پیغمبر امی

ویکی شیعہ سے
(امّی پیامبر سے رجوع مکرر)

پیغمبر اُمّی، حضرت محمدؐ کے اوصاف میں سے ایک ہے جو قرآن میں آپ کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس سے مراد ایسا نبی اور پیغمبر ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو۔ قرآن کے مطابق پیغمبر اسلامؐ کو تورات اور انجیل میں بھی امّی کے نام سے یاد کئے گئے ہیں۔ اُمّی ہونے کو آپؑ کے لیے ایک فضیلت قرار دیا گیا ہے، کیونکہ آپؐ نے کسی کے یہاں تعلیم حاصل کئے بغیر علم لدنی کے ذریعے انسانوں کو ہدایت اور کامیابی کا راستہ دکھایا۔ محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ ایسا نبی جو ناخواندہ اور پڑھنا لکھنا نہ جانتا ہو کا مختلف علوم و حکمتوں پر مشتمل قرآن جیسی کتاب کا لانا ایک عظیم معجزہ ہے۔

قرآن میں اُمّی کی صفت

قرآن میں "اُمّی" کا لفظ چھ بار آیا ہے، جن میں دو بار واحد [1] اور چار بار جمع کی صورت میں ذکر ہوا ہے۔[2] واحد کی دونوں مثالوں میں لفظ امی کے ذریعے نبی اکرمؐ کی توصیف کی گئی ہے۔[3] قرآن کے مطابق تورات و انجیل میں بھی امّی کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی توصیف کی گئی ہے۔[4] شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ کے مطابق اُمّی ہونا نبی اکرمؐ کی خاص صفت ہے جو دوسرے انبیاء میں نہیں پائی جاتی۔[5]

جمع کی صورت میں "اُمّیین"[6] اور "اُمّیون"[7] کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔[8] ان آیات میں اس لفظ کے ذریعے مختلف گروہوں جیسے یہودیوں[9]، عربوں[10] اور مشرکین عرب کی توصیف کی گئی ہے۔[11]

اُمّی کے معانی

اُمّی کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں:[12]

ناخواندہ اور لکھنے پڑھنے سے ناواقف

اُمّی ناخواندہ اور پڑھنا لکھنا نہ جاننے والے کو کہا جاتا ہے۔[13] یعنی ایسا شخص جس نے اپنی زندگی میں لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو اور پڑھنے لکھنے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔[14] پانچویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین شیخ طوسی کے مطابق امّی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو لکھنا نہ جانتا ہو،[15] اسی طرح علامہ طباطبائی لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت سے محروم شخص کو اُمّی قرار دیتے ہیں۔[16] اہل سنت مفسر رشید رضا امی سے مراد وہ شخص لیتے ہیں جس نے کچھ نہ پڑھا ہو اور کوئی علم حاصل نہ کیا ہو۔[17] شہید مطہری اس بات کے معتقد ہیں کہ علماء کی اکثریت نے اس نظریے کو قبول کیا ہے یا اس نظریے کو ترجیح دیتے ہیں۔[18]

بعض مفسرین نے اس بات پر بھی توجہ مرکوز کی ہیں کہ قرآن میں لفظ "اُمی" کے علاوہ بعض آیات[19] میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ لکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔[20]

بہت سارے مغربی مورخین اور مستشرقین جیسے ہمچون جان دیون‌پورت،[21] توماس کارلایل،[22] ویل دورانت[23] و کونستان ورژیل گیورگیو[24]- نے بھی پیغمبر اکرمؐ کے امّی ہونے کو قبول کیا ہے۔

ام القری یعنی مکہ سے منسوب

چونکہ مکہ کو "اُمّ القریٰ" کہا جاتا ہے[25]،[یادداشت 1] بعض مفسرین کا خیال ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کو مکہ سے تعلق ہونے کی بنا پر"پیغمبر اُمّی" کہا گیا ہے۔[26]

امام باقرؑ سے منقول ہے ایک حدیث میں پیغمبر امّی سے مراد مکہ سے تعلق رکھنے والا پیامبر لیا گیا ہے۔[27] امام باقرؑ سے منقول ایک اور حدیث میں پیغمبر امّی کو لکھنا اور پڑھنا نہ جاننے والے کے ذریعے تفسیر کرنے کی مخالفت کی گئی ہے اور اس نظریے کے ماننے والوں پر لعنت کی گئی ہے (كَذَبُوا لَعَنَہُمُ اللَّہُ) اور امی کی اس تفسیر کو سورہ جمعہ کی دوسری آیت[یادداشت 2] سے معارض قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ امی سے مراد ام القری یعنی مکہ سے منسوب شخص ہے۔[28]

آسمانی کتاب سے محروم قوم

بعض کے نزدیک اُمّی اُن لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اہلِ کتاب نہ ہوں۔[29] اسی بنا پر پیغمبر اُمّی اس پیغمبر یا نبی کو کہا جاتا ہے جو ایسی قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہو جن پر کوئی آسمانی کتاب نازل نہیں ہوئی ہو۔[30] اسی بنا پر «اُمیون» جو کہ لفظ امّی کا جمع ہے قرآن میں اس عرب قوم کے لئے استعمال کیا گیا ہے جن کی کوئی کتاب آسمانی نہ ہو۔[31] اور اس تعبیر میں پڑھنے اور لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے عربی لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔[32]

فضیلت یا مذمت

پیغمبر اکرمؐ کے اُمّی ہونے کی صفت کو اس جہت سے فضیلت قرار دی جاتی ہے کہ آپؐ کسی سے تعلیم حاصل کئے بغیر علم لدنی کے حامل تھے۔[33] مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے امی ہونے کے باوجود امت کو جہالت سے نکال کر ہدایت اور فلاح کا راستہ دکھایا[34] اور ایسے شخص کا قرآن جیسی عظیم کتاب کا لانا جو کہ علم و حکمت کا خزانہ ہے، خدا کے معجزات میں شمار کیا گیا ہے۔[35]

اسی وجہ سے بعض محققین اُمّی ہونے کو پیغمبر اکرمؐ کی نبوت کی دلائل میں شمار کرتے ہیں۔[36] اُمی اور پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہ رکھنا گوکہ پیغمبر اکرمؐ کے لئے ایک فضیلت شمار کیا جاتا ہے، لیکن دوسروں کے لئے مذمت شمار کی جاتی ہے۔ قرآن میں اس صفت کو یہودیوں اور عربوں کی مذمت کے لئے استفادہ کیا گیا ہے۔[37] بعض علماء اس صفت تکبر کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فضیلت یا مذمت پر دلالت کرنے یہ صفت تکبر کی طرح ہے یعنی جس طرح تکبر خدا کے لئے کمال جبکہ غیر خدا کے لئے مذمت اور پستی ہے اسی طرح امّی ہونا بھی پیغمبر اکرمؐ کے لئے فضیلت اور کمال جبکہ دوسروں کے لئے مذمت اور پستی ہے۔[37] علامہ طباطبائی المیزان میں قرآن کے اعجاز اور معجزہ کی بحث میں (التحدي بمن أنزل عليہ القرآن) «جس پر قرآن نازل ہوا اس کے ذریعے چیلینج» کے عنوان سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن نے لوگوں کو چیلنج دیا کہ ایک ایسی کتاب جو اپنے الفاظ اور معانی دونوں میں معجزہ ہے، وہ ایسے شخص پر نازل ہوئی جو اُمّی تھا، نہ تعلیم یافتہ تھا اور نہ کسی استاد سے تربیت حاصل کی تھی۔ وہ نبی جو اپنی زندگی کے 40 سال (یعنی اپنی عمر کے دو تہائی حصے) میں نہ کبھی علم کی بات کرتا نظر آیا اور نہ ہی کسی نے آپ سے کوئی شعر یا نثر سنا۔[38]

تفسیر تسنیم کے مصنف آیت اللہ جوادی آملی کا ماننا ہے کہ اگر کسی علمی اور تعلیمی معاشرے میں کوئی نبی ظاہر ہوتا تو یہ کوئی حیران کن بات نہ ہوتی، لیکن ایک ایسے ماحول میں جہاں جہالت عام تھی، ایک اُمّی نبی کا ظہور اور قرآن جیسا معجزہ پیش کرنا ایک روشن مثال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "اگر رات کی تاریکی میں سورج طلوع ہو تو یہی حقیقی معجزہ ہے۔"[39]

احمد مرسل کہ خرد خاک اوست‏ہر دو جہان بستہ فتراک اوست‏
احمد مرسل (ؐ) جن کے آگے عقل عاجز ہےدونوں جہاں جن کی رکاب سے جڑے ہوئے ہیں
امی گویا بہ زبان فصیح‏از الف آدم و میم مسیح‏
ایسے اُمّی جو فصیح زبان سے بولتے ہیںآدم کے الف سے لے کر مسیح کے میم تک
ہمچو الف راست بہ عہد و وفااول و آخر شدہ بر انبیا[40]
عہد و وفا میں الف کی طرح سیدھےاور تمام انبیاء کے لیے اول و آخر ہیں

مونوگراف

  • مطہری، مرتضی، پیامبر امی، تہران انتشارات صدرا، چاپ بیست و ہشتم 1390ہجری شمسی۔[41]

حوالہ جات

  1. سورہ اعراف، آیات 157و 158۔
  2. طرابیشی، من اسلام القران الی اسلام الحدیث، 2010م، ص89۔
  3. طیب، أطیب البیان، 1378ہجری شمسی، ج5، ص477 و ج6، ص4۔
  4. قرشی، تفسیر أحسن الحدیث، 1377ہجری شمسی، ج4، ص17
  5. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج3، ص404۔
  6. سورہ آل‌عمران، آیات20 و 75؛ سورہ جمعہ، آیہ2۔
  7. سورہ بقرہ، آیہ78۔
  8. طرابیشی، من اسلام القران الی اسلام الحدیث، 2010م، ص89۔
  9. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج3، ص563۔
  10. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج7، ص322۔
  11. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج7، ص175۔
  12. طریحی، مجمع البحرین، 1375ہجری شمسی، ج6، ص11۔
  13. قرشی، قاموس قرآن، 1371ہجری شمسی، ج1، ص119۔
  14. ابن منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج12، ص34۔
  15. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج4، ص559۔
  16. طباطبائی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص215۔
  17. رشید رضا، المنار، 1990م، ج2، ص385۔
  18. مطہری، پیامبر امی، 1381ہجری شمسی، ص40۔
  19. سورہ عنکبوت، آیہ48۔
  20. مطہری، پیامبر امی، 1381ہجری شمسی، ص36-40
  21. دیون‌پورت، عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن، 1344ہجری شمسی، ص17-18۔
  22. مطہری، مجموعہ آثار شہید مطہری، انتشارات صدرا، ج3، ص206-207۔
  23. جواہری، پاسخ بہ شبہات اعجاز و تحدی، 1397ہجری شمسی، ص226۔
  24. جواہری، پاسخ بہ شبہات اعجاز و تحدی، 1397ہجری شمسی، ص227۔
  25. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج7، ص38۔
  26. فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج2، ص242؛حسینی شیرازی، تبیین القرآن، 1423ھ، ص182۔
  27. عیاشی، التفسیر، 1380ھ، ج2، ص31۔
  28. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ج1، ص226۔
  29. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص375۔
  30. طرابیشی، من اسلام القرآن الی اسلام الحدیث، 2010م، 89-90۔
  31. راغب اصفہانی، مفردات ألفاظ القرآن، 1412ھ، ص87۔
  32. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج19، ص91۔
  33. ربیع‌نیا، «امی»، ص400۔
  34. مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج3، ص404۔
  35. ربیع‌نیا، «امی»، ص400۔
  36. قرشی، قاموس قرآن، 1371ہجری شمسی، ج1، ص120۔
  37. 37.0 37.1 ربیع‌نیا، «امی»، ص400۔
  38. طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج1، ص63۔
  39. https://javadi.esra.ir/fa/w/تفسیر-سوره-جمعه-جلسه-01-1397/01/14-
  40. مطہری، یادداشتہا، ج9، ص74۔
  41. معرفی کتاب پیامبر امی

نوٹ

  1. مکہ کو اس بنا پر «ام القری» کہا جاتا ہے کہ یہاں سے دحو الارض کا آغاز ہوا ہے۔ فیض کاشانی،‌ تفسیر الصافی، 1415ھ، ج2، ص138۔
  2. ہُوَ الَّذِی بَعَثَ فی الْأُمِّینَ رَسُولًا مِّنہُْمْ یتْلُواْ عَلَیہِْمْ ءَایاتِہِ وَ یزَکیہِمْ وَ یعَلِّمُہُمُ الْکتَابَ وَ الحِْکمَۃَ؛ وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اُمّی قوم میں انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاکیزہ بناتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔۔۔۔

مآخذ

  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دارصادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • حسینی شیرازی، سید محمد، تبیین القرآن، بیروت، دارالعلوم، چاپ دوم، 1423ھ۔
  • جواہری، سید محمدحسن، پاسخ بہ شبہات اعجاز و تحدی، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1397ہجری شمسی۔
  • دیون‌پورت، جان، عذر تقصیر بہ پیشگاہ محمد و قرآن، ترجمہ سعیدی، تہران، نشر انتشار، 1344ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بیروت، دارالقلم، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ربیع‌نیا، ابوطالب، «امی»، دائرہ المعارف قرآن کریم، ج14۔ قم، بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی۔
  • رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
  • زمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق قصیرعاملی، احمد، بیروت، داراحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد(ص)، محقق محسن کوچہ باغی، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، اعلمی، بیروت، چاپ دوم، 1393ھ۔
  • طرابیشی، جرج، من اسلام القرآن الی اسلام الحدیث، بیروت، دارالساقی،‌2010ء۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، محقق احمد حسینی اشکوری، تہران، مرتضوی، 1375ہجری شمسی۔
  • طیب، سید عبد الحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1389ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فیض کاشانی، ملامحسن، تفسیر الصافی، تحقیق حسین اعلمی، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • قرشی، سید علی‌اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، چاپ سوم، 1377ہجری شمسی۔
  • قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ ششم، 1371ہجری شمسی۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ اول، 1364ہجری شمسی۔
  • مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، 1360ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، پیامبر امی، تہران، صدرا، 1381ہجری شمسی۔
  • ‌ مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار شہید مطہری، قم، انتشارات صدرا، [بی‌تا]۔
  • مغنیہ، محمد جواد، تفسیر الکاشف، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1424ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
  • دفتر مرجعیت، آیت اللہ جوادی آملی، تفسیر سوره جمعه جلسه 1