قصیدہ فضل امیر المؤمنین
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Waziri (حصہ · شراکت) نے 53 دِن قبل کی۔ |
قصیدهٔ فَضلِ امیرالمؤمنین | |
---|---|
![]() | |
کوائف شعر | |
شعر کا نام | قَصیدهٔ فَضْلِ اَمیرالمؤمِنین |
دوسرے اسامی | منقبتنامه امیرالمؤمنین |
شاعر | کَسایی مَروَزی |
قالب | قصیدہ |
سبک | خراسانی |
موضوع | مدح امام علیؑ |
زبان | فارسی |
تاریخ | ۳۷۰ق |
تعداد ابیات | 23 |
مشہور اشعار | |
قصیدہ لامیہ ابوطالب • تائیہ دعبل • محتشم کا بارہ بند • همائے رحمت • بہشت کا ایک ٹکڑا • اے اہل حرم • با آل علی ہرکہ درافتاد ورافتاد • مکن ای صبح طلوع • ہا علی بشر کیف بشر |
قصیدہ فضلِ امیرالمؤمنین (تخلیق: 370ھ)، فارسی زبان میں کسائی مروزی کا ایک قصیدہ ہے جو امام علیؑ کی شان میں کہا گیا ہے۔ کسائی نے اس قصیدے میں قرآن کی آیات اور احادیث کی روشنی میں امام علیؑ کی بلا فصل خلافت کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ قصیدہ فارسی میں قدیم ترین مذہبی ادبیات کا نمونہ سمجھا جاتا ہے جو شیعہ عقائد سے متعلق ہے۔
یہ قصیدہ دو لحاظ سے اہم سمجھا جاتا ہے: ادبی حوالے سے یہ چوتھی صدی ہجری کا ایک نادر ادبی نمونہ ہے۔ اس کا خالق، ایک ممتاز شخصیت تھے، جس کے زیادہ تر کلام ضائع ہو چکے ہیں۔ شیعہ تاریخ کے لحاظ سے یہ قصیدہ اس دور میں شیعوں کے عقائد، ان کے ایمان اور ان کے تبلیغی اور استدلالی طریقوں کو واضح کرتا ہے۔ شاعر نے اس قصیدے میں انسان کی نجات کا راستہ اہلِ بیتؑ کی ولایت کو قرار دیا ہے اور ان کی ولایت کے بغیر عبادت کو بے وقعت سمجھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس میں دشمنانِ اہلِ بیتؑ کے خلاف سخت لہجہ اختیار کیا گیا ہے اور ان پر شدید تنقید کی گئی ہے۔
اہمیت
بعض محققین کے مطابق قصیدہ فضل امیرالمؤمنین[2] یا منقبت نامہ امیرالمؤمنین[3]، کسایی مروزی کا فارسی زبان میں لکھا ہوا قصید ہے، جس میں شاعر نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں امام علیؑ کی بلا فصل خلافت کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔[4]
معاصر مورخ رسول جعفریان نے اس قصیدے کو امام سجادؑ اور امام صادقؑ کی مدح میں بھی شمار کیا ہے۔[5] اس قصیدے کو "مضبوط"، "بلند پایہ"، "پرمغز" اور کسائی کے بہترین شعری آثار میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔[6] معروف ادیب اور تاریخ نگار محمد امین ریاحی (وفات: 1388 شمسی) نے اسے فارسی زبان میں مذہبی ادبیات کا قدیم ترین نمونہ قرار دیا ہے، جو بعد کے ادوار، بالخصوص سلسلہ صفویہ میں، محتشم کاشانی جیسے شاعروں کے کلام کے ذریعے کمال کو پہنچا۔[7]
ریاحی کے مطابق یہ قصیدہ دو اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے:
- ادبی لحاظ سے – یہ قصیدہ چوتھی صدی ہجری کے ایک بلند پایہ فارسی گو شاعر کا نادر شعری نمونہ ہے، جس کے زیادہ تر آثار ضائع ہو چکے ہیں۔[8]
- شیعہ مذہبی تاریخ کے لحاظ سے – یہ قصیدہ اس دور میں شیعوں کے ایمان، اعتقاد، تبلیغ اور استدلال کے طریقوں کو واضح کرتا ہے۔[9]
مزید برآں، یہ قصیدہ شاعر کی زندگی کے کچھ غیر واضح گوشوں کو بھی روشن کرتا ہے، خاص طور پر اس کے اعتقادی اور سماجی پہلوؤں کو۔[10] اس کے ذریعے یہ ثابت ہوتا ہے کہ: وہ بعض مورخین کے گمان کے برخلاف،[11] اسماعیلی شیعہ نہیں، بلکہ امامی شیعہ تھا۔[12] اور بعض دوسرے مورخین کے گمان کے برخلاف،[13] وہ محمود غزنوی (وفات: 421ھ) یا کسی عباسی خلیفہ کی مدح سرائی نہیں کرتا تھا۔[14]
خصوصیات
قصیدہ فضلِ امیرالمؤمنین، کسائی کا 23 ابیات پر مشتمل مکمل قصیدہ ہے، جو ایک اور مکمل قصیدے کے ساتھ، کسائی کے حال ہی میں جمع کیے گئے دیوان کا سب سے اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔[15] محمد امین ریاحی نے، کسائی کے قصیدے میں دیے گئے ایک اشارے (انیسویں بیت) کی بنیاد پر، اس کی تخلیق کا سال 370 ہجری درج کیا ہے۔[16]
یہ قصیدہ اس شیعہ شاعر کے جارحانہ عقائد اور مدافعانہ رویے کی عکاسی کرتا ہے،[17] جس کی وجہ سے شاعر کو بعض حلقوں کی دشمنی کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر، بعض کتابوں [18] میں ناصر خسرو قبادیانی (اسماعیلی شاعر و مبلغ) کی کسائی سے دشمنی کا ذکر موجود ہے۔ ریاحی کے مطابق کسائی کا یہی قصیدہ اس کے ساتھ دشمنی کی وجوہات کو آشکار کرتا ہے، اور وہ کسائی کا شیعہ امامیہ مذہب سے تعلق رکھنا اور ان کے اشعار کی بدولت خراسان میں امامیہ مسلک کو فروغ حاصل ہونا ہے۔[19]
کہا جاتا ہے کہ قصیدہ فضلِ امیرالمؤمنین کو سب سے پہلے[20] 1348 شمسی میں محمد امین ریاحی (جو اس وقت ترکی میں ایران کے ثقافتی مشیر تھے) نے متعارف کرایا۔[21] انہوں نے یہ قصیدہ "جُنگِ عبداللہ برمکی" (تالیف: 945ھ)[22] کے مجموعے میں دریافت کیا، جو منقبوں کا ایک مجموعہ تھا اور استنبول کے توپکاپی سرائے کتب خانے میں محفوظ تھا۔[23] بعد میں اس قصیدے کا ایک قدیمی نسخہ "جُنگِ اسکندری" (تالیف: 813-814ھ) میں بھی پایا، جو بعض محققین کے مطابق بعض مقامات پر جُنگِ عبداللہ برمکی کے نسخے سے زیادہ مستند اور درست نظر آتا ہے۔[24]
مضامین
قصیدہ فضلِ امیرالمؤمنین میں کسائی مروزی کا عمومی مؤقف یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ تمام صحابہ پر فوقیت اور برتری رکھتے ہیں۔[25] بعض محققین کے مطابق شاعر نے اس برتری کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی ان آیات کو ذکر کیا ہے جن کو شیعہ امام علیؑ کی امامت و ولایت کو ثابت کرنے کے لئے بطور دلیل پیش کرتے ہیں ان میں: آیہ مباہلہ (آل عمران: 61) سورہ اسراء آیہ 26، سورہ روم آیہ 38، سورہ واقعہ آیت 38 سے 40 شامل ہیں۔[26]
اسی طرح کسائی نے امام علیؑ کی فضیلت کے لیے شیعہ احادیث سے بھی استدلال کیا ہے،[27] جن میں:
- حدیث "لا فتی الا علی" (کوئی جوانمرد نہیں مگر علی) اور حدیث سفینہ (اہلبیتؑ کی مثال نوح کی کشتی کی مانند ہے) نیز، انہوں نے بعض دیگر احادیث کا بھی حوالہ دیا ہے،[28] جیسے:
- "ما منا الا مقتول شہید" (ہم میں سے ہر ایک یا قتل ہوگا یا شہید ہوگا) ][29]
- قرآن میں "شجرہ ملعونہ" کی تفسیر سے متعلق بعض روایات[30]
اسی طرح اس قصیدے میں شاعر نے قصیدے کے ضمن میں امام علیؑ کے مختلف القابات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، جن میں: حیدر، شیر خدا، مرتضیٰ، امام المتقین جیسے القاب کا تذکرہ ملتا ہے۔[31]
اس قصیدے میں شاعر نے انسان کی نجات کا واحد راستہ اہل بیتؑ کی ولایت کو قرار دیا ہے، اور ولایتِ اہل بیتؑ کے بغیر انجام دینے والی عبادتوں کو بے وقعت قرار دیا ہے۔[32] کہا جاتا ہے کہ شاعر نے اہل بیتؑ کی محبت (تولّی) کے ساتھ ساتھ، ان کے دشمنوں سے نفرت (تبرّی) کا بھی اظہار کیا ہے۔ ریاحی کے مطابق شاعر نے عباسی خلفاء کے لئے "امیرالمؤمنین" کا خطاب دینے کی بنسبت اپنی ناراضگی اور غصے کے اظہار کے طور پر انہیں "امیر الفاسقین" (فاسقوں کے پیشوا) کا جملہ استعمال کیا ہے۔[33]
کسائی نے اپنی دشمنان اہل بیتؑ سے برأت کے اظہار کو نہ صرف ائمہ معصومین کے دور کے دشمنوں بلکہ اپنے ہم عصر مخالفین کے خلاف بھی ظاہر کیا ہے۔ ائمہ کے ہم عصر دشمنان اہل بیتؑ میں، بعض اموی اور عباسی خلفاء جیسے: یزید بن معاویہ، مروان بن حکم، معتصم عباسی وغیرہ کے ساتھ اظہار برأت کیا ہے۔ جبکہ اپنے ہم عصر دشمنان اہل بیت میں، انہوں نے سنی ترک نژاد حکمرانوں (جو اس وقت مشرقی ایران میں برسر اقتدار تھے) سے برأت کا اظہار کیا۔ محققین کے مطابق قصیدے میں مذکور "خان"، "تَگْسین" اور "تَکین" جیسے الفاظ انہی حکمرانوں کے القابات کی طرف اشارہ ہے۔[34]
متن اور ترجمہ
|
حوالہ جات
- ↑ مرادی، «چند نکته درباره اشعار کسائی مروزی»، ص۴۲.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۸۹.
- ↑ حکیم، «قصیدهای نو یافته از کسائی»، ص۵۶.
- ↑ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵؛ ابوالحسنی، «دامن اولاد حیدر گیر و از طوفان مترس»، ص۱۴۰.
- ↑ جعفریان، تاریخ تشیع در ایران، ۱۳۸۸ش، ص۴۰۲.
- ↑ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵؛ ابوالحسنی، «دامن اولاد حیدر گیر و از طوفان مترس»، ص۱۴۰.
- ↑ ریاحی، «قصیدهای از کسائی مروزی»، ص۴۴۷؛ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۴۹.
- ↑ ریاحی، «قصیدهای از کسائی مروزی»، ص۴۴۷؛ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۴۹-۵۰.
- ↑ ریاحی، «قصیدهای از کسائی مروزی»، ص۴۴۷؛ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۵۰.
- ↑ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵.
- ↑ نفیسی، محیط زندگی و احوال و اشعار رودکی، ۱۳۴۱ش، ص۳۹۶.
- ↑ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵.
- ↑ عوفی، تذکره لباب الالباب، ۱۳۶۱ش، ج۲، ص۵۲۰؛ اته، تاریخ ادبیات فارسی، ۱۳۳۷ش، ص۱۴۸.
- ↑ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵.
- ↑ حکیم، «قصیدهای نو یافته از کسائی»، ص۵۶.
- ↑ ریاحی، «قصیدهای از کسائی مروزی»، ص۴۴۷؛ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۴۹.
- ↑ ریاحی، «قصیدهای از کسائی مروزی»، ص۴۴۷؛ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۴۹.
- ↑ برای نمونه نگاه کنید: هدایت، مجمع الفصحاء، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۱۷۱۹.
- ↑ ریاحی، «قصیدهای از کسائی مروزی»، ص۴۴۶.
- ↑ مرادی، «چند نکته درباره اشعار کسائی مروزی»، ص۴۱.
- ↑ «توضیح مجله یغما»، ص۴۴۹؛ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵.
- ↑ مرادی، «چند نکته درباره اشعار کسائی مروزی»، ص۴۱.
- ↑ ریاحی، «قصیدهای از کسائی مروزی»، ص۴۴۷.
- ↑ مرادی، «چند نکته درباره اشعار کسائی مروزی»، ص۴۲.
- ↑ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵؛ ابوالحسنی، «دامن اولاد حیدر گیر و از طوفان مترس»، ص۱۴۰.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۹۰؛ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۴۵.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۹۰.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۹۰.
- ↑ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۸۵.
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۱۱.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۸۹-۹۲.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۹۱.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۹۲.
- ↑ ریاحی، کسائی مروزی، ۱۳۷۵ش، ص۹۱-۹۲؛ درخشان، اشعار حکیم کسائی مروزی، ۱۳۶۴ش، ص۹۶.
مآخذ
- ابوالحسنی، علی، «دامن اولاد حیدر گیر و از طوفان مترس»، در مجله کلام اسلامی، شماره ۲۸، زمستان ۱۳۷۷ش.
- اته، هرمان، تاریخ ادبیات فارسی، تحقیق صادق رضازاده شفق، تهران، بنیاد ترجمه و نشر کتاب، ۱۳۳۷ش.
- «توضیح مجله یغما»، در مجله یغما، شماره ۲۵۴، آبان ۱۳۴۸ش.
- جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا طلوع دولت صفوی)، تهران، نشر علم، ۱۳۸۸ش.
- حکیم، سید محمدحسین، «قصیدهای نو یافته از کسائی»، در نامه فرهنگستان، شماره ۴۰، زمستان ۱۳۸۷ش.
- درخشان، مهدی، اشعار حکیم کسائی مروزی و تحقیقی در زندگی و آثار او، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، ۱۳۶۴ش.
- ریاحی، محمدامین، «قصیدهای از کسائی مروزی»، در مجله یغما، شماره ۲۵۴، آبان ۱۳۴۸ش.
- ریاحی، محمدامین، کسائی مروزی: زندگی اندیشه و شعر او، تهران، انتشارات علمی، ۱۳۷۵ش.
- عوفی، محمد بن محمد، تذکره لباب الالباب، تحقیق ادوارد براون و محمد قزوینی و سعید نفیسی، تهران، کتابفروشی فخرز رازی، ۱۳۶۱ش.
- صدوق، محمد بن علی، کتاب من لا یحضره الفقیه، تحقیق علیاکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ق.
- مرادی، ارحام، «چند نکته درباره اشعار کسائی مروزی»، در کتاب ماه ادبیات، شماره ۱۷۹، شهریور ۱۳۹۱ش.
- قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۲ق.
- نفیسی، سعید، محیط زندگی و احوال و اشعار رودکی، تهران، انتشارات کتابخانه ابنسینا، ۱۳۴۱ش.
- هدایت، رضاقلی خان، مجمع الفصحاء، تحقیق مظاهر مصفا، تهران، امیرکبیر، ۱۳۸۲ش.