غسل توبہ
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
غسل توبہ ایک مستحب غسل اور آداب توبہ میں سے ہے۔ شیعہ فقہا کے مطابق کفر، فسق اور گناہ صغیرہ سے توبہ کرنے کے لئے غسل توبہ مستحب ہے۔ بعض اہل سنت حضرات نے کفر سے توبہ کے لئے اس غسل کو واجب جانا ہے۔
ایک روایت کے مطابق امام صادقؑ نے مسلسل گانا سننے کے عادی شخص کو جو اس گناہ سے توبہ کرنا چاہتا تھا غسل توبہ کی تلقین فرمائی۔
غسل توبہ کا فلسفہ توبہ کی تکمیل اور اس کی جلد قبولیت نیز تائب کی باطنی پاکیزگی کا سبب جانا گیا ہے۔
اہمیت
غسل توبہ کو توبہ کے آداب میں شمار کیا گیا ہے۔[1] فقہ کی کتابوں میں، طہارت، کے باب میں غسل کے حصّہ میں مستحب غسل کی اقسام میں اس غسل کے بارے میں بیان آیا ہے۔[2] بعض اخلاقی[3] اورعرفان عملی[4] کتابوں میں بھی غسل توبہ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
العروة الوثقی، کے مصنّف سید محمد کاظم یزدی، کے بقول فقہا کا ایک گروہ غسل توبہ کو بھی غسلِ طواف کی طرح ان غسلوں میں سے مانتے ہیں جو کسی خاص کام سے پہلے مستحب ہیں اور بعض نے غسل توبہ کو ان غسلوں میں شمار کیا ہے جو نماز کسوف کی قضا کی صورت میں مستحب ہونے والے غسل کی طرح کسی خاص فعل کی انجام دہی کے بعد مستحب ہوتے ہیں۔[5]
استحباب
غسل توبہ کبھی کفر، کبھی فسق اور کبھی گناہ صغیرہ سے توبہکرنے کے لئے انجام دیا جاتا ہے۔ کفر اور فسق سے توبہ کرنے کے لئے غسل توبہ کے مستحب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن گناہ صغیرہ سے توبہکرنے کے لئے غسل توبہ کے مستحب ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[6]
کفر سے توبہ کے لئے غسل
صاحب جواہر (وفات 1266ھ) کے بقول تمام شیعہ فقہا نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ کفر، خواہ وہ کفر اصلی ہو یا کفر ارتدادی غسل توبہ مستحب ہے۔[7] اس حکم کی دلیل اجماع اور احادیث ہیں۔[8] پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک روایت میں آپ نے دو نو مسلم دو اشخاص کو غسل توبہ کا حکم دیا۔[9]
10ویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ شہید ثانی کے بقول بعض اہل سنت علماء کفر سے توبہ کرنے کے لئے غسل توبہ کو واجب جانتے ہیں۔[10] اہل سنّت مآخذ میں اس غسل کو «غُسل الاِسلام» سے تعبیر کیا گیا ہے۔[11] عیسائی مذہب میں بھی کوئی غسل تعمید کے ذریعہ ہی عیسائی مذہب میں داخل ہوسکتا ہے۔[12]
فسق سے توبہ کے لئے غسل
علامہ حلی (متوفیٰ 726ھ)، کے نظریہ کے مطابق تمام شیعہ فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ: فسق سے کرنے کے لئے غسل توبہ مستحب ہے۔[13] یہاں پہ فسق کے سے مراد گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہے یا گناہ صغیرہ پر اصرار ہے۔[14]
فسق کی وجہ سے غسل توبہ کا استحباب اجماع اور روایات کی رو سے ثابت ہے۔[15] ایک روایت کی بنیاد پر امام صادق (ع) نے مسلل غناء سننے کے عادی شخص کو جو اس گناہ سے توبہ کرنا چاہتا تھا غسل توبہ کا حکم دیا۔[16]
گناہ صغیرہ سے توبہ کے لئے غسل
گناہ صغیرہ سے توبہ کرنے کے لئے غسل توبہ کے استحباب میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔[17] سید محمد مہدی بحر العلوم (متوفیٰ 1212ھ)،کے بقول اکثر فقہاء گناہ صغیرہ سے توبہ کرنے کے لئے غسل توبہ کو مستحب قرار دیتے ہیں۔[18] اس کے برعکس بعض فقہا جیسے شیخ مفید (متوفیٰ 413ھ) اور ابوالصلاح حلبی (متوفیٰ 447ھ) نے غسل توبہ کو صرف گناہان کبیرہ سے توبہ کرنے کے لئے مستحب قرار دیا ہے۔[19]
فلسفہ
کتاب العروة الوثقی کے مولف سید محمد کاظم یزدی (متوفیٰ 1337ھ) نے غسل توبہ کا فلسفہ یہ بتایا ہے کہ اس سے توبہ کامل اور جلدی قبول ہوتی ہے۔[20]
13ویں صدی ہجری کے مرجع تقلید سید محمد مہدی بحر العلوم کے بقول غسل ظاہری پاکیزگی کا سبب ہے جو معنوی پاکیزگی کی نوید ہے کیونکہ ظاہر باطن کا آئینہ ہوتا ہے۔[21]
حوالہ جات
- ↑ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ،ج33، ص67۔
- ↑ بحرالعلوم، مصابیح الاحکام، 1385ش، ج2، ص507۔
- ↑ مدنی، ریاض السالکین، ج4، ص382۔
- ↑ بحرالعلوم، رسالہ سیر و سلوک، 1418ھ،ص213؛ حسینی ترطانی، لب اللباب، 1419ھ،ص92،
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ،ج2، ص156 و 157۔
- ↑ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ،ج33، ص67۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ،ج2، ص67۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ،ج2، ص68۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1421ھ، ج2، ص68۔
- ↑ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج1، ص107۔
- ↑ حجاوی مقدسی، الإقناع فی فقہ الإمام أحمد بن حنبل، دار المعرفۃ، ج1، ص45؛ ابن تیمیہ، شرح العمدة فی الفقہ، 1412ھ، ص350۔
- ↑ توفیقی، آشنایی با ادیان بزرگ، 1394ش، ج1، ص195۔
- ↑ علامہ حلی، منتیت المطلب، 1412ھ، ج2، ص474۔
- ↑ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج1، ص107؛ جمعی از پژوہشگران، موسوعة الفقہ الإسلامی، 1423ھ، ج33، ص69۔
- ↑ بہبانی، مصابیح الظلام، مؤسسة العلامة المجدّد الوحید البہبہانی، ج4، ص92۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1429ھ، ج12، ص785۔
- ↑ بحرالعلوم، مصابیح الاحکام، 1385ش، ج2، ص508۔
- ↑ بحر العلوم، مصابیح الاحکام، 1385ش، ج2، ص508۔
- ↑ شیخ مفید، المقنعہ، 1410ھ، ج1، ص51؛ ابو الصلاح حلبی، الکافی فی الفقہ، مکتبة الإمام أمیرالمؤمنین، ص135؛ ابن زہرہ، غنیة النزوع، 1417ھ،ج1، ص62۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ،ج2، ص156 و 157۔
- ↑ بحر العلوم، مصابیح الاحکام، 1385ش، ج2، ص518۔
مآخذ
- ابن تیمیۃ حرانی، احمد بن عبد الحلیم، شرح العمدۃ فی الفقہ، بہ تحقیق سعود بن صالح العطیشان، ریاض، مکتبۃ العبیکان، 1412ھ۔
- ابن زہرہ، حمزہ بن علی، غنیۃ النزوع إلی علمی الأصول و الفروع، بہ تحقیق ابراہیم باکدری، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق (ع)، 1417ھ۔
- ابوالصلاح حلبی، تقی بن نجم، الکافی فی الفقہ، تر ان، اصفاان، مکتبۃ الإمام أمیرالمؤمنین علی (ع) العامہ، بیتا۔
- بحرالعلوم، محمد مہدی بن مرتضی، رسالہ سیر و سلوک منسوب بہ بحر العلوم، بہ شرح محمد حسین حسینی طر انی، مشد ، علامہ طباطبایی، 1418ھ۔
- بحرالعلوم، محمد مہدی بن مرتضی، مصابیح الاحکام، بہ تحقیق مدہی طباطبایی، فخرالدین صانعی، قم، میثم التمار، 1385ش۔
- بہبہانی، محمد باقر، مصابیح الظلام فی شرح مفاتیح الشرایع، بہ تحقیق مؤسسۃ العلامۃ المجدّد الوحید البہبہانی، بیجا، مؤسسۃ العلامۃ المجدّد الوحید البہبہانی، بیتا۔
- توفیقی، حسین، آشنایی با ادیان ببزرگ، تراان، کتاب طہ (وابستہ بہ مؤسسہ فرہنگی طہ)، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی (ص)، سمت، 1394ہجری شمسی۔
- جمعی از پژوہشگران، موسوعۃ الفقہ الإسلامی طبقا لمذہب أہل البیت (ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت (ع)، 1423ھ۔
- حجاوی مقدسی، موسی بن احمد و شرف الدین صالحی، الإقناع فی فقہ الإمام أحمد بن حنبل، بہ تحقیق عبد اللطیف محمد موسی السبکی، بیروت، دار المعرفۃ، بیتا۔
- حسینی تردانی، سید محمد، لب اللباب در سیر و سلوک، مشد ، انتشارات علامہ طباطبایی، 1419ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعۃ، بہ تحقیق مؤسسۃ النشر الإسلامی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین بقم، 1410ھ۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی (المحشّٰی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1419ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، موسسۃ آل البیت (َع) لإحیاء التراث، 1414ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتیۃ المطلب فی تحقیق المذہب، با مقدمہ، محمود بستانی و صفاءالدین بصری، بہ تحقیق مجمع البحوث الاسلامیہ، قسم الفقہ، مشدص، آستانۃ الرضویۃ المقدسۃ، مجمع البحوث الإسلامیہ، 1412ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ تحقیق و تصحیح دارالحدیث، قم، دار الحدیث، 1429ھ۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، بہ تحقیق و تصحیح عبد الحسین محمد علی بقال، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
- محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، بہ تحقیق مؤسسۃ آل البیت (ع) لاحیاء التراث، مؤسسۃ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، 1414ھ۔
- مدنی، علی خان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، بہ تحقیق محسن حسینی امینی، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1409ھ۔
- نجفی، محمد حسن بن باقر، جواہر الکلام، با مقدمہ محمود ہاشمی شاہرودی، بہ تحقیق مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت (ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت (ع)، 1421ھ۔