شکر

ویکی شیعہ سے
(شکر خدا سے رجوع مکرر)
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

شُکر کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے ان کا زبانی، قلبی اور عملی لحاظ سے شکریہ ادا کرنا۔ عرفائے اسلام نے شکر کی تین قسمیں بیان کی ہیں: شکر زبانی، شکر قلبی اور شکرعملی؛ شکر زبانی سے مراد اللہ کی نعمتوں کا زبانی اقرار ہے، شکر قلبی سے مراد یہ ہے کہ انسان دل سے اس بات کو جان لے کہ تمام نعمتیں صرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں؛ جبکہ شکر عملی کا مطلب یہ ہے کہ انسان رفتار و کردار میں نعمت دینے والی ذات کی اطاعت کرے۔

قرآن مجید کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر کرنا خود انسان کے فائدے کے لیے ہے۔ انسان اگر شکر ادا کرے تو اللہ کو کوئی نفع نہیں پہنچتا اور اس کی ناشکری کی صورت میں اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ خدا انسان اور اس کے اعمال و افعال سے غنی اور بے نیاز ہے۔ اس اصول کے مطابق نعمت کا شکریہ ادا کرنا نعمت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ امام علیؑ نے شکر کو ایمان و تقویٰ کی علامت، مایہ برکت اور نعمتیں جاری رہنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

شکر کا مفہوم اور اس کی اہمیت

شکر کے معنی ہیں اللہ کی طرف سے دی ہوئی نعمتوں کی شناخت کر کے انہیں یاد کرنا اور زبانی، قلبی اور عملی لحاظ سے ان کا اظہار کرنا۔[1]

قرآن کے بعض آیات منجملہ «فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ؛ پس تم مجھے یاد رکھو۔ میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو»[2] اور «لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ‌ أَمْ أَكْفُرُ‌؛ تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں»[3] میں شکر کفر کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے؛ کیونکہ کفر کے ایک معنی چھپانا اور پردہ ڈالنا ہے گویا کافر خدا کی نعمتوں کو چھپاتا ہے اور ان پر پردہ ڈالتا ہے جبکہ مومن شکر کے ذریعے اللہ کی نعمتوں کا اظہار اور اقرار کرتا ہے۔ نعمت کا اقرار بھی لفظ شکر کے مفہوم کا حصہ ہے۔ پس شکر میں تعظیم، یاد و اقرارِ نعمت اور اظہارِ نعمت سب شامل ہیں اور اس کے مقابلے میں کفر ہے جس کے معنی نعمت کا بھول جانا اور اسے چھپانا ہیں۔[4] امام جعفر صادق علیہ السلام نے مشہور حدیث، حدیث جنود عقل و جہل جس میں عقل و جہل کے لشکروں کو شمار کیا گیا ہے، میں شکر کو عقل کے لشکروں میں شمار کیا ہے اور اس کے برعکس، کفر کو جہل کے لشکروں میں گنا ہے۔[5]

شکر قرآن مجید میں مختلف موضوعات کے ضمن میں استعمال ہوا ہے؛ منجملہ مادی نعمتوں کے مقابلے میں شکر،[6] اسی طرح دین و توحید کے مقابلے میں شکر،[7] اللہ تعالیٰ اور والدین کے وجود کے مقابلے ٰں شکر[8] اور اللہ تعالیٰ کے عفو و بخشش کے مقابلے میں شکر۔[9]

معصومینؑ کی احادیث میں بھی شکر کا مفہوم اور اس کے مصادیق بیان ہوئے ہیں؛ امام علیؑ نے شکر کو ایمان[10] و تقوا کی نشانی،[11] امتحان و آزمائش کا سبب،[12] مال کی زینت،[13] باعث فزونی نعمت[14] اور نعمتیں جاری و ساری رہنے کا سبب[15] قرار دیا ہے۔ آنحضرتؑ سے منقول ہے کہ ہر مسلمان کو ہر حالت میں شکر گزار رہنا چاہیے۔[16]

شکر کے نتائج

قرآن کریم کے مطابق[17] شکر گزاری خود انسان کے فائدے کے لیے ہے اور اس کی شکرگزاری یا ناشکری خدا کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ کیونکہ خدا غنی اور ہر چیز سے بے نیاز ہے اور خدا اس سے کہیں بزرگ و برتر ہے کہ انسان اپنی ناشکری سے اسے نقصان پہنچاسکے۔ دوسری طرف انسان کو شکر گزاری سے فائدہ پہنچتا ہے اور اللہ کی جانب سے عطا کردہ نعمتوں کا شکر اس کے لیے برکت کا باعث بنتا ہے۔[18] اس کے علاوہ شکر گزاری صحیح راستے پر گامزن ہونے کا سبب بنتی ہے۔[19] جبکہ کفر نعمت باعث عذاب بن جاتا ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، ص265۔
  2. سوره بقره، آیه 152۔
  3. سوره نمل، آیه 40۔
  4. فراهیدی، العین، ص347۔
  5. کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص21۔
  6. سوره نحل، آیه 14 و 78 و 114 و 21؛ سوره بقره، آیه 72؛ سوره لقمان، آیه 31؛ سوره شوری، آیه 33؛ سوره روم، آیه 46؛ سوره اعراف، آیه 10؛ سوره سبا، آیه 13 و 15؛ سوره یونس، آیه 60؛ سوره یس، آیه 35؛ سوره فرقان، آیه 62۔
  7. سوره یوسف، آیه 38؛ سوره ابراهیم، آیه 5۔
  8. سوره لقمان، آیه 14۔
  9. سوره بقره، آیه 53۔
  10. نهج‌ البلاغه، حکمت 325۔
  11. نهج‌ البلاغه، خطبه 184۔
  12. نهج‌ البلاغه، خطبه 90۔
  13. نهج البلاغه، حکمت 333۔
  14. نهج البلاغه، حکمت 130 و 147۔
  15. نهج البلاغه، حکمت 238 و 13۔
  16. نهج‌ البلاغه، حکمت 265۔
  17. سوره نمل، آیه 4؛ سوره لقمان، آیه 12؛ سوره زمر، آیه 7۔
  18. سوره ابراهیم، آیه 7۔
  19. سوره نحل، آیه 121۔
  20. سوره ابراهیم، آیه 5؛ سوره نساء، آیه 147؛ سوره سبا، آیه 15 و 16۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • نهج‌ البلاغه، تصحیح فیض‌ الاسلام، تهران، انتشارات فیض‌ الاسلام، 1374ہجری شمسی۔
  • راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن۔
  • فراهیدی، خلیل بن احمد، العین، تحقیق مهدی مخزومی و ابراهیم سامرائی، قم، 1410ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، 1407ھ۔