تفسیر بالرائے
| اہم تفاسیر | |
|---|---|
| شیعہ تفاسیر | تفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ |
| سنی تفاسیر | تفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ |
| تفسیری رجحان | |
| تقابلی تفسیر • علمی تفسیر • عصری تفسیر • تاریخی تفسیر • فلسفی تفسیر • کلامی تفسیر • عرفانی تفسیر • ادبی تفسیر • فقہی تفسیر | |
| تفسیری روشیں | |
| تفسیر قرآن بہ قرآن • تفسیر روایی • تفسیر عقلی • تفسیر اجتہادی | |
| اقسام تفسیر | |
| ترتیبی تفسیر • موضوعی تفسیر | |
| اصطلاحات علم تفسیر | |
| اسباب نزول • ناسخ و منسوخ • محکم و متشابہ • تحدی • اعجاز قرآن • جری | |
تفسیر بالرائے، قرآن کی تفسیر کا ایک طریقہ ہے جس میں مفسر، بغیر کسی عقلی یا نقلی دلیل کے، محض اپنی ذاتی رائے یا خواہشات کی بنیاد پر قرآنی آیات کی تشریح کرتا ہے۔ اہل بیت علیہم السلام سے منقول احادیث میں اس قسم کی تفسیر کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ایسے مفسر کے لیے دوزخ کا وعدہ دیا گیا ہے۔
تاریخی تحقیقات کے مطابق تفسیر بالرائے سے متعلق احادیث زیادہ تر دوسری صدی ہجری میں منظر عام پر آگئیں۔ اس بنا پر کہا گیا ہے کہ یقینی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں بھی تفسیر بالرائے سے منع کیا گیا تھا۔
تفسیر بالرائے اور تفسیر اجتہادی میں بنیادی فرق ہے کیونکہ اجتہادی تفسیر معتبر عقلی دلائل اور مستند ذرائع پر مبنی ہوتی ہے، جب کہ تفسیر بالرائے صرف ذاتی رائے پر مشتمل ہوتی ہے۔
علامہ طباطبائی جیسے مفسرین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے جس تفسیر بالرائے کی ممانعت کی گئی ہے اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو ذاتی رائے پر مبنی ہو اور مستند دلائل سے عاری ہو۔ دوسری طرف سے تفسیر بالرائے کے جواز پر مختلف دلائل ذکر کئے گئے ہیں؛ منجملہ ان میں قرآن کا لوگوں کو غور فکر کی دعوت دینا، اجتہاد کا جائز ہونا اور صحابہ کرام کی سیرت کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں تفسیر بالرائے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ کسی معتبر دلیل سے استناد کئے بغیر قرآن کی تفسیر کرنا ممنوع ہے اور صحابہ کا قرآن کی تفسیر میں اختلاف ان کے ذاتی فہم و ادراک میں اختلاف کی وجہ سے ہے نہ تفسیر بالرائے کی بنا پر۔
تعریف اور اہمیت
فیض کاشانی کے بقول تفسیر بالرائے اس تفسیر کو کہا جاتا ہے جو آیات کے ظاہری معانی کی طرف توجہ کئے بغیر کی گئی ہو، جس میں مفسر قرآن کو اپنی ذاتی رائے اور نظریے کی بنا اس طرح تفسیر کرتا ہے کہ اگر مذکورہ نظریہ نہ ہوتا تو وہ اس تفسیر تک نہیں پہنچ پاتا۔[1]
چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے تفسیر بالرائے کی ممانعت[2] اس تفسیر کی طرف اشارہ ہے جو ذاتی رائے پر مبنی ہو اور کسی مستند دلیل سے عاری ہو نہ وہ تفسیر جو علمی اجتہاد کے بل بوتے پر کی گئی ہو۔ علامہ طباطبائی کے مطابق علمی اجتہادی تفسیر اس ممانعت میں شامل نہیں کیونکہ یہ قرآن میں تدبر اور غور و فکر نیز احادیث کو قرآن کے سامنے پیش کرنے کی تاکید کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔ لہٰذا جس تفسیر بالرئے سے ممانعت کی گئی ہے وہ ایسی تفسیر ہے جو سطحی اور ذاتی رائے پر مبنی ہو نہ علمی کوشش اور اجتہاد پر۔[3]
آیت اللہ خوئی (متوفی :1992ء) اپنی تفسیر البیان میں کہتے ہیں کہ جو شخص صرف قرآنی آیات کے ظاہری معانی پر عمل کرے اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے بیان کردہ تخصیصات کو نظر انداز کرے، تو وہ تفسیر بالرائے کا مرتکب ہوتا ہے۔[4]
تفسیر تسنیم کے مصنف آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق ہر وہ تفسیر جو علمی اور عقلی اصولوں کے خلاف یا اخلاقی اقدار سے متصادم ہو، تفسیر بالرائے شمار ہوتی ہے۔[5]
"تفسیر بالرائے" کی اصطلاح قرآن میں صراحت کے ساتھ نہیں آئی ہے۔[6] اور قرآن کی واحد آیت جس میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ سورہ آل عمران آیت نمبر 7 ہے، جس میں بعض مفسرین[7] کے بقول تفسیر بالرائے کی صرف ایک قسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[8] محمد بن مسعود عیاشی(چوتھی صدی ہجری)[9] شیخ طوسی (پانچویں صدی ہجری) [10] اور فیض کاشانی (گیارہویں صدی)[11] جیسے مفسرین نے اپنی کتابوں میں تفسیر بالرائے کی مذمت کے بارے میں بحث کی ہیں۔
بعض شیعہ[12] اور اہل سنت[13] حدیثی کتابوں میں تفسیر بالرائے سے صراحتاً منع کیا گیا ہے۔ ان احادیث کے مطابق اس طرح کی تفسیر نہ صرف بے ایمانی اور اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے، بلکہ اس قسم کی تفسیر کرنے والا جہنم کا مستحق قرار پاتا ہے۔[14] علم اصول فقہ کی کتابوں میں بھی ظواہر قرآن کی حجیت کے ضمن میں تفسیر بالرائے سے بحث کی جاتی ہے۔[15]
احادیث تفسیر بالرائے کا تاریخی پس منظر
قرآنیات کے محقق علی آہنگ تفسیر بالرائے سے منع کرنے والی احادیث جنہیں پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دی جاتی ہے، کی تاریخی تجزیہ و تحلیل کے بعد یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ امام صادقؑ کے دور کے بعد کے شیعہ محدثین حدیث محوری پر اعتقاد رکھنے کی بنا پر اصحاب رائے و قیاس کے خلاف شدت سے سرگرم تھے۔ اس بنا پر تفسیر بالرائے کی حرمت پر مبنی احادیث جنہیں احادیث قدسی کی شکل میں بیان کی جاتی ہیں، عموما دوسری صدی ہجری کے اواخر میں منظر عام پر آگئی ہیں۔[16]
علی آہنگ کی تحقیق کے مطابق اہل سنت حدیثی منابع میں بھی پیغمبر اکرمؐ کی طرف نسبت دی جانے والی احادیث جن میں تفسیر بالرائے سے ممانعت کی گئی ہیں، کا ظہور بھی دوسری صدی ہجری کے دوران ہوا جب "اصحاب الحدیث" اور "اصحاب الرائے" کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ اس بنا پر تفسیر بالرائے کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کے موقف کو یقینی طور پر ثابت کرنا ممکن نہیں ہے اسی طرح پہلی صدی ہجری میں تفسیر بالرائے کا تصور اور اس کی حرمت پر بھی یقینی طور رائے قائم کرنا آسان نہیں ہے۔[17]
تفسیر بالرائے اور عقلی و اجتہادی تفسیر میں فرق
عقلی اور اجتہادی تفسیر علمی بنیادوں پر مبنی ہوتی ہے، جو تفسیر بالرائے کے ساتھ بنیادی اختلاف رکھتا ہے؛ تفسیر بالرائے میں مفسر کسی معتبر عقلی اور نقلی دلائل کے بغیر صرف ذاتی رائے کی بنا پر آیات کی تفسیر کرتا ہے۔ حالانکہ عقلی تفسیر میں عقلی دلائل اور واضح قرائن و شواہد کی مدد سے آیات کے معانی اخذ کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اجتہادی تفسیر بھی معتبر دلائل پر مبنی ہو تو قبول کی جاتی ہے لیکن اگر ان دلائل سے خالی ہو، تو در اصل یہ بھی تفسیر بالرائے ہی کہلائے گی۔[18]
مخالفین کے دلائل
تفسیر بالرائے کی مخالفت میں سب سے بڑی دلیل وہ احادیث ہیں جو شیعہ[19] اور اہل سنت[20] حدیثی منابع میں موجود ہیں جن میں تفسیر بالرائے سے نہی کی گئی ہے۔
آیت اللہ خویی (متوفی: 1992ء)،[21] سید محمدباقر حکیم[22] اور عباس علی عمید زنجانی[23] جیسے علما نے ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے۔
ان احادیث میں تفسیر بالرائے کی مذمت کرتے ہوئے اسے مفسر کی بے ایمانی اور جہنمی ہونے، [24] جہالت اور جھوٹا ہونے کی علامت[25]اور اس قسم کے تفاسیر کے گمراہ کنندہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔[26] اسی طرح بعض دوسری احادیث کے مطابق حتی اگر تفسیر بالرائے صحیح نتیجے تک منتہی ہو تو بھی اس کی مذمت کی گئی ہے۔[27]
ان کے علاوہ سورہ اعراف آیت نمبر 33: «قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْإِثْمَ وَ الْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ أَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَانًا وَ أَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّہِ مَا لَا تَعْلَمُونَ» (ترجمہ: تم کہہ دو! میرے پروردگار نے صرف بے حیائی و بدکاری کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے خواہ ظاہری ہوں یا باطنی۔ اور اثم (ہر گناہ یا شراب) کو اور کسی پر ناحق زیادتی کو اور یہ کہ کسی کو اللہ کا شریک بناؤ جس کے لئے اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ اللہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہو جس کا تمہیں علم و یقین نہ ہو۔) وغیرہ سے استناد کرتے ہوئے مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ تفسیر بالرائے غیر علمی اور غیر یقینی بات ہے اور کسی غیر علمی بات کو خدا کی طرف نسبت دینا حرام ہے۔[28]
موافقین کے دلائل
تفسیر بالرائے کے موافقین بعض قرآنی آیات جیسے سورہ نساء آیت نمبر 82 أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّہِ لَوَجَدُوا فِيہِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (ترجمہ: آخر یہ لوگ قرآن میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے۔) سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کی طرف سے لوگوں کو غور و فکر اور تدبر کی دعوت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی عقل اور فہم و شعور کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنا جائز ہے۔[29] ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ قرآن میں غور و فکر کرنا جائز ہے لیکن تفسیر بالرائے یعنی معتبر عقلی اور نقلی دلائل کی طرف رجوع کئے بغیر قرآن کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنا، جائز نہیں ہے۔[30]
اسی طرح کہتے ہیں کہ اگر تفسیر بالرائے ہر صورت میں ممنوع ہو تو اجتہاد بھی ختم ہو جائے گا اور بہت سارے احکام معطل ہو جائیں گے جب کہ اجتہاد کی ضرورت اور جواز مسلم ہے۔[31] لیکن مخالفین کہتے ہیں کہ تفسیر بالرائے اجتہاد بغیر دلیل ہے، اور یہ ممنوع ہے، جب کہ عقلی اور نقلی معتبر دلائل پر مبنی اجتہاد جائز اور قابل قبول ہے۔[32]
تفسیر بالرائے کے بعض موافقین نے صحابہ کے عمل کے ذریعے تفسیر بالرائے کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ صحابہ بعض اوقات اپنی ذاتی اجتہاد کے ذریعے قرآن کی تفسیر کرتے تھے۔[33] ان کے جواب میں کہا گیا کہ صحابہ کا آپس میں اختلاف رائے، صرف اور صرف ذاتی رائے کی بنا پر نہیں تھا بلکہ ان کا اختلاف احادیث کی دریافت اور ان احادیث سے سمجھ میں آنے والے مطالب کی بنیاد پر تھا اور چونکہ صحابہ معصوم نہیں تھے اس لیے ان کا عمل ہمارے لئے حجت بھی نہیں ہے۔[34]
تفسیر بالرائے کی مثالیں
عمید زنجانی کے مطابق بہت سے متکلمین جیسے فخر رازی، فلاسفہ جیسے اِخوان الصّفا اور عرفاء و صوفیہ جیسے قُشیری وغیرہ غیر ارادی طور پر تفسیر بالرائے کے مرتکب ہوئے ہیں۔[35]
اس بنا پر فخر رازی نے سورہ بقرہ آیت نمبر 6: إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْہِمْ أَأَنْذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (ترجمہ: (اے رسول) جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ ان کے لیے برابر ہے۔ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں۔ بہرحال وہ ایمان نہیں لائیں گے۔) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس آیت کے مطابق عقلی طور پر محال امور پر انسان کو مامور اور مکلف کرنا جائز ہے، کیونکہ کفر اور کفر پر خدا کے علم کو فرض کرنے کے ساتھ انہیں ایمان کی دعوت دینا محال ہے جبکہ اس آیت میں اس محال امر پر انسان کو مکلف بنایا گیا ہے۔[36] اخوان الصفا اور بعض دیگر فلاسفہ نے سورہ الحاقہ کی آیت نمبر 17 وَالْمَلَكُ عَلَىٰ أَرْجَائِہَا وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَہُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَۃٌ (ترجمہ: اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے اور آپ(ص) کے پرورگار کے عرش کو اس دن آٹھ (فرشتے) اٹھائے ہوں گے۔) میں لفظ "ثمانیہ" کو آٹھ آسمانوں کے بطلمیوسی نظریے پر حمل کیا ہے اور بہشت اور جہنم سے مربوط آیات کو انسانی اعمال کے باطنی اور معنوی حالات کا علامتی بیان قرار دیتے ہیں۔[37] قُشیری نے سورہ روم آیت نمبر 15 فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَہُمْ فِي رَوْضَۃٍ يُحْبَرُونَ (ترجمہ: پس وہ لوگ جو ایمان لائے تھے اور نیک عمل کئے تھے وہ باغ (بہشت) میں خوش و خرم اور محترم ہوں گے۔) کو "صوفیانہ سماع" سے تعبیر کیا۔[38]
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اپنی "کتاب تفسیر به رائ و ہرج و مرج ادبی" میں معاصر دور میں تفسیر بالرائے کی چند مثالیں پیش کرتے ہیں جو درحقیقت کمیونزم کی حمایت میں کی گئی ہیں، مثلا سورہ ناس آیت نمبر 4 کی تفسیر میں "وسواس خناس" کو سرمایہ دارانہ نظام کی "پوشیدہ چالاکی" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی اس تفسیر میں وسوسہ ڈالنے والے سے مراد سرمایہ دارانہ نظام کی چالاکیوں تک محدود کی گئی ہے اور جنّ سے مراد سرمایہ دارانہ نظام کے مخفی اور ناپید فعالیتوں سے تعبیر کی گئی ہے۔[39]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1416ھ، ج1، ص39-35۔
- ↑ ابنابیجمہور، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الأحادیث الدینیۃ، 1403ھ، ج4، ص104۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج3، ص76۔
- ↑ خویی، البیان فی تفسیر القرآن، دار الزہراء، ص269۔
- ↑ جوادی آملی، تفسیر تسنیم، 1379ش، ج1، ص175۔
- ↑ شاکر، تفسیر، تاریخ روشہا و رویکردہا، 1396ش، ج3، ص474۔
- ↑ حکیم، علوم القرآن، 1417ھ، ص232۔
- ↑ شاکر، تفسیر، تاریخ روشہا و رویکردہا، 1396ش، ج3، ص474۔
- ↑ عیاشی، تفسیر العیّاشی، 1380ھ، ج1، ص17۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، دار إحیاء التراث العربی، ج1، ض4۔
- ↑ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1416ھ، ج1، ص39-35۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج89، ص107؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص62؛ شیخ صدوق، التوحید، 1416ھ، ص91؛ شیخ صدوق، الخصال، 1362ش، ج1، ص255؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج27، ص205-190۔
- ↑ ابنابیشیبہ، المصنف فی الاحادیث والأخبار، 1407ھ، ج6، ص136؛ نسائی، السنن الکبری، 1411ھ، ج7، ص285؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص200۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1412ھ، ج27، ص190۔
- ↑ آخوند خراسانی، کفایۃ الاصول، 1430ھ، ج2، ض293-292؛ شیخ انصاری، فرائد الأصول، 1419ھ، ج1، ص143-142۔
- ↑ آہنگ، «تفسیر بہ رأی از مفہومی سادہ تا انگارہای فراگیر: نقد و بررسی دیدگاہ مشہور»، ص23-7۔
- ↑ آہنگ، «تفسیر بہ رأی از مفہومی سادہ تا انگارہای فراگیر: نقد و بررسی دیدگاہ مشہور»، ص23-7۔
- ↑ رضایی اصفہانی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری قرآن، 1382ش، ص186۔
- ↑ ابنابیجمہور، عوالی اللئالی، 1403، ج1، ص174؛ ج4، ص104؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1404ھ، ج2، ص107۔
- ↑ ابنابیشیبہ، المصنف فی الاحادیث و الاخبار، 1407ھ، ج6، ص136؛ نسائی، السنن الکبری، 1411ھ، ج7، ص285؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1395ھ، ج5، ص200۔
- ↑ خویی، البیان فی تفسیر القرآن، دار الزہراء، ص267۔
- ↑ حکیم، علوم القرآن، 1417ھ، ص233۔
- ↑ عمید زنجانی، مبانی و روشہای تفسیر قرآن، 1387ش، ص221۔
- ↑ ابنابیجمہور، عوالی اللئالی، 1403، ج1، ص174؛ ج4، ص104؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1404ھ، ج2، ص107۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج27، ص190؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج89، ص107۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص311۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج27، ص202 و 205۔
- ↑ عک، اصول التفسیر و قواعدہ، 1428ھ، ص168۔
- ↑ عک، اصول التفسیر و قواعدہ، 1428ھ، ص169۔
- ↑ رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن، 1378ش، ج2، ص290۔
- ↑ عک، اصول التفسیر و قواعدہ، 1428ھ، ص169؛ رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن، 1378ش، ج2، ص291۔
- ↑ رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن، 1378ش، ج2، ص291۔
- ↑ عک، اصول التفسیر و قواعدہ، 1428ھ، ص170۔
- ↑ رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن، 1378ش، ج2، ص292-291۔
- ↑ عمید زنجانی، مبانی و روشہای تفسیر قرآن، 1387ش، ص261۔
- ↑ عمید زنجانی، مبانی و روشہای تفسیر قرآن، 1387ش، ص261۔
- ↑ عمید زنجانی، مبانی و روشہای تفسیر قرآن، 1387ش، ص261۔
- ↑ عمید زنجانی، مبانی و روشہای تفسیر قرآن، 1387ش، ص261۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر بر رأی و ہرج و مرج ادبی، 1388ش، ص50-49۔
مآخذ
- آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الأصول، تصحیح عباسعلی زارعی سبزواری، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1430ھ۔
- آہنگ، علی، «تفسیر بہ رأی از مفہومی سادہ تا انگارہای فراگیر: نقد و بررسی دیدگاہ مشہور»، در پژوہشنامہ نقد آراء تفسیری، سال پنجم، شمارہ دوم، زمستان 1403ہجری شمسی۔
- ابنابیجمہور، محمد بن زینالدین، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الأحادیث الدینیۃ، تحقیق مجتبی عراقی، قم، مؤسسہ سیدالشہداء(ع)، 1403ھ۔
- ابنابیشیبہ، عبداللہ بن محمد، المصنف فی الأحادیث والأخبار، تصحیح کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبۃ الرشد، 1409ھ۔
- ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق احمد محمد شاکر، مصر، شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی الیاس الحلبی، 1395ھ۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم: تفسیر قرآن کریم، قم، مرکز نشر اسراء، 1379ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، تحقیق و تصحیح گروہ پژوہش مؤسسہ آلالبیت، قم، مؤسسہ آلالبیت، چاپ اول، 1409ھ۔
- حکیم، سید محمدباقر، علوم القرآن، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1417ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیر القرآن، قم، نشر دار الزہراء، بیتا۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، درسنامہ روشہا و گرایشہای تفسیری قرآن، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
- رضایی اصفہانی، محمدعلی، منطق تفسیر قرآن، قم، نشر جامعۃ المصطفی العالمیۃ، 1387ہجری شمسی۔
- شاکر، محمدکاظم، تفسیر، تاریخ، روشہا و رویکردہا، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1396ہجری شمسی۔
- شیخ انصاری، مرتضی، فرائد الاصول، قم، مجمع الفکر الاسلامی، چاپ نہم، 1428ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، التوحید، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1416ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، الخصال، تصحیح علیاکبر غفاری، قم، نشر جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1362ہجری شمسی۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، عیون أخبار الرضا(ع)، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1404ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بیتا۔
- عک، خالد عبدالرحمن، اصول التفسیر و قواعدہ، بیروت، دار النفائس، 1428ھ۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ سوم، 1393ھ۔
- عمید زنجانی، عباسعلی، مبانی و روشہای تفسير قرآن، تہران، نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، 1380ھ۔
- فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسیر الصافی، قم، مؤسسہ الہادی(ع)، 1416ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بِحارُ الاَنوارِ الجامعۃُ لِدُرَرِ اَخبارِ الاَئمۃِ الاَطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر بر رأی و ہرج و مرج ادبی، قم، نسل جوان، 1388ہجری شمسی۔
- نسائی، احمد بن علی، السنن الکبری، تحقیق عبدالغفار سلیمان بندازی، بیروت، منشورات محمدعلی بیضون، 1411ھ۔