فتوا

ویکی شیعہ سے
(افتا سے رجوع مکرر)

فتوا مکلف کی شرعی ذمہ داری کے بارے میں مجتہد یا مرجع تقلید کی رائے کو کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ (قرآن، سنت، اجماع اور عقل) سے مستنبط ہوتی ہے۔ شیعہ فقہاء کے مطابق عدالت، شیعہ اثناعشری ہونا، اعلم ہونا، حلال‌زادہ ہونا اور شرعی حکم کے استبناط میں درکار علوم اور طریقوں سے آشنا ہونا فتوا دینے والے کی شرائط میں سے ہیں۔

بسا اوقات فتوا واجب، حرام، مکروہ، مستحب اور مباح جیسے الفاظ میں بیان ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار فتوا بیان کرنے کے لئے «اقوی یہ ہے»، «بنا براقوی» اور «اظہر یہ ہے» جیسے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ خود مفتی کی زبان سے سننا، دو عادل اشخاص کی گواہی، یا ایک عادل یا مورد اطمینان جس کے کہنے پر اطمینان حاصل ہو کی طرف سے خبر دینے، یا متعلقہ مرجع تقلید کی توضیح المسائل میں فتوا کا پانا فتوے تک رسائی کے طریقوں ہیں۔

فتوی اور حکم کے فرق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فتوا مجتہد کی طرف سے اپنے مقلدوں کے لئے بیان ہونے والا حکم ہے؛ جبکہ حکم کسی خاص کام کی انجام دہی یا ترک کرنے کے بارے میں دیا جانا والے حکم کو کہا جاتا ہے جو تمام لوگ جن کے لئے یہ حکم صادر ہوا ہے پر اس کا ماننا واجب ہے۔

شیعہ فقہا کی طرف سے صادر ہونے والے بعض تاریخی فتوے مندرجہ ذیل ہیں: تحریم تنباکو، داعش کے خلاف جہاد اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہونا۔

مفہوم شناسی

کسی شرعی حکم کے بارے میں مجتہد کی رائے کے اظہار اور اعلان کو فتوا کہا جاتا ہے۔[1] جس طرح کسی شرعی مسئلہ کے بارے میں مجتہد کی رائے دریافت کرنے کو استفتاء کہا جاتا ہے۔[2] فتوا دینے والے کو «مفتی» اور ان سے فتوی لینے والے کو «مستفتی» کہا جاتا ہے۔[3]

فقہی کتابوں میں اجتہاد و تقلید کے باب میں فتوا کے احکام ذکر کئے جاتے ہیں۔[4]

حکم اور فتوے میں فرق

فقہاء نے حکم اور فتوے کے درمیان کچھ فرق ذکر کئے ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  1. فتوا عموما کلی اور عام ہوتا ہے جیسے منشیات کا حرام ہونا؛ جبکہ حکم حاکم کسی خاص چیز کے بارے میں صادر ہوتا ہے جیسے اسرائیلی مصنوعات کا حرام ہونا۔[5]
  2. فتوا میں شرعی حکم کو اس کے مصادیق اور موضوعات پر تطبیق کرنا مکلف کی ذمہ داری ہے جبکہ حکم میں مصادیق اور موضوعات کو بھی خود حاکم تعیین کرتا ہے۔ مثلا ماہ رمضان کے چاند کے بارے میں حاکم کا حکم۔[6]
  3. مجتہد کا فتوا صرف ان کے مقلدوں کے لئے حجت ہے؛ جبکہ حاکم شرع کا حکم کسی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ سب کے لئے حجت ہے۔[7] یہاں تک کہ دوسرے مجتہدوں پر بھی حجت ہے اگرچہ وہ حاکم شرع سے اعلم ہی کیوں نہ ہوں ان پر بھی حاکم کے حکم کی اتباع ضروری ہے۔[8]

فتوا کے مآخذ

فتوا اگر کسی شرعی معتبر دلیل سے مستند ہو تو حجت ہے؛ بصورت دیگر اس پر عمل کرنا حرام ہے۔[9] فتوا دینے کے لئے شرعی معتبر دلیل چار مآخذ سے حاصل ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

  1. قرآن مجید: جس کے 6660 آیات میں سے تقریبا 500 آیتیں شرعی احکام سے مربوط ہیں[10]البتہ آیت اللہ معرفت کے مطابق احکام شرعی کا استنباط صرف مذکورہ 500 آیات تک منحصر نہیں ہے۔[11]
  2. سنت: معصوم کے قول، فعل یا تقریر کو کہا جاتا ہے۔[12] شیعہ رسول اکرمؐ کے ساتھ ساتھ ائمہ معصومینؑ کی سنت کو بھی حجت سمجھتے ہیں؛ لیکن اہل سنت کے ہاں صرف رسول اللہؐ کی سنت حجت ہے۔[13]
  3. اجماع: کسی مسئلے پر تمام مسلم علماء کے متفق ہونے کو کہا جاتا ہے۔[14] شیعوں کی نظر میں اجماع صرف اس وقت حجت ہوگا جب اس سے پیغمبر اکرمؐ یا ائمہؑ کا قول کشف ہوجائے۔[15]
  4. عقل: حکم عقلی جس سے شرعی حکم تک رسائی ممکن ہو۔[16] اخباری عقل کو شرعی حکم کے استنباط میں دلیل کے طور پر معتبر نہیں جانتے ہیں۔[17]

مجتہد کی شرائط

بلوغ، عقل، عدالت، شیعہ اثنا عشری، اعلم اور حلال زادہ ہونا فتوا دینے والے کی شرائط میں سے ہیں۔[18] اسی طرح مفتی کو شرعی احکام کے حصول اور استنباط کے طریقوں کا بھی علم ہونا چاہئے نیز تمام وہ علوم جو احکام کے حصول میں موثر ہیں ان کا جاننا بھی ضروری ہے؛ اس طرح مجتہد میں احکام کے دلائل اور اس کے مبانی کو بیان کرنے کی بھی صلاحیت ہونا ضروری ہے۔[19] اسی بنا پر مفتی کو قرآن و سنت کا عالم ہونا چاہئے اور ناسخ و منسوخ، عام و خاص، مطلق و مقید اور حقيقت و مجاز کی شناخت بھی رکھتا ہو۔[20]

احکام

فتوا سے متعلق چند احکام درج ذیل ہیں:

  • جو شخص شرعی احکام کو ان کے مآخذ سے استنباط کرسکتا ہے اس پر کسی دوسرے مجتہد کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔[21]
  • شرعی احکام کو ان کے ادلہ سے استنباط کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوئے فتوا دینا حرام ہے۔[22]
  • فتوا دریافت کرنے کے طریقے: خود مجتہد سے سنے، دو عادل شخص گواہی دیں، ایک عادل یا ایسا شخص گواہی دے جس کی بات سے اطمینان حاصل ہوجائے یا توضیح المسائل میں مجتہد کا فتوا دیکھے۔[23]
  • مجتہد کا فتوا تبدیل ہونے کی صورت میں ان کے مقلدوں کو اس کی اطلاع دینا واجب ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔[24] بعض فقہا کے مطابق اگر سابقہ فتوا احتیاط کے موافق تھا تو فتوے کی تبدیلی کی اطلاع دینا واجب نہیں ہے۔[25] اسی طرح بعض دیگر فقہاء ہر صورت میں نئے فتوے کی اطلاع رسانی کو واجب نہیں سمجھتے؛ کیونکہ سابقہ فتوا بھی اجتہاد کے اصول و شرائط کے مطابق صادر ہوا تھا۔[26]
  • اگر اعلم کسی مسئلے میں فتوا دے تو انکے مقلدین اسی مسئلے میں کسی اور مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کرسکتے ہیں۔[27]

فتوے کی نشاندہی کرنے والے الفاظ

فتوا کی نشاندہی کرنے والے الفاظ دو طرح کے ہیں:

  • بعض تعبیریں، براہ راست فتوا ہیں جیسے؛ واجب، حرام، مکروہ، مستحب اور مباح۔[28] اسی طرح «اقویٰ یہ ہے»، «بنا براقوی»، «اظہر یہ ہے»، «بعید نہیں ہے»، «قوت سے خالی نہیں ہے» اور «احوط اقوی» جیسی عبارتیں بھی فتوا ہیں۔[29]
  • بعض عبارتیں فتوا کے حکم میں ہیں جیسے: «بعید نہیں ہے لیکن مسئلہ مشکل ہے»، «احوط یہ ہے اگرچہ اقوا نہیں ہے»، «وجہ سے خالی نہیں ہے»، «مشکل ہے اگرچہ قرب سے خالی نہیں» اور «اس کے مطابق قول ممکن ہے لیکن اشکال سے خالی نہیں» ایسی عبارتیں فتوا کے حکم میں ہیں جن میں مقلد کسی اور مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرسکتا ہے۔[30]

احتیاط واجب اور احتیاط مستحب

احتیاط واجب اور احتیاط مستحب فتوا نہیں ہے۔ احتیاط واجب میں مجتہد کسی خاص شرعی مسئلی میں کسی نتیجے تک نہ پہنچنے کی بنا پر فتوا نہیں دیا ہے ایسے موارد میں مجتہد شروع سے ہے مکلف کی ذمہ داری کو احتیاط کی شکل میں بیان کرتا ہے۔ احتیاط واجب میں مُقَلِّد کو اختیار ہے کہ اپنے مجتہد کے اسی احتیاط پر عمل کرے یا اعلمیت میں اپنے مرجع تقلید کے بعد والے مجتہد کے فتوا پر عمل کرے۔[31] احتیاط مستحب میں مجتہد اگرچہ کسی نتیجے تک پہنچا ہے اور اسی بنا پر فتوا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ احتیاط کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ اس صورت میں مقلد کو اختیار ہے کہ اپنے مجتہد کے فتوا یا احتیاط میں سے جس پر چاہے عمل کرے۔[32]

فقہی کتابوں میں فتوا سے پہلے یا بعد میں «احتیاط» کی تعبیر آئی ہو تو اس سے مراد احتیاط مستحب اور اگر فتوا کے بعد صرف احتیاط کی تعبیر آئی ہو تو اس سے مراد احتیاط واجب ہے۔[33]

اہم فتوے

«بسم اللہ الرحمن الرحیم»

«آج کے بعد تنباکو کا استعمال جس صورت میں بھی ہو امام زمانہؑ کے خلاف جنگ کے حکم میں ہے..»

شیعہ فقہا کے بعض اہم فتوے مندرجہ ذیل ہیں:

شاذ و نادر فتوے

مشہور فتوا کے مخالف فتوا کو شاذ و نادر یا «تفرد فتوایی» کہا جاتا ہے۔[43] بعض شاذ و نادر فتوے درج ذیل ہیں:

  • کتا اور خنزیر کے بدن کے بے روح اجزاء کا پاک ہونا: شیعہ فقیہ سید مرتضی اس بات کے معتقد ہیں کہ کتا اور خنزیر کے بال بے روح ہونے کی بنا پر نجس نہیں ہیں۔[44] صاحب جواہر کے مطابق سید مرتضی کا یہ فتوا مشہور شیعہ فقہاء کی رائے کے خلاف ہے۔[45]
  • شراب کا پاک ہونا: صاحب‌ جواہر کے مطابق شیخ صدوق، ابن ابی‌ عقیل عمانی[46] اور محقق اردبیلی[47] جیسے بعض فقہاء، شیعہ مشہور فقہاء کے برخلاف شراب اور دیگر مسکرات کے پاک ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ حلی اپنی کتاب مختلف الشیعہ میں شراب اور دیگر مسکرات کے نجس ہونے کو شیعہ مشہور فقہاء کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[48]
  • مرد اور عورت کے دیے کا برابر ہونا: آیت‌‌ اللہ صانعی کے مطابق مسلمان مرد اور عورت کا دیہ مساوی ہے۔[49] جبکہ مشہور شیعہ فقہاء کے مطابق مسلمان مرد کا دیہ مسلمان عورت کے دیے کے دو برابر ہے۔[50]

فتوا کمیٹی

فتوا کمیٹی سے مراد یہ ہے کہ لوگ کسی خاص شخص کی تقلید کرنے کے بجائے فقہاء کے ایک گروہ کی تقلید کرے۔ اس صورت میں چونکہ تمام فقہاء کی نظر متحد ہونا ممکن نہیں اس لئے اکثریت کی بات مانی جائے۔[51]

فتوا کمیٹی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ فتوا کی حجیت اور مجتہد کی تقلید واجب قرار دینے والی ادلہ پر تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حجیت کا معیار فرد اور گروہی دونوں فتووں میں موجود ہے؛ یعنی تقلید لازم ہونے کے دلائل فرد اور شورا دونوں کی تقلید ثابت کرتی ہیں۔[52] بعض محققین نے اس نظریے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[53]

استفتاء کمیٹی

استفتاء کمیٹی فقہاء کے اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو کسی شرعی مسئلے پر تحقیق کرتے ہیں اور اس مسئلے میں مرجع تقلید کو مشورہ دیتے ہیں۔[54] مرجع تقلید اپنے مقلدوں کو جواب دینے سے پہلے اپنی رائے اس شورا کے سامنے پیش کرتا ہے اگر اس مسئلے کے بارے میں کوئی تکمیلی نکتہ ہو تو یہ کمیٹی اضافہ کرتا ہے پھر ان تمام مطالب کی جانچ پڑتال کے بعد آخری فیصلہ مرجع تقلید ہی کا ہوتا ہے۔[55]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، 1389ہجری شمسی، ص600.
  2. عمید، فرہنگ عمید، لفظ «فتوا» کے ذیل میں؛ سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، «اسفتاء» کے ذیل میں
  3. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج5، ص644.
  4. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج5، ص644.
  5. مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص437.
  6. خویی، مبانی تکملۃ المنہاج، موسسۃ احياء آثار الامام الخوئی، ج1، ص3.
  7. مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص437.
  8. طباطبایی یزدی، العرو، الوثقی، مکتبۃ آیت اللہ سیستانی، ج1، ص23؛ غروی تبریزی، الاجتہاد و التقلید، 1410ھ، ج1، ص388.
  9. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج5، ص644.
  10. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، 1394ہجری شمسی، ج3، ص19.
  11. معرفت، تفسیر و مفسران، 1379ہجری شمسی، ج2، ص228.
  12. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، 1394ہجری شمسی، ج3، ص17.
  13. مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، 1389ہجری شمسی، ج1، ص131.
  14. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، 1394ہجری شمسی، ج3، ص20.
  15. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1379ہجری شمسی، ص68.
  16. کلانتری، مطارح الانظار، 1425ھ، ج2، ص319.
  17. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، 1394ہجری شمسی، ج3، ص22.
  18. سیستانی، توضیح المسائل، 1415ھ، ص6.
  19. محقق حلی، معارج الاصول، 1423ھ، ص200-201.
  20. مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج5، ص644.
  21. شیخ طوسی، العدہ فی اصول الفقہ، 1417ھ، ج2، ص729.
  22. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج1، ص19.
  23. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج1، ص18.
  24. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج1، ص26.
  25. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج1، ص26.
  26. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج1، ص27.
  27. اصولی، بنی ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج1، ص19.
  28. مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1389ہجری شمسی، ج1، ص671.
  29. اصولی، بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج1، ص19.
  30. عاملی، الاصطلاحات الفقہیہ، 1413ھ، ص157.
  31. مکارم شیرازی، رسالہ احکام برای جوانان، 1386ہجری شمسی، ص14.
  32. مکارم شیرازی، رسالہ احکام برای جوانان، 1386ہجری شمسی، ص13.
  33. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص296-297.
  34. صحتی سردرودی، تحریف‌شناسی عاشورا و تاریخ امام حسین، 1394ہجری شمسی، ص202.
  35. اصفہانی کربلایی، تاریخ دخانیہ، 1377ہجری شمسی، ص117-118.
  36. آقابزرگ تہرانی، طبقات الاعلام الشیعہ، دارالمرتضی، ج1، ص263.
  37. فقیہ بحرالعلوم، زيارتگاہ‌ہاى عراق، 1393ہجری شمسی، ج1، ص212.
  38. دادفر، «جماعۃ العلماء، احیاگر ہویت سیاسی شیعیان عراق، ص35.
  39. http://www.imam-khomeini.ir/fa/C207_44691/
  40. «9 فتوای تاریخ‌ساز معاصر»، سایت شبکہ اجتہاد.
  41. «قائد الثورۃ يحرم النيل من رموز اہل السُنۃ و نساء النبي(ص)»، خبرگذاری مہر.
  42. بی‌آزار شیرازی، شیخ محمود شلتوت طلایہ‌دار تقریب در عقاید، تفسیر، حدیث، فقہ مقارن و ہمبستگی مذاہب اسلامی، ص171.
  43. مکارم شیرازی، انوارالاصول، 1428ھ، ج2، ص417.
  44. سید مرتضی، المسائل الناصریات، 1417ھ، ص100.
  45. نجفی، جواہر لكلام، 1404ھ، ج5، ص331.
  46. نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج6، ص3.
  47. محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البیان، 1403ھ، ج1، ص310.
  48. علامہ حلی، مختلف الشیعۃ، 1413ھ، ج1، ص472.
  49. ابراہیم‌نژاد، «بررسی و نقد ادلّۀ نظر یە آیت‌اللہ صانعی در برابری دیہ زن و مرد مسلمان»، ص5.
  50. نجفی، جواہرالکلام، 1362ہجری شمسی، ج43، ص32.
  51. جزایری، بحثی دربارہ روحانیت و مرجعیت، 1341ہجری شمسی، ص217-218.
  52. ورعی، «اجتہاد و افتای شورایی»، ص117.
  53. بہرامی خوشکار، «شورای فقہی يا فتواي شورایی در استنباط احكام شرعی»، ص40.
  54. «شورای استفتاء چگونہ کار می‌کند؟»، سایت تبیان.
  55. ہاشمی شاہرودی، «شورای افتاء مقام معظم رہبری: در مصاحبہ با حضرات آیات ہاشمی و مؤمن»، ص257.

مآخذ

  • ابراہیم‌نژاد، محمد، «بررسی و نقد ادلّۀ نظریہ آیت‌اللہ صانعی در برابری دیہ زن و مرد مسلمان»، فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ12، بہار و تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • آقابزرگ تہرانی، محمدحسن، طبقات الاعلام الشیعہ و ہو نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، مشہد، دارالمرتضی، 1404ھ۔
  • اصفہانی کربلایی، حسن، تاریخ دخانیہ، قم، نشر الہادی، 1377ہجری شمسی۔
  • اصولی، احسان و محمدحسن بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بی‌تا.
  • بہرامی خوشکار، محمد، «شورای فقہی يا فتواي شورایی در استنباط احكام شرعی»، حکومت اسلامی، شمارہ2، تابستان 1391ہجری شمسی۔
  • بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، شیخ محمود شلتوت طلایہ‌دار تقریب در عقاید، تفسیر، حدیث، فقہ مقارن و ہمبستگی مذاہب اسلامی، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب، 1385ہجری شمسی۔
  • پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، 1389ہجری شمسی۔
  • جزایری و دیگران، بحثی دربارہ روحانیت و مرجعیت، تہران، شركت سہامی انتشار، 1341ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مبانی تکملہ المنہاج، موسسۃ احياء آثار الامام الخوئی، نجف اشرف، بی‌تا.
  • دادفر، سجاد، «جماعۃ العلماء، احیاگر ہویت سیاسی شیعیان عراق»، تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، شمارہ24، زمستان 1388ہجری شمسی۔
  • سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، انتشارات کومش، 1373ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، المسائل الناصریات، تہران، رابطۃ الثقافۃ و العلاقات الإسلاميۃ‌، چاپ اول، 1417ھ۔
  • سیستانی، سید علی، توضیح المسائل، قم، مہر، چاپ چہارم، 1415ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، العدہ فی اصول الفقہ، قم، انتشارات تیزہوش، 1417ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، بی‌جا، بی‌تا.
  • عاملی، یاسین عیسی، الاصطلاحات الفقہیہ، بیروت، دار البلاغۃ، چاپ اول، 1413ھ۔
  • علامہ حلی، یوسف بن مطہر، مختلف الشیعۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1413ھ۔
  • عمید، حسن، فرہنگ عمید، تہران، انتشارات آگاہ، 1390ہجری شمسی۔
  • غروی تبریزی، علی، الاجتہاد و التقلید، قم، دار الہادی، 1410ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبد اللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، انتشارات مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
  • فقیہ بحرالعلوم، محمدمہدی، زيارتگاہ‌ہاى عراق، تہران، سازمان حج و زیارت، 1393ہجری شمسی۔
  • کلانتری، ابوالقاسم، مطارح الانظار، قم، مجمع الفكر الإسلامی، چاپ اول، 1425ھ۔
  • گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، انتشارات سمت، 1379ہجری شمسی۔
  • محقق اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البیان، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1403ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، معارج الاصول، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث، 1423ھ۔
  • معرفت، محمدہادی، تفسیر و مفسران، قم، مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی التمہيد، 1379ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، قم، انتشارات صدرا، 1394ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ احکام برای جوانان، قم، مدرسۃ الإمام علي بن أبي‌طالب(علیہ‌السلام)، چاپ پانزدہم، 1425ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ الامام على بن ابى طالب( ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، انوارالاصول، قم، مدرسۃ الإمام علي بن أبي‌طالب علیہ‌السلام، چاپ دوم، 1428ھ۔
  • مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • «9 فتوای تاریخ‌ساز معاصر»، سایت شبکہ اجتہاد، تاریخ درج مطلب: 7 بہمن 1379ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 4 بہمن 1399ہجری شمسی۔
  • «قائد الثورۃ يحرم النيل من رموز اہل السُنۃ و نساء النبي(ص)»، خبرگزاری مہر، تاریخ بازدید: 4 بہمن 1399ہجری شمسی۔
  • ورعی، سیدجواد، «اجتہاد و افتای شورایی»، نشریہ فقہ، شمارہ 98، تابستان 1398ہجری شمسی۔
  • «شورای استفتاء چگونہ کار می‌کند؟»، سایت تبیان، تاریخ درج مطلب: 28 دی‌ماہ 1390ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 4 بہمن 1399ہجری شمسی۔
  • ہاشمی شاہرودی، سیدمحمود و محمد مؤمن، «شورای افتاء مقام معظم رہبری: در مصاحبہ با حضرات آیات ہاشمی و مؤمن»، فقہ اہل بیت، شمارہ 2، تابستان 1374ہجری شمسی۔