کتے کی نجاست
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
کتے کی نجاست سے مراد کتا اور اس کے تمام اجزاء کا نجس ہونا ہے۔ کتا عین نجس ہے جو مطہرات میں سے استحالہ کے علاوہ کسی کے ذریعہ پاک نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح شکاری کتے اور رکھوالی کے کتے کے علاوہ باقی کتوں کی خرید و فروخت حرام ہے۔ کتے کی کھال کو کھانے پینے کے برتن کے طور پر یا ان چیزوں کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے جن میں طہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو برتن کتے کے منہ سے لگ گیا ہو اس کو مٹی سے مانجھا جائے گا۔ کتے کی نجاست کا حکم، دریائی کتے کو شامل نہیں ہوتا ہے۔
شیعہ فقیہ سید مرتضی، کتا اور سور کے بال کو نجس نہیں سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ بےجان اجزا نجس نہیں ہیں۔
تعریف اور مفہوم
کتا نجس ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا بدن اور یہاں تک کہ اس کے وہ اجزاء بھی نجس ہیں جن میں جان نہیں ہوتی ہے جیسے بال، پنجہ، ناخون اور اس کی تمام رطوبتیں۔[1] البتہ شیعہ فقیہ سید مرتضی کا نظریہ یہ ہے کہ کتے اور سور کے بال نجس نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ان میں جان نہیں ہوتی ہے۔[2] محمد حسن نجفی کے بقول، سید مرتضی کا فتویٰ دیگر شیعہ فقہاء کے نظریہ کے خلاف ہے۔[3] البتہ اہل سنت کے چار مذاہب میں سے مالک بن انس نے کتے اور سور دونوں کو پاک مانا ہے۔[4] کتے کی نجاست کے مستندات میں بعض روایات ہیں جو ائمہ معصومینؑ سے منقول ہیں۔ یہ روایات وسائل الشیعہ کے «بَابُ نَجَاسَۃ الْكَلْبِ وَ لَوْ سَلُوقِيّا؛ کتے کی نجاست اگرچہ شکاری ہو»[5] اور «بَابُ نَجَاسَۃ سُؤْرِ الْکَلْبِ وَ الْخِنْزِیرِ»[6] میں نقل کی گئی ہیں۔
مٹی سے مانجھنا
جس برتن کو کتے نے چاٹا ہو یا اس کے میں منہ لگایا ہو تو اس کو پاک کرنے کے لئے تعفیر یعنی مٹی سے مانجھنا اور پھر آب قلیل یا آب کر سے دھونا ضروری ہے۔[7] اور اس طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے سے وہ برتن پاک نہیں ہو سکتا۔[8]
کتے کی خرید و فروش
فقہاء کی نگاہ میں کتے کی خرید و فروش، حرام ہے کیونکہ عین نجاست کی مالی قدر و قیمت نہیں ہوتی ہے اور سے بیچا خریدا نہیں جا سکتا۔[9] یہ آوارہ کتے کا حکم ہے۔[10] جبکہ شکاری اور رکھوالی کے کتے اس حکم سے مستثنی ہیں کیونکہ ان میں مالی قدر و قیمت پائی جاتی ہے۔[11]
کتا پالنا
آیت اللہ مکارم شیرازی کے فتوے کے مطابق ان کتوں کا پالنا اور رکھنا نجس ہونے کے باوجود اشکال نہیں ہے جن پر فوائد مترتب ہوتے ہیں۔ جیسے؛ رکھوالی والا کتا، شکاری کتا، زندہ انسان کو ڈھونڈنے والا کتا۔ لیکن ایسے کتے جن کی پرورش صرف تفریح کی غرض سے ہوتی ہے، ان کو پالنا اشکال رکھتا ہے۔[12] اور ایسے کتوں کا پالنا مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔[13] بعض مراجع نے گھر پر کتا پالنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔[14]
دوسرے احکام
- اگر کوئی چیز کتے سے لگ جائے تو اگر کتے کے بدن سے کچھ رطوبت (تری) اس چیز پر منتقل ہوجائے تو وہ نجس ہوجائے گی۔[15]
- فقہائے شیعہ کی نظر میں کتے کی نجاست کا حکم خشکی میں رہنے والے کتے سے مخصوص ہے اور یہ حکم دریائی کتے کو شامل نہیں ہوتا ہے۔[16]
- اس چیز میں کھانا پینا حرام ہے جو کتے کی کھال سے بنائی گئی ہو۔[17] اسی طرح فقہاء کی نظر میں ان برتنوں سے ایسے کام نہیں لینا چاہئے جن میں طہارت کی شرط ہوتی ہے جیسے وضو اور غسل وغیرہ۔[18] بہت سے فقہاء کی نظر میں کتے اور سور کی کھال سے کھانے پینے کے علاوہ دوسرے کام بھی نہیں لینا چاہئیں۔[19]
- کتا عین نجاست ہے لہذا صرف استحالہ [یادداشت 1] سے ہی پاک ہو سکتا ہے اور دوسرے مطہرات سے پاک نہیں ہوسکتا۔[20]
- فقہاء کے فتوے کے مطابق، کتے کو صاف کرنے سے یا ویکسین لگوانے سے وہ پاک نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس بات کے اوپر کوئی دلیل نہیں ہے کہ کتے کی نجاست اس کے آوارہ ہونے یا گندے ہونے کی وجہ سے ہو۔[21]
حوالہ جات
- ↑ مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۹ق، ص۳۵؛ شبیری زنجانی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۳۰ق، ص۲۸۔
- ↑ سید مرتضی، المسائل الناصریات، ۱۴۱۷ق، ص۱۰۰۔
- ↑ نجفی، جواہر الكلام، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۳۳۱۔
- ↑ ابن الجلاب، التفريع في فقہ الإمام مالك بن أنس، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۵۲۔
- ↑ حرعاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۱۴-۴۱۷.
- ↑ حرعاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۲۵-۲۲۷.
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۰۱۔
- ↑ شیخ انصاری، صراط النجاۃ، ۱۴۱۵ق، ص۵۲؛ بہجت، استفتائات، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۱۰۴؛ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۰۱۔
- ↑ شیخ انصاری، المکاسب، ۱۴۱۰ق، ج۱، ۵۴-۵۷؛ مشکینی اردبیلی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۴۷۔
- ↑ مشکینی اردبیلی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۴۷؛ بہبہانی، رسالہ عملیہ متاجر وحید بہبہانی، ۱۳۱۰، ص۱۷-۱۸؛ نراقی، أنیس التجار، ۱۴۲۵ق، ۳۶-۳۷۔
- ↑ مشکینی اردبیلی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۴۷۔
- ↑ «احکام نگہداری حیوانات»، پایگاہ اطلاعرسانی دفتر حضرت آيتاللہ مکارم شیرازی.
- ↑ مکارم شیرازی، استفائات جدید، ۱۴۲۷ق، ج۳، ص۲۶.
- ↑ بهجت، استفتائات، ۱۴۲۸ق، ج۴، ص۵۷۴.
- ↑ مشکینی اردبیلی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۴۶۔
- ↑ ملاحظہ کریں: نراقی، أنیس التجار، ۱۴۲۵ق، ۳۶-۳۷؛ مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۹ق، ص۳۵؛ شبیری زنجانی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۳۰ق، ص۲۸؛ وحید خراسانی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۸ق، ص۲۴؛ سبحانی تبریزی، رسالہ توضیح المسائل، ۱۴۲۹ق، ص۱۲۷۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۳۵۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۳۵۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۱۳۵۔
- ↑ مشکینی اردبیلی، مصطلحات الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۴۶۔
- ↑ موسوی گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۳۹۔
نوٹ
- ↑ استحالہ یعنی کسی چیز کی حقیقت و ماہیت کا کسی دوسری چیز میں تبدیل ہوجانا جیسے نجس لکڑی سوکھ کر راکھ بن جائے۔
مآخذ
- ابنالجلاب، عبیداللہ بن حسین، التفریع فی فقہ الإمام مالک بن انس، تحقیق: سید کسروی حسن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۲۰۰۷ء۔
- امام خمینی، سید روحاللہ، توضیح المسائل(المحشی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۴ھ۔
- بہبہانی، محمدباقر بن محمداکمل، رسالہ عملیہ متاجر وحید بہبہانی با تعلیقات میرزای شیرازی، تہران، حاج شیخ رضا تاجر تہرانی، ۱۳۱۰ھ۔
- بہجت، محمدتقی، استفتائات، قم، دفتر حضرت آیتاللہ بہجت، ۱۴۲۸ھ۔
- سبحانی تبریزی، جعفر، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۴۲۹ھ۔
- سید مرتضی، المسائل الناصريات، تہران، رابطۃ الثقافۃ و العلاقات الإسلاميۃ، ۱۴۱۷ھ۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات سلسبیل، ۱۴۳۰ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی بن محمدامین، صراط النجاۃ(محشّٰی)، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی بن محمدامین، المکاسب، تحقیق محمد کلانتر، قم، دارالکتاب، ۱۴۱۰ھ۔
- مشکینی اردبیلی، علی، مصطلحات الفقہ و معظم عناوینہ الموضوعیۃ، قم، نشر الہادی، ۱۴۱۹ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، استفائات جدید، قم، انتشارات امام علی بن ابیطالب(ع)۔ ۱۴۲۷ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات امام علی بن ابیطالب(ع)، ۱۴۲۹ھ۔
- موسوی گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع المسائل، قم،دار القرآن الکریم، ۱۴۰۹ھ۔
- نراقی، ملامحمدمہدی بن ابیذر، أنیس التجار(محشّٰی)، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۵ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، تحقیق: عباس قوچانى، على آخوندى، بیروت، دارإحياء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
- وحید خراسانی، حسین، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مدرسہ امام باقر(ع)، ۱۴۲۸ھ۔