قرآن کا علمی معجزہ اس نظریے کو کہا جاتا ہے جس میں قرآنی تعلیمات کو سائنسی ایجادات پر منطبق کر کے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن ایک معجزہ ہے۔ اس نظریہ کے مطابق قرآن نے تمام علوم، خاص کر سائنسی علوم کے متعلق ایسے حقائق بیان کیے ہیں جو عصر نزول قرآن میں دریافت نہیں ہوسکے تھے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ زمان نزول قرآن میں ایسے علمی حقائق کا ادراک عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں تھا، قرآن مجید کو پیغمبر اکرمؐ کا معجزہ اور خدا کی طرف سے نازل شده کتاب قرار دیا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید کے علمی اعجاز کے چند نمونے یہ ہیں: زمین کی گردشی اور انتقالی حرکت کا بیان جس کے ذریعے دن اور سال تبدیل ہوتے ہیں، پانی کا مایہ حیات ہونا، کشش زمین اور پودوں اور جانوروں کی جوڑوں(نر اورمادہ) کے ذریعے تولید نسل وغیرہ۔

دنیائے اہل سنت کے درمیان محمد بن احمد اسکندرانی، رشید رضا اور طنطاوی جیسے مصنفین نے قرآن مجید کے علمی اعجاز کے سلسلے میں اپنی تالیفات اور تصنیفات پیش کی ہیں جبکہ ایران میں محمد تقی شریعتی، سید محمود طالقانی اور مهدی بازرگان جیسی شخصیات اس میدان کے سرخیل شمار ہوتی ہیں۔

بعض مسلم علما اور دانشور، قرآن مجید کی علمی تفسیر کرنے کے مخالف ہیں۔ ان کے مطابق علمی نظریات میں ہمیشہ تغیر و تبدل کا امکان پایا جاتا ہے اور بعض اوقات ایک علمی نظریہ باطل بھی ہو سکتا ہے۔ اس بنا پر قرآنی تعلیمات پر منطبق علمی نظریات میں تبدیلی قرآنی تعلیمات پر بھی سوالیہ نشان کا موجب بن سکتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف بعض علما قرآن مجید کی علمی تفسیر کے قائل ہیں۔ ان کے مطابق سائنسی ایجادات کو قرآنی تعلیمات پر منطبق کر کے قرآن کی حقانیت اور اسے کلام اللہ ثابت کرنے کی راہ میں ممد و معاون قرار دیے جاسکتے ہیں۔

نظریے کا تعارف

قرآن مجید کے علمی اعجاز کے نظریے کے مطابق اس آسمانی اور الہی کتاب میں مختلف علوم خاص کر سائنسی علوم کے بارے میں بہت سے حقائق بیان ہوئے ہیں۔ ان حقائق کا عصر نزول میں انکشاف نہیں ہو پایا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ دیگر علمی کتابوں کے برخلاف قرآن کے بیان کردہ علمی نظریات بالکل ناقابل نقض ہیں جبکہ انسانوں کے ہاتھوں سے لکھی گئی علمی کتابوں میں موجود نظریات عام طور پر باطل ہوتے ہیں یا ان میں تبدل و تغیر رونما ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس بات پر توجہ دیتے ہوئے کہ قرآن مجید میں بیان شدہ علمی حقائق کا ادراک عصر نزول قرآن میں عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں تھا، ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن نبی مکرم اسلامؐ کا علمی معجزہ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ کتاب ہے۔[1]

تاریخی پس منظر

قرآن مجید کی علمی تفسیر کے سلسلے میں عالم اسلام میں ایک طویل تاریخ موجود ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور فلسفہ دان بو علی سینا(ابن سینا)(370-428 ھ ق) نے پہلی بار اپنے فلسفی نظریات کو قرآن مجید کی چند آیتوں کے ساتھ تطبیق کی ہے۔ اس طرح انہوں نے قرآن مجید کی علمی تفسیر بیان کی ہے؛ فخر رازی (544-606ھ) نے بھی قرآنی اصطلاح "سبع سماوات" سات آسمانوں کا اطلاق ان سات سیاروں پر کیا ہے جو قدیم یونانی فلکیات میں ثابت تھے۔[2] تاہم قرآن کے علمی معجزے کا ثبوت پچھلی صدیوں سے ہی برقرار ہے۔ اس کے علاوہ جدید سائنسی ایجادات اور علمی انکشافات کی بدولت قرآن مجید کی علمی تفسیر پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔[3]

عصر حاضر کے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے بھی قرآن مجید کی علمی تفسیر کے ذیعے اس کے علمی اعجاز پیش کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔[4] قرآن مجید کی علمی تفسیر اور علمی اعجاز کے بارے میں اب تک بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں[5] محمد بن احمد اسکندرانی، رشید رضا اور طَنطاوی جیسے مصنفین وہ پہلے اشخاص ہیں جنہوں نے اس سلسلے میں اپنی تصنیفات شائع کی ہیں۔[6] ایران میں اس میدان میں توصنیفات شائع کرنے والے مصنفین میں محمدتقی شریعتی، سید محمود طالقانی اور مهدی بازرگان سر فہرست ہیں.[7]

قرآن کے علمی اعجاز کے چند نمونے

بہت سے مفسرین نے قرآن مجید کی متعدد آیات کو علمی اعجاز کی حامل آیات قرار دیا ہے۔ یہی آیات قرآن کے علمی لحاظ سے معجزہ ہونے کے نمایاں نمونے ہیں؛ جیسے کرہ زمین کی گردشی اور انتقالی حرکت، پانی کا مایہ حیات ہونا، زمین کی کشش، پودوں اور جانداروں کی جوڑوں سے تولید نسل، سیاروں کا اپنے معین مداروں میں گردش میں رہنا وغیرہ۔[8]

مفسرین نے درجہ ذیل آیات کو قرآن مجید کے علمی لحاظ سے معجزہ ہونے پرثبوت پیش کیا ہے:

  • وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کلَّ شَیءٍ حَی: "اور تمام جاندار چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے" (سورہ انبیاء، آیت 30).

بعض علما نے پانی مایہ حیات ہونے کو سائنسی علوم کے انکشافات کی روشنی میں ثابت ہونے پر اسے قرآن کا علمی معجزہ قرار دیا ہے۔[9]

  • وَمِن کلِّ الثَّمَرَ‌اتِ جَعَلَ فِیهَا زَوْجَینِ اثْنَینِ: "اور ہر طرح کے پھلوں کے دو جوڑے بنائے" (سورہ رعد، آیت 3).

تفسیر نمونہ کے مولف کے مطابق عصر قدیم میں بھی بعض پودوں کا جوڑا ہونا ثابت تھا لیکن اسے اٹھارویں صدی کے وسط میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ یہ ایک عمومی قانون ہے جو تمام پودوں میں پایا جاتا ہے۔ [10]

  • ثُمَّ اسْتَوَیٰ إِلَی السَّمَاءِ وَهِی دُخَانٌ: "پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا" (سورہ فصلت، آیت 11).

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت کائنات کی تخلیق میں اس کی ابتدائی حالت کے بارے میں بگ بینگ(Big Bang Theories) یا عظیم دھماکہ کے نظریہ کو بیان کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آیت میں جس بھاپ کا ذکر آیا ہے وہ بھاپ کا ایسا ڈھیر ہے جو سائنسدانوں کے مطابق بڑے دھماکے سے پیدا ہوا تھا۔[11]

  • وَ مَن یرِ‌دْ أَن یضِلَّهُ یجْعَلْ صَدْرَ‌هُ ضَیقًا حَرَ‌جًا کأَنَّمَا یصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ:‌ "اور (اللہ) جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا کردیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو" (سورہ انعام، آیت 125).

کہا جاتا ہے کہ آج یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسان زمین کی سطح سے جتنا اوپر جاتا ہے، اس کے لیے سانس لینا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ آکسیجن کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے، نتیجتا وہ بے ہوش ہوجاتا ہے۔ پس قرآن کا ایسا انکشاف کرنا اس کا علمی لحاظ سے معجزہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔[12]

تحقیق وجائزہ

قرآن مجید کی علمی تفسیر کرنے کے مخالف حضرات کا کہنا ہے کہ قرآن کتاب ہدایت ہے اور اس سے فزکس اور کیمسٹری اور دیگر سائنسی نظریات اور قوانین کے اظہار کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ان کے اعتقاد کے مطابق علمی نظریات میں ہمیشہ تبدیلی کا امکان موجود ہوتا ہے اور بعض اوقات ایک نظریہ باطل بھی ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں قرآن کے بیان شدہ مطالب پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس قرآن کی علمی تفسیر کو مجاز سمجھنے والے حضرات کہتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیات کو بعض سائنسی اور تجربیاتی مطالب کے ساتھ موازنہ کر کے ایک علمی مطلب کو ثابت کرنا اس کے ہدایت کی کتاب ہونے سے متصادم نہیں ہے۔ اس کے برعکس، قرآن کے سائنسی حقائق کا اثبات اس کی صداقت کو ثابت کرتا ہے اور اس کی رہنمائی میں مدد کرتا ہے۔ [13] قرآن کی علمی تفسیر کو برحق سمجھنے والے حضرات کے مابین چند اختلافی نکات موجود ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں تمام علوم موجود ہیں۔ ان کے مطابق طب، ریاضی، جیومیٹریکل سائنس، الجبرا اور فلکیات جیسے علوم بھی قرآن میں پایے جاتے ہیں۔[14] طنطاوی، محمد عبدالنعیم الجمال، محمد بن احمد اسکندرانی اور سید احمد خان ہندی اس نظریے کے ماننے والے ہیں.[15] بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کی علمی تفسیر کرنے والے بعض حضرات اپنے نظریے میں افراط کا شکار ہوئے ہیں کیونکہ وہ لوگ علمی تفسیر کے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر بعض سائنسی علوم کو بعض قرآنی آیات سے منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حضرات کے مطابق قرآن مجید میں تمام سائنسی علوم بیان نہیں ہوئے ہیں بلکہ قرآن کی بعض آیات میں علوم کے ایسے حقائق بیان ہوئے ہیں جنہیں سائنسی علوم کے ماہرین نے چند صدیوں کے بعد ان کا انکشاف کیا ہے۔ اس طرح کی آیات قرآن مجید کے علمی اعجاز کو بیان کرتی ہیں۔[16] سید قطب، رشید رضا، محمد تقی شریعتی، سید محمود طالقانی اور مہدی بازرگان کا تعلق اس نظریے کے حامل افراد میں سے ہیں۔[17]

علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان کے مقدمے میں قرآن مجید کی علمی تفسیر کے متعلق لکھا ہے کہ قرآن کی علمی تفسیر کے معنی سائنسی علوم اور ںظریات کو قرآنی آیات پر مسلط کرنے کا نام نہیں بلکہ اس عمل کو تطبیق کا نام دینا چاہیے۔[18]

کتابیات

قرآن مجید کی علمی تفسیر کے سلسلے میں اب تک بہت سی کتابیں، مقالہ جات اور مجلے شائع ہوچکے ہیں۔[19] "کشف الأسرار النورانیۃ القرآنیۃ"، "البراہین البینات فی بیان حقائق الحیوانات"، اور "تبیان الأسرار الربانیۃ فی النباتات والمعادن والخواص الحیوانیۃ"، یہ تین کتابیں محمد بن احمد اسکندرانی کی تصنیف ہیں جبکہ رشید رضا کی کتاب المنار اور طنطاوی کی کتاب جواهر القرآنِ قرآن کی علمی تفسیر کے متعلق لکھی گئی پہلی کتابیں ہیں۔ [20] محمد تقی شریعتی کی تصنیف تفسیر نوین بھی اس سلسلے میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں افراط یا تفریط سے دور رہ کرقرآن مجید کے علمی اعجاز کو ثابت کیا ہے۔ [21] محمدہادی معرفت نے اپنی کتاب التمہید کی چھٹی جلد میں اس موضوع کے بارے میں مطالب بیان کیے ہیں۔ [22]

اس سلسلے میں لکھی گئی دوسری چند کتابیں یہ ہیں:

  • پژوہشی در اعجاز علمی قرآن: محمدعلی رضائی اصفہانی
  • الاعجاز التربوی للقرآن: مصطفی رجب
  • موسوعۃ الاعجاز العلمی فی القرآن الکریم والسنۃ المطہرۃ: یوسف الحاج احمد
  • الموسوعۃ العلمیۃ فی اعجاز القرآن الکریم والسنۃ النبویۃ: امجد فتحی و ہانی بن مرعی القلینی
  • موسوعۃ الذہبیۃ فی اعجاز القرآن الکریم والسنۃ النبویۃ: احمد مصطفی متولی
  • من الاعجاز العلمی فی القرآن الکریم: حسن ابوالعینین.[23]

"الاعجاز العلمی فی القرآن والسنۃ" نامی سہ ماہی مجلے کے تیس شمارے اب تک شائع ہوچکے ہیں جن میں قرآن کے علمی لحاظ سے اعجاز ثابت کرنے کے لیے طب، فلکیات، ارضیات، حیاتیات، ریاضی، اقتصاد، تربیت و تعلیم اور سماجیات جیسے موضوعات کو زیر بحث لائے گئے ہیں۔ [24]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. برومند، "بررسی و نقد توجیہ علمی اعجاز قرآن"، ص76-77.
  2. رضایی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1388شمسی، ج1، ص26.
  3. معارف، "جایگاه اعجاز علمی قرآن در تفسیر نوین"، ص83، 84۔
  4. رضائی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1388شمسی، ج1، ص30.
  5. معارف، "جایگاه اعجاز علمی قرآن در تفسیر نوین"، ص83، 84.
  6. رضائی اصفہانی، "چیستی و چالش‌ہای اعجاز علمی قرآن"، ص12و13.
  7. پورحسن، "نقد و بررسی روش تفسیر علمی قرآن"، ص90و91.
  8. معارف، "جایگاه اعجاز علمی قرآن در تفسیر نوین"، ص87.
  9. معرفت، التمہید، 1417ھ، ج6، ص33-35.
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج10، ص119-120.
  11. رضائی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1388شمسی، ج1، ص97-100.
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج5، ص435، 436.
  13. برومند، "بررسی و نقد توجیہ علمی اعجاز قرآن"، ص77-78.
  14. رضائی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1388شمسی، ص47-49.
  15. پورحسن، "نقد و بررسی روش تفسیر علمی قرآن"، ص90.
  16. رضائی اصفہانی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، 1388شمسی، ص47-49.
  17. پورحسن، "نقد و بررسی روش تفسیر علمی قرآن"، ص90-91.
  18. علامہ طباطبائی، المیزان، 1417ق، ص6-9.
  19. رضائی اصفہانی، "چیستی و چالش‌ہای اعجاز علمی قرآن"، ص13.
  20. رضائی اصفہانی، "چیستی و چالش‌ہای اعجاز علمی قرآن"، ص12.
  21. معارف، "جایگاه اعجاز علمی قرآن در تفسیر نوین"، ص84.
  22. رضائی، "منبع‌شناسی اعجاز علمی قرآن"، ص204.
  23. رضائی اصفہانی، "چیستی و چالش‌ہای اعجاز علمی قرآن"، ص13.
  24. رضایی اصفهانی، "چیستی و چالش‌ہای اعجاز علمی قرآن"، ص13.

مآخذ

  • برومند، محمدحسین، "بررسی و نقد توجیہ علمی اعجاز قرآن"، مقالات و بررسی‌ہا، ش71، 1381ہجری شمسی۔
  • پورحسن، قاسم، "نقد و بررسی روش تفسیر علمی قرآن"، پیام جاویدان، ش6، 1384ہجری شمسی۔
  • رضایی، حسن‌رضا، "منبع‌شناسی اعجاز علمی قرآن"، قرآن وعلم، ش7، 1389ہجری شمسی۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، پژوہشی در اعجاز علمی قرآن، رشت، کتاب مبین، چاپ پنجم، 1388ہجری شمسی۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، "چیستی و چالش‌ہای اعجاز علمی قرآن"، قرآن و علم، ش7، 1389ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • معارف، مجید، "جایگاه اعجاز علمی قرآن در تفسیر نوین"، صحیفہ مبین، ش37، 1385ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، 1412ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، چاپ اول،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔