حضرت لوط
قوم کا نام: | قومِ لوط |
---|---|
پیروکار: | یکتاپرستی |
دین: | حنیف |
قرآن میں نام کا تکرار: | 27 مرتبہ |
اہم واقعات: | لواط کی وجہ سے قوم لوط پر عذاب |
اولوالعزم انبیاء | |
حضرت محمدؐ • حضرت نوح • حضرت ابراہیم • حضرت موسی • حضرت عیسی |
لوطؑ علیہ السلام ایک پیغمبر ہیں جن کی قوم گناہان کبیرہ بالخصوص لواط کے گناہ میں مبتلا ہوئی اور اسی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا۔ آپؑ حضرت ابراہیمؑ کے دَور کے تھے اور ان کے رشتہ دار بھی تھے۔ حضرت ابراہیمؑ کی بابِل میں توحید کی دعوت پر لوط اور ان کی بہن سارہ نے ان پر ایمان لے آیا۔
حضرت ابراہیم نے جب فلسطین کی سرزمین کنعان کی جانب ہجرت کرنے کا ارادہ کرنے کے بعد لوط اور سارہ نے ابراہیم کے ساتھ ہجرت کی۔ لوط مُؤتَفِکات کی سرزمین جانے پر اللہ کی طرف سے مامور ہوئے اور وہاں کے لوگوں کو توحید کی دعوت کی۔
مؤتفکات والے لواط جیسے گناہوں میں مرتکب ہوتے تھے۔ لوط نے ان کو گناہ ترک کرنے کی دعوت دی لیکن لوگوں نے ان کی بات نہ سنی جس پر فرشتوں کی طرف سے عذاب نازل ہوا۔ حضرت لوط عذاب نازل ہونے سے پہلے اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ شہر سے باہر نکل گیا اور جہاں حضرت ابراہیم تھے اس طرف ہجرت کر گئے۔ عذاب نازل ہونے سے پہلے جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل شروع میں خوبصورت جوانوں کی شکل میں لوطؑ کے گھر آئے اور لوط کو بیٹیوں کے ہمراہ رات میں شہر سے نکل جانے کا کہا۔ فرشتوں نے اگلے دن صبح عذاب نازل ہونے کے بارے میں آگاہ کیا۔
قرآن مجید میں 27 مرتبہ ان کا تذکرہ ہوا ہے۔ آپ فلسطین کا صوبہ الخَلیل کے بَنی نَعیم نامی شہر میں دفن ہیں۔
سوانح حیات
حضرت لوط، ہاران کے بیٹے، تارخ کے پوتے اور حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے تھے۔[1] اسی طرح آپ حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کے مادری بھائی تھے۔[یادداشت 1] لوط اور سارہ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے بابل میں حضرت ابراہیم پر ایمان لے آیا۔[2] سورہ عنکبوت میں اللہ پر لوط کے ایمان کا تذکرہ ہوا ہے۔[3] حضرت ابراہیم کی کنعان کی طرف ہجرت کے دوران لوط ان کے ہمراہ ہوئے۔[4] حضرت لوط بھی لوگوں کو توحید کی دعوت دینے فلسطین کے بعض شہر چلے گئے۔ قرآن مجید میں 27 مرتبہ ان کا تذکرہ ہوا ہے۔[5] قرآن میں ان کی طرف بعض اچھی صفات کی نسبت دی گئی ہے۔ ان کو برتر،[6] صاحبِ علم و حکمت جانا گیا ہے۔[7] بعض کتابوں میں حضرت لوط کو سخی اور مہمانواز معرفی کیا گیا ہے۔[8]
آپ فلسطین کا صوبہ الخَلیل کے بَنی نَعیم نامی شہر میں دفن ہیں۔[9]
رشتہ دار
حضرت لوط کی دو بیٹیاں؛ رتبا اور رعورا تھیں جو عذاب سے پہلے باپ کے ہمراہ شہر سے باہر نکل آئیں اور حضرت ابراہیمؑ سے ملحق ہوئیں۔[10] حضرت لوط کی بیٹیوں میں سے ایک حضرت ایوب کی ماں ہیں۔[11] حضرت شُعَیب کو جنابِ لوط کا داماد کہا گیا ہے۔[12] بعض کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم کا بیٹا مَدیَن، بھی لوطؑ کے داماد تھے۔[13] لوطؑ کی بیوی کو ایک بری عورت کے عنوان سے معرفی کیا گیا ہے۔ وہ قوم لوط کے گناہوں کی حمایت کرتی تھی۔ مثال کے طور پر جب فرشتے عذاب الہی کی خبر دینے خوبصورت جوانوں کی شکل میں حضرت لوط کے گھر آئے تو ان کی بیوی نے خوبصورت جوانوں کا ان کے گھر آنے کی خبر دی[14] اور یہ خبر ملتے ہی قومِ لوط ان کے گھر آئی اور ان سے جنسی رابطے کا اظہار کیا۔[15] قرآنی آیات اور تاریخی شواہد کے مطابق لوطؑ کی بیوی بھی قومِ لوط کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی۔[16]
رسالت
حضرت لوط اللہ کی طرف سے نبوت پر فائز ہوئے. قرآن میں آپ کی رسالت کی تصریح ہوئی ہے۔[17] تاریخی مآخذ میں آپ کی رسالت کا جغرافیائی حدود کو فلسطین کا علاقہ مُؤتَفِکات ذکر ہوا ہے۔[18] اس علاقے میں سدوم، عمورہ، صوغر اور صبوییم نامی شہر شامل ہیں۔[19] اس سرزمین کا نام ان شہروں میں شامل ہے جن پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہے۔[20] حضرت لوط لوگوں کو دین ابراہیمؑ کی طرف دعوت کرتے تھے۔ عذاب آنے پہلے آپ 20 سال سے زیادہ عرصہ یہاں سکونت پذیر تھے۔[21]
قوم لوط
قوم لوط وہ لوگ تھے جو فلسطین کی سرزمینِ مؤتفکات میں سکونت پذیر تھے۔ قرآن اور تاریخی مآخذ میں قومِ لوط کا منفی چہرہ ذکر ہوا ہے۔[22] قرآنی آیات اور تاریخی منابع کے مطابق قومِ لوط، لواط،[23] اور ڈاکہ کے مرتک ہوئی۔ نیز مہمانوں کو تنگ کرتی تھی۔[24] حضرت لوط نے ان کو گناہ ترک کرنے کی دعوت دی۔[25] بار بار گناہ تکرار کرنے کے بعد ان پر عذاب نازل ہوا۔[26]
جبرئیل، میکائیل و اسرافیل قوم لوط پر عذاب نازل کرنے پر مامور تھے اس لئے شروع میں خوبصورت جوانوں کی شکل میں لوطؑ کے گھر آئے اپنی معرفی کرنے کے بعد ان سے کہا کہ عذاب سے بچنے کے لئے راتوں رات اپنی بیٹیوں کے ہمراہ شہر سے باہر نکل جائیں۔ اور فرشتوں نے عذاب کا وقت صبح کا اعلان کردیا۔[27] فرشتوں کا حضرت لوط کے گھر آنا اور اس کے بعد کے واقعات سوہ ہُود اور حِجر میں ذکر ہوئے ہیں۔[28]
تورات اور اسلامی مآخذ کا باہمی فرق
تورات میں حضرت لوط کے شہر سدوم میں فرشتوں کا آنا اور قومِ لوط پر عذاب اور لوط اور بیٹیوں کی نجات کا ذکر آیا ہے۔[29] مسلمانوں کا انبیاء کی عصمت کے قائل ہونے کے باوجود تورات میں آیا ہے کہ عذاب نازل ہونے کے بعد نسل باقی رکھنے کے لئے لوط کی بیٹیوں نے لوط سے ہمبستری کی۔[30]
نوٹ
- ↑ ابراہیم اور سارہ کی شادی چچا اور بھتیجی کے مابین نہیں ہے کیونکہ سارہ لوط کی سوتیلی بہن ہیں اور دونوں کے باپ الگ الگ ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج1، ص176.
- ↑ ابناثیر، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران، 1371شمسی، ج2، ص19.
- ↑ سورہ عنکبوت، آیہ 26.
- ↑ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، 1407ھ، ج1، ص140.
- ↑ «تکرار اسامی در قرآن».
- ↑ سورہ انعام آیہ 76.
- ↑ سورہ انبیاء آیہ 74.
- ↑ «آگاہ شویم».
- ↑ رامین، «مزار حضرت لوط (علیہ السلام)».
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص445.
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1375شمسی، ج1، ص242.
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص455.
- ↑ ابنخلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، 1407ھ، ج2، ص42 و 49.
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص444.
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص445.
- ↑ سورہ عنکبوت، آیہ 32؛ سورہ حجر، آیہ 60؛ ابناثیر، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران، 1371شمسی، ج2، ص73.
- ↑ سورہ صافات، آیہ 133.
- ↑ ابنخلدون، العبر تاریخ ابنخلدون، 1363شمسی، ج1، ص33.
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص444.
- ↑ سورہ توبہ، آیہ 70.
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، 1374شمسی، ج1، ص37.
- ↑ سورہ شعراء، آیہ 160-175؛ سورہ عنکبوت، آیہ 27-30.
- ↑ سورہ عنکبوت، آیہ 27.
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص444.
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص444.
- ↑ مقدسی، آفرینش و تاریخ، 1374شمسی، ج1، ص445.
- ↑ طبری، تاریخ طبری، 1375شمسی، ج1، ص227.
- ↑ سورہ ہود، آیہ 79-73؛ سورہ حجر، آیہ 76 و 66.
- ↑ کتاب مقدس، کتاب تکوین، باب 17، آیہ 16-23؛ باب 19، آیہ 1-29.
- ↑ کتاب مقدس، کتاب تکوین، باب 19، آیہ 30-37.
مآخذ
- ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، العبر تاریخ ابن خلدون، ترجمہ عبدالمحمد آیتی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ اول، 1363ہجری شمسی۔
- ابن اثیر، عزالدین علی، کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران، ترجمہ ابوالقاسم حالت و عباس خلیلی، تہران، مؤسسہ مطبوعاتی علمی، 1371ہجری شمسی۔
- ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الأکبر، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1407ھ۔
- ابن کثیر، أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن كثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفكر، 1407ھ۔
- امیدوار، حسن، «آگاہ شویم»، پایگاہ اطلاعرسانی غدیر، تاریخ بازدید: 15-11-95ہجری شمسی۔
- «تکرار اسامی در قرآن»، پایگاہ اینترنتی پارس قرآن، تاریخ بازدید: 15-12-1396ہجری شمسی۔
- رامیننژاد، رامین، «مزار حضرت لوط (علیہ السلام)»، پایگاہ اینترنتی راسخون، تاریخ بازدید: 15-12-1396ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، اساطیر، چاپ پنجم، 1375ہجری شمسی۔
- مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ پنجم، 1374ہجری شمسی۔
- مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمدرضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔