سید ابن طاووس

غیر سلیس
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(سید ابن طاؤس سے رجوع مکرر)
سید ابن طاووس
حلہ، عراق میں سید بن طاووس سے منسوب مزار کا مرکزی دروازہ
حلہ، عراق میں سید بن طاووس سے منسوب مزار کا مرکزی دروازہ
کوائف
مکمل نامسید علی بن موسی بن جعفر بن طاووس
لقب/کنیتسید رضی‌الدین، ابن طاووس
نسبحسنی سادات
تاریخ ولادت15 محرم 589 ھ
آبائی شہرحلہ
تاریخ وفات5 ذی القعدہ سنہ 664ھ
مدفنحلہ، عراق
نامور اقرباءآل طاووس • احمد بن طاووس
علمی معلومات
اساتذہان کے والد: موسی بن جعفر حلی • ان کے جد: ورام بن ابی فراس حلی • ابن نما حلی • فخار بن معد موسوی
شاگردسدید الدین حلی • علامہ حلی • حسن بن داوود حلی
تالیفاتاقبال الاعمالمہج الدعواتاللہوف و ...
خدمات
سماجینقابت سادات •


سید علی بن موسی بن جعفر بن طاووس، (589۔664 ھ) سید بن طاووس کے نام سے مشہور، ساتویں ہجری کے شیعہ عالم دین ہیں۔ آپ کتاب اللہوف کےمصنف ہیں اور بغداد میں مغلوں کے دور حکومت شیعوں کی نقابت کیا کرتے تھے۔ آپ کی بے انتہا پرہیزگاری، مراقبہ نفس اور عرفانی کیفیتوں کی وجہ سے بعض نے آپ کو "جمال العارفین"کا لقب دیا ہے۔ ابن طاووس کو اخلاقی اور معنوی مسائل بالخصوص نماز اور زیارت میں زیادہ دلچسپی تھی۔ آپ نے "تتمات مصباح المتہجد" کے نام سے تصانیف کا ایک مجموعہ لکھا جو دعا کے موضوع پر شیخ طوسی کی کتاب "مصباح المتہجد" کی تکمیل ہے۔علامہ حلی اور شیخ یوسف صدر الدین (علامہ حلی کے والد) سید علی ابن طاووس کے شاگرد تھے۔ 1500 سے زائد کتابوں کے حاوی آپ کا ذاتی کتابخانہ کتب کا ایک قابل ذکر ذخیرہ ہے۔

سوانح حیات

ابوالقاسم علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن طاووس آپ کا نام ہے اور رضی‌ الدین کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کا تعلق طاووس خاندان سے تھا اس لیے لوگ آپ کو ابن طاووس کے نام سے یاد کرتے ہیں۔[1] ابن طاووس بروز جمعرات 15 محرم سنہ 589ہجری کو عراق کے حلہ شہر میں پیدا ہوئے۔[2] آپ کو ذو الحسبین (دو نسب والا) بھی کہتے ہیں؛ کیونکہ ان کے پر دادا داؤد بن حسن مثنیٰ امام حسن مجتبی علیہ السلام کے پوتے اور امام سجاد علیہ السلام کے نواسے تھے اس لیے حسنی بھی تھے اور حسینی بھی۔[3] آپ کے والد موسیٰ بن جعفر بن طاووس، راوی حدیث تھے جنہوں نے اپنی روایتوں کو متفرق اوراق میں لکھا اور ان کے بعد ان کے بیٹے نے انہیں جمع کیا اور "فرقة الناظر و بهجة الخاطر مما رواه والدی موسی بن جعفر" کے نام سے شائع کیا۔ آپ کی والدہ شیعہ عالم دین "ورام بن ابی فراس حلی" کی بیٹی تھیں[4] آپ کی دادی کا تعلق شیخ طوسی کے خاندان سے تھا، لہذا آپ ابن ابی فراس اور شیخ طوسی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں اپنا دادا اور نانا کہتے تھے۔[5] آپ کے بھائی سید احمد بن طاووس حلی بھی اپنے دور کے عالم دین تھے اور سید بن طاووس کی وفات کے بعد شیعوں کی نقابت کا عہدہ سنبھالا۔[6] آپ نے اپنے زمانے کے وزیر ناصر بن مہدی کی بیٹی کے ساتھ شادی کی، بقول آپ کے اسی شادی کے سبب ایک طولانی مدت تک بغداد میں ہی مقیم رہے۔[7] بعض مورخین کے مطابق آپ 15سال بغداد میں مقیم رہے۔[8] مورخین نے آپ کی بغداد میں سکونت کے دوران کو سنہ 625 هجری سے سنہ 640 هجری تک بتایا ہے.[9]اس کے بعد آپ حلہ واپس آئے،[10] آپ کا بیٹا محمد مصطفی یہاں متولد ہوا۔[11] چند سالوں کے بعد اپنے گھر والوں کے ہمراہ نجف کی چلے گئے اس کے بعد کربلا کی طرف ہجرت کی؛ ان دونوں مقامات پر تین تین سال مقیم رہے۔[12] ابن‌طاووس سنہ 652ہجری میں دوبارہ بغداد واپس آئے۔[13] سنہ 661 ہجری میں ہلاکو خان کی جانب سے علویوں کی سرپرستی اور ان کی نقابت کا عہدہ سنبھالا اور اپنی عمر کےآخری لمحات تک اس عہدے پر فائز رہے۔[14] آپ بروز پیر 5 ذوالقعدہ سنہ 664ہجری کو بغداد میں وفات پاگئے۔[15] شہر حلہ میں آپ سے منسوب ایک مقبرہ موجود ہے[16] لیکن ابن فوطی (متوفیٰ: 723ھ) نے اپنی کتاب"حوادث جامعہ" میں لکھا ہے کہ ابن طاووس کی وفات کے بعد آپ کا جسد خاکی بغداد سے نجف منقتل کیا گیا اور روضہ امام علی ؑ کے جوار میں دفن کیا گیا۔[17] خود ابن طاووس نے اپنی کتاب "فلاح السائل و نجاح المسائل" میں لکھا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ہی روضہ امام علیؑ کے جوار میں اپنی قبر تیار کرلی ہے۔[18] بعض مورخین کا خیال ہے کہ حلہ میں سید ابن طاووس سے منسوب مقبرہ ان کے اپنے ہمنام بیٹے یعنی رضی الدین علی بن علی بن موسیٰ کا ہے جو کنیت، لقب اور نام میں اپنے والد کے ساتھ مشترک تھے۔[19]

تعلیم

سید ابن طاووس نے تعلیم کا آغاز حلہ شہر سے ہی کیا اور اپنے والد ماجد اور جد امجد، ورام بن ابى فراس سے مقدماتی علوم کو سیکھا۔ آپ نے نہایت ہی مختصر مدت میں بہت سے علوم سیکھے۔ چنانچہ کشف المحجۃ نامی کتاب میں خود لکھتے ہیں: جب میں نے سکول میں داخلہ لیا تو جسے دوسرے کئی سالوں میں سیکھتے تھے میں ایک سال کے اندر اندر انہیں سیکھ چکا تھا اور دوسرں سے آگے نکل گیا تھا۔ انہوں نے اڑھائی سال علم فقہ پر لگا دی اس کے بعد اپنے آپ کو استاد سے بے نیاز پا کر اپنے زمانے کے باقی فقہی کتابوں کا ذاتی طور پر مطالعہ کیا۔[20]ایک لمبا عرصہ بغداد میں ہی زندگی کی اور وہیں تعلیم و تدریس میں مشغول رہے۔[21]

آپ کے اساتذہ

ابن‌طاووس نے اپنی کتاب کشف المحجہ میں محمد بن جعفر بن نمای حلی کو فقہ میں اپنے استاد کے طور پر تعارف کرایا ہے۔[22] محدث نوری نے خاتمہ مستدرک الوسائل[23] میں کئی مآخذ سے استناد کرتے ہوئے 10 نفر کو ابن طاووس کے اساتذہ یا نقل حدیث کے اجازہ دینے والے مشائخ کے طور پر ذکر کیا ہے۔ یہ دس نفر درج ذیل ہیں:

  1. حسین بن احمد سوراوی
  2. علی بن یحیی بن علی خیاط
  3. أسعد بن عبدالقاهر شفروه
  4. نجیب الدین ابن نما
  5. سید فخار بن معد موسوی
  6. محمد بن معد
  7. حسن بن دربی
  8. سالم بن محفوظ
  9. محمد بن عبداللّه ابن زهرة
  10. یحیی بن محمد سوراوی

شاگرد

ابن طاووس کے بعض شاگرد یہ ہیں:[24]

  1. سدید الدین حلی (علامہ حلی کے والد)
  2. علامہ حلی
  3. حسن بن داوود حلی
  4. سید عبدالکریم بن احمد حلی
  5. علی بن عیسی اربلی

سماجی اور سیاسی زندگی

بعض محققین کا خیال ہے کہ بہت سے مذہبی شخصیات کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ سید ابن طاووس ایک ایسا فقیہ اور عارف و زاہد شخصیت کےمالک تھے جو سیاسی معاملات سے کوسوں دور تھے حالانکہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سید بن طاووس ایک ایسا ہمہ جہت اور کامل انسان تھے جو سیاست اور سیاسی معاملات کے بارے میں بھی سوچتے تھے یہاں تک کہ آپ نے اپنے بچوں کی سیاسی تربیت کے لیے "الاصطفاء فی تاریخ الملوک و الخلفاء" کے عنوان پر ایک خصوصی کتاب بھی تحریر کی۔[25] آپ نے اس کتاب میں اپنے بچوں کو حکم دیا کہ وہ اسے کسی کو بھی دستیاب نہ کریں جب تک کہ وہ اپنے اور اپنے والد کے بارے میں اس کی نیک نیتی کی تصدیق نہ کریں۔ آپ نے کہا ہے کہ یہ کتاب ایک امانت ہے جس سے انہیں امید ہے کہ ان کے بچے اور آنے والی نسلیں استفادہ کریں گی۔[26]

سلطنت عباسی کے ساتھ رابطہ

رضی الدین ابن طاووس کا بغداد میں اپنے قیام کے دوران سلطنت عباسی کے مشہور شیعہ وزیر محمد بن علقمی کے ساتھ رابطہ تھا؛ خلیفہ المستنصر باللہ عباسی بھی آپ کا احترام و تکریم کرتا تھا چنانکہ انہوں نے بغداد میں آپ کو ایک گھر عطیہ کیا۔[27] اس دوران عباسی خلیفہ نے آپ کو حکومتی امور چلانے کے سلسلے میں کوئی سرکاری عہدہ قبول کرنے کی پیشکش کی لیکن ابن طاووس نے اسے مکمل طور پر مسترد کیا۔ یہاں تک کہ اسی دوران آپ کو منصب فتویٰ، نقابت سادات اور سرکاری وزارت دینے کی پیش کی لیکن آپ نے انہیں قبول کرنے سے انکار کیا۔[28]

منگولوں کے ساتھ رابطہ

ابن طاووس سنہ652 ہجری میں ہلاکو خان کی منگول مہم کے دوران دوبارہ بغداد گیا۔ اس شہر کو منگولوں نے 656 ہجری میں ایک بڑے قتل عام کے ساتھ فتح کیا گیا تھا۔ سید ابن طاووس کے پاس ہلاکوخان کی طرف سے ایک امان نامہ تھا جو بظاہر نصیر الدین طوسی کی درخواست پر انہیں ملا تھا۔ آپ اسی امان نامہ کے ذریعے تقریباً ایک ہزار لوگوں کو اپنے ہمراہ حلہ لے گئے۔[29] ایک تاریخی روایت کے مطابق جب ہلاکو نے بغداد پر قبضہ کیا تو اس نے بغداد میں مسلمان علماء کو جمع کیا اور ان سے استفسار کیا کہ غیر مسلم عادل بادشاہ بہتر ہے یا ظالم مسلمان بادشاہ؟![30] بعض نے اس جواب کو ہلاکو خان کی شیعہ اور شیعہ علما کی طرف توجہ کا سبب قرار دیا ہے۔[31]

شیعوں کی نقابت

جب 661 ہجری میں ہلاکوخان نے آپ کو سادات کی نقابت(سرداری) کرنے کی پیشکش کی تو آپ نے یہ عہدہ قبول کر لیا، اگرچہ بعض ذرائع کے مطابق آپ نے یہ عہدہ مجبوری کے تحت قبول کیا تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کے آخری چار سال سادات کی نقابت کا عہدہ سنبھال رکھا۔[32]

اخلاقی فضایل اور معنوی مرتبہ

علامہ حلّی(متوفیٰ: 726ھ) لکھتے ہیں: سید بن طاووس صاحب کرامت عالم دین تھے۔[33][علامہ حلی کہتے ہیں: رضی الدین علی صاحب کرامات انسان تھے جن میں سے کچھ انہوں نے خود مجھے بیان کیے اور کچھ میرے والد نے بیان کیے اور میں نے ان سے سنا۔ (خاتمہ مستدرک الوسایل، ج 2، ص 439)] علامہ مجلسی نے بھی سید ابن طاووس کو سید نقیب، قابل وثوق شخصیت، زاہد اور جمال العارفین جیسے القابات سے یاد کیا ہے۔[34] محدث قمی نے سید ابن طاووس کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے: عظیم شخصیت، پرہیزگار، زاہد، سعادتمند، عارفوں کے رہنما، شب زندہ داروں کے چراغ، صاحب کرامات اور آل طاووس کے طاووس۔[35] علامہ طباطبائی کے بھائی سید محمد حسن (المعروف سید محمد حسن الٰہی) سے منقول ہے کہ ہم نے بہت سے علماء کی ارواح کو (ان کے ایک شاگرد کے ذریعے) احضار کیا اور سوالات کیے، سوائے دو لوگوں کے؛ ایک سید ابن طاووس کی روح تھی اور دوسری مرحوم سید محمد مہدی بحر العلوم کی روح تھی، ان دونوں نے کہا: ہم حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھے ہیں لہذا کوئی ہمارا احضار روح نہیں کرسکتا۔[36]

تألیفات

سید بن طاووس نے تقریبا 50 کتابیں لکھی ہیں جن میں سے بہت سی کتابیں دعا اور زیارت کے موضوع پر ہیں۔ جس چیز نے سید ابن طاووس کی طرف توجہ مبذول کروائی وہ آپ کی «تتمات مصباح المتہجد و مہمات فی صلاح المتعبد» کے عنوان پر لکھی کتاب ہے۔ یہ ایسی کتاب جس میں عبادت گزاروں کے لیے مفید دعائیں موجود ہیں؛ لیکن شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد میں اس کا ذکر نہیں ہے۔[37] آپ کی بعض تصنیفات یہ ہیں: [38]

کتب خانہ

سید بن طاووس کا اپنا ذاتی کتب خانہ تھا جس میں 1500 سے زائد کتابیں موجود تھیں۔[39] یہ کتب خانہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ منگول حملے میں بہت سی کتابیں ضائع ہو گئیں لیکن یہاں کتابیں باقی رہ گئیں۔[40] اتان کالبرگ(Etan Kohlberg) نے "ابن طاووس کی حالات زندگی اور ان کے آثار" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ انہوں نے ابن طاووس کی باقی ماندہ کتابوں سے یہ کتاب تحریر کی ہے، انہوں نے اس کتب خانے کی تعمیر نو کی کوشش بھی کی ہے۔[41] انہوں نے اس کتب خانے میں موجود کتابوں کے تقریباً 670 عنوانات درج کیے ہیں۔[42]

حوالہ جات

  1. قمی، الکنی و الألقاب، 1389ھ، ج1، ص341.
  2. کمونه حسینی، مواردالإتحاف، 1388ھ، ج1، ص107–108.
  3. سید بن طاووس، طرف من الأنباء و المناقب، 1420ھ، ص41
  4. روضات الجنات، خوانساری، 1390ھ، ج4، ص325.
  5. شهیدی گلپایگانی، راهنمای سعادت، 1382ہجری شمسی، ص14.
  6. عزاوی، موسوعة تاریخ العراق بین إحتلالین، 1425ھ، ج1، ص316.
  7. سید بن طاووس، کشف المحجه، 1417ھ، ص166.
  8. خوانساری، روضات الجنات، 1390ھ، ج4، ص338
  9. عبدالحمید، معجم مورخی الشیعه، 1424ھ، ج1، ص639.
  10. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ہجری شمسی، ص27.
  11. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ہجری شمسی، ص28.
  12. ملاحظہ کریں: کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ہجری شمسی، ص28.
  13. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ہجری شمسی، ص29.
  14. سید بن طاووس، الأمان من أخطار الأسفار و الأزمان، 1368ہجری شمسی، ص5
  15. سید بن طاووس، کشف المحجه، 1417ھ، ص30
  16. موقع الأمانة العامة للمزارات الشیعیة التابع لدیوان الوقف الشیعی؛ موقع الأمانة العامة لمزار السید بن طاووس علی الفیس بوک
  17. ابن فوطی، الحوادث الجامعه، دارالکتب العلمیه، ص255
  18. نگاه کنید به: سید بن طاووس، فلاح السائل، 1406ق، ص73–74.
  19. ملاحظہ کریں: فقیه بحرالعلوم، زیارتگاه‌های عراق، سازمان حج و زیارت، ص64.
  20. سید بن طاووس، کشف المحجه، 1417ھ، ص185.
  21. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ہجری شمسی، ص23–24.
  22. سید بن طاووس، کشف المحجه، 1417ھ، ص188.
  23. نوری، خاتمه مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج‏2، ص460–466.
  24. آقابزرگ، طبقات اعلام الشّیعه (قرن السّابع)، 1972ء، ص117.
  25. مباحث سیاسی در کشف المحجّه سید بن طاووس (مقاله پژوهشی حوزه)http://ensani.ir/fa/article/63953 /
  26. علوم سیاسی، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، ج25، ص13.
  27. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ہجری شمسی، ص23 و 25.
  28. سید بن طاووس، کشف المحجه، 1417ھ، ص168–169.
  29. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ہجری شمسی، ص30.
  30. ابن الطقطقی، الفخری، 1418ھ، ص23.
  31. بارانی، «گرایش ایرانیان به تشیع در عصر ایلخانیان»، ص88.
  32. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ش، ص31–32.
  33. نوری، خاتمه مستدرک الوسائل، 1408ق، ج‏2، ص439
  34. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج‏1، ص13
  35. قمی، الفوائد الرضویة، 1385ہجری شمسی، ج1، ص542
  36. طهرانی، سیدمحمدحسین، معادشناسی، ج1، ص186
  37. ملاحظہ کریں: خوش‌فر، «اندیشه‌های حدیثی سید بن طاووس»، ص98.
  38. احمدی، تاریخ حدیث شیعه، 1389ش، ص334؛ خوش‌فر، «اندیشه‌های حدیثی سید بن طاووس»، ص99.
  39. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ش، ص132.
  40. نیل‌ساز؛ فهیم، «بررسی تحلیلی سعدالسعود ابن طاووس»، نقد کتاب قرآن و حدیث، پاییز 1396، شماره 11، ص 6.
  41. کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ش، ص13.
  42. ملاحظہ کریں: کلبرگ، کتابخانه ابن طاووس، 1371ش، ص159–612؛ https://jscenter.ir/other-topics/jewish-celebrities/6256/اتان-کلبرگ-صهیونیست-ضد-تشیع/

منابع

  • آقابزرگ، طبقات اعلام الشّیعه (قرن السّابع)، بیروت، دارالکتب العربی، 1972ء.
  • ابن الطقطقی، محمد بن علی، الفخری فی الآداب السلطانیه، تحقیق عبدالقادر محمد مایو، بیروت، دارالقلم العربی، 1418ھ.
  • ابن فوطی، عبدالرزاق بن احمد، الحوادث الجامعه، بیروت، دارالکتب العلمیه، بی‌تا.
  • احمدی، مهدی، تاریخ حدیث شیعه در سده‌های چهارم تا هفتم هجری، قم، دارالحدیث، 1389ہجری شمسی.
  • بارانی، محمدرضا، «گرایش ایرانیان به تشیع در عصر ایلخانیان»، معرفت، شماره 40، بهار 1380ہجری شمسی.
  • خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات فی أحوال العلماء و السادات، تحقیق اسدالله اسماعیلیان، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1390ھ.
  • خوش فر، محسن، «اندیشه‌های حدیثی سید بن طاووس»، حدیث اندیشه، شماره 13، بهار و تابستان 1391ہجری شمسی.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، آداب سفر در فرهنگ نیایش، تهران، نشر آفاق، چاپ اول، 1381ہجری شمسی.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، الأمان من أخطار الأسفار و الأزمان، قم، مؤسسة آل البیت علیهم السلام لاحیاء التراث‏، 1368ہجری شمسی.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، طرف من الأنباء و المناقب، مشهد، تاسوعا، چاپ اول، 1420ھ.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، فرج المهموم، قم، دارالذخائر، بی‌تا.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، 1406ھ.
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، کشف المحجه لثمره المهجه، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، چاپ دوم، 1417ھ.
  • شهیدی گلپایگانی، سید محمد باقر، راهنمای سعادت (ترجمه کشف المحجه)، تهران، نشر سعدی، 1382ھ.
  • صادقی کاشانی، مصطفی، تاریخ‌نگاری ابن طاووس، قم، پژوهشگاه علوم و فرهنگ اسلامی، چاپ اول، 1394ہجری شمسی.
  • عبدالحمید، معجم مورخی الشیعه، قم، مؤسسه دائره المعارف فقه اسلامی، 1424ھ.
  • عزاوی، عباس، موسوعة تاریخ العراق بین إحتلالین، بیروت، الدار العربیة للموسوعات، 1425ھ.
  • غروی نایینی، نهله، محدثات شیعه، تهران، دانشگاه تربیت مدرس، چاپ دوم، 1386ہجری شمسی.
  • فقیه بحرالعلوم، محمدمهدی، زیارتگاه‌های عراق، تهران، سازمان حج و زیارت، بی‌تا.
  • قمی، عباس، الفوائد الرضویة فی أحوال علماء المذهب الجعفریة، ترجمه و تحقیق ناصر باقری بیدهندی، قم، نشر بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی.
  • قمی، عباس، الکنی و الألقاب، نجف، نشرحیدریه، 1389ھ.
  • کلبرگ، اتان، کتابخانه ابن طاووس، ترجمه علی قرایی و رسول جعفریان، قم، کتابخانه آیت الله العظمی مرعشی نجفی، 1371ہجری شمسی.
  • کمونه حسینی، عبدالرزاق، مواردالإتحاف فی نقباء الأشراف، نجف، نشر الآداب، 1388ھ.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار، بیروت، دار احیاء تراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ.
  • نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسه آل البیت علیهم السلام، ‏ چاپ اول، 1408ھ.
  • نیل ساز، نصرت؛ فهیم، فرزانه، «بررسی تحلیلی سعدالسعود ابن طاووس»، نقد کتاب قرآن و حدیث، شماره 11، پاییز 1396ہجری شمسی.
  • یوسفی اشکوری، حسن، «آل طاووس»، در دائره المعارف بزرگ اسلامی، ج2، تهران، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1368ہجری شمسی.