حضرت ہارون

غیر سلیس
ویکی شیعہ سے
(ہارون علیہ السلام سے رجوع مکرر)
حضرت ہارون
اردن کے مغرب میں کوہ ہور کے اوپر حضرت ہارون سے منسوب مقبرہ
اردن کے مغرب میں کوہ ہور کے اوپر حضرت ہارون سے منسوب مقبرہ
قرآنی نام:ہارون
مشہوراقارب:حضرت موسی اور یوکابد
ہم عصر پیغمبر:حضرت موسی
پیروکار:بنی‌ اسرائیل
دین:یہودیت
عمر:123 سال
قرآن میں نام کا تکرار:19 یا 20
اہم واقعات:فرعون کو توحید کی دعوت،‌ سامری کا واقعہ
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی


ہارون بن عمران اللہ کے نبی، حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی اور جانشین و مصاحب تھے۔ قرآن میں حضرت موسی کی زبانی ان کی فصاحت و بلاغت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں امام علیؑ کی پیغمبر اکرمؐ سے نسبت کو حضرت ہارون اور حضرت موسی کی نسبت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ حدیث شیعہ اور اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے جو حدیث منزلت کے نام سے مشہور ہے۔

جب حضرت موسی الواح دریافت کرنے کے لئے کوہ طور پر گئے تو حضرت ہارون کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس دوران سامری نامی ایک شخص نے ایک گوسالہ (بچھڑا) بنایا اور بنی‌ اسرائیل کو اس کی پرستش کی دعوت دی اور حضرت ہارون انہیں اس کام سے روکنے میں ناکام رہے۔ توریت میں گوسالہ بنانے کی نسبت حضرت ہارون کی طرف دی گئی ہے۔

آپ 123 سال کی عمر میں کوہ طور پر اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اردن میں کوہ ہور جو جبل ہارون کے نام سے مشہور ہے، میں آپ سے منسوب ایک مقبرہ موجود ہے۔

خاندان

حضرت ہارون حضرت موسی کے بھائی تھے، آپ کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوکابد تھا۔[1] پیغمبر اکرمؐ کی زوجہ صفیہ بنت حیی بن اخطب جو بنی نضیر سے تھیں، کا سلسلہ نسب حضرت ہارون تک پہنچتا ہے۔[2]

نبوت

یہودی، عیسائی[3] اور مسلمان[4] آپ کی نبوت کے قائل ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث کے مطابق نبوت کا سلسلہ آپ کی نسل سے جاری رہا ہے۔[5] من جملہ حضرت الیاسؑ آپ کی نسل سے تھے۔[6]

قرآنی آیات کے مطابق جب حضرت موسی کو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا جا رہا تھا تو آپ نے خدا سے درخواست کی کہ حضرت ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا جائے کیونکہ حضرت ہارون حضرت موسی کی نسبت فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔[7] اسی طرح قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو یکتا پرستی کی طرف دعوت دینے میں بھی حضرت ہارونؑ حضرت موسیؑ کے ساتھ تھے۔[8] امام علیؑ کے مطابق جب حضرت موسی، ہارونؑ کے ساتھ فرعون کے پاس گئے تو ان کے بدن پر اون کا بنا ہوا لباس اور ہاتھ میں عصا تھا۔[9]

قرآن میں حضرت ہارون کی نبوت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[10] سورہ صافات میں کتاب آسمانی سے بہرہ مند ہونا، صراط مستقیم کی ہدایت اور نیکوکار ہونے میں حضرت موسی اور حضرت ہارون دونوں کو ایک دوسرے کا شریک قرار دیا گیا ہے۔[11]

امام صادقؑ پیغمبر اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ معراج کے واقعے میں جب پیغمبر اکرمؐ کو پانچویں آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں پر آپ نے ایک تنومند اور بڑی بڑی آنکھوں والے ایک شخص کو دیکھا جس کے ارد گرد آپ کی امت لوگ جمع تھے۔ پیغمبر اکرم کو ان کی کثرت پر تعجب ہوا اور جبرئیل سے پوچھا یہ شخص کون ہے؟ جبرئیل نے ہارون بن عمران کے نام سے ان کا تعارف کیا۔ اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ان کو سلام کیا اور ان کے حق میں استغفار فرمایا اور انہوں نے بھی پیغمبر اسلام کو سلام کیا اور آپ کے حق میں استغفار کیا۔[12]

حضرت موسی کی جانشینی اور سامری کا واقعہ

جب حضرت موسی الواح دریافت کیلئے کوہ طور پر گئے تو حضرت ہارون کو بنی‌ اسرائیل کے درمیان اپنا جانشین مقرر کیا۔[13] اسی دوران سامری نے اس سونے سے ایک گوسالہ بنایا جسے حضرت موسی کی قوم فرعونیوں کے پاس سے لے آئی تھی[14] اور اس نے قوم موسی کو اس گوسالے کی پرستش کی دعوت دی۔[15] گوسالے کی پرستش سے روکنے کے لئے حضرت ہاروں کی کوششیں ثمر آور نہیں ہوئیں۔[16] حضرت موسی کوہ طور سے واپسی پر حضرت ہاروں کے ساتھ سختی سے پیش آئے کہ انہوں نے کیوں ان کی قوم کو گوسالہ پرستی سے منع نہیں کیا۔ حضرت ہارون نے کہا قوم انہیں قتل کرنے کے لئے تیار تھی اور حضرت موسی سے درخواست کی کہ ان کے دشمنوں کو خوشی کا موقع فراہم نہ کریں اور ان کو ظالموں کے ساتھ یکساں نہ سمجھیں۔[17] اس بنا پر حضرت موسی نے اپنے لئے اور اپنے بھائی ہاروں کے لئے خدا سے طلب بخشش کی۔[18]

قرآن کی آیات کے مطابق بنی‌ اسرائیل کو گوسالہ‌‌ پرستی تک لے جانے میں اصل کردار سامری کا تھا اور حضرت ہارون نے اس کے ساتھ مقابلہ کیا،[19] لیکن یہودیوں کی مقدس کتاب توریت میں گوسالہ بنانے اور اس کی پرستش کی طرف دعوت دینے کی نسبت حضرت ہاروں کی طرف دی گئی ہے۔[20] البتہ بعض یہودی مفسرین اس سلسلے میں توریت کے اس جملے کی توجیہ اور تأویل کرنے کی کوشش کی ہے۔[21]

امام علیؑ کے ساتھ شباہت

پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ امام علیؑ کی نسبت کو حضرت موسی کے ساتھ حضرت ہارون کی نسبت سے تشبیہ دی گئی ہے۔[22] یہ حدیث شیعہ[23] و اہل سنت[24] مآخذ میں نقل ہوئی ہے اور حدیث منزلت کے نام سے مشہور ہے۔ اس حدیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا: أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ ہارونَ مِنْ مُوسی (ترجمہ: آپ میری نسبت وہی مقام رکھتے ہیں جو ہارون حضرت موسی کے ساتھ رکھتے تھے صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔)[25]

وفات اور مدفن

اردن کے دیہات کاترین میں حضرت ہارون سے منسوب قبر

یعقوبی کے مطابق آپ 123 سال کی عمر میں حضرت موسی کے زمانے میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔[26] اگرچہ وفات کے وقت آپ کی عمر 133 سال بھی بتائی گئی ہے۔[27] ایک روایت کے مطابق حضرت موسی حضرت ہارون کو کوہ طور پر لے گئے اور وہاں پر ملک الموت نے ان کی قبض روح کی۔[28] مذکورہ حدیث کے مطابق حضرت موسی حضرت ہارون کے ساتھ کوہ طور پر گئے تو وہاں پر انہوں نے ایک کمرہ دیکھا دوسری طرف ایک درخت پر دو لباس آویزاں تھے، حضرت موسی نے ہارون سے کہا: "اپنا لباس اتار کر انہیں پہن لو اور اس کمرے کے اندر چلے جاؤ اور وہاں پر موجود اس تخت پر لیٹ جاؤ" جب حضرت ہاروں اس تخت پر لیٹ گئے تو ان کی موت واقع ہو گئی۔ حضرت موسی بنی‌ اسرائیل کے یہاں واپس آگئے اور انہیں حضرت ہاروں کی موت کی خبر دی۔ بنی ‌اسرائیل نے حضرت موسی کو جھٹلایا اور کہا: تم نے اسے قتل کر ڈالا ہے۔ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت ہارون کے جنازے کو ہوا میں ایک تختہ پر رکھ کر حاضر کیا جائے، جب بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت ہارون دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔[29] یعقوبی کے مطابق الیعازر فرزند ہارون نیز اس واقعے میں حضرت موسی کے ساتھ تھے۔[30]

اردن کے مغرب میں کوہ ہور پر آپ سے منسوب ایک مقبرہ‌ ہے۔[31] یہ پہاڑ "پترا" یا "جبل ہارون" کے نام سے مشہور ہے۔[32] اس مقبرے کی تعمیر آٹھویں صدی ہجری میں ہوئی ہے۔[33] اسی طرح اردن کے ایک دیہات "کاترین السیاحیہ" میں بھی ایک مقبرہ آپ سے منسوب ہے۔[34]

حوالہ جات

  1. کتاب مقدس، کتاب خروج، باب ۶، آیہ ۲۰۔
  2. ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۷۱۔
  3. کتاب مقدس، کتاب خروج، باب ۳۲، آیہ ۲-۶۔
  4. سورہ مریم، آیہ ۵۳۔
  5. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳‌ق، ج۲۳، ص۷۰۔
  6. ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ۱۴۰۲ق، ج۵، ص۲۳۔
  7. سورہ فرقان، آیہ ۳۵؛ سورہ قصص، آیہ ۳۴۔
  8. سورہ طہ، آیہ ۴۲-۴۸۔
  9. شیخی، پیامبر از نگاہ قرآن و اہل بیت، ۱۳۸۶ش، ص۱۴۴۔
  10. سورہ مریم، آیہ ۵۳۔
  11. سورہ صافات، آیہ ۱۱۴-۱۲۲۔
  12. مشایخ، قصص انبیاء، ۱۳۸۱ش، ص۳۳۰۔
  13. سورہ اعراف، آیہ ۱۴۲۔
  14. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۴، ص۱۹۲۔
  15. سورہ طہ، آیہ ۸۷۔
  16. سورہ طہ، آیہ ۹۰-۹۱۔
  17. سورہ اعراف، آیہ ۱۵۰۔
  18. سورہ اعراف، آیہ ۱۵۱۔
  19. سورہ طہ، آیہ ۸۵۔
  20. کتاب مقدس، کتاب خروج، باب ۳۲۔
  21. کتاب مقدس، کتاب خروج، باب ۳۲، آیہ ۲-۶۔
  22. بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۴، ص۲۰۸۔
  23. بطور مثال رجوع کریں:‌ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۴، ص۱۴۔
  24. بطور مثال رجوع کریں:‌ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۴، ص۲۰۸؛ نیشابوری، صحیح مسلم، دار الجیل/دار الأفاق الجدیدۃ، ج۷، باب من فضائل علی بن ابی‌ طالب، ص۱۲۰۔
  25. نیشابوری، صحیح مسلم، دار الجیل/دار الأفاق الجدیدۃ، ج۷، باب من فضائل علی بن ابی‌ طالب، ص۱۲۰؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۴، ص۱۴۔
  26. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۱، ص۴۱۔
  27. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳‌ق، ج۱۳، ص۳۷۰۔
  28. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳‌ق، ج۱۳، ص۳۶۸۔
  29. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳‌ق، ج۱۳، ص۳۶۸۔
  30. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۱، ص۴۱۔
  31. ہاکس، قاموس کتاب مقدس، ۱۳۷۷ش، ص۱۱۴۔
  32. «مقام النبی ہارون علیہ‌السلام»، ارث الاردن۔
  33. «مقام النبی ہارون علیہ‌السلام»، ارث الاردن۔
  34. رامین‌ نژاد، «مزار حضرت ہارون (علیہ‌السلام)»، راسخون۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • کتاب مقدس۔
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، مختصر تاریخ دمشق، تحقیق:‌ روحیۃ النحاس و ریاض عبدالحمید مراد و محمد مطیع، دمشق، دار الفکر، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۴ء۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱ ء۔
  • رامین‌ نژاد، رامین، «مزار حضرت ہارون (علیہ‌السلام)»، راسخون، تاریخ بازدید ۲۸ فروردین ۱۳۹۸ش۔
  • شیخی، حمید رضا، پیامبر از نگاہ قرآن و اہل بیت، قم، دار الحدیث، چاپ سوم، ۱۳۸۶ش۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳‌ق۔
  • مسلم، صحیح مسلم، بیروت، دار الجیل/دار الأفاق الجدیدۃ، بی‌تا۔
  • مشایخ، فاطمہ، قصص انبیاء، تہران، انتشارات فرحان، ۱۳۸۱ش۔
  • « مقام النبی ہارون علیہ‌السلام»، ارث الاردن۔، تاریخ بازدید ۲۸ فروردین ۱۳۹۸ش۔
  • ہاکس، جیمز، قاموس کتاب مقدس، تہران، انتشارات اساطیر، ۱۳۷۷ش۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔