استجابت دعا

ویکی شیعہ سے
(شرائط استجابت دعا سے رجوع مکرر)
دعا و مناجات

استجابت دعا، خدا کی طرف سے بندوں کی دعائیں قبول کرنے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو ان کی دعاؤں کی قبولیت کا وعدہ دیتا ہے۔ البتہ بعض اوقات مختلف علتوں (جیسے بندوں کی مصلحت وغیرہ) کی بنا پر دعاؤں کی قبولیت میں تأخیر ہوتی ہے۔

آیات اور روایات میں استجابت دعا کو بعض امور سے مشروط کیا ہے؛ جیسے دعا کرتے وقت دل اور زبان کا ایک ہونا، غیر خدا سے امید نہ رکھنا اور اللہ کی معرفت وغیرہ۔ اسی طرح بعض امور دعا کی استجابت میں مانع قرار دی گئی ہیں جن میں گناہ، حرام‌ خوری اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ترک کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

استجابت دعا کسی خاص زمان یا مکان کے ساتھ مختص نہیں۔ لیکن احادیث کے مطابق روز عرفہ اور شب قدر جیسے بعض مخصوص اوقات، نیز بعض مقامات جیسے: خانہ کعبہ، پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے قبور کے آس پاس خاص کر امام حسینؑ کے روضے کے قبے کے نیچے دعا جلدی مستجاب ہوتی ہے۔ اسی طرح احادیث کے مطابق اولاد کے حق میں والدین کی دعا، ظالم کے خلاف مظلوم کی دعا، رعایا کے حق میں عادل امام اور پیشوا کی دعا اور برادر مؤمن کے حق میں مؤمن کی دعا من جملہ ان دعاؤں میں سے ہیں جو رد نہیں ہونگی۔

وعدہ الہی

استجابت دعا، دعا کی قبولیت کو کہا جاتا ہے۔[1] خداوند عالم نے قرآن کی مختلف آیات میں اپنے بندوں کو ان کے دعاؤں کی استجابت کا دعدہ دیا ہے۔[2]لفظ "مجیب" اسماء الہی میں سے ہے جس کے معنی بندوں کے دعاؤں کو قبول کرنے والے کے ہیں۔[3]

علامہ طباطبائی کے مطابق استجابت دعا انسان کی زندگی میں ایک مستقل چیز ہے۔[4] لیکن دعا کی استجابت کا وعدہ انسان کو اپنے اہداف تک پہنچنے کی جد و جہد سے دوری اور ظاہری علل و اسباب سے چشم پوشی نیز عام زندگی کے امور میں خلل ایجاد ہونے کا سبب نہیں بننا چاہئے۔[5]

اسباب اور شرایط

آیات اور روایات میں استجابت دعا کے بعض شرائط اور علل و اسباب بیان کی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • دعا میں دل اور زبان کا ایک ہونا: قرآن کریم میں استجابت دعا کو ایک یقینی اور قطعی امر جانا گیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ بندہ حقیقی طور پر خدا کو پکارے۔[6] علامہ طباطبائی حقیقی طور پر خدا کو پکارنے سے مراد دعا کے وقت دل اور زبان کا ایک ہونا قرار دیتے ہیں۔[7] اسی طرح امام علیؑ سے منقول ہے کہ خداوند عالم اس دعا کو مستجاب نہیں کرتا جس میں دعا کرنے والے کا دل اس دعا سے غافل ہو۔[8]
  • غیر خدا سے امید نہ رکھنا: یعنی ظاہری اور خیالی علل و اسباب سے منہ موڑ کر اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارنا، کیونکہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 میں صرف خدا سے طلب کرنے حکم دیا گیا ہے۔[9]
  • خدا کی شناخت کے ساتھ دعا کرنا: امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث جسے آپ نے دعا کے مستجاب نہ ہونے سے متعلق ایک گروہ کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا، آیا ہے کہ جس کو پکارا گیا ہے اس کی شناخت اور معرفت نہ ہونا دعا کی عدم قبولیت کی دلیل ہے۔[10]
  • خضوع و خشوع: سورہ اعراف آیت نمبر 55 میں مؤمنوں کو خدا کو حاضعانہ اور خاشعانہ طور پر پکارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام صادقؑ استجابت دعا کے اوقات میں سے ایک کو وہ وقت قرار دیتے ہیں جس میں انسان اشکبار آنکھوں، لرزاں بدن اور ٹوٹے دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو۔[11]
  • عمل صالح کے ساتھ دعا کرنا: استجابت دعا کے لئے عمل صالح خاص کر صدقہ دینے کی سفارش ہوئی ہے۔[12] قرآن میں خداوندعالم نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں کو دعا کی استجابت کا وعده دیا ہے۔[13]
  • مؤمنوں کے اجتماع میں دعا کرنا: امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں دعا کرنے والے 40 مؤمنوں کا کوئی گروہ ایسا نہیں ہے جن کی دعا کو خدا رد کرے اور خود امامؑ بھی مشکلات کے وقت اپنے اہل و عیال کو جمع کر کے دعا فرمایا کرتے تھے اور وہ لوگ آمین کہتے تھے۔[14]

اسی طرح استغفار[15] اور اہل بیتؑ کے ساتھ توسل[16] دعا کے مستجاب ہونے کے دیگر شرائط میں سے ہیں۔

زمان و مکان

استجابت دعا کسی خاس زمان و مکان کے ساتھ مختص نہیں لیکن بعض اوقات اور مقامات استجابت دعا میں مؤثر ہیں؛ احادیث میں شب قدر، نیمہ شعبان، 27 رجب، عید فطر، روز عرفہ، عید قربان، یکم محرم، سحری اور اذان کے وقت، شب جمعہ، بارش کے وقت، واجب نمازوں کے بعد، خانہ کعبہ پر نگاہ پڑنے کے دوران اور بعض مہنے جیسے ماہ رجب، ماہ شعبان اور ماہ رمضان من جملہ ان اوقات میں سے ہیں جن میں دعا کی استجابت کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں۔[17]

اسی طرح احادیث میں مکہ، مسجد الحرام، کعبہ، حجر الاسود، رکن یمانی اور حجر اسماعیل کے پاس، میدان عرفات، پیغمبر اسلامؐ کے قبر مطہر کے پاس، روضۃ النبی، ائمہ معصومینؑ کے روضات خاص کر امام حسینؑ کے روضہ مبارکہ کے گنبد کے نیچے،[18] مسجد سہلہ اور مسجد کوفہ من جملہ ان مقامات میں سے ہیں جن میں دعا زیادہ مستجاب ہوتی ہے۔[19]

موانع

آیات اور روایات میں دعا کی استجابت کی راہ میں موجود بعض موانع کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے:

  • گناہ: امام باقرؑ سے مروی ایک حدیث میں گناہ کو استجابت دعا میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔[20] امام سجادؑ بری نیت، بد طینتی، برادران دینی کے حق میں نفاق، واجب نمازوں کی ادائگی میں تأخیر، ناسزا کہنا اور صدقہ نہ دینے کو ان عوامل میں سے قرار دیتے ہیں جو استجابت دعا میں مانع بنتے ہیں۔[21] اسی طرح احادیث کے مطابق ظلم و ستم،[22] والدین کی نافرمانی، قطع رحم،[23] عہد و پیمان کی خلاف ورزی،[24] اور چغلخوری[25] وغیرہ بھی استجابت دعا میں رکاوٹ بننے والے امور میں سے ہیں۔ دعائے کمیل میں ان گناہوں کی بخشش کی درخواست کی جاتی ہے جن کی وجہ سے دعائیں مستجاب نہیں ہوتی۔[26]
  • لقمہ حرام:احادیث کے مطابق کسب حرام اور حرام‌ خواری 40 دن تک استجابت دعا میں مانع بنتی ہیں۔[27] حدیث قدسی میں خدا نے حرام خوار کے علاوہ تمام بندگان کی دعاؤں کی استجابت کا وعدہ دیتا ہے۔[28]
  • دعا صرف مشکلات اور گرفتاریوں کے وقت: احادیث کے مطابق وہ شخص جو مشکلات اور گرفتاریوں کے وقت دعا کے مستجاب ہونے کا خواہان ہے اسے آسایش اور خوشی کے ایام میں خدا اور دعا کرنے کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔[29]
  • اہل بیتؑ کی ولایت میں شک: ایک حدیث کے مطابق جس شخص کے دل میں اہل بیتؑ کی ولایت کے بارے میں شک ہو وہ شخص اگر پوری عمر دعا میں مشغول رہے تو بھی اس کی دعا قبول نہیں ہو گی۔[30]
  • خیانت اور بے وفایی: امام علیؑ دعا کے مستجاب نہ ہونے سے متعلق کئے گئے ایک شخص کے سوال میں فرماتے ہیں کہ آٹھ موارد میں لوگوں کے دلوں میں موجود خیانت اور بے وفایی دعا کی قبولیت میں مانع بنتی ہیں۔ خدا کی معرفت رکھنے کے باوجود اس کا حق ادا کرنا، پیغمبر اسلامؐ پر ایمان لانے کے باوجود ان کی سیرت پر عمل نہ کرنا، قرآن کی تلاوت تو کرے مگر اس پر عمل پیرا نہ ہونا، گفتار میں جہنم سے خوف کا اظہار تو کرے پر عملا جہنم کی طرف قدم بڑھانا، گفتار میں بہشت سے رغبت کا اظہار تو کرے پر عملا اس سے دوری اختیار کرنا، خدا کی نعمتوں سے استفادہ تو کرے لیکن ناشکری کرنا، لوگوں کے عیوب کو تو دیکھے پر اپنے عیوب سے غافل ہونا اور زبان سے تو شیطان کے ساتھ دشمنی کا اظهار کرے پر عملا اس سے دوستی کرنا دلوں کی خیانت ہے جسے امام علیٌ اسنتجابت دعا میں مانع شمار کرتے ہیں۔[31]

اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا[32] اور نماز کو خفیف شمار کرنا[33] کو بھی استجابت دعا کے موانع میں شمار کیا گیا ہے۔

استجابت دعا میں تأخیر کا فلسفہ

علامہ طباطبائی کے مطابق شرائط کی رعایت اور موانع کی برطرفی کے ساتھ دعا کی استجابت اور قبولیت خدا کی قطعی اور یقینی سنتوں میں سے ہے۔[34] لیکن بعض اوقات بعض علل و اسباب کی بنا پر دعا کی استجابت میں تأخیر ہوسکتی ہے۔[35] استجابت دعا میں تأخیر کے علل و اسباب میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • استجابت دعا بندے کی مصلحت میں نہ ہونا: بعض اوقات انسان ایسی چیز خدا سے طلب کرتا ہے جو حقیقت میں اس کی مصلحت میں نہیں ہوتی اس بنا پر خدا اس کی اس دعا کو قبول کرنے میں تأخیر کرتا ہے یا اسے قبول ہی نہیں کرتا۔ قرآن میں مسلمانوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتا ہے کہ تم چہ بسا ایسی چیز کو پسند کرتے ہو جو تمہارے لئے مضر ہے یا کسی ایسی چیز کو ناپسند کرتے ہو جو تمہارے فائدے میں ہے حالانکہ خدا تم سے بہتر تمہاری مصلحتوں کو جانتا ہے۔[36] امام علیؑ اپنے فرزند ارجمند امام حسنؑ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: چہ بسا تم ایسی چیز کی چاہت رکھتے ہو جس میں تمہارے دین اور دنیا دونوں کی تباہی ہے۔[37]
  • نہج البلاغہ میں امام حسن کے نام امام علی کے خط میں دعا کی استجابت میں تأخیر کی تین حکمتوں کا ذکر آیا ہے: بعض اوقات دعا کرنے والے کی نیت اور قصد میں کوئی مشکل ہوتی ہے، بعض اوقات خدا اس شخص کو استجابت دعا سے زیادہ ثواب دینے کا ارادہ فرماتا ہے اور بعض اوقات خدا اس سے بہتر کوئی چیز کسی اور موقع پر اسے دینا چاہتا ہے۔[38] امام سجادؑ سے منقول ہے: "مؤمن کی دعا میں تین میں سے ایک فائدہ ہے: یا یہ دعا اس کے لئے ذخیرہ آخرت قرار دی جاتی ہے یا یہ دعا دنیا میں ہی قبول ہوتی ہے یا یہ دعا ایک ایسی بلا اور مصیبت کو اس سے دور کرتی ہے جو اس پر آنے والی تھی۔"[39]

مستجاب الدعوۃ

تفصیلی مضمون: مستجاب الدعوۃ

مستجاب الدعوۃ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔[40] احادیث میں آیا ہے کہ اولاد کے حق میں والدین کی دعا، ظالم کے خلاف مظلوم کی دعا، عمرہ‌ گزار کی دعا، روزہ‌ دار کی دعا، رعایا کے حق میں عادل امام اور پیشوا کی دعا حق اور برادر مؤمن کے حق میں مؤمن کی دعا رد نہیں ہوتی ہے۔[41]

اسی طرح امام حسنؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے قلب کی حفاظت کرتے تاکہ خدا کو ناپسند امور دل میں خطور نہ کرے تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ شخص مستجاب‌ الدّعوۃ ہو گا۔[42]

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ذیل واژہ جوب۔
  2. سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۶؛ سورہ غافر، آیہ ۶۰؛ سورہ شوری، آیہ ۲۶۔
  3. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ذیل واژہ جوب۔
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۳۱۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۶۴۷۔
  6. سورہ بقرہ، آیہ ۱۸۶۔
  7. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۳۳۔
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۷۳۔
  9. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۳۳؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۶۲۔
  10. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۰، ص۳۶۸۔
  11. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۷۳۔
  12. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۱۶۵؛ ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۱۱۱۔
  13. سورہ شوری، آیہ ۲۶۔
  14. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۸۷۔
  15. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۸۶۔
  16. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۱، ص۲۱۔
  17. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۷۷-۴۷۸، ۵۲۲-۵۲۵؛ ج۳، ص۴۱۴، ۴۱۶؛ ج۴، ص۶۷، ۱۵۵؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۶۷۱، ۳۵۴، ۷۰۱؛ ترمذی، سنن، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۲۲۳۔
  18. ابن فہد حلی، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، ۱۴۰۷ق، ص ۵۷،
  19. اشعری قمی، النوادر، ۱۴۰۸ق، ص۱۴۰؛ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۴۰۹، ۴۱۱، ۵۳۰-۵۳۲، ۵۵۱؛ قاضی نعمان، دعائم الاسلام، ج۱، ص۲۹۳؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۶۸۴؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۵، ۱۰۸؛ متقی ہندی، کنز العمال، ۱۴۰۹ق، ج۱۲، ص۱۹۴-۲۲۲۔
  20. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۷۱۔
  21. صدوق، معانی الاخبار، ۱۴۰۳ق، ص۲۷۱۔
  22. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۳۴
  23. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۴۸؛ حلوانی، نزہۃ الناظر، ۱۴۰۸ق، ص۳۷۔
  24. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۳، ص۳۶۸۔
  25. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۵، ص۲۶۸۔
  26. طوسی، مصباح المجتہد، ۱۴۱۱ق، ص۸۴۴۔
  27. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۰، ص۳۵۸، ۳۷۳۔
  28. ابن فہد حلی، عدۃ الداعی، ۱۴۰۷ق، ص۱۳۹۔
  29. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۷، ص۴۰۔
  30. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۰۱۔
  31. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۰، ص۳۷۶-۳۷۷۔
  32. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۰، ص۳۷۸۔
  33. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۳، ص۲۱۔
  34. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۳۲۔
  35. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۲۸۹۔
  36. سورہ بقرہ، آیہ۲۱۶۔
  37. نہج‌البلاغہ، بہ تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ق، ص۳۹۹۔
  38. نہج‌البلاغہ، بہ تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ق، ص۳۹۹۔
  39. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۲۸۰۔
  40. دہخدا، لغت‌نامہ، ۱۳۷۷ش، ذیل واژہ مستجاب۔
  41. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۵۱۰؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۰، ص۳۵۶؛ ج۹۳، ص۲۵۶۔
  42. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۶۲۔

مآخذ

  • ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، مصحح علی ‌اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۰۴۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،‌ دار الفکر -‌ دار صادر، ۱۴۱۴ھ۔
  • ابن فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی و نجاح الساعی، مصحح احمد موحدی قمی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامی، ۱۴۰۷ھ۔
  • اشعری قمی، احمد بن محمد بن عیسی، النوادر، قم، موسسہ امام ہادی، ۱۴۰۸ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی و ہو الجامع الصحیح، ج۳ و۵، چاپ عبدالرحمن محمد عثمانف بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۰۹ھ۔
  • دہخدا، لغت ‌نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، الامالی، قم، نشر مؤسسہ بعثت، ۱۴۱۷ق
  • صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، مصحح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، چاپ حسن موسوی خرسان، بیروت ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ء۔
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، ۱۴۱۱ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام، چاپ آصف بن علی اصغر فیضی، قاہرہ [۱۹۶۳-۱۹۶۵]، چاپ افست [قم، بی‌تا]۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، ۱۳۸۸ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • متقی ہندی، علی بن حسام الدین، کنزالعمال فی سنن الاقوال و الافعال، چاپ بکری حیانی و صفوۃ سقا، بیروت ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ء۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۳۷۱ش۔
  • نہج‌البلاغہ، بہ تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، ۱۴۱۴ھ۔