خزیمہ بن ثابت
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | خُزَیمَہ بن ثابِت بن فاکہ بن ثَعْلَبَہ بن ساعده انصاری۔ |
لقب | ذو الشہادتین |
محل زندگی | مدینہ، کوفہ |
مہاجر/انصار | انصار |
مدفن | صفین |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | سن 2 یا 3 ہجری |
جنگوں میں شرکت | جنگ بدر، جنگ احد، جنگ موتہ، جنگ صفین و جنگ جمل۔ |
وجہ شہرت | صحابی رسول خدا (ص) و امام علی (ع)، مخالف خلفائے ثلاثہ، نقل روایت۔ |
دیگر فعالیتیں | فتح مکہ میں بنی خطمہ کا پرچم بلند کرنا و باغی گروہ کے ذریعہ عمار یاسر کی شہادت کی گواہی دینا۔ |
خُزَیمَہ بن ثابِت بن فاکہ بن ثَعْلَبَہ بن ساعده انصاری، پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت علی (ع) کے ان اصحاب میں سے ہیں جو اپنے قبیلے میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ ایک گھوڑے کے معاملہ میں آنحضرت (ص) کے حق میں گواہی دینے کی وجہ سے آپ (ص) نے انہیں ذو الشہادتین کے لقب سے سرفراز کیا۔ وہ جنگ صفین میں امام علی (ع) کے لشکر کی طرف سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
نام، نسب و کنیت
خُزَیمَہ بن ثابِت، بن فاکہ بن ثَعْلَبَہ بن ساعده انصاری، اہل مدینہ ہیں اور ان کا تعلق قبیلہ اوس کی شاخ بنی حطمہ سے ہے۔ آپ پیغمبر اسلام (ص) اور امام علی (ع) کے اصحاب میں سے ہیں۔
ان کی والدہ کبشہ بنت اوس کا تعلق قبیلہ بنی ساعدہ سے تھا۔[1] خزیمہ کی کنیت ابو عمارہ ذکر ہوئی ہے۔[2] اسلام سے پہلے ان کی زندگی کے سلسلہ میں کوئی معلومات میسر نہیں ہے۔
اسلام لانا
ان کے اسلام لانے کے زمانہ کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔ بعض نے ان کے اسلام لانے کا زمانہ جنگ بدر (سن 2 ہجری)[3] سے پہلے اور ایک گروہ نے اس کے بعد اور جنگ احد (سن 3 ہجری)[4] سے قبل نقل کیا ہے۔ اسلام لانے کے بعد انہیں عمیر بن عدی بن خرشہ کے ساتھ اپنے قبیلہ کے بتوں کو توڑنے کی ذمہ داری دی گئی۔[5]
لقب ذو الشہادتین
خزیمہ بن ثابت، ذوالشہادتین کے لقب سے مشہور ہیں۔[6] اس لئے کہ انہوں نے ایک معاملہ میں گواہی طلب ہونے کے بعد اس کے صحیح ہونے سلسلہ میں گواہی دی اور رسول خدا (ص) نے ان کی گواہی کو دو عادل افراد کی گواہی کے برابر قرار دیا۔ ان کی گواہی پیغمبر اکرم (ص) کے ایک اسب کے بارے میں تھی جس کا نام مرتجز تھا[7] جسے آنحضرت نے ایک اعرابی سے خریدا تھا۔ بعد اس اعرابی نے بعض منافقین کے بھڑکانے میں آ کر اس معاملہ سے انکار کر دیا تو خزیمہ نے رسول خدا (ص) کے حق میں گواہی دی۔ حضرت نے خزیمہ سے پوچھا: تم نے کیسے گواہی دے دے جبکہ تم اس وقت ہمارے ساتھ موجود نہیں تھے؟ خزیمہ نے جواب دیا: میں جانتا ہوں کہ آپ ہمہشہ حق بات بولتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں اللہ کی طرف سے آپ کے ذریعہ لائے دین کی تو تصدیق کروں لیکن ایک بد بخت اعرابی سے ایک گھوڑا خریدنے کے سلسلہ میں آپ کے دعوی کی تصدیق نہ کروں؟ اس کے بعد رسول خدا (ص) نے فرمایا: خزیمہ جس کے بھی نفع یا نقصان کے بارے میں گواہی دیں، اس کے سلسلہ میں ان کی ایک گواہی کافی ہے۔ (یعنی دو گواہ کے برابر ہے)۔[8] خزیمہ کا اس طرح سے شہادت دینا ظاہرا رسول خدا (ص) اور دین اسلام پر ان کے محکم ایمان کی وجہ سے تھا۔[9] اس چیز نے ان کی حیثیت میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا اور اس بات پر مدینہ والے اوس ہوں یا خزرج سب افتخار کرتے تھے۔ قبیلہ اوس کے لوگ کہتے تھے: وہ شخص، جس کی گواہی کو رسول خدا (ص) نے دو لوگوں کی گواہی کے برابر قرار دیا ہے، ہم میں ہے۔[10]
عصر پیغمبر (ص) میں
خزیمہ بن ثابت ان مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے جنگ بدر اور اس کے بعد کی جنگوں اور غزوات میں شرکت کی۔[11] ایک روایت کے مطابق انہوں نے پہلی جنگ احد میں شرکت کی۔[12] اگرچہ غزوات کے حالات تحریر کرنے والے مورخین نے ان کا نام جنگ احد میں شریک افراد پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب میں نہیں کیا ہے اور نقل ہوا ہے کہ انہوں نے جنگ احد کے بعد سے غزوات میں شرکت کی ہے۔[13] فتح مکہ میں انہوں نے اپنے ہاتھوں میں اپنے قبیلہ بنی خطمہ کا پرچم بلند کیا ہوا تھا۔[14] بعض اہل سنت منابع نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت (ص) کی پیشانی پر سجدہ کر رہے ہیں۔ جب انہوں نے اپنے خواب کو بیان کیا تو رسول خدا (ص) نے ان کی خواب کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں اجازت دی کہ وہ آپ (ص) کی پیشانی پر سجدہ کریں۔[15]
خزیمہ بن ثابت نے جنگ موتہ (سن 8 ہجری) میں شرکت کی[16] اور اس جنگ کے تن بن حملہ میں ایک رومی سے جنگ کی اور اسے قتل کیا۔ جس کے نتیجہ میں انہیں اس سے کچھ جواہرات غنیمت میں ملے۔ بعد میں انہوں نے ان جواہرات کو بیچ کر بنی خطمہ کے درمیان میں ایک نخلستان خریدا۔[17]
خلیفہ اول کی خلافت سے انکار
بعض منابع نے خزیمہ کے سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود ہونے کی بات نقل کی ہیں۔ ان منابع کی گزارش کے مطابق انہوں نے میں اس میں پہلے مقرر کے عنوان سے انصار کے فضائل بیان کئے اور ان سے چاہا کہ وہ کسی انسان کا انتخاب کریں جسے قریش مانتے ہوں اور جس کے شر سے انصار محفوظ رہیں۔[18]
خزیمہ بن ثابت نے پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بعض دیگر اصحاب اور اکثر بنی ہاشم کی طرح امر خلافت کے لئے حضرت علی (ع) کی طرف رجوع کیا اور حضرت ابو بکر کی خلافت کو قبول نہیں کیا اور خلافت کے سلسلہ میں ابو بکر سے بحث کی۔ خزیمہ نے شہادت دی کہ روز غدیر خم آنحضرت (ص) نے فرمایا: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔ جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی مولا ہیں، اور اس بیان کے ذریعہ سے انہوں نے علی (ع) کی ولایت، اخوت اور جانشینی کی گواہی دی۔[19]
خزیمہ کا نام ان 12 افراد میں ذکر ہوا ہے جنہوں نے ابو بکر کی خلافت کو قبول نہیں کیا تھا اور ان تمام لوگوں نے تقریریں کرکے ان سے چاہا کہ وہ خلافت سے دست بردار ہو جائیں۔ ابو بکر کے سلسلہ میں خزیمہ کے اقوال اس طرح سے نقل ہوئے ہیں: اے ابو بکر کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا (ص) نے میری گواہی کو دو لوگوں کے برابر قرار دیا ہے؟ ابو بکر نے کہا: ہاں۔ تو خزیمہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کی قسم، میں رسول خدا (ص) سے سنا۔ آپ نے فرمایا: میرے اہل بیت حق و باطل کو جدا کرنے والے ہیں اور ایسے رہبر ہیں جن کی اقتدا کی جاتی ہے۔[20]
دوسری طرف جمع آوری قرآن کریم کے سلسلہ میں حضرت ابو بکر کے ساتھ ان کے تعاون کا ذکر ہوا ہے۔[21] خلیفہ دوم اور خلیفہ سوم کے زمانہ خلافت میں ان کے کردار کی بارے میں کوئی اطلاع دسترس میں نہیں ہے۔
حضرت علی (ع) کے دور میں
خزیمہ نے حضرت علی (ع) سے بیعت کے سلسلہ میں اپنے الفاظ میں انہیں خلافت کے لائق ترین انسان، ایمان کے اعتبار سے برترین شخص، خدا کی معرفت کے سلسلہ میں دانا ترین فرد اور رسول خدا (ص) کے سب سے قریبی افراد میں قرار دیا ہے[22] اور انہوں نے اس بارے میں اشعار بھی نظم کئے ہیں۔[23]
جنگ جمل میں
خزیمہ نے جنگ جمل (سن 36 ہجری) میں اہم کردار ادا کیا۔ اس جنگ میں انہوں نے زرد عمامہ اور سفید لباس زیب تن کیا اور ایک ہزار کے سوار لشکر کی کمان ان کے ہاتھوں میں اور پرجم ان کے سپرد تھا۔[24] جس وقت امام علی (ع) نے فتنہ برپا کرنے والوں طلحہ، زبیر، عائشہ اور یعلی بن منیہ کے سلسلہ میں گلہ کیا تو انہوں نے اپنی جگہ سے بلند ہو کر ان سب کو عہد شکن، غدار اور امیر المومنین (ع) سے کمتر کہا اور اس بارے میں شعر نظم کیا[25] اور جنگ کے آغاز میں شجاعت کے ساتھ رجز پڑھتے ہوئے جنگ میں حصہ لیا۔[26]
اسی جنگ میں جب پرچم محمد حنفیہ کے ہاتھوں میں تھا اور انہوں نے حملہ شروع کرنے کے سلسلہ میں امام علی (ع) کے فرمان و توقع کے مطابق عمل نہیں کیا تو امام نے ناراض ہو کر ان پرچم کو واپس لے لیا[27] جو خزیمہ کے ذریعہ پھر انہیں واپس ملا اور امام (ع) نے بعض اہل بدر اصحاب کو جن میں خزیمہ بھی شامل تھے، ان کے ساتھ کیا۔ جنگ کے بعد خزیمہ نے ایک تقریر میں محمد حنفیہ کی رشادت و شجاعت کی تعریف و تمجید کی۔[28] بعض منابع نے خزیمہ کے جنگ موجود ہونے لیکن جنگ نہ کرنے کی تصریح کی ہے۔[29] جو دوسری معتبر کتابوں کے حوالے سے جن میں ان کے فعال کردار کو بیان کیا گیا ہے، سازگاری نہیں رکتھی ہیں۔
جنگ صفین میں اور شہادت
خزیمہ جنگ صفین میں امام علی (ع) کے لشکر کے بزرگ سپاہیوں میں سے تھے۔ جنہوں نے ریش سفید پیر ہونے باوجود امام کی حقانیت پر ایمان کے ساتھ معاویہ کے لشکر سے شدید جنگ کی اور معاویہ کے فریب سے بھی ان کے قدموں میں لغزش پیدا نہیں ہوئی۔[30] جنگ صفین میں عمار بن یاسر کی شہادت کے بعد خزیمہ اپنے خیمہ میں گئے، غسل کیا پھر واپس میدان جنگ میں آ کر اس قدر جنگ کی کہ شہادت کے درجہ تک پہچے۔[31]
عمار کے باغی گروہ کے ذریعہ قتل کی گواہی
خزیمہ بن ثابت نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ عمار بن یاسر کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔[32] سن 37 ہجری جنگ صفین میں خزیمہ کی شہادت[33] اس وقت ہوئی جب جنگ نہایت شدت اختیار کر چکی تھی اور وہ دن یوم وقعۃ الخمیس کے نام سے مشہور ہے۔[34] امام علی (ع) نے خزیمہ کا شمار جنگ صفین کے شہدا اور اپنے برادران میں کیا ہے جو آخر تک راہ حق پر ثابت قدم رہے۔[35] لہذا گذشتہ روایات کی بنیاد پر جن میں کہا گیا کہ انہوں نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں عمار بن یاسر کی شہادت سے پہلے تک جنگ میں حصہ نہیں لیا،[36] حقیقت نہیں رکھتا ہے۔[37]
بعض روایات کے مطابق، خزیمہ بن ثابت کی وفات عثمان کے زمانہ میں ہوئی اور جنگ صفین میں جس شخص نے شرکت کی وہ کوئی ان کا ہمنام تھا۔[38] لیکن جنگ صفین میں خزیمہ بن ثابت کی شہادت فریقین کی روایات میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور جنگ صفین میں ان کی شہادت سے انکار در حقیقت دشمنوں کی اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کے سلسلہ کی کڑی ہے کہ اصحاب و مجاہدین بدر نے جنگ صفین میں امام علی (ع) کا ساتھ نہیں دیا تھا۔[39] اس کے علاوہ اکثر مورخین نے جن میں خطیب بغدادی اور ابن ابی الحدید معتزلی شامل ہیں، نقل کیا ہے کہ ذو الشہادتین، خزیمہ بن ثابت ہی ہیں اور انساب کی کتب سے استناد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ انصار میں ان کے علاوہ خزیمہ بن ثابت نام کا کوئی بھی شخص موجود نہیں تھا اور یہ بات کہ خزیمہ، ذوالشہادتین سے الگ کوئی شخص ہیں، محض بنی امیہ کے تعصب اور جھوٹے پروپیگنڈے کا سوا کچھ اس کی کوئی نہیں حقیقت نہیں ہے۔[40]
روات حدیث میں
خزیمہ بن ثابت کا شمار روات حدیث اور ثقہ افراد میں ہوتا ہے اور انہوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے بلا واسطہ روایت نقل کی ہے[41] اور جن لوگوں نے ان سے روایت نقل کی ہے ان میں بعض درج ذیل ہیں:
- ان کے فرزند عُمارہ
- جابر بن عبدالله انصاری
- عمارہ بن عثمان بن حنیف
- عمرو بن میمون
- ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص
- ابو عبد الله جَدَلی
- عبد الله بن یزید خطمی
- عطاء بن یسار۔[42]
خزیمہ بن ثابت کے واسطہ سے رسول خدا (ص) سے نقل شدہ 38 روایات کا تذکرہ حدیث کی کتابوں میں ہوا ہے۔[43]
مدح علی (ع) میں ان کے اشعار
خزیمہ بن ثابت شعری ذوق بھی رکھتے تھے اور ان سے بہت سے اشعار منسوب ہیں۔ بعض نے ان کا شمار شیعہ شعرا میں کیا ہے۔ وہ سقیفہ بنی ساعدہ، جنگ صفین اور جنگ جمل جیسے وقائع میں حاضر تھے، امیر المومنین (ع) کی تفضیل، ان کی مدح اور حمایت میں انہوں نے بہت سے اشعار نظم کئے ہیں۔[44]
اولاد
خزیمہ کی جمیلہ بنت زید بن خالد قبیلہ بنی قوقل سے اور صفیہ بنت عامر قبیلہ بنی خطمہ سے، نامی دو بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی جمیلہ سے ان کے یہاں عبد الرحمن و عبد اللہ اور دوسری بیوی صفیہ سے عمارہ پیدا ہوئے۔ جنگ صفین میں ان کی شہادت کے ضمن میں ضبیعہ یا نعیمہ نام کی ان کی ایک بیٹی کا ذکر ہوا ہے جس نے باپ کی شہادت پر مرثیہ پڑھا ہے۔[45] حالانکہ ان کی سوانح حیات میں ان کی اس نام کی کسی بیٹی تذکرہ نہیں ملتا ہے بلکہ عمارہ کی بیٹی کا نام نعیمہ ذکر ہوا ہے۔ چھٹی صدی ہجری کے مورخ ابن فندق یعلی بن زید طبری (۴۹۹-۵۶۵ ھ) خزیمہ بن ثابت کی نسل سے تھے۔[46] صفین میں ان کے دفن ہونے کا مقام معلوم نہیں ہے۔[47]
حوالہ جات
- ↑ ابن کلبی، ص۶۴۲ـ۶۴۳؛ ابن اثیر، اُسْد الغابہ، ج۲، ص۱۳۳؛ نووی، ج۱، ص۱۷۵
- ↑ ابن عبد البرّ، ج۲، ص۴۴۸؛ ابن اثیر، اُسْد الغابہ، ج۲، ص۱۳۳، ابن حجر عسقلانی، ۱۴۱۲، ج۲، ص۲۷۸
- ↑ ابن عبد البر، ج۲، ص۴۸۸؛ ابن حجر، ج۱، ص۱۹۳؛ مزی،ج۸، ص۲۴۳.
- ↑ صفدی، ج۴، ص۳۶۲
- ↑ ابن سعد،ج۴، ص۲۷۹.
- ↑ ابن کلبی، ص۶۴۳
- ↑ ابن قتیبہ، ص۱۴۹؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۳۱۴
- ↑ ابن سعد، ج۴، ص۳۷۸ـ۳۷۹؛ کلینی، ج۷، ص۴۰۱؛ مقدسی، ج۵، ص۲۴ـ۲۵؛ ابن اثیر، اُسْد الغابہ، ج۲، ص۱۳۳
- ↑ ابن اثیر، اُسْد الغابہ، ج۲، ص۱۳۳؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ص۲۷۸ـ۲۷۹
- ↑ ذہبی، ج۲، ص۴۷۸؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ص۲۷۹
- ↑ ابن عبد البرّ، ج۲، ص۴۴۸؛ ابن اثیر، اُسْد الغابہ، ج۲، ص۱۳۳
- ↑ ذہبی، ج۲، ص۴۸۵
- ↑ ابن اثیر، اُسْد الغابہ، ج۲، ص۱۳۳؛ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج۲، ص۵۵۷
- ↑ ابن عبد البرّ، ج۲، ص۴۴۸
- ↑ ابن سعد، ج۴، ص۲۸۱؛ فسوی، ج۱، ص۳۸۰
- ↑ ابن عساکر، ج۱۶، ص۳۵۹؛ ذہبی، ج۲، ص۴۸۵
- ↑ واقدی، ج۲، ص۷۶۹؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج۲، ص۴۸۵.
- ↑ ابن اعثم کوفی، ج۱، ص۷۰.
- ↑ یعقوبی، ج۲، ص۱۷۹؛ ابن بابویہ، ص۵۳؛ طوسی، ۱۳۴۸، ص۳۸، ۴۵
- ↑ الصدوق، کتاب الخصال، ج۲، ص۴۶۱-۴۶۴.
- ↑ ابن عساکر، ج۱۵، ص۳۹۰.
- ↑ یعقوبی، ج۱، ص۱۷۸ و نیز نک: ابن سعد، ج۳، ص۳۱.
- ↑ مجلسی، ج۳۲، ص۳۴.
- ↑ مسعودی، ج۲، ص۳۵۹.
- ↑ ابن اعثم کوفی، ج۲، ص۲۶۳-۲۶۴.
- ↑ وہی، ج۲، ص۴۸۱.
- ↑ مسعودی ج۱، ص۳۲۰
- ↑ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۲۴۲-۲۴۳.
- ↑ ابن عساکر،ج۴۳، ص۴۷۱.
- ↑ ذہبی، ج۲، ص۴۸۵؛ امین، ج۶، ص۳۱۹
- ↑ ابن سعد، ج۳، ص۳۲، ۲۶۳؛ طوسی، ص۵۲ـ۵۳؛ ابن عساکر، ج۱۶، ص۳۷۰
- ↑ ابن سعد، ج۳، ص۲۵۹؛ ابن عبد البرّ، ج۲، ص۴۴۸؛ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ص۲۷۹
- ↑ ابن عبد البرّ، ج۲، ص۴۴۸
- ↑ نصر بن مزاحم، ص۳۶۲ـ۳۶۳
- ↑ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۸۲، ص۱۹۲
- ↑ ابن سعد، ج۳، ص۲۵۹؛ ابن عبد البرّ، ج۲، ص۴۴۸؛ ابن اثیر، ۱۳۸۵، ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب؛ ج۳، ص۳۲۵
- ↑ تستری، ج۴، ص۱۷۳
- ↑ طبری، ج۴، ص۴۴۷؛ ابن عساکر، ج۱۶، ص۳۷۱ـ۳۷۲
- ↑ تستری، ج۴، ص۱۷۲
- ↑ ابن ابی الحدید، ج۱۰، ص۱۰۹؛ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج۲، ص۲۸۰؛ امین، ج۶، ص۳۱۷ـ۳۱۸
- ↑ ابن عساکر، ج۱۶، ص۳۵۸، ۳۶۶؛ ابن اثیر، اُسْد الغابہ، ج۲، ص۱۳۳
- ↑ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج۲، ص۵۵۶
- ↑ نووی، ج۱، ص۱۷۶
- ↑ نصربن مزاحم، ص۳۹۸؛ ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۱۱، ۳۲۰، ۳۴۵، ۳۶۲، ۳۷۵ـ۳۷۶؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۴۵ـ۱۴۶، ج۱۳، ص۲۳۱
- ↑ نصربن مزاحم، ص۳۶۵ـ۳۶۶
- ↑ مصطفی بن قحطان الحبیب، ص۹۰
- ↑ ہروی، ص 62
مآخذ
- ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، چاپ محمد ابو الفضل ابراہیم، قاہره، ۸۷ـ۱۳۸۵/ ۶۷ـ ۱۹۶۵ ع
- ابن اثیر، اُسْد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، چاپ محمدابراہیم بنا و محمداحمد عاشور و محمود عبدالوہاب فاید، قاہره ۱۳۹۰ـ۱۳۹۳/۱۹۷۰ـ۱۹۷۳ ع
- ابن اثیر، الکامل فی التاریخ
- ابن بابویہ، امالی الصدوق، چاپ حسین اعلمی، بیروت ۱۴۰۰/۱۹۸۰
- ابن بابویہ، کتاب الخصال، صححہ و علق علیہ: علی اکبر الغفاری، قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۶ق
- ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲
- ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، چاپ صدقی جمیل عطار، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۵
- ابن سعد (بیروت)
- ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، نجف ۱۳۷۶/۱۹۵۶
- ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، چاپ علی محمد بجاوی، بیروت، ۱۴۱۲/۱۹۹۲
- ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۵
- ابن قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاہره ۱۳۸۸/۱۹۶۹
- ابن کلبی، جمہرۃالنسب، چاپ ناجی حسن، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۶ ع
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم ۱۴۱۵
- نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران ۱۳۷۰
- محمد بن عمر کشی، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، (تلخیص) محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد ۱۳۴۸
- مسعودی، مروج (بیروت)
- محمد بن محمد مفید، الجمل و النصرہ لسیدالعترۃ فی حرب البصرہ، چاپ علی میر شریفی، قم ۱۴۱۶/۱۳۷۴
- مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، چاپ کلمان ہوار، پاریس ۱۹۱۶ ع
- نصر بن مزاحم منقری، وقعہ صفین، چاپ عبد السلام محمد ہارون، قاہره ۱۳۸۲
- نووی، محی الدین، تہذیب الاسماء و اللغات، مصر، ادارۃ الصباعہ المنیریہ (افست تہران)
- علی بن ابی بکر ہروی، الاشارات الی معرفۃ الزیارات، چاپ جانین سوردیل ـ طومین، دمشق ۱۹۵۳ ع
- یعقوبی، تاریخ