"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 19: | سطر 19: | ||
*{{حدیث|'''أهجر رسول الله؟'''}}<ref> صحيح بخارى، كتاب الجہاد و السير، باب 175، ح 1 </ref> کیا [[رسول خدا]] نے ہذیان کہا ہے۔ | *{{حدیث|'''أهجر رسول الله؟'''}}<ref> صحيح بخارى، كتاب الجہاد و السير، باب 175، ح 1 </ref> کیا [[رسول خدا]] نے ہذیان کہا ہے۔ | ||
*{{حدیث|'''ما شأنه؟ أهجر؟ استفهموه'''}} <ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 6 </ref> اسے کیا ہوا ہے ؟ آیا(اسنے) یذیان کہا؟اس سے پوچھو۔ | *{{حدیث|'''ما شأنه؟ أهجر؟ استفهموه'''}} <ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 6 </ref> اسے کیا ہوا ہے ؟ آیا(اسنے) یذیان کہا؟اس سے پوچھو۔ | ||
*{{حدیث|'''إنّ النّبى (رسول الله) قد غلب عليه (غلبه) الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله'''}} <ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 5 . 13 و كتاب المرضى، باب 17، ح 1 . 15 و كتاب العلم، باب 39 (باب كتابۃ العلم)، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 8 . 14 .</ref> درد نے [[رسول خدا]] پر غلبہ کیا ہے ،تمہارے لئے[[ قرآن]] ہے اور ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔}} یہ سننے کے بعد [[صحابہ]] کے درمیان نزاع شروع ہو گئی۔ [[پیغمبر]] نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ | *{{حدیث|'''إنّ النّبى (رسول الله) قد غلب عليه (غلبه) الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله'''}} <ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 5 . 13 و كتاب المرضى، باب 17، ح 1 . 15 و كتاب العلم، باب 39 (باب كتابۃ العلم)، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 8 . 14 .</ref> درد نے [[رسول خدا]] پر غلبہ کیا ہے ،تمہارے لئے[[ قرآن]] ہے اور ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔}}یہ سننے کے بعد [[صحابہ]] کے درمیان نزاع شروع ہو گئی۔ [[پیغمبر]] نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ | ||
[[سید عبدالحسین شرف الدین]] نے اپنی تصنیف [[المراجعات]] میں کہا ہے کہ {{حدیث|قد غلب عليه الوجع}} کے الفاظ [[اہل سنت]] محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں <ref>شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.</ref> اس نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب السقیفہ میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا اس میں آیا ہے : پس [[عمر بن خطاب|عمر]] نے ایسی بات کہی کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد نے [[پیغمبر]] پر غالب ہو گیا ... | [[سید عبدالحسین شرف الدین]] نے اپنی تصنیف [[المراجعات]] میں کہا ہے کہ {{حدیث|قد غلب عليه الوجع}} کے الفاظ [[اہل سنت]] محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں <ref>شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.</ref> اس نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب السقیفہ میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا اس میں آیا ہے : پس [[عمر بن خطاب|عمر]] نے ایسی بات کہی کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد نے [[پیغمبر]] پر غالب ہو گیا ... |
نسخہ بمطابق 12:21، 2 فروری 2018ء
شخصیتها | |
---|---|
پیغمبر اسلامؑ • حضرت علیؑ • حضرت فاطمہؑ • صحابہ | |
غزوات | |
غزوہ بدر • غزوہ احد • غزوہ خندق • غزوہ خیبر • غزوہ فتح مکہ • دیگر غزوات | |
شہر اور مقامات | |
مکہ • مدینہ • طائف • سقیفہ • خیبر • جنۃ البقیع | |
واقعات | |
بعثت • ہجرت حبشہ • ہجرت مدینہ • صلح حدیبیہ • حجۃ الوداع • واقعۂ غدیر | |
متعلقہ مفاہیم | |
اسلام • تشیع • حج • قریش • بنو ہاشم • بنو امیہ | |
حدیث قرطاس یا حدیث قلم و کاغذ، رسول خدا کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے اپنے بعد مسلمانوں کو گمراهی سے محفوظ رکھنے کا نسخہ لکھنے کیلئے صحابہ سے قلم اور دوات مانگی جسے حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کیا کہ "یہ شخص بیماری کی وجہ سے ہزیان کہہ رہا ہے"۔ یوں رسول اللہ امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنی وصیت نہ لکھ سکے۔
اس واقعے میں خلیفہ دوم کی جانب سے رسول اللہ(ص) کے حکم کی تامیل نہ کرنا، خاص کر یہ کہتے ہوئے کہ "یہ آدمی بیماری کی وجہ سے ہزیان کہہ رہا ہے" پیغمبر اکرم(ص) کی توہین کرنے کو قرآن کریم کی سراسر خلاف ورزی سمجھتے ہوئے بعض مسلمان مصنفین نے خلیفہ دوم کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس واقعے کو شیعہ و سنی تاریخی اور حدیث منابع میں مصیبت عظمی سے یاد کیا گیا ہے۔
اہل تشیع کے مطابق اس موقع پر پیغمبر اکرم(ص) اپنے بعد حضرت علی(ع) کی جانشینی سے متعلق کچھ لکھنا چاہتے تھے۔
واقعے کی تفصیل
تاریخی اور حدیثی کتابوں کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر بیماری پر 25 صفر سنہ 11 ہجری کو حاضرین سے فرمایا :
- مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ دوں، جس کی بدولت تم کبھی گمراہ نہیں ہو نگے۔[یادداشت 1]
تاریخ میں آیا ہے کہ عمر بن خطاب جو اس وقت پیغمبر اکرم کے پاس بیٹھے تھے، نے رسول اللہ کی اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا: پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ اس واقعہ میں خلیفہ دوم کے الفاظ مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ سنی منابع میں ذکر ہوا ہے۔[یادداشت 2]یہ سننے کے بعد صحابہ کے درمیان نزاع شروع ہو گئی۔ پیغمبر نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔
سید عبدالحسین شرف الدین نے اپنی تصنیف المراجعات میں کہا ہے کہ قد غلب عليه الوجع کے الفاظ اہل سنت محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں [7] اس نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب السقیفہ میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا اس میں آیا ہے : پس عمر نے ایسی بات کہی کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد نے پیغمبر پر غالب ہو گیا ...
منابع حدیث
منابع اہل سنت
یہ حدیث اہل سنت کے بہت سے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا:
- صحیح بخاری کےاب میں پانچ مقامات پر آئی جن میں سے دو مقام پر عمر کا نام آیا ہے ۔[8] [9] [10] [11] [12]
- صحیح مسلم میں تین جگہ پر : ایک مقام پر حضرت عمر کا نام آیا ہے [13] [14] [15]
- مسند احمد میں ایک مقام پر :کہنے والے کے نام کی طرف اشارہ نہیں ہوا ۔[16]
- سنن بیہقی میں ایک جگہ نقل ہوا ہے :کہنے والے کے نام نہیں آیا ۔[17]
- طبقات ابن سعد میں آٹھ جگہ آیا ہے : تین جگہ حضرت عمر کا نام آیا ہے [18] [19] [20] [21] [22] [23] [24] [25]
شیعہ مآخذ
مختلف مؤقف
شیعہ مؤقف
علمائے شیعہ اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے رسول اللہ کے وصیت لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ [30] اہل سنت کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رسول اللہ کی وصیت میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔[31]
شرف الدین عاملی المراجعات میںقرآنی آیات کے تناظر میں حضرت عمر پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:[32]
- رسول خدا(ص) کے حکم کی نافرمانی اور رسول کی مخالفت ۔
- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا حضرت عمر رسول اللہ سے زیادہ دانا تر ہے۔
- رسول کی نسبت ہذیان گوئی کا الزام لگانا۔
شیعوں کے نزدیک حضرت عمر کا یہ رویہقرآن کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا:
- وَمَا آتَاکمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکمْ عَنْهُ فَانتَهُواآیت ۷سورہ حشر
جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔
- مَا ضَلَّ صَاحِبُکمْ وَمَا غَوَیٰ ﴿۲﴾ وَمَا ینطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ ﴿۳﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَیٰ ﴿۴﴾ عَلَّمَهُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ﴿۵﴾سورہ نجم
- کہ تمہارا یہ ساتھی پیغمبرِ اسلام(ص) نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4)
اہل سنت مؤقف
اہل سنت علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا:
- بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اورغیر معتبر سمجھتے ہیں ۔
- بعض اس حدیث کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور تک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ پیغمبر ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی پیغمبر ہذیان نہیں کہتا ہے ؟
- عمر کاقرآن کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔
- بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں ۔
پیمبر(ص) کا مقصود
شیعہ علما کے نزدیک حدیث قرطاس اور حدیث ثقلین کہ جس میں رسول اکرم نے فرمایا :میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیںقرآن و [[اہل بیت]، چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے اس وقت تک تم گمراہ نہیں ہو گے؛کی غرض ایک اور ان کا ہدف حضرت علی کی تاکید ہے ۔ شیعہ علما کے مطابق ان دونوں احادیث سے حضرت رسول اکرم کا قصد یہ تھا کہ خلافت اور امامت کو اپنی عترت کیلئے استوار کریں ۔چونکہ کچھ افراد اس حقیقت کو بھانپ گئے تھے اسی وجہ سے وہ اس حدیث قرطاس کے لکھنے سے مانع ہوئے۔[33] نیز خلیفۂ دوم اور عبد اللہ بن عباس کے درمیان ہونے والی گفتگو میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم اپنی بیماری کے ایام میں چاہتے تھے کہ اپنے بعد خلافت کیلئے علی کا نام لیں تو میں دلسوزی اور حفاظت اسلام کی خاطر اس میں آڑے آیا ۔[34]
ارادۂ تحریر کے التوا کا سبب بعض شیعہ علما کا رسول اکرم کے وصیت لکھنے سے منصرف ہونے کا سبب اس موقع پر رسول اکرم کے مقابلے میں کی جانے والی گفتگو تھی کہ جس کی وجہ سے اس تحریر کے لکھنے کے ارادے کو ملتوی کر دیا کیونکہ اب اس حالت میں رسول اکرم کے وصال کے بعد اس تحریر کے لکھنے کا کوئی اثر فتنے اور فساد کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا تھا ۔ اگر پیغمبر اکرم یہ تحریر لکھ بھی دیتے تو ممکن تھا کہ انکے بعد کہا جاتا کیا یہ ہذیانی حالت میں لکھا گیا یا نہیں ؟[35]
حوالہ جات
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۲، ص۱۸۷
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶
- ↑ اربلي، كشف الغمہ، ج۱، ص۴۰۲
- ↑ صحيح بخارى، كتاب الجہاد و السير، باب 175، ح 1
- ↑ صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 6
- ↑ صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 5 . 13 و كتاب المرضى، باب 17، ح 1 . 15 و كتاب العلم، باب 39 (باب كتابۃ العلم)، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 8 . 14 .
- ↑ شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.
- ↑ صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.
- ↑ صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.
- ↑ صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.
- ↑ صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.
- ↑ صحیح البخاری، ج۷، ص۹.
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۵.
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
- ↑ مسند الامام احمد بن حنبل، ج۲، ح۱۹۶۳، ص۴۵.
- ↑ بیہقی، السنن الکبری، ج۹، ص۲۰۷.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۵.
- ↑ شیخ مفيد، الإرشاد، ج۱، ص۱۸۴
- ↑ شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۴۰۶
- ↑ نعماني الغيبت، ص ۸۱-۸۲
- ↑ ابن شہرآشوب، المناقب، ج۱، ص۲۳۶
- ↑ جوہري، مقتضب الأثر، ص1
- ↑ صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
- ↑ شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.
- ↑ شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۵؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۶.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۲، صص ۲۰-۲۱.
- ↑ شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۵؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۶-۴۳۷.
نوٹ
منابع
- ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم،دار احیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق.-۱۹۵۹م.
- ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت:دار صادر، بیتا.
- بخاری، صحیح البخاری، ج۱، بیروت: دارالفکر، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
- بیہقی، احمد بن الحسین، السنن الکبری، بیروت: دارالفکر، بیتا.
- احمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، حققه ووضع حواشیہ ورقم احادیثہ: محمد عبدالقادر عطا، ج۲، بیروت:دار الکتب العلمیہ، ۲۰۰۸م.
- شرف الدین العاملی، المراجعات، قدم لہ: حامد حفنی داود، محمد فکری عثمان ابوالنصر، الطبعہ العشرون، مصر: قاہرہ، ۱۳۹۹ق-۱۹۷۹م. ترجمہ فارسی: مناظرات، مترجم: حیدرقلی بن نور محمدخان سردار کابلی، با مقدمہ کیوان سمیعی، تہران: نشر سایہ، ۱۳۸۰ش.
- الصنعانی، عبدالرزاق، المصنف، تحقیق وتخریج وتعلیق: حبیب الرحمن الاعظمی، بیجا: منشورات المجلس العلمی، بیتا.
- القاضی عیاض، الشفا بتعریف حقوق المصطفی، ج۲، مذیلاً بالحاشیة المسماة مزیل الخفاء عن ألفاظ الشفاء للعلامہ أحمد بن محمد بن محمد الشمنی (۸۷۳ هـ)، بیروت:دار الفکر، ۱۴۰۹ - ۱۹۸۸ م.
- نیسابوری، مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح (صحیح مسلم)، بیروت: دارالفکر، بیتا.
- متقی ہندی، کنز العمال، تحقیق، ضبط و تفسیر: بکری حیانی، تصحیح وفہرسہ: صفوة السقا، بیروت: مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۰۹ق-۱۹۸۹م.
خطا در حوالہ: "یادداشت" نام کے حوالے کے لیے ٹیگ <ref>
ہیں، لیکن مماثل ٹیگ <references group="یادداشت"/>
نہیں ملا یا پھر بند- ٹیگ </ref>
ناموجود ہے