تحویل قبلہ
تحویل قبلہ وہ واقعہ ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا قبلہ مسجد الاقصی سے کعبہ کی طرف تبدیل ہوا۔ یہ واقعہ سورہ بقرہ کی ۱۴۴ویں آیت کے نازل ہونے کے بعد ہجرت کے دوسرے سال رجب کے مہینے میں پیش آیا۔
اکثر مؤرخین کے مطابق تحویل قبلہ مدینہ کی مسجد ذو قبلتین میں نماز ظہر کے وقت پیش آیا۔ نماز جماعت کے دوران ۱۶۰ درجہ قبلہ کی تبدیلی ایک قابل توجہ واقعہ ہے۔
قبلۂ اول اور اسکی تبدیلی
اسلامی مآخذوں کے مطابق پیامبر(ص) مکے میں اور مدینے میں ہجرت کے ابتدائی سالوں میں بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے لیکن اپنے مخصوص قبلے کو دوست رکھتے تھے ۔ اسی وجہ سے تحویل قبلہ کی وحی کے انتظار میں رہتے ۔ خداوند نے آیت قبلہ کے نزول کو خوش حال کیا اور مسلمانوں کو کعبہ کی تبدیلی کا حکم دیا ۔ [1]
آیت قبلہ
- قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
- (اے رسول(ص)) تحویل قبلہ کی خاطر) تیرا بار بار آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ تو ضرور اب ہم تمہیں موڑ دیں گے اس قبلہ کی طرف جو تمہیں پسند ہے۔ بس اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ دیجئے۔ اور (اے اہل ایمان) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منہ (نماز پڑھتے وقت) اسی طرف کیا کرو۔ جن لوگوں کو (آسمانی) کتاب (تورات وغیرہ) دی گئی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ (تحویل قبلہ کا فیصلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے ہے اور یہ حق ہے۔ اور جو کچھ (یہ لوگ) کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ (144)
یہ آیت قبلہ کی تبدیلی کو بیان کرتی ہے اور اسے آیت قبلہ [2] کے نام سے مشہور ہے ۔ نیز سورہ بقرہ ۱۴۲ویں،[3] ۱۴۳ویں [4] اور ۱۵۰ویں [5] کو بھی آیات قبلہ سے یاد کرتے ہیں ۔ بعض مفسرین بقرہ کی ۱۴۲ تا ۱۴۴ تک کی آیات کو تحویل قبلہ کی آیات سمجھتے ہیں ۔ [6]
سرگذشت قبلہ
قبلہ کے ماضی سے متعلق روایات اور نظریات مختلف موجود ہیں:
- بعض روایات کی بنا پر کعبہ زمانۂ حضرت آدم (ع) سے قبلہ تھا۔[7] حضرت ابراہیم (ع) نے کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا ۔[8] اور حضرت موسی(ع) نے مسجدالاقصی کو شرک اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا.[9]
- بعض روایات میں آیا ہے کہ ہجرت کے دو سال بعد تک قانونی طور پر مسلمانوں کا قبلہ رہا ۔ [10] اس وقت کعبہ بتخانے کی صورت میں تھا اور نماز گزار بتوں کے احترام کے شبہے میں اسکی طرف منہ کرتے تھے۔ [11]
- بعض نے کہا: پیامبر(ص) ہجرت سے پہلے امکانی حد تک دونوں قبلوں کی طرف من کر کے نماز پڑھتے تھے ؛ اس طرح سے کہ مکہ کی جغرافیائی موقعیت کی وجہ سے اس طرح سے کھڑے ہوتے کہ کعبہ انکے اور بیت المقدس کے درمیان ہوتا اور جمع کے ممکن نہ ہونے کی صورت میں مسجد الاقصی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [12] ہجرت کے بعد مدینے کی جغرافیائی موقعیت کے پیش نظر دو قبلوں کا جمع کرنا ممکن نہیں تھا اس لحاظ سے مسلمانوں کا صرف ایک قبلہ بیت المقدس تھا ۔ [13]
- دیگر بعض روایات کی بنا پر مسلمان مکہ میں جس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتے پڑھ سکتے تھے لیکن پیامبر(ص) نے اپنے لیے بیت المقدس کا انتخاب کیا۔ [14]
- روایات اس کی بھی حکایت کرتی ہیں کہ ہجرت سے پہلے کعبہ مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ [15] یہ اس بات کا لازمہ ہے کہ قبلہ کی دو مرحلوں میں تبدیلی ہوئی یعنی کعبہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے کعبہ ۔
- بعض تفسیری منابع میں علما سورہ بقرہ کی ۱۱۵ ویں آیت : وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَینَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ کو دیکھتے ہوئے پیامبر(ص) اور مسلمانوں کی تخییر کے قائل ہوئے ہیں۔ [16] وہ اسکی تائید میں ہجرت سے پہلے براء بن معرور کے مکہ کے سفر میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے اور رسول کی مخالفت نہ کرنے کو ذکر کرتے ہیں[17] جبکہ اس کے مقابلے میں بعض علما مذکورہ آیت کو سفر میں نافلہ کے ادا کرنے سے مربوط سمجھتے ہیں۔[18] بعض تاریخی روایات کی بنا پر براء بن معرور کا یہ سفر ہجرت کے بعد پیش آیا اور وہ نماز کعبہ کی طرف منہ کر نماز ادا کرتا ہے جبکہ پیامبر اکرم(ص) بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ جب آنحضرت کو برا کے اس عمل کی خبر پہنچی تو آپ نے اسے اس کام سے منع کیا اور اس نے اسے قبول کیا۔[19]
قبلہ کی تبدیلی کی کیفیت
روایات کے مطابق تحویل قبلہ کے روز پیامبر(ص) بیت المقدس کی طرف نماز ظہر ادا کر رہے تھے اور معمول کے مطابق مرد اور عورتیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے کھڑے تھے ۔ دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد جبرائیل وحی لے کر پیغمبر(ص) پر نازل ہوئے سورہ بقرہ کی ۱۴۴ ویں آیت پہنچانے کے ساتھ پیامبر(ص) کا رخ کعبہ کی جانب موڑ دیا ۔[20]
تحویل قبلہ یا کعبہ کی طرف رسول خدا کی مکمل نماز کے مقام میں اختلاف منقول ہوا ہے ۔[21] بعض روایات میں تحویل قبلہ نماز عصر یا نماز صبح میں کہا گیا ہے ۔ [22] نیز در خصوص زمان تغییر قبلہ کی تحویل کے مخصوص وقت میں بھی اختلاف مذکور ہے اما علامہ طباطبائی معتقد ہیں کہ تحویل قبلہ کے صحیح ترین قول کے مطابق ماه رجب ہجرت کا سال دوم ہے ۔ [23]
تغییر قبلہ کا مقام وقوع
تغییر قبلہ کے واقعے کے متعلق مورخین میں اتفاق نظر موجود نہیں ہے ۔ تاریخی منابع میں تین مکان اس واقعے کیلئے ذکر ہوئے ہیں:
- مدینہ کے شمال غرب میں محلہ بنی سَلِمۃ کی مسجد [24] کہ جو مسجد ذو قبلتین[25] کے نام سے مشہور ہے. اکثر مورخین اس مسجد کو قبلہ کی تبدیلی کے وقوع کا مقام سمجھتے ہیں ۔ ؛[26]
- بنی سالم بن عوف کے محلے کی مسجد میں رسولخدا(ص) نے پہلی نماز جمعہ ادا کی ۔ ؛[27]
- مسجدالنبی.[28]
نماز جماعت کی مشکل
بیت المقدس مدینہ کے شمال میں اور مسجدالحرام جنوب کی جہت میں ہے ۔اس اعتبار سے رسول اللہ جس سمت میں نماز پڑھ رہے تھے اسکے بالکل عکس گھومے ہیں ۔ [29] اس بنا پر یہ شبہ پیش آتا ہے کہ اس نماز میں عورتوں اور مردوں سمیت تمام مامون رسول خدا سے آگے ہوئے اور امام یعنی رسول اللہ انکے پیچھے ہوئے ہیں ؛[30] لیکن بعض منابع کہتے ہیں : رسول خدا نے کعبہ کی جانب گھومنے کے بعد اپنی جگہ سے مسجد کے دروازے کی طرف دوسری سمت حرکت کی اور نمازیوں سے آگے آ گئے ۔[31] نمازیوں نے بھی رسول کی پیروی کرتے ہوئے اپنا رخ کعبہ کی جانب پھیرا اور اپنی جگہ تبدیل کی۔[32]اس روایت کے مطابق امام جماعت نے ۱۸۰ یا ۱۶۰[33] درجے تک گھومنے پر اکتفا نہیں کیا کیونکہ مسجد میں اس پیچھے اس قدر جگہ نہیں تھی کہ عورتیں اور مرد نمازی اس کے پیچھے صفیں درست کر سکیں ۔ .[34]
اسباب
مفسرین نے اسکے درج ذیل چند اسباب شمار کئے ہیں :
- در سالهای حضور پیامبر(ص) کی مکی زندگی میں خانۂ کعبہ مشرکین کے بت رکھنے کی جگہ تھی۔ اس لحاظ سے رسول اللہ نے عارضی طور پر فرمان خدا کی بنا پر بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا اور اس طرح مسلمانوں کی صفوف مشرکوں کی کعبہ کی جانب صفوں سے جدا ہو جاتی تھیں۔ [35]
- مدینہ میں رسول خدا کی تشکیل حکومت کے بعد ایک حد تک مسلم معاشرہ قائم ہو گیا تھا اور مسلم صفیں مکمل طور پر مشخص ہو گئیں ۔اس لحاظ سے اب بیت المقدس کے قبلہ رہنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی تھی پس پیغمبر تحویل قبلہ کے طلبگار ہوئے ؛ نیز کعبہ انبیاء کا اصلی مقام اور قدیمی ترین توحید کا گھر تھا ۔تحویل قبلہ کے حکم سے مسلمان یہودیوں سے بھی مشخص ہو گئے کہ جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے عبادت انجام دیتے تھے ۔[36]
- مدینے میں ہجرت پیامبر(ص) کے بعد یہودی مسلمانوں کے بیت المقدس کے قبلہ ہونے سے سوئے استفاده کرتے اور اسے اسلام کا نقص اور اپنی حقانیت کی دلیل معرفی کرتے تھے ۔(بقره، ۱۴۶؛ انعام، ۲۰)[37] بعض روایات کی بنا پر مدینے کے یہودی مدعی تھے کہ مسلمانوں کا قبلہ نہیں ہے اور انہیں اپنے قبلے کی طرف راہنمائی کرتے تھے ۔ [38]
- تحویل قبلہ کی حکمتوں میں سے مسلمانوں کی آزمایش[39] تھی کیونکہ جو حقیقی فرمان خدا کے تابع تھے انہوں نے کسی تعصب و کراہت کے بغیر اس تبدیلی کو قبول کر لیا ؛لیکن جو خالص ایمان نہیں رکھتے تھے اور مقام تسلیم تک نہیں پہنچے تھے انہوں نے یہودیوں کے ہم صدا ہو کر بہانہ بازی اور چوں و چرا کا آغاز کردیا اور اس حکم کی اطاعت انکے لیے نہایت دشوار ہوئی ۔[40]
نتائج اور رد عمل
- کچھ مسلمانوں نے اپنی گذشتہ مرحومین کی عبادتوں کے ضائع ہو جانے پر پریشانی کا اظہار کیا۔ [41] رسول اللہ نے سورہ بقرہ کی ۱۴۳ویں کی آیت کی تلاوت کر کے انہیں جواب دیا: وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہارے ایمان کو ضائع کر دے۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت اور بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (143)[42]
- دشمنان اسلام اور مشرکوں کی زبانیں بند ہو گئیں جو مسلمانوں کو بیت المقدس کے قبلہ قرار دینے پر مالمت کرتے تھے ۔حجاز کے بہت سے لوگ کعبہ کو دوست رکھتے وہ اس قبلے کی تبدیلی کی وجہ سے اسلام کے زیادہ نزدیک ہو گئے اور اسطرح ان کے اسلام نہ لانے کی ایک رکاوٹ برطرف ہو گئی ۔قرآن نے اس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اور آپ جب بھی کہیں نکلیں تو (نماز کے وقت) اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف ہی موڑیں اور (اے مسلمانو!) تم بھی جہاں کہیں ہو (نماز کے وقت) اپنے مونہوں کو اسی (مسجد الحرام) کی طرف ہی کر لیا کرو۔ (اس حکم کی بار بار تکرار سے ایک غرض یہ ہے کہ) تاکہ لوگوں (مخالفین) کو تمہارے خلاف کوئی دلیل نہ ملے۔ سوا ان لوگوں کے لیے جو ظالم ہیں (کہ ان کی زبان تو کسی طرح بھی بند نہیں ہو سکتی)۔ تو تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو (دوسری غرض یہ ہے) کہ تم پر میری نعمت تام و تمام ہو جائے (اور تیسری غرض یہ ہے) کہ شاید تم ہدایت یافتہ ہو جاؤ ۔ (150)[43]
- حجاز کے یہودی اس سے بہت زیادہ ناخوش ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی مخالفت میں تبلیغ کرنا شروع کر دی ۔[44][45]
حوالہ جات
- ↑ رک: ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۳، ص۲۵۳؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷م، ج۲، ص۴۱۵-۴۱۷؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۱، ص۳۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۲، ص۳-۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۴.
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۰۷.
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۹.
- ↑ طنطاوی، الوسیط، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۴.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۳۷۵ق، ج۴، ص۱۹۹؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲.
- ↑ قمی، تفسیر قمی، ج۱، ۱۴۰۴ق، ص۶۲.
- ↑ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳.
- ↑ ازرقی، اخبار مکہ، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۳۱.
- ↑ نک: زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰.
- ↑ نک: ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۳، ص۲۵۳.
- ↑ نک: ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۳، ص۲۵۳؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۶۸.
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۴۲۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۶.
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۵۰.
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۲.
- ↑ ابن ہشام، السیرة النبویہ، بیروت، ج۱، ص۴۳۹-۴۴۰۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۲۱۔
- ↑ ابن ہشام، السیره النبویہ، بیروت، ج۱، ۴۳۹-۴۴۰
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۷۵.
- ↑ عسقلانی، فتح الباری، بیروت، ج۱، ص۹۸؛ الحلبی، السیرة الحلبیہ، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۳۵۲-۳۵۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶-۱۸۷؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۶۹.
- ↑ طباطبائی، ترجمہ تفسير الميزان، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص ۴۹۷.
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ۱۳۸۶ش، ص۲۶۸.
- ↑ ابن النجار، الدرة الثمینہ، دار الارقم، ص۱۱۵؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۳۰۸.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۴۲؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۲.
- ↑ قمی، تفسیر قمی، ج۱، ص۶۳
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۱، ص۲۷۸.
- ↑ ابن النجار، الدرة الثمینہ، دار الارقم، ص۱۲۶.
- ↑ نک: صالحی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۳۷۰.
- ↑ ابن النجار، الدرة الثمینہ، دار الارقم، ص۱۲۶؛ الصالحی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۳۷۲.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۶۹؛ سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۱، ص۲۷۸.
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی، ۱۳۸۶ش، ص۳۰۶.
- ↑ سمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۳، ص۳۷۲.
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰.
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۲، ص۵؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۳؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۲-۴۱۴.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۲۰؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۳.
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۴۰۰.
- ↑ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰.
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۸.
- ↑ مقاتل، تفسیر مقاتل، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۱۴۶.
- ↑ بیہقی، دلائل النبوه، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۵۷۵؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۷.
- ↑ سوره بقره، آیه ۱۵۰.
- ↑ سوره بقره، آیت ۱۴۲.
- ↑ نک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، بیروت، ج۱، ص۵۵۰؛ الصالحی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۵۴۱.
مآخذ
- قرآن کریم
- نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، تہران، دار الاسوه، ۱۴۱۵ق.
- ابن النجار، محمد بن محمود، الدرة الثمینہ فی أخبار المدینہ، حسین محمد علی شکری، بیروت، دار الارقم.
- ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۳۹۱ق.
- ابن سعد، الطبقات الکبری، محمد عبدالقادر، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
- ابن سید الناس ، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تحقیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، دار القلم، ۱۴۱۴ق.
- ابن کثیر، البدایہ و النہایہ،بیروت، دارالفکر، 1986م.
- ابن ہشام، السیرة النبویہ، السقاء و دیگران، بیروت، دار المعرفہ.
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، یاحقی و ناصح، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
- الازرقی، محمد بن عبدالله بن احمد، اخبار مکہ، به کوشش رشدی الصالح، مکہ، مکتبہ الثقافہ، ۱۴۱۵ق.
- الحلبی، علی بن ابراہیم بن احمد، السیرة الحلبیه، بیروت، دار المعرفه، ۱۴۰۰ق.
- سمہودی، علی بن عبدالله، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، محمد عبدالحمید، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۲۰۰۶م.
- الصالحی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد، عادل احمد و علی محمد، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۴ق.
- القرطبی، تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق.
- بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، به کوشش عبدالمعطی قلعجی، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ق.
- زمخشری، جارالله، الکشاف، قم، بلاغت، ۱۴۱۵ق.
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویه، من لا یحضره الفقیہ، غفاری، قم، نشر اسلامی، ۱۴۰۴ق.
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان، العاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی.
- طباطبائی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم: انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
- طباطبائی، سیدمحمدحسین، ترجمہ تفسیر المیزان، قم: انتشارات اسلامی، ۱۳۷۴ش.
- طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البیان فى تفسیر القرآن، تہران: ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فى تفسیر القرآن، گروہی از علماء، بیروت، اعلمی، ۱۴۱۵ق.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک)، محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت: دار احیاء التراث العربی، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، صدقی جمیل، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
- طنطاوی، محمد سید، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، قاہره، دار المعارف، ۱۴۱۲ق.
- عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دار المعرفہ.
- علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
- فخر رازی، التفسیر الکبیر(مفاتیح الغیب)، قم، دفتر تبلیغات، ۱۴۱۳ق.
- قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منوره، تہران، مشعر، ۱۳۸۶ش.
- قمی، علی ابن ابراہیم، تفسیر القمی، الجزائری، قم، دار الکتاب، ۱۴۰۴ق.
- کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۵ش.
- مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، عبداللہ محمود شحاتہ، بیروت، التاریخ العربی، ۱۴۲۳ق.
- یعقوبی، احمد بن یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، ۱۴۱۵ق.