ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی نماز دو رکعت پر مشتمل مستحب نمازوں میں سے ایک ہے۔ یہ نماز ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز میں سورہ حمد اور سورہ اخلاص کے بعد سورہ اعراف کی آیت نمبر 142 پڑھی جاتی ہے۔ مذکورہ آیت میں حضرت موسیٰ کی طرف سے آسمانی کتاب کی دریافت کے لئے طور سینا پر گزاری گئی چالیس راتوں کا تذکرہ ہے جس کی آخری دس راتیں ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں آئی تھیں۔ احادیث کے مطابق جو شخص ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں ہمیشہ اس نماز کو ادا کرے گا وہ ثواب میں حاجیوں کے ساتھ شریک ہوگا۔
طریقہ
یہ نماز ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں نماز مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے۔[1] یہ نماز دو رکعتوں پر مشتمل ہے جس کی ہر رکعت میں تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورہ حمد، اس کے بعد سورہ اخلاص، پھر سورہ اعراف کی آیت نمبر 142 پڑھی جاتی ہے۔[1]
- وَ واعَدْنا مُوسی ثَلاثِینَ لَیلَةً وَ أَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِینَ لَیلَةً وَ قالَ مُوسی لِأَخِیهِ هارُونَ اخْلُفْنِی فِی قَوْمِی وَ أَصْلِحْ وَ لا تَتَّبِعْ سَبِیلَ الْمُفْسِدِینَ؛ (ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ سے (تورات دینے کے لیے) تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا اور اسے مزید دس (راتوں) سے مکمل کیا۔ اس طرح ان کے پروردگار کی مدت چالیس راتوں میں پوری ہوگئی اور جناب موسیٰ نے (کوہ طور پر جاتے وقت) اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم میں میرے جانشین بن کر رہو۔ اور اصلاح کرتے رہو اور (خبردار) مفسدین کے راستہ پر نہ چلنا۔)[؟–؟]
مذکورہ آیت میں حضرت موسی کی طرف سے آسمانی کتاب کی دریافت کے لئے طور سینا پر گزاری گئی چالیس راتوں کا تذکرہ ہے۔ اس عرصے میں حضرت موسی کے بھائی، حضرت ہارون کو بنی اسرائیل میں آپ کا جانشین مقرر کیا گیا تھا۔[2] اس آیت کے مطابق شروع میں حضرت موسی 30 راتیں کوہ طور پر گزاریں اس کے بعد مزید دس راتوں کا اضافہ کیا گیا۔[3] بعض احادیث میں ابتدائی 30 راتوں سے ذی القعدہ کا پورا مہینہ اور آخری دس راتوں سے ذی الحجہ کی پہلی دس راتیں مراد لی گئی ہیں۔[4]
مذکورہ آیت کی تلاوت کے بعد رکوع اور دو سجدے بجا لائے جاتے ہیں۔ دوسری رکعت بھی پہلی رکعت کی طرح پڑھی جاتی ہے اور آخر میں تشہد اور سلام کے بعد نماز ختم ہو جاتی ہے۔[1]
سند اور ثواب
کتاب اقبال الاعمال میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کے مطابق امام باقرؑ اپنے فرزند امام صادقؑ کو اس نماز کے فراموش نہ کرنے کی سفارش کرتے ہیں اور اگر جو شخص ہمیشہ اس نماز کو ادا کرے تو وہ حاجیوں کے ساتھ ثواب میں شریک ہوگا اگرچہ یہ شخص حج پر نہ گیا ہو۔[5]
سب سے قدیمی منبع جس میں اس نماز کا تذکرہ آیا ہے وہ سید بن طاووس کی کتاب اقبال الاعمال ہے۔ انہوں نے حسن بن محمد بن اسماعیل بن اُشناس کی کتاب کو اس کا ماخذ قرار دیا ہے۔ وسائل الشیعہ کے مصنف کے مطابق اس کتاب کا نام "ذی الحجہ کے اعمال" تھا۔[6]
مفاتیح الجنان میں اس نماز کو ذی الحجہ کے اعمال میں ذکر کیا گیا ہے۔
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
مآخذ
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت، چاپ سوم، 1416ھ۔
- سید بن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنۃ، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، 1419ھ۔
- قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح طیب موسوی جزائری، قم، دار الکتاب، 1404ھ۔