آیت کرامت
آیت کَرامَت، سورہ اسراء کی 70ویں آیت کو کہا جاتا ہے جس میں تخلیق کائنات میں انسان کے اعلی مرتبے اور دوسرے مخلوقات پر اس کی فضیلت نیز انسان کی خداداد نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ شیخ طوسی اور علامہ طباطبائی دوسرے مخلوقات پر انسان کی فضیلت اور برتری کا معیار اس کی عقل کو قرار دیتے ہیں۔
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
سورہ | اسراء |
آیت نمبر | 70 |
پارہ | 15 |
صفحہ نمبر | 289 |
محل نزول | مکہ |
موضوع | کرامت انسان |
مضمون | انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت و برتری |
مربوط آیات | سورہ بقرہ آیت نمبر 29 اور 30؛ سورہ مؤمنون آیت نمبر 14؛ سورہ حجرات آیت نمبر 13 |
مفسرین اس آیت میں مذکور دو الفاظ تکریم اور تفضیل کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس آیت میں کرامت انسان سے مراد اس کی عقل ہے جس سے دوسرے مخلوقات بے بہرہ ہیں اور انسان اس کے ذریعے اچھے اور برے، حق کو باطل سے اور مفید کو مضر سے تمیز دے سکتے ہیں۔ جبکہ تفضیل میں انسان کو دوسرے مخلوقات کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے یعنی جن چیزوں کو دوسرے مخلوقات کے لئے دئے گئے ہیں ان میں بھی انسان کا مرتبہ دوسروں سے زیادہ اور بہتر ہے
مفسرین اس آیت میں مذکور انسانی کرامت کی نوعیت کے بارے میں دو نظریات پیش کرتے ہیں۔ بعض مفسرین آیت کی اطلاق کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان کی ذاتی کرامت کے قائل ہیں جس میں تمم انسان شامل ہیں اور انسان کو دوسرے مخلوقات سے افضل اور برتر قرار دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ انسان کی کرامت ذاتی نہیں بلکہ اکتسابی ہیں جس میں انسان کے تمام بالقوہ انسان کمالات جیسے تقوا، ایمان اور نیک اعمال شامل ہیں۔
متن اور ترجمہ
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَ حَمَلْنَاہُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنَاہُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَ فَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا
بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بڑی عزت و بزرگی دی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا (سواریاں دیں) پاک و پاکیزہ چیزوں سے روزی دی اور انہیں اپنی مخلوقات پر (جو بہت ہیں) فضیلت دی۔(سورہ اسراء، آیہ 70)
مضامین
سورہ اسراء کی آیت نمبر 70 در حقیقت قرآن کی نگاہ میں انسان کی حقیقت، تخلیق کائنات میں انسان کا مقام اور دوسرے مخلوقات پر اس کی برتری اور افضلیت کی نشاندہی کرتی ہے۔[1] علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں تمام انسانوں(خواہ کافر یا مسلمان) کو ان خصوصیات کا حامل قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا آیت میں مؤمنین کی قید اور شرط کا اضافہ کرنا چاہئے تھا۔[2] خدا اس آیت میں اپنی نعمتوں کو ذکر کرنے کے ذریعے انسان پر اپنی لطف اور احسان کی یادہانی کرنا چاہتا ہے تاکہ انسان شکر ادا کریں۔[3]
تکریم اور تفضیل میں فرق
مفسرین کے مطابق آیت کرامت میں انسانی کرامت سے مراد انسان کی وہ خصوصیات ہیں جو دوسرے مخلوقات میں نہیں پائے جاتے۔ انسان کی وہ مخصوص خصوصیت اس کی عقل ہے جس کے ذریعے وہ اچھے اور برے، حق اور باطل اور مفید اور مضر کے درمیان تشخیص دے سکتے ہیں۔[4] جبکہ تفضیل میں انسان کو دوسرے مخلوقات کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے؛ یعنی جو چیزیں دوسرے مخلوقات میں بھی ہیں ان میں بھی انسان کا حصہ دوسروں سے زیادہ اور بہتر ہے اور دوسرے مخلوقات کے ساتھ انسان کا موازنہ اس کے خوراک، لباس، مسکن، شادی بیاہ، نظم و نسق اور اجتماعی زندگی سب میں قابل درک ہے؛ کیونکہ انسان ان تمام چیزوں میں ترقی اور بلند اہداف کی تلاش میں ہوتے ہیں جبکہ دوسرے مخلوقات ان چیزوں کی ابتدائی اور سادہ حالت سے بہرہ مند ہیں۔[5]
انسانی کرامت کا ذاتی یا اکتسابی ہونا
آیت کرامت میں انسانی کرامت کی نوعیت میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مفسرین انسان کی ذاتی کرامت کے قائل ہیں اور انسان کو دوسرے مخلوقات سے افضل اور برتر قرار دیتے ہیں اور مذکورہ آیت میں کرامت کو بغیر کسی قید و شرط کے مطلق لانے کو اپنے مدعا پر دلیل قرار دیتے ہیں۔[6] شیعہ مفکر اور قرآن شناس شہید مطہری بھی مذکورہ آیت میں کرامت سے انسان کی ذاتی کرامت مراد لیتے ہیں اور خدا کی طرف سے یہ کرامت اور شرافت انسان کو صرف انسان ہونے کے ناطے عطا کیا گیا ہے۔ شہید مطہری کے بقول انسانی کی ذاتی کرامت اور اعلی مرتبے کے اعتراف کے ساتھ اسے دوسرے مخلوقات کے مقابلے میں صرف ایک پیچیدہ مخلوق قرار دینا گویا اپنی بات کو مسترد کرنے کے مترادف ہے۔[7] اسی طرح شہید مطہری انسان کی ذاتی کرامت کو اس کی فطرت اور فطری قوانین کا جزء سمجھتے ہیں اور اسی فطری شرافت اور کرامت کی حفاظت کے لئے انسان کو کرامت اور شرافت و وقار کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ [8] ان کے مقابلے میں بعض دوسرے مفسرین کرامت اکتسابی کے قائل ہیں جو انسان میں موجود صلاحیتوں اور مثبت قوتوں کے بروئے کار لانے اور کمالات کے حصول کے لئے انسان کی سعی و تلاش کے نیتجے میں حاصل ہوتی ہے۔[9] معاصر شیعہ فلسفی محمد تقی جعفری اکتسابی کرامت کو انسان کی اختیاری خصوصیت میں سے قرار دیتے ہوئے اسے حقیقی کرامت اور وقار کا نام دیتے ہیں۔[10] وہ کہتے ہیں کہ چونکہ انسان کی کرامت ذاتی نہیں بلکہ اکتسابی ہے اسی بنا پر یہ امکان پذیر ہے کہ ایک انسان غلط اور برے اعمال کے ذریعے اس کرامت اور شرافت کو ہاتھ سے دھو بیٹھے۔[11] شیعہ مفسر قرآن آیت ا للہ جوادی آملی کے مطابق کائنات میں کرامت کی تین قسمیں ہیں: ما ورائے فطری یا ملکوتی کرامت، فطری کرامت اور انسانی کرامت جن میں سے ملکوتی کرامت فرشتوں،عرش خدا وغیرہ کے ساتھ مختص ہوتی ہے اور فطری کرامت مادی موجودات جیسے جمادات وغیرہ کے ساتھ مختص ہے جبکہ اعلی انسانی اقدار فطری اور ماورائے فطری اقدار کے امتزاج سے حاصل ہوتی ہیں۔[12]
متعلقہ مقالات
حوالہ جات
- ↑ سلطانی، «کرامت انسان از نگاہ قرآن»، ص30؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج12، ص196۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، بیتا، ج6، ص503؛ ابنعربی، تفسیر ابنعربی، 1422ھ، ج1، ص383؛ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156؛ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج15، ص118؛ الزحیلی، التفسیر المنیر، 1418ھ، ج15، ص121؛ ثعالبی، تفسیر الثعالبی، 1418ھ، ج3، ص486۔
- ↑ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156۔
- ↑ فضلاللہ، تفسیر من وحی القرآن، 1419ھ، ج14، ص179-180؛ ابنعاشور، التحریر والتنویر، 1420ھ، ج14، ص130-131؛ طباطبائی، المیزان، 1393ھ، ج13، ص155-156۔
- ↑ مطہری، یادداشت ہا، ج6، ص500۔
- ↑ مطہری، فطری بودن دین، ص186۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273؛ شیخ طوسی، التبیان، بیتا، ج6، ص503؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج2، ص681؛ جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107-108۔
- ↑ جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص107۔
- ↑ جعفری، پیام خرد، 1377ہجری شمسی، ص108؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص273-274۔
- ↑ جوادی آملی، صورت و سیرت انسان در قرآن، 1397ہجری شمسی، ص327۔
مآخذ
- آلوسی، محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بہ تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
- ابنعاشور، محمدطاہر، التحریر والتنویر، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، 1420ھ۔
- ابنعربی، محمد بن علی، تفسیر ابنعربی، بہ تحقیق سمیر مصطفی رباب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ق
- ثعالبی، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر الثعالبی، بہ تحقیق علی محمد معوض، عادل احمد عبدالموجود و عبدالفتاح ابو سنہ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ۔
- جعفری، محمدتقی، پیام خرد، تہران، مؤسسہ کرامت، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
- الزحیلی، وہبۃ، التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج، بیروت، دار الفکر المعاصر، 1418ھ۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، بہ تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ھ۔
- سلطانی، محمدعلی، «کرامت انسان از نگاہ قرآن»، در مجلہ آینہ پژوہش، شمارہ 102، بہمن و اسفند 1385ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، با مقدمہ محمدمحسن آقابزرگ تہرانی و تصحیح احمدحبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1393ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1415ھ۔
- «طراحی جالب لوگوی حقوق بشر با خط میخی و آیہ قرآن»، پایگاہ خبری عصر ہامون، درج مطلب: 15 مرداد 1393ہجری شمسی، بازدید: 14 آبان 1403ہجری شمسی۔
- فضلاللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک للطباعہ و النشر، 1419ھ۔
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1371ہجری شمسی۔