصار درسقیفہ و تثبیت خلافت»، مطالعات تاریخ اسلام، شمارہ۱۷، سال پنجم، تابستان ۱۳۹۲.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، مکتبہ الثقافہ الدینی، بی‌جا، بی‌تا.
  • نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی النجفی (رہ)، قم، ایران، ۱۴۰۴ھ.
  • نیر تبریزی، دیوان آتشکدہ، کتاب فروشی ہاتف، تبریز، ایران، ۱۳۱۹ہجری شمسی،
  • یعقوبی، احمد بن اسحاھ، تاریخ الیعقوبی، ‌دار صادر، بیروت، لبنان.
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مصحح: موسوی خرسان، محمد باقر، نشر المرتضی، مشہد مقدس، ایران.