مندرجات کا رخ کریں

عبد اللہ جوادی آملی

ویکی شیعہ سے
(آیت اللہ جوادی آملی سے رجوع مکرر)
عبد اللہ جوادی آملی
آیت اللہ جوادی آملی
کوائف
مکمل نامعبد اللہ جوادی آملی
تاریخ ولادتسنہ 1933 ء
آبائی شہرآمل۔
علمی معلومات
مادر علمیآمل، تہران، قم۔
اساتذہآیت اللہ بروجردیعلامہ سید محمد حسین طباطبائیسید محمد محقق دامادامام خمینی۔
تالیفاتتفسیر تسنیم، مفاتیح الحیات، رحیق مختوم، زن در آیینہ جمال و جلال، شریعت در آیینہ معرفت، ادب فنای مقربان (شرح زیارت جامعہ کبیرهتوضیح المسائل و ...
خدمات
سیاسیعضو مجلس خبرگان قانون اساسی، نمایندگی دوره اول و دوم مجلس خبرگان رہبری، امام جمعہ قم۔


عبد اللہ جوادی آملی (ولادت 1933 ء)، فلسفی، فقیہ، مفسر قرآن، استاد حوزہ علمیہ قم اور پندرہویں صدی ہجری کےشیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ وہ امام خمینی اور علامہ طباطبائی کے شاگرد ہیں اور تقریبا 60 برسوں سے قم و تہران کے حوزات علمیہ میں فلسفہ، عرفان، فقہ و تفسیر جیسے علوم کی تدریس میں مشغول ہیں۔ انہوں نے بہت سی کتابیں تالیف کی ہیں جن میں تفسیر تسنیم اور رحیق مختوم (شرح اسفار اربعہ) شامل ہیں۔

جوادی آملی انقلاب اسلامی ایران کے بعد سے سپریم جوڈیشنل کونسل، مجلس خبرگان قانون اساسی، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم اور مجلس خبرگان رہبری جیسے اداروں میں رکن کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ اسی طرح سے وہ 1991ء اور 2000ء کی دہائیوں میں شہر قم کے امام جمعہ بھی رہ چکے ہیں۔ سنہ 1987 ء میں وہ سابق متحدہ روس کے رہبر گورباچوف کو امام خمینی کا خط پہنچانے کی ذمہ داری بھی ادا کر چکے ہیں۔

جوادی آملی فلسفہ میں حکمت متعالیہ کے پیرو ہیں۔ وہ علوم انسانی و سائنسی علوم کے دائرہ کار میں علوم دینی کے وجود کو قبول کرتے ہیں۔ ان کے بعض متفاوت و مختلف فتاوی میں خواتین کے لئے خاتون مرجع تقلید کی تقلید کا جواز، جواز تغییر جنسیت اور طہارت اہل کتاب جیسے فقہی مسائل شامل ہیں۔

سوانح عمری

عبد اللہ جوادی آملی سنہ 1933 ء کو ایران کے شہر آمل میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد اس شہر کے علما میں سے تھے۔[2] سنہ 1946ءمیں انہوں نے حوزہ علمیہ آمل میں اپنی دینی تعلیم کا آغاز کیا اور 5 سال کی مدت میں عربی ادب، منطق، اصول فقہ، فقہ، تفسیر قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔[3]

سنہ 1950ء میں وہ تہران گئے اور وہاں مدرسہ مروی میں 5 سال تک تحصیل علم میں مشغول رہے۔ اس عرصہ میں انہوں نے محمد تقی آملی، ابو الحسن شعرانی، مہدی الہی قمشہ ای اور محمد حسین تونی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ انہوں نے فقہ و اصول کے ساتھ فلسفہ و عرفان کی تعلیم بھی حاصل کی اور ساتھ ہی ساتھ وہ حوزوی دروس کی تدریس بھی کرتے رہے۔[4] سنہ 1955ءمیں وہ حوزہ علمیہ قم میں وارد ہوئے اور حوزہ کے تخصصی دروس کو آیت اللہ بروجردی، آیت‌ الله سید محمد محقق داماد، میرزا ہاشم آملی، امام خمینی اور علامہ طباطبایی جیسے علماء سے حاصل کیا۔[5]

تدریس

تفسیر تسنیم

جوادی آملی نے حوزوی دروس کی تدریس کی ابتداء جوانی میں ہی اسی زمانہ میں کر دی تھی جب وہ تہران کے مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔[6] ان کے علمی کارناموں میں سے ایک ان کا 60 سالہ تدریسی سلسلہ ہے جس میں انہوں نے حوزہ کے مختلف موضوعات کے دروس جیسے فقہ، فلسفہ، عرفان و تفسیر قرآن تدریس کئے۔ اس عرصہ میں انہوں نے حوزہ علمیہ قم میں ملا صدرا کی کتاب اسفار اربعہ بھی تین دورے تدریس کی ہے۔[7]

آیت اللہ جوادی آملی نے درس تفسیر کا سلسلہ سنہ 1976ءمیں شروع کیا اور 12 جون سنہ 2020ءکو یہ دورہ اختتام کو پہنچا [8] ان کا درس تفسیر اور درس خارج فقہ قم کی مسجد اعظم میں منعقد ہوتے ہیں۔[9] جوادی آملی کے اپنے کہنے کے مطابق انہوں نے درس تفسیر کو سنہ 1400ھ میں شروع کیا اور سنہ 1441ھ کو اختتام ہوا۔[10]

شاگرد

آیت‌الله جوادی آملی نے 55 سال کا ایک طویل عرصہ دینی علوم کی تدریس میں گزارا۔ اس دوران ہزاروں شاگردوں نے ان سے کسب فیض کیا؛ ان کے بعض شاگرد یہ ہیں:

افکار و نظریات

ان کے بعض شاگردوں کے مطابق ان کے افکار کی مرکزیت حکمت متعالیہ کے نظریہ پر استوار ہے۔ لہذا وہ عقل و عرفان و قرآن میں ہم آہنگی کا نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان تینوں کی تعلیمات میں ناہمانگی نہیں پائی جاتی ہے۔[14] ان کے نظریہ کے مطابق عقل، دین کے مقابل میں نہیں ہے؛ بلکہ عقل دین کے لیے چراغ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس سے عقیدتی ا ور اخلاقی تعلیمات اور دین کے فقہی اور قانونی اصول کے فہم کی راہ میں استفادہ کیا جا سکتا ہے۔[15]

علم دین

جوادی آملی علم دینی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے نظریات کے مطابق عقل سے مراد محض عقل نظری نہیں ہے بلکہ اس میں عقل عملی بھی شامل ہے اور یہی سبب ہے کہ دینی علوم سائنس، طبیعیات و علوم انسانی کو بھی شامل ہیں۔[16] ان کا ماننا ہے کہ علم بذات خود دین سے تعارض نہیں رکھتا ہے۔[17] سائنسی علوم ہمیں جہان طبیعت کی شناخت کراتے ہیں اور اس جہت سے کہ جہان خود بھی مخلوق خدا ہے، یہ علوم ہمیں فعل خدا کا نظارہ کراتے ہیں۔ لہذا ان علوم کو دینی سمجھنا چاہئے۔[18]

وہ اس استدلال سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ علم اگر واقعی و حقیقی علم ہے تو وہ غیر دینی و الحادی ہو ہی نہیں سکتا ہے۔[19]

سیاسی نظریات

جوادی آملی نظریہ ولایت فقیہ کے حامی ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ولایت فقیہ، ولایتِ فقاہت و عدالت میں تین طرح کے دلائل، دلیل عقلی محض، دلیل مرکب از عقل و نقل (روایت) اور دلیل نقلی محض، ذکر کئے ہیں۔[20] ان کی دلیل مرکب از عقل و نقل کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طرف تو اسلام میں سماجی و سیاسی احکام جیسے حج،[21] جہاد،[22] حدود و تعزیرات[23] اور مالی قوانین جیسے انفال و خمس[24] موجود ہیں جن کا اجرا معصوم کی غیبت کے زمانہ میں فقط فقیہ جامع الشرایط کے ذریعہ ہی ممکن ہے[25] تو دوسری طرف عقل حکم کرتی ہے کہ خداوند عالم نے غیبت معصوم کے زمانہ میں اسلامی معاشرہ کو بے سر پرست نہیں چھوڑا ہے، لہذا اس عرصہ میں جامع الشرایط فقہاء، معصومینؑ کے جانشین کے طور پر معاشرےکی سرپرستی کرنے کے ذمہ دار ہیں۔[26]

مخصوص فتاوی

آیت اللہ جوادی آملی کی توضیح المسائل میں دوسرے فقہاء کی توضیح المسائل کے بر خلاف فِرَق و مذاہب، انتخابات، تذہیب قرآن، حق تالیف و نشر، قرض کو دوسرے کے حوالے کرنا، افراط زر کی صورت میں اضافی پیسے کی ادائیگی، پوسٹ مارٹم، تغییر جنسیت، عزاداری، حوادث میں امداد رسانی اور احکام اہل کتاب جیسے موضوعات کے احکام بیان ہوئے ہیں۔[27]

خواتین کے لئے خاتون اعلم مرجع تقلید کی تقلید کا جائز ہونا،[28]تغییر جنسیت کا جواز[29] اور طباعت، ترجمہ، سافٹ ویئرز کی تولید و نشر کے حق کا محفوظ ہونا[30] وغیرہ ان کے مختلف فتاوی میں سے ہیں۔

سیاسی و سماجی کارنامے

جوادی آملی، امام خمینی کا خط دینے کے سلسلہ میں سابق روسی صدر میخائیل گورباچوف سے ملاقات کرتے ہوئے۔

اگرچہ جوادی آملی کے زیادہ کام علمی حوالے سے رہے ہیں۔ اس کے باجود وہ انقلاب اسلامی ایران سے پہلے بھی اور بعد میں بھی سیاسی و سماجی امور میں برابر شریک رہے ہیں۔ انقلاب اسلامی سے قبل وہ امام خمینی کے نظریات کے مروج رہے ہیں، جس کے سبب انہیں کئی بار تبلیغ اور تقریر سے منع کیا گیا اور متعدد مرتبہ انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔[31]

انقلاب اسلامی کے بعد ایران کی سپریم جوڈیشل کونسل کی رکنیت، [32] عدالتی قوانین و لائحات کے نوٹس کی تیاری،[33] دو بار مجلس خبرگان رہبری کی رکنیت اور جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی رکنیت جیسے عہدوں پر ان کی خدمات و فعالیت رہی ہیں۔[34]

جوادی آملی نے سنہ 1997ء میں آیت اللہ منتظری کی تقریر کے خلاف مسجد اعظم قم میں منعقدہ مظاہرے میں شرکت کی۔[35] اسی طرح سے انہوں نے سنہ 1999ء میں آیت اللہ مصباح کے خلاف شائع ہونے والے کارٹون کے خلاف منعقدہ دھرنے میں تقریر کرتے ہوئے حکومت وقت کی ثقافتی پالیسیوں پر تنقید کی۔[36]

وہ 1991ء اور 2020ء کی دہائیوں میں شہر قم کے امام جمعہ بھی رہے۔[37] انہوں نے سنہ 2009ء میں نماز جمعہ کی امامت کے عہدہ سے استعفا دے دیا۔[38]

سابق سویت یونین، امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سفر

جوادی آملی کو سنہ 1989ء میں محمد جواد لاریجانی اور مرضیہ حدیدہ چی [39] کے ہمراہ امام خمینی کا خط سابق متحدہ روس کے آخری رہبر میخائیل گورباچوف کو پہنچانے اور ان کے سامنے پڑھنے کی ذمہ داری دی گئی۔[40] انہوں نے اس ملاقات کے بعد امام خمینی کے پیغام پر آوای توحید کے نام سے ایک شرح لکھی اور یورپ کی جانب بعد کے سفروں میں اس کتاب کو یورپ کی بعض مذہبی شخصیتوں کو بطور تحفہ بھیجا۔ اس سفر کے دوران انہوں نے فرانس، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، جرمنی، اٹلی، انگلینڈ، شام اور لبنان کا دورہ کیا اور مذہبی شخصیات کے سامنے امام خمینی کے نقطہ نظر بیان کیا۔[41] انہوں نے سنہ2000ء میں "ہزارہ ادیان" نامی کانفرنس میں جمہوری اسلامی ایران کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای کے پیغام کو پڑھنے کے لئے نیویارک (امریکہ) سفر کیا۔[42]

مرکز اسراء اور ادارہ امام حسن عسکریؑ کا قیام

شہر قم کے علمی مراکز میں سے ایک بنیاد بین‌المللی علوم وحیانی اِسراء نامی ادارہ آیت اللہ جوادی آملی کے زیر نظر کام کرتا ہے۔ جس کا مقصد ان کے نظریات کے مطابق علوم اسلامی کی تبیین و تشریح اور اسی طرح سے علوم اسلامی کے سلسلہ میں محققین کو تعلیم و تربیت دینا ہے۔[43] اسی طرح سے جوادی آملی کے زیر نظر ایک اور ادارہ جس کا نام مؤسسہ آموزش عالی حوزوی امام حسن عسکری (ع) ہے، وہ بھی کام کرتا ہے جس کی سنہ 2008ء میں شہر آمل میں بنیاد رکھی گئی۔[44]

آثار و تالیفات

جوادی آملی نے مختلف موضوعات جیسے فقہ، تفسیر، فلسفہ و حدیث پر کتاب تالیف کی ہے۔ سنٹر فار سٹریٹیجک سٹڈیز سلطنت اردن کے مطابق جوادی آملی کی 300 سے زیادہ کتابیں شائع کی گئی ہیں۔[45] ان کی تفسیر کا نام تسنیم ہے۔[46] 80 جلدوں پر مشتمل اس تفسیر کی ترتیب و تدوین کا کام سنہ 2023ء میں اختتام پذیر ہوا ہے۔[47]

ان کی ایک دوسری تالیف رحیق مختوم ہے جو ملا صدرا کی کتاب اسفار اربعہ کی تیسری بار تدریس کا نتیجہ ہے[48] جس کی 35 ویں جلد سنہ 2020ء میں شائع ہوئی ہے۔[49]

ان کی دوسری تصنیفات میں مفاتیح الحیات، زن در آیینہ جمال و جلال، شریعت در آیینہ معرفت، ادب فنای مقربان (شرح زیارت جامعہ کبیره) اور توضیح المسائل وغیرہ شامل ہیں۔

منتخب تالیفات

حوزہ علمیہ قم کی جانب سے سالانہ کی بنیاد پر منعقد ہونے والے پانچویں "منتخب کتاب سال حوزہ کانفرنس" میں بہترین کتاب منتخب کرنے والی کمیٹی کی جانب سے سنہ 2003ء میں جوادی آملی کی کتاب «دین شناسی» منتخب کتاب قرار پائی۔[50]

نیز سنہ 2004ء میں ان کی کتاب «حیات حقیقی انسان در قرآن» بہترین کتاب انتخاب کرنے والی فیصلہ ساز کمیٹی نے چھٹے "منتخب کتاب سال حوزہ کانفرنس" میں منتخب کتاب قرار دی۔[51]

اسی طرح جوادی آملی کی کتاب «تحریر ایقاظ النائمین» کو سنہ 2016ء میں بہترین کتاب منتخب کیے جانے والے 18 ویں کانفرنس میں سال کی بہترین کتابوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔[52]

تجلیلی کانفرنس میں اعزاز

سنہ 2015ء میں تہران میڈیکل یونیورسٹی کی طرف سے آیت اللہ جوادی آملی کی علمی کارکردگی کے اعزاز میں ان کی تجلیل کے لیے میں «طبیب روحانی کانفرنس» میں ان کی علمی خدمات کو سراہا گیا۔ اس کانفرنس میں کثیر تعداد میں یونیورسٹی کے طلباء، علماء اور کچھ ایرانی سیاسی حکام موجود تھے۔[53]

سنہ 2009ء سے لے کر سنہ 2022ء تک، اردن میں رائل سینٹر فار اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز کی طرف سے اسلامی دنیا کی 500 اثر گزار شخصیات کی سرفہرست میں آیت اللہ جوادی آملی کا نام بھی شامل کیا گیا۔[54]

سنہ 2013ء میں منعقدہ 15 ویں «کتاب سال حوزہ کانفرنس» میں جوادی آملی کو ممتاز علمی شخصیت کے طور پر اعزاز سے نوازا گیا۔[55]

حوالہ جات

  1. «زندگی ‌نامہ حضرت آیت الله جوادی آملی از زبان خودشان»، وبگاه پایگاه اطلاع ‌رسانی حوزه، 18 تیر 1385ش، دیده‌ شده در 25 اردیبہشت 1397۔
  2. وبگاه«زندگی‌ نامہ حضرت آیت الله جوادی آملی از زبان خودشان»، وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، 18 تیر 1385ش، دیده ‌شده در 25 اردیبهشت 1397۔
  3. بند علی، مہر استاد، 1391، ص37۔
  4. «حیات علمی و قرآنی آیت ‌الله جوادی آملی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌ شده در 29 اردیبهشت 1397۔
  5. «حیات علمی و قرآنی آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌ شده در 29 اردیبہشت 1397۔
  6. «حیات علمی و قرآنی آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌ شده در 29 اردیبہشت 1397۔
  7. «حیات علمی و قرآنی آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده ‌شده در 29 اردیبہشت 1397۔
  8. «حیات علمی و قرآنی آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌ شده در 29 اردیبهشت 1397 ۔
  9. «برنامہ دروس آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، 30 شهریور 1389، دیده‌ شده در 29 اردیبهشت 1397۔
  10. داستان شکل‌گیری تفسیر تسنیم. خبرگزاری ایکنا۔
  11. «شب‌زنده‌دار کیست؟»، خبرگزاری فارس۔
  12. «زندگی‌نامہ حضرت حجہ الاسلام والمسلمین سید محمد رضا مدرسی یزدی»، سایت جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم۔
  13. «طہ محمدی، غیاث‌ الدین»، وبگاہ دبیرخانہ مجلس خبرگان رہبری۔
  14. مصطفی ‌پور، «منظومہ فکری آیت الله جوادی آملی»، وبگاه پژوهشگاه معارج، دیده ‌شده‌ در 25 تیر 1396ش۔
  15. واعظی، «علم دینی از منظر آیت ‌الله جوادی آملی»، ص10۔
  16. واعظی، «علم دینی از منظر آیت ‌الله جوادی آملی»، ص11و12۔
  17. واعظی، «علم دینی از منظر آیت‌ الله جوادی آملی»، ص15. ۔
  18. واعظی، «علم دینی از منظر آیت‌ الله جوادی آملی»، ص16۔
  19. واعظی، «علم دینی از منظر آیت‌ الله جوادی آملی»، ص16۔
  20. نگاه کریں جوادی آملی، ولایت فقیہ، 1378، ص150 تا184۔
  21. نگاه کریں جوادی آملی، ولایت فقیہ، ص168. ۔
  22. نگاه کریں جوادی آملی، ولایت فقیہ، ص168. ۔
  23. نگاه کریں جوادی آملی، ولایت فقیہ، 1378، ص170۔
  24. نگاه کریں جوادی آملی، ولایت فقیہ، 1378، ص171و172۔
  25. نگاه کریں جوادی آملی، ولایت فقیہ، 1378، ص168۔
  26. نگاه کریں جوادی آملی، ولایت فقیہ، 1378، ص168۔
  27. روزنامہ جمہوری اسلامی، 12 مہر 1395، ص12۔
  28. جوادی آملی، عبدالله، رسالہ عملیہ، ج اول، ص22۔
  29. جوادی آملی، عبدالله، رسالہ عملیہ، ج اول، ص401۔
  30. جوادی آملی، عبدالله، رسالہ عملیہ، ج اول، ص390۔
  31. بند علی، سعید، مہر استاد، نسخہ الکترونیک، 1391، ص191 و 192۔
  32. بند علی، سعید، مہر استاد، نسخہ الکترونیک، 1391، ص201۔
  33. بند علی، سعید، مہر استاد، نسخہ الکترونیک، 1391، ص204 ۔
  34. مدرسی، تاریخچہ زندگی آیت‌ الله شیخ عبدالله جوادی آملی۔
  35. مدرسی، تاریخچہ زندگی آیت‌ الله شیخ عبدالله جوادی آملی۔
  36. مدرسی، تاریخچہ زندگی آیت‌ الله شیخ عبدالله جوادی آملی۔
  37. نگاه کریں «خطبہ های نماز جمعہ»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌ شده در 6 خرداد 1397۔
  38. «آخرین خطبہ نماز جمعه آیت‌ الله جوادی آملی قرائت شد»، وبگاه خبرگزاری فارس، 6 آذر 1388، دیده‌ شده در 24 تیر 1396۔
  39. «ماجرای نامہ امام بہ گورباچف بہ قلم حضرت آیت الله جوادی آملی»، وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، 12 بہمن 1395، دیده ‌شده در 1 خرداد 1397۔
  40. مدرسی، تاریخچہ زندگی آیت‌ الله شیخ عبدالله جوادی آملی۔
  41. مدرسی، «تاریخچه زندگی آیت‌الله شیخ عبدالله جوادی آملی».۔
  42. مدرسی، تاریخچہ زندگی آیت‌ الله شیخ عبدالله جوادی آملی۔
  43. اساس نامہ بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، وبگاه مرکز پژوهش‌ ہای مجلس، 24 آذر 1392، دیده‌ شده در 26 تیر 1396۔
  44. نیم ‌نگاہی بہ بنیاد بین‌المللی علوم وحیانی اِسراء، افق حوزه، ص12۔
  45. The Muslim, 500, 2023, p114۔
  46. رجوع کیجیے: جوادی آملی، تسنیم، 1388شمسی، ج1، ص25. رجوع کیجیے: جوادی آملی، تسنیم، 1388شمسی، ج1، ص25 ۔
  47. «انتشار جلد 45 تفسیر تسنیم»، وبگاه مرکز بین‌المللی نشر اسراء، دیده‌شده در 11 خرداد 1397۔
  48. «حیات علمی و قرآنی آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده ‌شده در 29 اردیبهشت 1397۔
  49. «رونمایی از جلدہای 17 تا 20 رحیق مختوم در کنگره بین المللی توسعہ و تعالی علوم بر پایہ عقلانیت وحیانی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، 15 اردیبہشت 1397، دیده‌ شده در 29 اردیبہشت 1397۔
  50. دبیرخانہ ہمایش کتاب سال حوزه، ویژہ نامہ پنجمین ہمایش کتاب سال حوزه، 1382، ص19۔
  51. دبیرخانہ ہمایش کتاب سال حوزه، ویژه‌ نامہ ششمین ہمایش کتاب سال حوزه، 1383شمسی، ص22-24۔
  52. دبیرخانہ ہمایش کتاب سال حوزه، ویژه‌ نامہ ہجدہمین ہمایش کتاب سال حوزه، 1395شمسی، ص39۔
  53. «همایش طبیب روحانی؛ بزرگداشت آیت‌ الله جوادی آملی»، خبرگزاری صداوسیما۔۔
  54. «حضرت آیت الله جوادی آملی در فہرست 500 شخصیت برتر مسلمان جہان»، خبرگزاری بین المللی شفقنا۔۔
  55. دبیرخانہ ہمایش کتاب سال حوزه، ویژہ نامہ پانزدہمین ہمایش کتاب سال حوزه، 1392شمسی، ص78-80۔۔

مآخذ

  • «آخرین خطبہ نماز جمعہ آیت‌ الله جوادی آملی قرائت شد»، وبگاه خبر گزاری فارس، 6 آذر 1388، دیده‌ شده در 24 تیر 1396۔
  • «اساس نامہ بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء»، وبگاه مرکز پژوهش‌ ہای مجلس، 24 آذر 1392، دیده‌ شده در 26 تیر 1396۔
  • «انتشار جلد 45 تفسیر تسنیم»، وبگاه مرکز بین‌المللی نشر اسراء، دیده‌ شده در 11 خرداد 1397۔
  • «برنامہ دروس آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، 30 شہریور 1389، دیده‌ شده در 29 اردیبہشت 1397۔
  • بند علی، سعید، مہر استاد، نسخہ الکترونیک، نرم افزار حکیم۔
  • جوادی آملی، عبد الله، تسنیم، تحقیق علی اسلامی، قم، مرکز نشر اسراء، چاپ ہشتم، 1388۔
  • جوادی آملی، عبد الله، رسالہ عملیہ، نسخہ الکترونیک، ج اول۔
  • جوادی آملی، عبد الله، ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، تنظیم محمد محرابی، قم، مرکز نشر اسراء، چاپ اول، 1378۔
  • «حیات علمی و قرآنی آیت‌ الله جوادی آملی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌ شده در 29 اردیبہشت 1397۔
  • نگاه کریں «خطبہ ہای نماز جمعہ»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌شده در 6 خرداد 1397۔
  • «دفاتر معظم‌ لہ»، وبگاه بنیاد بین‌ المللی علوم وحیانی اسراء، دیده‌ شده در 6 خرداد 1397۔
  • «زندگی‌ نامہ حضرت آیة الله جوادی آملی از زبان خودشان»، وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، 18 تیر 1385ش، دیده‌ شده در 25 اردیبہشت 1397۔
  • روزنامہ جمہوری اسلامی، دوشنبہ 12 مہر 1395ش۔
  • «رونمایی از جلدہای 17 تا 20 رحیق مختوم در کنگره بین المللی توسعہ و تعالی علوم بر پایہ عقلانیت وحیانی»، وبگاه بنیاد بین المللی علوم وحیانی اسراء، 15 اردیبهشت 1397، دیده‌ شده در 29 اردیبهشت 1397۔
  • غفاریان، متین، «گفتگوی خردمندانہ»، گزارشی از مناظره انتقادی آیت الله حائری یزدی و آیت الله جوادی آملی درباره ولایت، در مجلہ خردنامہ ہمشہری، 25 فروردین 1384 - شماره 46 (ص 8 تا 11)۔
  • «ماجرای نامہ امام بہ گورباچف بہ قلم حضرت آیت الله جوادی آملی»، وبگاه پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه، 12 بہمن 1395، دیده‌ شده در 1 خرداد 1397۔
  • مدرسی، فرید، «تاریخچہ زندگی آیت‌ الله شیخ عبد الله جوادی آملی»، شہروند، ش55، تیر1387۔
  • مصطفی‌ پور، محمدرضا، «منظومہ فکری آیت الله جوادی آملی»، وبگاه پژوهشگاه معارج، دیده‌ شده‌در 25 تیر 1396ش۔
  • «نیم‌ نگاہی بہ بنیاد بین‌ المللی علوم وحیانی اِسراء»، افق حوزه، ش364، 1 خرداد 1392۔
  • واعظی، احمد، «علم دینی از منظر آیت الله جوادی آملی»، روش‌ شناسی علوم انسانی، ش54، 1387۔