آیت سأل سائل
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیہ عذاب واقع |
سورہ | معارج |
آیت نمبر | 1 اور 2 |
پارہ | 29 |
شان نزول | غدیر خم میں امام علیؑ کی جانشینی پر اعتراض کرنے پر نعمان بن حارث فہری پر عذاب |
محل نزول | مدینہ |
آیت سأل سائل یا آیت عذاب واقع، سورہ معارج کی آیت نمبر 1 اور 2 کو کہا جاتا ہے جس کے مطابق کافروں کی درخواست پر خدا نے عذاب نازل فرمایا۔ شیعہ مفسرین کے مطابق یہ آیت نعمان بن حارث فہری کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے غدیر خم میں امام علیؑ کی جانشینی پر اعتراض کرتے ہوئے خدا سے عذاب کا مطالبہ کیا تھا۔
سلفیوں کے پیشوا ابن تیمیہ نے اس آیت کے غدیر خم میں نازل ہونے پر شک و تردید کا اظہار کیا ہے۔ ابن تیمیہ سورہ معارج کے مکی ہونے اور مذکورہ واقعے کا مشہور نہ ہونے کو اپنے مدعا پر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ علامہ طباطبایی کہتے ہیں کہ اگرچہ مذکورہ آیات کا سیاق و سباق مکی سورتوں کے ساتھ سازگار ہے لیکن اس سورت کی دوسری آیات جو منافقین اور زکات کے وجوب کے بارے میں ہیں، سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیات بھی مدنی ہیں۔ اسی طرح مذکورہ واقعے کی شہرت کے حوالے سے الغدیر میں اس واقعے کو اہل سنت کے 30 مشہور علماء سے نقل ہونے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
آیت اور اس کا ترجمہ
سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِّلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ
ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا۔ جو کافروں پر واقع ہونے والا ہے
سورہ معارج: آیات 1 و 2
آیت کا مضمون
علامہ طباطبایی کے مطابق آیت سأل سائل میں تحکم اور تحقیر کے ساتھ بعض کفار کی طرف سے مطالبہ شدہ عذاب کی درخواست کی اجابت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[1] یہاں پر لفظ "سؤال" طلب اور دعا کے معنا میں ہی۔[2]
مذکورہ آیات کے بارے میں بعض اصحاب نے پیغمبر اکرمؐ سے سوال کیا کہ یہ عذاب کن کے لئے ہے تو آپؐ نے فرمایا یہ عذاب کافروں کے لئے ہے۔[3] اسی طرح پیغمبر خداؐ کی طرف سے کافروں کے لئے عذاب [4] اور حضرت نوح کی طرف سے اپنی قوم کے لئے عذاب[5] کی درخواست اس آیت کے بارے میں موجود دیگر احتمالات میں سے ہیں۔
شأن نزول
بعض مفسرین کے مطابق سورہ معارج کی پہلی آیت نعمان بن حارث فہری یا کسی اور شخص کے بارے میں[6] نازل ہوئی ہے جس نے غدیر خم میں امام علیؑ کی جانشینی پر اعتراض کیا تھا۔[7] جب نعمان نے غدیر خم کے مقام پر پیغمبر اکرمؐ کی زبانی حضرت علیؑ کی جانشینی کی خبر سنی تو اس نے پیغمبر اکرمؐ سے کہا جب آپ نے خدا کی وحدانیت اور اپنی رسالت کی گواہی دینے کا کہا تو ہم نے اآپ کے حکم کی اطاعت کی اس کے بعد ہمیں جہاد، حج، روزہ، نماز اور زکات کا حکم دیا اسے بھی ہم نے قبول کیا لیکن آپ اس پر راضی نہیں ہوئے اب اس جوان(علیؑ) کو اپنا جانشین منصوب کر دى ہے۔[8] کیا یہ فیصلہ آپ کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے یا خدا کا؟ پیغمبر اکرمؐ نے قسم کھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ حکم خدا کی طرف سے ہے۔ اس پر نعمان نے کہا: "خدایا! اگر اگر یہ بات حق ہے اور آپ کی طرف سے ہے تو آسمان سے مجھ پر ایک پتھر پھینک دے۔"[9] اس حدیث کے مطابق اس کی درخواست کے بعد آسمان سے اس کے سر پر ایک پتھر آ گرا اور وہ وہیں پر مالا گیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔[10]
بعض مفسرین اس آیت کو نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہونے کا قائل ہیں[11] جو جنگ بدر میں اسیر ہوا تھا۔[12] نضر بن حارث نے مسجد الحرام میں تمسخرآمیز لہجے میں پیغمبر اکرمؐ سے مخاطب ہو کر کہا: "خدایا اگر محمّد حق پر ہیں اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے تیری جانب سے ہے تو آسمان سے کوئی پتھر ہم پر آ گرے یا ہمیں عذاب الیم میں گرفتار کر۔"[13] اس کی باتوں کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔[14] البتہ مفسرین کے اس گروہ نے بھی اس آیت کے ذیل میں نعمان بن حارث کی داستان کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، اگرچہ پہلی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔[15] اسی طرح کہا گیا ہے کہ یہ آیت ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور آیت: فَأَسْقِطْ عَلَيْنا كِسَفاً مِنَ السَّماءِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ (ترجمہ: اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو۔)[؟–؟][16] ان کی بات کا نقل قول ہے۔[17]
ابن تیمیہ کا نظریہ
اہل سنت علماء میں سے آلوسی اور ابن تیمیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت کا واقعہ غدیر کے ساتھ کوئی ارتباط نہیں ہے کیونکہ سورہ معارج مکی سورتوں میں سے ہے اور ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہے، جبک واقعہ غدیر ہجرت کے دسویں سال جب پیغمبر اکرمؐ حجۃ الوداع سے واپس آ رہے تھے، رونما ہوا ہے۔[18] علامہ طباطبایی اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگرچہ سورہ نعمان کی ابتدائی آیات کا سیاق و سباق مکی سورتوں سے ہم آہنگ ہے اور ان میں قیامت کے دن کفار پر عذاب کے بارے میں بات ہوئی ہے لیکن اس سورت میں بعض ایسی آیات موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے ہے کہ مذکورہ آبات بھی مدنی ہیں من جملہ ان آیات میں سے ایک آیت نمبر 24 ہے جس میں زکات کے وجود کی بات ہو رہی ہے اور زکات کا حکم مدینہ میں تشریع ہوا ہے۔[19] اسی طرح علامہ طباطبایی کے مطابق مذکورہ آیات منافقین کے بارے میں ہے جو ان آیات کے مدنی ہونے کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہے کیونکہ نفاق کی پیدائش مدینہ میں ہوئی ہے۔[20]
اسی طرح ابن تیمیہ اس بات کے بھی معتقد ہیں کہ اگر یہ واقعہ[یادداشت 1] صحیح ہو تو یہ بات سورہ انفال کی آیت نمبر 33 کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے۔[21] کیونکہ احادیث سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ "حارث بن نعمان" مبانى اسلام پر ایمان رکھنے کے باوجود خود پیغمبر اکرمؐ کی زندگی میں عذاب میں مبتلا ہوا ہے جبکہ سورہ انفال کی آیت نمبر 33 کے مطابق جب تک پیغمر اکرمؐ امت کے درمیان میں موجود ہو خدا ان پر کوئی عذاب نازل نہیں کرے گا۔[22] ابن تیمیہ کی اس بات کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سورہ انفال کی آیت نمبر 33 میں امت پر اجتماعی عذاب کی نفی کی گئی ہے جس میں کسی شخص پر نازل ہونے والی انفرادی عذاب شامل نہیں ہے۔[23] چنانچہ تاریخ اسلام میں ابوزمعہ، مالک بن طلالہ اور حکم بن ابىالعاص کا نام عذاب الہی میں مبتلا ہونے والوں کے عنوان سے ثبت ہیں۔[24] اسی طرح نعمان کا خدا کے حکم پر اعتراض کرنا کفر کا شدید ترین مرتبہ ہے جو ایک قسم کی ارتداد میں شمار ہوتا ہے۔[25]
اسی طرح صحابہ کے بارے میں لکھی گئی بعض مشہور منابع جیسے "الاستیعاب " میں نعمان بن حارث کا نام ذکر نہ ہونا اور اصحاب فیل کے واقعے کی طرف اس واقعے کا مشہور نہ ہونا بھی ابن تیمیہ کے دوسرے اعتراضات میں سے ہے۔[26] اس سلسلے میں ان کو جواب دیا گیا ہے کہ صحابہ کے بارے میں لکھی گئی ہر کتاب میں تمام صحابہ کا نام ذکر نہیں ہوتا مثلا کتاب "اسدالغابۃ" جو پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب کے بارے میں لکھی گئی ہے، میں صرف 7504 نفر کا نام ذکر ہے جبکہ حجۃ الوداع میں کم از کم ایک لاکھ یا اس سے بھی زیاده لوگ پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر تھے۔[27] اسی طرح نعمان بن حارث کی داستان بھی مشہور ہے چنانچہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ علامہ امینی نے الغدیر میں اس واقعے کو اہل سنت کے 30 معروف علماء سے نقل کیا ہے۔[28]
متعلقہ صفحات
نوٹ
- ↑ البتہ ابن تیمیہ نے اس شخص کا نام حارث بن نعمان ذکر کیا ہے۔(ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج7، ص44۔))
حوالہ جات
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص6۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص6؛ آلوسی، روحالمعانی، 1415ھ، ج15، ص62؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج10، ص113۔
- ↑ ابوحیان اندلسی، البحر المحیط، 1420ھ، ج10، ص272؛ مظہری، تفسیر المظہری، 1412ھ، ج10، ص60؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص9؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج10، ص113۔
- ↑ ابوحیان اندلسی، البحر المحیط، 1420ھ، ج10، ص272؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص9؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج10، ص113۔
- ↑ آلوسی، روحالمعانی، 1415ھ، ج15، ص63۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص8؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص11۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص6۔
- ↑ آلوسی، روحالمعانی، 1415ھ، ج15، ص62؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص6؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص11؛ شريف لاہيجى، تفسير شريف لاہيجى، 1373ش، ج4، ص574؛ کاشانی، منہج الصادقین، 1330ش، ج10، ص4؛ طبرسی، مجمعالبیان، 1372ش، ج10، ص529۔
- ↑ سورہ انفال، آیہ 32۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص7؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص11۔
- ↑ آلوسی، روحالمعانی، 1415ھ، ج15، ص63۔
- ↑ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج19، ص278۔
- ↑ سورہ انفال، آیہ32۔
- ↑ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج8، ص235؛ قمی کاشانی، منہج الصادقین، 1330ش، ج10، ص3؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج19، ص278۔
- ↑ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج19، ص278؛ آلوسی، روحالمعانی، 1415ھ، ج15، ص62۔
- ↑ سورہ شعراء، آیہ187۔
- ↑ آلوسی، روحالمعانی، 1415ھ، ج15، ص62۔
- ↑ آلوسی، روحالمعانی، 1415ھ، ج15، ص63؛ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج7، ص45۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص5-6۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج20، ص6۔
- ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج7، ص46۔
- ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج7، ص46۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص12۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص12-13۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص13۔
- ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ھ، ج7، ص47-46۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص14۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج25، ص7-8۔
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
- ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، منہاج السنۃ النبویہ فی نقض کلام الشیعۃ القدریہ، تحقیق محمد رشاد سالم، جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ، 1406ق/1986م۔
- ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق محمدحسین شمسالدین، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1419ق۔
- ابوحیان اندلسی، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، تحقیق صدقی محمد جمیل، بیروت، دارالفکر، 1420ق۔
- آلوسی، سید محمود، روحالمعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415ق۔
- شريف لاہيجى، محمد بن على، تفسير شريف لاہيجى، تحقيق ميرجلالالدين حسينى ارموى، تہران، داد، 1373ش۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمعالبیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ش۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1417ق۔
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1364ش۔
- کاشانی، ملا فتحاللہ، منہج الصادقین، تہران، چاپخانہ محمدحسن علمی، 1330ش۔
- مظہری، محمد ثناءاللہ، تفسیر المظہری، پاکستان، مکتبہ رشدیہ، 1412ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1374ش۔