الہام
اِلْہام (الإلہام = Inspiration)، ایک عرفانی اور کلامی اصطلاح ہے جس سے مراد کسی غیبی امر کے ہیں جس کے ذریعے انسان بعض امور سے آگہی پاتا ہے، بعض حقائق کا ادراک کرتا ہے اور بعض امور کو انجام دے سکتا ہے۔ عرفاء اور مکتب صدرا کے فلاسفہ کے نزدیک الہام بھی شناخت و معرفت کے منبع کے عنوان سے حجت ہے۔ یہ غیبی امر خداوند متعال کی طرف سے مستقیم بھی ہوسکتا ہے اور فرشتوں کے توسط سے بھی۔
اصطلاحیات
لغوی معنی
لفظ "الہام" لغت میں مادہ "لہم" سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی دل میں ڈالنے اور نگل لینے کے ہیں۔[1]۔[2]۔[3]۔[4]۔[5]
اصطلاحی معنی
عرفاء کی اصطلاح میں الہام وہ کیفیت ہے جو غیب کی جانب سے قلب پر وارد ہوتی ہے نیز ان معانی اور معارف کو الہام کہتے ہیں جو اللہ کے فیض کی جانب سے ـ الہام پانے والے شخص کی طرف سے کسی فکر و تدبر اور درخواست و تقاضے کے بغیر اس کے قلب ـ پر وارد ہوتے ہیں۔
الہام کی کوئی خاص علامت نہیں ہوتی نہ اس کی کوئی دلیل ہوتی ہے؛ اس کی واحد نشانی یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں انسان کسی کام کی انجام دہی پر اکسایا یا کسی کام سے روکا جاتا ہے۔[6]۔[7]۔[8]۔[9]۔[10]۔[11]۔[12]
الہام کے دوسرے نام
- القاءِ خیر: چونکہ انسان اس قسم کے القائات [Inspirations] کے ذریعے نیک اعمال اور امور خیر کی طرف قدم اٹھاتا ہے چنانچہ الہام کو بعض بزرگوں نے "القاءِ خیر" سے تعبیر کیا ہے۔[13]۔[14]
- وحیِ قلب، القاءِ روعی اور نفثِ روحی: کیونکہ الہام انسان کی جان اور روح میں پھونکی جاتی ہے۔[15]، جس کو وحیِ قلب، القاءِ روعی اور نفث روحی[16] سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔[17]۔[18]۔[19]۔[20]۔[21]۔[22]۔[23]
- لمّۂ مَلَک:بعض متصوفہ، میں سے بعض "الہام" کو "لمّۂ[24] مَلَک" سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے تسمیئے میں اس حدیث سے استناد و استفادہ کرتے ہیں کہ: "إنّ للشّيطان لمّة بابن آدم و للملك لمّة..."
شیطان انسان کو القاء کرتا ہے اور فرشتہ بھی...[25]۔[26]۔[27]
الہام قرآن میں
اس اصطلاح کا منشأ آیت کریمہ "فَأَلْہمَہا فُجورَہا وَتَقْواہا" ہے۔[28] عام طور پر تفاسیر کے مطابق اس آیت میں الہام کے معنی "سمجھانے"، "سکھانے"، اور "تعریف" و "تشریح" کرنے کے ہیں۔[29]۔[30]۔[31]۔[32]۔[33] البتہ صوفیہ کا کہنا ہے کہ اس آیت میں الہام سے مراد "خاطر اور وہ اشیاء ہیں جو ذہن میں خطور کرتی اور وارد ہوتی ہیں"؛ کیونکہ شرّ خداوند عالم کی طرف سے ہے جو خاطر انگیز ہے لیکن جب وہ انسان کے دل میں داخل ہوتا ہے تو دو صورتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے: 1) خدا کی طرف سے = الہام؛ اور 2) شیطان کی جانب سے = وسوسہ۔[34]۔[35]۔[36]
الہام اور وحی کا تعلق
الہام اور وحی کے درمیان تعلق اور نسبت کے سلسلے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے: بعض کا خیال ہے کہ الہام اور وحی کے درمیان واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔[37]
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان دو کے درمیان اختلاف مصادیق کے حوالے سے ہے اور الہام وحی سے زیادہ وسیع ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ دو مکمل طور پر ایک دوسرے سے الگ ہوں۔ ان لوگوں کے خیال میں وحی الہام ہی کی ایک خاص قسم ہے۔[38]۔[39]
صوفیہ کی اکثریت الہام اور وحی کو معنی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب سمجھتے ہیں[40] اور ان کا خیال ہے کہ ان دو کے درمیان علیحدگی صرف ریاضت و سلوک کے طریق پر عارف و سالک کو حاصل ہوتی ہے اور اسی طریق (راستے) پر ہی عارف جان لیتا ہے کہ جو کچھ غیب کی طرف سے اس تک پہنچتا ہے اور جو کچھ اس کو الہام ہوتا ہے اس کا وحی کے ساتھ کتنا فرق اور اختلاف ہے۔[41]
درحقیقت صوفیہ کی نظر کے مطابق، الہام ایک لحاظ سے وحی ہی کا تسلسل ہے۔ اس عمل اور تسلسل میں جب ختم نبوت کے ساتھ وحی کا دور اختتام پذیر ہوتا ہے، دوران ولایت کا آغاز ہوتا ہے اور اولیاء یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور ان کا غیب سے رابطہ الہام کے ذریعے جاری رہتا ہے اور دائرہ الہام کا تعلق صرف ان سے ہے۔[42]۔[43] چنانچہ الہام عرفاء کے نزدیک وحی کا تابع ہے؛ جس طرح کہ اولیاء اللہ انبیاء کے بعد اور ان کی متابعت کے بموجب الہام تک پہنچتے ہیں۔[44]
حصولِ الہام کا راستہ
عرفاء کی رائے
الہام ایسے کسی عمل کا نام نہیں ہے جو انسان کے ہاتھ میں اور اس کے اختیار کے تابع ہو اور انسان بعض فنون اور افعال سیکھ کر اس تک پہنچ سکے بلکہ بندہ شرعی تعلیمات اور شریعت کو توجہ دے [اور اس پر عمل کرے][45] یا قلبی طہارت کے واسطے سے[46] ایسے مقام و منزلت پر فائز ہوسکتا ہے جہاں اس کو الہام ہوتا ہے۔
حکماء (فلاسفہ) کی رائے
اس رائے کے مقابلے میں، حکماء [اور فلاسفہ] کی رائے ہے کہ الہام کا انحصار نفس انسان اور ارواح فلک کے درمیان ارتباط پر ہے اور نفس انسان دنیاوی وابستگیوں اور مادیات سے آزاد ہوکر اس مرتبے پر پہنچ سکتا ہے جہاں وہ عالم غیب کا عالم مشہود و محسوس کی مانند مشاہدہ کرسکتا ہے۔[47]۔۔[48]۔[49]
بعض صوفیا کی رائے
بعض صوفیا فلاسفہ کے اس تجزیئے کی طرف توجہ رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر بیداری کی حالت میں انسان کے نفس ناطقہ اور نفس فلك کے درمیان رابطہ اور تعامل واقع ہوجائے تو ایسی حالت میں انسان کے سامنے مَلَک اور فرشتے کے ظاہر ہونے کے بغیر ہی اس کے لئے الہام ہوجاتا ہے۔[50]۔[51]
کیا الہام حجت ہے
فلاسفہ کی مشہور رائے
سوال یہ ہے کہ کیا الہام حجت ہے اور کیا الہام پر اعتماد اور عمل کیا جاسکتا ہے؟
الہام عقلیت پسند مشائی (Aristotelian) فلاسفہ کے نزدیک ـ جو صرف عقلی دلیل کو لائق توجہ سمجھتے ہیں ـ حجت نہیں ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا کوئی برہان و دلیل موجود نہیں ہے جو الہام کی تفصیلات و محتویات کو ثابت کرے یا انہیں باطل کرے۔[52] اسی بنا پر الہام سے برآمدہ حکم معرفت اور شناخت کی حدود میں موضوع ہے اور نہ ہی حجت ہے۔[53]۔[54]۔[55]
عرفاء کی مشہور رائے
الہام کی حجیت کے بارے میں فلاسفہ کی رائے کے مقابلے میں، عرفانی نظریۂ کائنات میں الہام اور الہام کے ذریعے حاصل ہونے والے امور ـ [معلومات اور احکامات وغیرہ] ـ معتبر ہیں۔[56] ان کا خیال ہے کہ انسان دو راستوں سے معرفت کے حصول تک پہنچ سکتا ہے: 1۔ تعلیم اور برہان و دلیل اور 2۔ الہام من جانب اللہ۔[57]۔[58]
ان افراد کی نگاہ میں انسان کے دو دل (قلب) ہیں۔ ایک دل کا رخ ملکوت کی جانب ہے اور دوسرے کا عالم دینا اور عالم مُلک کی طرف۔ وہ اپنے ملکوتی دل سے شہودی معرفت وصول کرتا ہے جو الہام سے حاصل ہوتا ہے اور دنیاوی و مُلکی قلب و دل سے اکتسابی اور عقلی معرفت حاصل کرتا ہے۔
اگر انسان کے دل کا دریچہ عالم ملکوت کی طرف کھل جائے تو جو کچھ فرشتے جانتے ہیں یا وہ جو لوح محفوظ میں ثبت ہے، اس قلب کی گنجائش کی حد تک اس پر بھی بواسطۂ الہام وارد ہوگا اور وہ الہامی معرفت پا لیتا ہے۔[59]۔[60]
الہام کے فوائد
الہام صوفیہ کی نظر میں بعض کرداروں اور فوائد کا حامل ہے جیسے:
- بہت سے عرفانی مفاہیم الہام کے سائے میں ہاتھ آتے ہیں؛[61]۔[62]۔[63]
- بعض احادیث نبوی کی فہم و توثیق الہام معرفت کے ذریعے؛[64]۔[65]۔[66]
- بعض صوفی کاوشوں کی تالیف و تصنیف میں الہامی امداد؛[67]
- علم فراست[68] کا حصول؛؛[69]
- انسان کے ماضی اور مستقبل سے مطلع ہونا؛[70]۔[71]۔[72]۔[73]
- معرفت الہی کی اصل بنیادی؛[74]۔[75]
- بعض کرامات اور خارق العادہ امور کا ظاہر ہونا؛[76]۔[77]
- مرید و مراد کے درمیان رابطہ قائم کرنا اور پیروں کی طرف سے مریدوں کے سلوک پر نگرانی۔[78]۔[79]
الہام کی اقسام
پہلی زمرہ بندی
ایک زمرہ بندی میں الہام کو اس کے سرچشمے اور بھیجنے والی طاقت کے لحاظ سے دو زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے:
- وہ الہام جو خداوند متعال کی طرف ہوتا ہے اور خطاب الہی یا الہام الہی کہلاتا ہے؛[80]۔[81]۔[82]
- فرشتے یا ملک یا مَلَأِ اعلی کی طرف سے آنے والا الہام؛ [83]۔[84]
دوسری زمرہ بندی
دوسری زمرہ بندی میں الہام وصول کرنے والے موجودات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور اس لحاظ سے الہام کی کئی قسمیں ہیں جیسے:
- فطری یا جِبِلّی الہام: یہ ایک عطا ہے تمام موجودات کے لئے جس میں انسان کے سوا تمام حیوانات، جمادات اور حتی کہ شیاطین بھی شامل ہیں؛
- غیر فطری الہام: یہ الہام انسان کے لئے مختص ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں: 1- وہ جو اولیاء اور اوصیاء کے لئےمختص ہے.[85]۔[86]۔[87]۔[88] 2۔ وہ جس میں تمام انسان شامل ہیں۔[89]۔[90]۔[91]
حوالہ جات
- ↑ راغب، ذیل لہم۔
- ↑ زوزنى، المصادر، ج2، ص69۔
- ↑ دہار، دستور الاخوان، ج1، ص68۔
- ↑ ابن منظور، لسان العرب، ذیل لہم۔
- ↑ نیشابوری، تفسیر غرائب القران، ج30، ص100۔
- ↑ تھانوی، كشاف اصطلاحات الفنون، ج2، ص1308۔
- ↑ جرجانى، التعریفات، ص28۔
- ↑ كستلى، حاشیہ على شرح العقاید، ص45-46۔
- ↑ ابن منظور، وہیں۔
- ↑ عزالدین، مصباح الہدایہ، ص79۔
- ↑ ابرقوہى، مجمع البحرین، ص132۔
- ↑ صدرالدین، الشواہد الربوبیہ، ص349۔
- ↑ تھانوی، وہیں۔
- ↑ طریحى، مجمع البحرین، ج4، ص146
- ↑ صدرالدین، وہی ماخذ۔
- ↑ انسان کے قلب پر بغیر کسی واسطے کے وارد ہونا۔
- ↑ جوہری، ابن فارس، الصحاح، ذیل لہم۔
- ↑ ابرقوہى، ص131۔
- ↑ صدرالدین، المبدأ و المعاد، ص484۔
- ↑ زبیدی، اتحاف السادہ المتقین، ج7، ص245۔
- ↑ فیض، علم الیقین، ج1، ص360۔
- ↑ راغب، ذیلِ لفظ۔
- ↑ ہیوز، استیوارت، آگاہی و جامعہ. ص213۔
- ↑ لمہ کے معنی آہستگی اور اسی حال میں تیزی سے وارد ہونے والی کیفیات و القائات کے ہیں۔
- ↑ ابن عربى، الفتوحات المكیہ، ج4، ص303-304۔
- ↑ شرح كلمات باباطاہر، ص365 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ نیز دیکھیں: ابن منظور، لسان العرب، ذیل لفظ "لمم"۔
- ↑ سورہ شمس آیت 9:ترجمہ: تو اس نے اس میں اس کے برے کردار اور اچھے کردار کا القا کر دیا۔
- ↑ دیکھیں: طبری، تفسیر، ج30، ص134۔
- ↑ نیشابوری، تفسیر غرائب القران۔
- ↑ فخرالدین، تفسیر کبیر، ج31، ص193۔
- ↑ شیخ طوسى، تفسیر تبیان، ج10، ص358۔
- ↑ طبرسى، تفسیر مجمع البیان، ج10، ص755۔
- ↑ احمد جام، انس ...، ص253۔
- ↑ ابن عربى، الفتوحات المكیہ۔
- ↑ کاشانی، بابا افضل، مصنفات، ص297- 298۔
- ↑ ابن حزم، الفصل، ج5، ص17۔
- ↑ ناصر خسرو، زاد المسافرین، ص345۔
- ↑ قیصری، جو کہتے ہیں کہ الہام تمام موجودات تک پہنچتا ہے: دیکھیں: شرح فصوص الحكم، ص35۔
- ↑ عبدالرزاق، شرح منازل السائرین۔
- ↑ علاءالدولہ، مصنفات فارسی، ص101۔
- ↑ آملى، حیدر، جامع الاسرار، ص458۔
- ↑ نیز دیکھیں: كلینى، الاصول من الكافى، ج1، ص54۔
- ↑ عزالدین، مصباح الہدایہ، ص79۔
- ↑ ناصرخسرو، وہی ماخذ۔
- ↑ دیکھیں: نسفى، الانسان الکامل، ص235، 239۔
- ↑ ابرقوہى، ص131۔
- ↑ قطبالدین، ج4، ص103 بہ بعد۔
- ↑ نیز دیکھیں: ابن سینا، الاشارات والتنبیہات، ج4، ص142- 145، الفعل والانفعال واقسامہا، ص225-226۔
- ↑ نسفى، وہی ماخذ، ص235، 239، 241، 324، كشف الحقائق، ص92 – 93۔
- ↑ نیز دیکھیں: جندی، نفحۃ الروح، ص89 - 90۔
- ↑ جرجانى، ص28۔
- ↑ ہجویری، ص347- 348۔
- ↑ كستلى، ص46۔
- ↑ ابرقوہى، ص133۔
- ↑ عزالدین، ص79۔
- ↑ آملى، حیدر، ص423۔
- ↑ نیز دیکھیں: صدرالدین، الشواہد، ص348-349، الاسفار، ج1، ص384 اور بعد کے صفحات، المبدأ، ص483-484۔
- ↑ غزالى، احیاء العلوم، ج3، ص18 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ صدرالدین، المبدأ والمعاد، ص484- 488۔
- ↑ دیکھیں: شاہ نعمتاللہ ولى، رسالہہا، ج3، ص179 اور بعد کے صفحات۔
- ↑ نجمالدین كبری، فواتح الجمال ص88 رسالہہا۔
- ↑ روزبہان، شرح شطحیات، ص58۔
- ↑ شاہ نعمتاللہ ولى، ج3، ص179 کے بعد۔
- ↑ نجمالدین كبری، ص88۔
- ↑ روزبہان، ص58۔
- ↑ نگاہ كنید: شاہ نعمتاللہ ولى، ج1، ص401، 413؛ خوارزمى، شرح فصوص، ج1، ص49؛ غزالى، منہاج العابدین، ص3؛ احمدجام، انس التائبین، ص7، روضۃ المذنبین، ص5۔
- ↑ انسان کی ظاہری صورت اور بدن کے نقوش دیکھ کر اس کے اخلاقیات اور شخصیت سے آگاہ ہونے کا علم [1]) علم فراست کہلاتا تھا۔
- ↑ ابرقوہى، ص131۔
- ↑ دیکھیں: علاءالدولہ، العروہ، ص168، 293۔
- ↑ فضولى، مطلع الاعتقاد، ص74۔
- ↑ ابرقوہى، ص132۔
- ↑ پندپیران، ص61-62۔
- ↑ ہجویری، ص348۔
- ↑ تھانوی، ج2، ص1308۔
- ↑ پارسا، قدسیہ، ج18، ص20۔
- ↑ علاءالدولہ، العروہ، ص303 کے بعد۔
- ↑ نگاہ كنید: جامى، نفحات الانس، ص469۔
- ↑ علاءالدولہ، مصنفات، ص111۔
- ↑ خوارزمى، ج1، ص204۔
- ↑ اسفراینى، عبدالرحمان، تاج التراجم، ص46، 55 - 56۔
- ↑ روزبہان، شرح شطحیات، ص608 - 609۔
- ↑ حمویہ، المصباح فى التصوف، ص71۔
- ↑ اسماعیل حقى، روح البیان، ج10، ص443۔
- ↑ آملى، حیدر، جامع الاسرار، ص453-457۔
- ↑ میبدی، كشف الاسرار، ج5، ص410-411۔
- ↑ شیخ مكى، الجانب الغربى، ص41، 85۔
- ↑ ہیوز، ص213 ۔
- ↑ آملى، حیدر، ص455۔
- ↑ ابن ابى جمہور، ص293۔
- ↑ نسفى، الانسان، ص90۔
مآخذ
- قرآن كریم۔
- آملى، حیدر، جامع الاسرار، بہ كوشش ہانری كربن و عثمان اسماعیل یحیى، تہران، 1368ہجری شمسی۔
- آملى، محمد، نفائس الفنون، بہ كوشش ابراہیم میانجى، تہران، 1379ہجری قمری۔
- ابرقوہى، ابراہیم، مجمع البحرین، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1364ہجری شمسی۔
- ابن ابى جمہور، محمد، مجلى، چ سنگى، تہران، 1329ہجری قمری۔
- ابن حزم، على، الفصل، بیروت، دارالمعرفہ۔
- ابن سینا، الاشارات و التنبیہات، بہ كوشش سلیمان دنیا، قاہرہ، 1968عیسوی۔
- ہمو، «الفعل و الانفعال و اقسامہا»، رسائل، قم، انتشارات بیدار۔
- ابن عربى، محیىالدین، الفتوحات المكیہ، بہ كوشش عثمان یحیى، قاہرہ، 1395ہجری قمری/ 1975عیسوی۔
- ابن فارس، احمد، مجمل اللغہ، بہ كوشش زہیر عبدالمحسن سلطان، بیروت، مؤسسہ الرسالہ۔
- ابن منظور، لسان العرب۔
- ابوطالب مكى، محمد، قوت القلوب، قاہرہ، مطبعہ مصطفى البابى۔
- احمد جام، (احمد ابن ابوالحسن جامی نامقی ترشیزی) انس التائبین، بہ كوشش على فاضل، تہران، 1368ہجری شمسی۔
- وہی مولف، روضہ المذنبین، بہ كوشش على فاضل، تہران، 1355ہجری شمسی۔
- اسفراینى، شاہفور، تاج التراجم، بہ كوشش نجیب مایل ہروی و علىاكبر الہى خراسانى، تہران، 1374ہجری شمسی۔
- اسفراینى، عبدالرحمان، كاشف الاسرار، بہ كوشش ہرمان لندلت، تہران، 1358ہجری شمسی۔
- اسماعیل حقى بروسوی، روح البیان، بیروت، 1405ہجری قمری/1985عیسوی۔
- بابا افضل كاشانى، محمد، مصنفات، بہ كوشش مجتبى مینوی و یحیى مہدوی، تہران، 1366ہجری شمسی۔
- باخرزی، یحیى، اوراد الاحباب و فصوص الا¸داب، بہ كوشش ایرج افشار، تہران، 1358ہجری شمسی۔
- پارسا، محمد، قدسیہ، بہ كوشش احمد طاہری عراقى، تہران، 1354ہجری شمسی۔
- پند پیران، بہ كوشش جلال متینى، تہران، 1357ہجری شمسی۔
- تھانوی، محمد على، كشاف اصطلاحات الفنون، بہ كوشش محمد وجیہ و دیگران، كلكتہ، 1862عیسوی۔
- جامى، عبدالرحمان، نفحات الانس، بہ كوشش محمود عابدی، تہران، 1370ہجری شمسی۔
- جرجانى، على، التعریفات، قاہرہ، 1357ہجری قمری/1938عیسوی۔
- جندی، مؤیدالدین، نفحۃ الروح، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1362ہجری شمسی۔
- جوہری، اسماعیل، الصحاح، بہ كوشش احمد عبدالغفور عطار، بیروت، دارالعلم للملایین۔
- حمویہ، سعدالدین، المصباح فى التصوف، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1362ہجری شمسی۔
- خوارزمى، حسین، شرح فصوص الحكم، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1364ہجری شمسی۔
- دہار، بدر محمد، دستور الاخوان، بہ كوشش سعید نجفى، تہران، 1349ہجری شمسی۔
- راغب اصفہانى، حسین، معجم مفردات الفاظ القرآن، بیروت، 1932عیسوی۔
- روزبہان بقلى، شرح شطحیات، بہ كوشش ہانری كربن، تہران، 1360ہجری شمسی/1981عیسوی۔
- زبیدی، محمد، اتحاف السادہ المتقین، بیروت، دارالفكر؛
- زوزنى، حسین، المصادر، بہ كوشش محمدتقى بینش، مشہد، 1340ہجری شمسی۔
- سراج، عبداللہ، اللمع، بہ كوشش نیكلسن، لیدن، 1914عیسوی۔
- سعید فرغانى، سعیدالدین، مشارق الدراری، بہ كوشش جلالالدین آشتیانى، مشہد، 1398ہجری قمری۔
- سلمى، محمد، «درجات المعاملات»، مجموعہ آثار، بہ كوشش نصراللہ پورجوادی، تہران، 1369ہجری شمسی۔
- شاہ نعمتاللہ ولى، رسالہہا، بہ كوشش محمدجواد نوربخش، تہران، 1355-1356ہجری شمسی۔
- «شرح كلمات باباطاہر»، ترجمہ خطیب وزیری، ہمراہ شرح احوال و آثار و دو بیتیہای باباطاہر عریان، بہ كوشش جواد مقصود، تہران، 1356ہجری شمسی۔
- شیخ طوسى، التبیان، بہ كوشش احمد حبیب قصیر عاملى، بیروت، داراحیاء التراث العربى۔
- شیخ مكى، محمد، الجانب الغربى، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1364ہجری شمسی۔
- صدرالدین شیرازی، محمد، الاسفار، تہران، 1383ہجری قمری۔
- وہی مولف، الشواہد الربوبیہ، بہ كوشش جلالالدین آشتیانى، تہران، 1360ہجری شمسی۔
- وہی مولف، المبدأ و المعاد، بہ كوشش جلالالدین آشتیانى، تہران، 1354ہجری شمسی۔
- طبرسى، فضل، مجمع البیان، بیروت، 1408ہجری قمری/1988عیسوی۔
- طبری، تفسیر۔
- طریحى، فخرالدین، مجمع البحرین، بہ كوشش محمود عادل، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامى۔
- عبدالرزاق كاشانى، شرح منازل السائرین، تہران، 1354ہجری شمسی۔
- عزالدین كاشانى، محمود، مصباح الہدایہ، بہ كوشش جلالالدین ہمایى، تہران، 1367ہجری شمسی۔
- علاءالدولہ سمنانى، احمد، العروہ لاہل الخلوہ و الجلوہ، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1362ہجری شمسی۔
- وہی مولف، مصنفات فارسى، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1369ہجری شمسی۔
- غزالى، محمد، احیاء علومالدین، بیروت، دارالمعرفہ۔
- وہی مولف، منہاج العابدین، قاہرہ، دارالعلم للجمیع۔
- فخرالدین رازی، التفسیر الكبیر، بیروت، داراحیاء التراث العربى۔
- فضولى، محمد، مطلع الاعتقاد، بہ كوشش محمد بن تاویت طنجى، آنكارا، 1381ہجری قمری/ 1962عیسوی۔
- فیض كاشانى، محمد، علم الیقین، قم، 1358ش/1400ہجری قمری۔
- قشیری، عبدالكریم، الرسالہ القشیریہ، بہ كوشش معروف زریق و على عبدالحمید بلطہجى، بیروت، 1408ہجری قمری/1988عیسوی۔
- قطبالدین شیرازی، محمود، درہ التاج، بہ كوشش محمد مشكوہ، تہران، 1317-1320ہجری شمسی۔
- قیصری، داوود، شرح فصوص الحكم، تہران، چ سنگى۔
- كستلى، حاشیہ على شرح العقاید، استانبول، 1973عیسوی۔
- كلینى، محمد، الاصول من الكافى، بہ كوشش علىاكبر غفاری، بیروت، 1401ہجری قمری۔
- مجلسى، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، 1403ق/1983عیسوی۔
- مستملى بخاری، اسماعیل، شرح التعرف، بہ كوشش محمد روشن، تہران، 1366ہجری شمسی۔
- میبدی، احمد، كشف الاسرار، بہ كوشش علىاصغر حكمت، تہران، 1361ہجری شمسی۔
- ناصرخسرو، زاد المسافرین، برلن، 1341ہجری قمری۔
- نجم اصفہانى، محمود، مناہج الطالبین، بہ كوشش نجیب مایل ہروی، تہران، 1364ہجری شمسی۔
- نجمالدین كبری، فواتح الجمال، ترجمہ محمدباقر ساعدی، تہران، 1368ہجری شمسی۔
- نسفى، عزیزالدین، الانسان الكامل، بہ كوشش ماریژان مولہ، تہران، 1983عیسوی۔
- وہی مولف، كشف الحقائق، بہ كوشش احمد مہدوی دامغانى، تہران، 1344ہجری شمسی۔
- نیشابوری، حسن، «تفسیر غرائب القران»، ہمراہ تفسیر (نك: ہم ، طبری)۔
- ہجویری، على، كشف المحجوب، بہ كوشش ژوكوفسكى، تہران، 1358ہجری شمسی/1979عیسوی۔
- ہیوز، استیوارت، آگاہی و جامعہ؛ (Consciousness and Society)۔ ترجمہ عزت اللہ فولادوند۔ تہران: سازمان انتشارات انقلاب اسلامی۔ 1369۔
انگریزی مآخذ
- T.P., Dictionary of Islam, New Delhi, 1885.
بیرونی ربط
منبع مقالہ: دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی