علم غیب پوشیدہ اور حواس خمسہ کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں رکھنے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ متکلمین قرآنی آیات کی روشنی میں علم غیب کی دو اقسام کے قائل ہیں: ایک ذاتی اور مستقل جو کسی سے کسب شدہ نہ ہو۔ علم غیب کی یہ قسم صرف خدا کے ساتھ مختص ہے۔ دوسری قسم مستفاد یا وابستہ جو خدا کی طرف سے اپنے بعض بندوں کے لئے عطا کیا جاتا ہے۔

شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت

علمائے امامیہ اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء اور ائمہ معصومینؑ علم غیب کی اسی دوسری قسم یعنی مستفاد اور وابستہ علم غیب سے بہرہ مند ہیں اور ان ہستیوں کو علم غیب کی یہ قسم خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہے۔

بعض وہابی قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہوئے علم غیب کو صرف خدا کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں؛ ان کے مقابلے میں علمائے امامیہ قرآن کی بعض دوسری آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے انبیاء اور اپنے بعض منتخب بندوں کو علم غیب سے نوازا ہے اور خدا جسے چاہے علم غیب عطا کرتا ہے۔

ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں: ایک حد اقلی و محدود جبکہ دوسرا حد اکثری اور نامحدود۔ ائمہ معصومینؑ کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ ان کا علم غیب چند چیزوں تک محدود ہے جبکہ بعض علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومین کا علم غیب تمام چیزوں کو شامل کرتا ہے یعنی جو اب تک دنیا میں آئی ہیں اور جو آئندہ دنیا میں آئیں گے سب کو شامل کرتا ہے۔

تعریف اور اہمیت

علم غیب پوشیدہ اور حواس خمسہ کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں ہونے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔[1] لغت میں "غیب" اس چیز کو کہا جاتا ہے جو حواس خمسہ سے مخفی اور پوشیدہ ہو؛ اس کے مقابلے میں شہود ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک چیزوں کو کہا جاتا ہے۔[2] اصطلاح میں غیب اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام وسائل اور اوزار سے ممکن نہ ہو۔[3]

مذہب امامیہ بعض آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف انبیاء اور ائمہ معصومینؑ خدا کے اذن سے علم غیب رکھتے ہیں۔[4] شیعوں کے اسی عقیدے کی بنا پر بعض وہابی ان کی طرف غلو کی نسبت دیتے ہیں۔[5] علم غیب، اس کے اقسام، محدودہ اور نوعیت وغیرہ من جملہ ان امور میں سے ہیں جن کے بارے میں قدیم ایام سے متکلمین بحث کرتے چلے آرہے ہیں[6] اور موجودہ دور (پندرہویں صدی ہجری) میں بھی وہابیوں کی طرف سے لگائے جانے والی تہمتوں نیز اس مسئلے کی حقیقت کو درک کرنے میں ان کی ناکامی کی وجہ سے آج بھی امامیہ متکلمین اس مسئلے کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔[7]

اقسام

علم غیب رکھنے والے شخص کی بنسبت علم غیب کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے:

  • ذاتی و مستقل علم غیب:[8] علم غیب کی یہ قسم ذاتی ہے اسے متعلقہ شخص نے کسی اور سے کسب نہیں کیا ہے۔[9] علمِ غیب کی یہ قسم نامحدود اور لامتناہی ہے جو صرف اور صرف خدا کے ساتھ مختص ہے اور خدا کے ساتھ اس علم میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔[10] شیخ مفید اپنی کتاب اوائل‌المقالات میں کہتے ہیں کہ بعض غالی اور مفوضہ علم غیب کی اس قسم کو ائمہ معصومینؑ کی طرف بھی نسبت دیتے ہیں۔[11] شیخ مفید اس نظریے کو باطل قرار دیتے ہیں۔[12]
  • مستفاد یا وابستہ علم غیب:[13] علم غیب کی یہ قسم خدا اپنے بعض خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔[14]تمام امامیہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء الہی اور ائمہ معصومینؑ علم غیب کی اسی قسم سے بہرہ مند ہیں جسے خدا نے خود ان ہستیوں کو تعلیم دی ہے اور ان ہستیوں نے اسے خدا سے کسب کیا ہے۔[15]

انبیاء کے علم غیب پر وہابیوں کے اعتراضات اور شیعوں کا جواب

بعض وہابی علم غیب کو صرف خدا تک منحصر اور محدود سمجھتے ہوئے انبیاء الہی یہاں تک کہ پیغمبر اکرمؐ کے علم غیب رکھنے سے انکار کرتے ہیں۔[16] سعودی عرب کے وہابی مفتی عبد العزیز بن‌باز علم غیب کو غیر خدا کی طرف نسبت دینے کو گمراہی اور کفر کا سبب قرار دیتا ہے۔[17] اپنے اس نظریے پر قرآن کی دو قسم کی آیات سے استدلال کرتے ہیں:

  1. وہ آیات جن میں خود پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بارے میں علم غیب کی نفی کی ہے؛[18] مانند آیت «قُلْ لَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَ لَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ؛ کہو: میں نہیں کہتا کہ خدا کے خزینے میرے پاس ہے اور میں غیب سے آگاہ اور مطلع نہیں ہوں»۔[19]
  2. وہ آیات جن میں غیب سے آگاہی کو صرف خدا کے ساتھ مختص کی گئی ہے؛[20] مانند آیت «وَ عِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ»۔[21]

اس نظریے کی رد میں قرآن کی مختلف آیات جیسے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 44 اور 179 اور سورہ جن کی آیت نمبر 26 اور 27 سے استدلال کیا گیا ہے، ان آیات کے مطابق خدا نے اپنے بعض انبیاء اور منتخب بندوں کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔[22]

اسی طرح کہا گیا ہے کہ قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں علم غیب کی دو اقسام؛ علم غیب ذاتی و مستقل اور علم غیب مستفاد و وابستہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ آیات جن میں علم غیب کو صرف خدا کے ساتھ مختص کیا گیا ہے ان میں علم غیب سے مراد ذاتی و مستقل علم غیب ہے جو صرف خدا کے ساتھ متخص ہے۔ جبکہ وہ آیات جن میں غیر خدا کے یہاں پر علم غیب کی بات کی گئی هے ان سے مراد وابستہ و مستفاد علم غیب ہے؛ یعنی وہ علم غیب جسے خدا نے انبیاء اور بعض منتخب بندوں کے لئے عطا کیا ہے۔[23]

ایران کے شیعہ عالم دین اور فلسفی شہید مطہری نے قرآن کی مذکورہ دو قسم کی آیات کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم غیب کے باب میں قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ جو ہستی بغیر تعلیم اور کسب کے غیب پر علم پیدا کرے اسے عالم بالغیب کہا جاتا ہے جو صرف خدا ہے جبکہ انبیاء اور خدا کے بعض منتخب بندے جو غیب سے آگاہ ہوتے ہیں وہ متعلم‌ الغیب ہیں یعنی ان کا علم غیب خدا کی طرف سے عظا شده ہے۔[24]

ائمہ معصومینؑ کا علم غیب

مذہب امامیہ کے مطابق ائمہ معصومینؑ کا علم غیب بھی پیغمبر اکرمؐ کی طرح خدا کی طرف سے عطا شدہ ہے۔[25] ان کے مطابق علم الہی چہ بسا پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے ائمہ معصومینؑ تک پہنچتا ہے؛ اس طرح کہ پیغمبر اکرمؐ علم غیب کو خدا سے حاصل کیا ہے پھر آپؐ نے اسے امام علیؑ کو امام علیؑ نے امام حسنؑ کو اسی طرح ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام کو تعلیم دی یہاں تک کہ آخری امام یعنی امام مہدیؑ تک یہ علم منتقل ہوا ہے۔[26] چہ بسا علم الہی کسی اور طریقے سے امامؑ تک پہنچتا ہے۔[27] مثلا شعہ حدیثی منابع میں موجود بعض احادیث کے مطابق جبرئیل نے آئندہ پیش آنے والے واقعات اور حوادث کے بارے میں حضرت فاطمہ(س) کو خبر دی جنہیں حضرت علیؑ کے توسط سے مُصحف فاطمہ میں تحریر کیا گیا۔[28] اسی طرح بعض احادیث کے مطابق امامؑ فرشتوں کے ساتھ ہم کلام ہونے[29] یا الہام کے ذریعے غیب سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔[30]

بعض احادیث کے مطابق امام انبیاء کے علم کے وارث[31]علم الہی کے خزانہ دار[32] ہیں۔ شیعہ بعض احادیث من جملہ حدیث مدینۃ العلم سے استناد کرتے ہیں جس میں پیغمبر اکرمؐ نے خود کو علم کا شہر اور امام علیؑ کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے۔[33]

امامؑ کے علم غیب کی مقدار کے بارے میں بعض شیعہ متکلمین کا عقیدہ ہے کہ امام کا علم بعض خاص موارد کے ساتھ محدود ہے۔[34] شیخ مفید علم غیب کو امام کی ضروری صفات اور شرائط میں سے قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومینؑ بعض انسانوں کے ضمیروں سے اور بعض ایسی چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئی سے بھی واقف ہوتے ہیں۔[35] بعض دوسرے متکلمین بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے[36]اس بات کے معتقد ہیں کہ ائمہؑ اس کائنات میں رونما ہونے والے ماضی اور مستقبل کے تمام واقعات پر علم رکھتے ہیں۔[37]

دوسرے انبیاء کا علم غیب

سورہ جن کی آیت نمبر 26 اور 27 کے مطابق خدا اپنے انبیاء میں سے جس کسی کو چاہے علم غیب عطا کرتا ہے۔[38] اسی طرح بعض آیات کے مطابق بعض انبیاء مختلف موارد میں غیب سے آگاہ تھے اور انہوں نے غیب کی خبریں دی ہیں:

متعلقہ مقالات

حوالہ جات

  1. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص52۔
  2. طریحی، مجمع البحرین، 1375ہجری شمسی، ج2، ص134-135؛ راغب، المفردات، 1412ھ، ص616۔
  3. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص44؛ سبحانی، مفاہیم القرآن، 1420ھ، ج3، ص402-407۔
  4. علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج3، ص115؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص53۔
  5. برای نمونہ ملاحظہ کریں: الہی ظہیر، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68-70؛ غنیمان، علم الغیب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، 1425ھ، ص10۔
  6. برای نمونہ ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص313۔
  7. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص52؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، 1385ہجری شمسی، ص317۔
  8. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67 و ص313۔
  9. سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص98-99۔
  10. شیخ مفید، اوائل المقالات، ص67؛ سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص98-99۔
  11. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67۔
  12. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67۔
  13. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67 و ص313۔
  14. سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص100۔
  15. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67؛ سبحانی، علم غیب (آگاہی سوم)، 1375ہجری شمسی، ص63-64۔
  16. برای نمونہ ملاحظہ کریں: بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔
  17. بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97۔
  18. بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔
  19. سورہ انعام، آیہ 50؛ بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔
  20. بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔
  21. بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔
  22. نمازی شاہرودی، علم غیب، 1393ہجری شمسی، ص31-34؛ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج27، ص828۔
  23. برای نمونہ ملاحظہ کریں: علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص57-58؛ سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، علم غیب (آگاہی سوم)، 1375ہجری شمسی، ص63-64۔
  24. مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج27، ص828۔
  25. خرازی، بدایۃ المعارف، 1429ھ، ج2‌، ص46۔
  26. خرازی، بدایۃ المعارف، 1429ھ، ج2‌، ص46۔
  27. خرازی، بدایۃ المعارف، 1429ھ، ج2‌، ص47۔
  28. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص239-240۔
  29. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص239-270۔
  30. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص264۔
  31. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص470۔
  32. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص192۔
  33. حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج27، ص34
  34. حلی، اجوبۃ المسائل، ص148۔
  35. شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67۔
  36. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص258-262۔
  37. مظفر، علم الامام، مکتبۃ الحیدریۃ، ص23
  38. طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج20، ص53۔
  39. سورہ ہود، آیہ 81۔
  40. نادم، علم غیب از نگاہ عقل و وحی، 1395ہجری شمسی، ص130۔
  41. سورہ آل عمران، آیہ 49۔
  42. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج2، ص556۔
  43. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج2، ص547۔
  44. سورہ ہود، آیہ 49۔
  45. طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج3، ص190۔

مآخذ

  • الہی ظہیر، احسان، الشیعۃ و السنۃ، لاہور، إدارۃ ترجمان السنۃ، 1396ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ۔
  • بن‌باز، عبد العزیز بن عبداللہ، مجموع فتاوی ابن باز، بی‌جا، دار القاسم للنشر، 2008م۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، تصحیح سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، انتشارات مؤسسہ آل البیتؑ، 1416ھ۔
  • حلی، حسن بن یوسف، أجوبۃ المسائل المہنائیۃ، مقدمہ: محی الدین مامقانی، قم، خیام، 1401ھ۔
  • خرازی، محسن، بدایۃ المعارف الالہیہ فی شرح عقائدالامامیہ للمظفر، قم، نشر اسلامی، 1420ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق صفوان عدنان داودی، دمشق و بیروت، الدار الشامیہ و‌دار العلم، 1412ھ۔
  • ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، جدال احسن، تہران، نشر مشعر، 1390ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، علم غیب (آگاہی سوم)، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، 1386ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، مفاہیم القرآن، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، 1420ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تحقیق سید احمد حسینی، تہران، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، 1375ہجری شمسی۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول، قم، دار الکتب الاسلامیۃ، 1404ھ۔
  • غنیمان، احمد بن عبداللہ، علم الغیب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، مدینہ، الجامعۃ الاسلامیۃ، 1425ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • مظفر، محمدحسین، علم الامام، نجف، مکتبۃ الحیدریۃ، بی‌تا۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
  • نادم، محمدحسن، علم غیب از نگاہ عقل و وحی، قم، دانشگاہ ادیان و مذاہب، 1395ہجری شمسی۔
  • نمازی شاہرودی، علی، علم غیب، مشہد، نشر ولایت، 1393ہجری شمسی۔