مسودہ:ہرولہ
| بعض عملی اور فقہی احکام |
|---|
ہَروَلَہ یا رَمَل، حرکت اور چال کی ایک قسم ہے جو دوڑنے اور معمول کے مطابق چلنے کی درمیانی کیفیت کو کہا کہا جاتا ہے۔ فقہاء کے مطابق یہ عمل صفا و مروہ کے درمیان سعی کے کچھ حصے اور وادیِ مُحَسِّر (مشعر اور منیٰ کے درمیان) سے گزرتے وقت مردوں کے لئے مستحب ہے۔ یہ عمل صفا و مروہ میں سعی کے دوران خدا کے آگے عاجزی اور فروتنی کی علامت ہے اور حضرت ابراہیم و حضرت ہاجر کے الٰہی امتحان میں کی گئی کوششوں کی یاد دلاتا ہے جبکہ وادیِ مُحَسِّر میں اصحاب فیل پر آنے والے عذاب الٰہی کو یاد دلاتا ہے۔
اکثر شیعہ فقہاء طواف میں ہروَلہ کو مستحب نہیں سمجھتے اور طواف میں سکون و وقار کو ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ اہل سنت حج کے پہلے طواف (طواف قدوم) میں اس عمل کی سفارش کرتے ہیں۔ شیعہ فقیہ صاحب جواہر اس حکم کو رسول خداؐ کے زمانے کے ساتھ مختص قرار دیتے ہیں۔
سعی میں ہروَلہ کا استحباب اور اس کی حکمت
ہَروَلَہ یا رَمَل[1] دوڑنے اور معمول کے مطابق چلنے کے درمیانی کیفیت کو کہتے ہیں۔[2] فقہاء ہرولہ کو حج اور عمرہ کے بعض مناسک میں مستحب قرار دیتے ہیں۔[3]
شیعہ اور اہل سنت فقہاء کے مطابق مردوں کے لئے صفا و مروہ کے درمیان سعی کے دوران ایک مخصوص حصے (تقریباً 45 میٹر) میں ہروَلہ انجام دینا مستحب ہے۔[4]
امام صادقؑ کی ایک روایت[5] کے مطابق سعی میں ہروَلہ نفس امّارہ سے فرار اور قدرتِ الٰہی کے سامنے عاجزی و انکساری کی نشانی ہے۔[6] بعض روایات میں ہرولہ کا فلسفہ حضرت ابراہیم اور شیطان کی کھینچاتانی کی طرف نسبت دی گئی ہے؛ ایک نقل کے مطابق حضرت ابراہیم، شیطان سے روبرو ہونے سے بچنے کے لئے اس سے دور بھاگے ہیں،[7] اور ایک نقل کے مطابق حضرت ابراہیم، شیطان پر حملہ ور ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں شیطان اپ سے دور بھاگ جاتا ہے۔[8] بعض روایات میں اس مقام پر اس عمل کو حضرت ہاجرہ کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کے لئے پانی کی تلاش میں دوڑنے کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔[9]
وادیِ مُحَسِّر میں ہروَلہ، خشیت اور عبرت کی علامت
فقہی متون میں وارد ہوا ہے کہ وادیِ مُحَسِّر میں داخل ہونے کے بعد تقریباً 50 میٹر تک ذکر اور دعا[10] کے ساتھ ہروَلہ کرنا مستحب ہے۔[11] وادیِ مُحَسِّر، مشعر اور منیٰ کے درمیان وہ مقام ہے جہاں بعض روایات کے مطابق اصحاب فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔[12] بعض روایات میں عذاب نازل ہونے والے مقامات سے تیزی کے ساتھ گزر جانے کی سفارش کی گئی ہے،[13] چنانچہ بعض احادیث کے مطابق رسول اللہؐ بھی اس مقام سے تیزی سے گزرجاتے تھے۔[14] لہٰذا اس جگہ ہروَلہ کرنا اُن لوگوں پر نازل ہونے والے عذاب الہی کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے خانہ کعبہ کو نقصان پہنچانے اور اہل ایمان کو اذیت دینے کا قصد کیا تھا۔[15]
ایک روایت کی روشنی میں[16] فقہاء اس عمل کو اس قدر اہمیت دیتے ہیں کہ اگر کوئی حاجی بھول کر مکہ چلا جائے تو مستحب ہے کہ وہ واپس آئے اور اس حصے کو ہروَلہ کے ساتھ طے کرے۔[17]
طواف میں ہروَلہ
اکثر شیعہ فقہاء طواف کے دوران ہروَلہ کو مستحب نہیں سمجھتے[18] اور طواف میں وقار اور سکون کو لازمی سمجھتے ہیں۔[19] اس کے برعکس اہل سنت فقہاء طواف قدوم (مکہ پہنچنے کے بعد پہلے طواف) کے ابتدائی تین چکروں میں ہروَلہ کو مستحب کہتے ہیں۔[20] بعض شیعہ فقہاء نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا ہے۔[21] ان کے مطابق بعض روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے عمرۃُ القضاء کے موقع پر مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں؛ بازو کھول کر احرام کے کپڑے ایک جانب کریں اور ہروَلہ کریں تاکہ مشرکین مکہ دیکھ لیں کہ سفر کی مشقت نے انہیں کمزور نہیں کیا ہے۔[22] البتہ صاحب جواہر کے مطابق یہ روایات طواف میں ہروَلہ کے عمومی استحباب پر دلالت نہیں کرتی؛[23]کیونکہ: یہ حکم اُس زمانے کے خاص حالات اور مشرکین کے سامنے اسلام کی شان و شوکت کے اظہار سے متعلق تھا۔[24] اس کے علاوہ دیگر احادیث ، رسول اللہؐ کے بعد اس عمل کے جاری نہ رہنے اور بند ہوجانے پر دلالت کرتی ہیں اور طواف کو سکون کے ساتھ انجام دینے کی ترغیب دیتی ہیں۔[25]
حوالہ جات
- ↑ ابنمنظور، لسان العرب، ذیل واژہ «رمل»۔
- ↑ ابنمنظور، لسان العرب، ذیل واژہ «ہرول»۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید: علامہ حلّی، تبصرۃ المتعلمین، 1411ھ، ص79؛ محقق سبزواری، کفایۃ الاحکام، 1423ھ، ج1، ص339؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص73۔
- ↑ برای نمونہ رجوع کنید: علامہ حلّی، تبصرۃ المتعلمین، 1411ھ، ص79؛ محقق سبزواری، کفایۃ الاحکام، 1423ھ، ج1، ص339؛ مکارم شیرازی، مناسک جامع حج، 1426ھ، ص245، مسئلہ 859؛ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ج1، ص241۔
- ↑ منسوب بہ امام صادق(ع)، مصباح الشریعۃ، 1377شمسی، ص164۔
- ↑ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت، اسرار و معارف حج، 1385شمسی، ص191؛ انصاریان، عرفان اسلامی، 1386شمسی، ج7، ص178۔
- ↑ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت، پیشدرآمدی بر فرہنگنامۂ اسرار و معارف حج، 1387شمسی، ص191۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج96، ص234۔
- ↑ قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1386شمسی، ص79۔
- ↑ وجدانیفخر، الجواہر الفخریۃ، 1426ھ، ج4، ص369۔
- ↑ نمونہ کے لئے مراجعہ کریں: علامہ حلّی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج1، ص438؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص73؛ صافی گلپایگانی، مناسک حج، 1390شمسی، ص182۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1389شمسی، ص44۔
- ↑ جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1389شمسی، ص44۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص471، حدیث 3؛ مجلسی، روضۃ المتقین، 1406ھ، ج5، ص111-112؛ علوی عاملی، مناہج الأخیار، 1399ھ، ج3، ص557-558۔
- ↑ «در وادی محسر توقف ممنوع؛ سریع عبور کنید»، وبگاہ مشرھ۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص470، حدیث 1۔
- ↑ موسوی عاملی، مدارک الاحکام، 1411ھ، ج7، ص446؛ وجدانیفخر، الجواہر الفخریۃ، 1426ھ، ج4، ص369۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج19، ص350۔
- ↑ برای نمونہ نگاہ کنید: ابنادریس حلّی، السرائر، 1410ھ، ج1، ص583؛ فاضل ہندی، کشفاللثام، 1416ھ، ج5، ص465؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج16، ص125۔
- ↑ ابنقدامہ، المغنی، 1388ھ، ج3، ص340۔
- ↑ نمونہ کے لئے مراجعہ کریں: طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص356؛ علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج1 ، ص585؛ ابنحمزہ طوسی، الوسیلۃ، 1408 ھ، ص172۔
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرایع، 1386ھ، ج2، ص412؛ حر عاملی، وسائا لشیعۃ، 1409ھ، ج13، ص351-352. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج19، ص350-351۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج19، ص351-352۔
- ↑ صادقی فدکی، سید جعفر، «بررسی و نقد دیدگاہ فقیہان شیعہ و اہلسنت دربارہ اضطباع و رمل»، ص292۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1414ھ، ج13، ص351 - 353۔
مآخذ
- ابناثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث و الأثر، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، قم، چاپ اول، 1367ہجری شمسی۔
- ابنادریس حلّی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، محقق و مصحح: موسوی، حسن بن احمد، ابن مسیح، ابو الحسن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
- ابنحمزہ طوسی، محمد بن علی، الوسیلۃ إلی نیل الفضیلۃ، محقق و مصحح: حسون، محمد، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی(رہ)، چاپ اول، 1408ھ۔
- ابنقدامہ، عبد اللہ بن أحمد، المغنی، قاہرہ، مکتبۃ القاہرۃ، بینا، 1388ھ۔
- ابنمنظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، محقق و مصحح: میر دامادی، جمال الدین، بیروت، دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، سوم، 1414ھ۔
- انصاریان، حسین، عرفان اسلامی، دارالعرفان، 1386ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، 1389ہجری شمسی۔
- «در وادی محسر توقف ممنوع؛ سریع عبور کنید»، وبگاہ مشرق، تاریخ درج: 15 خرداد 1404شمسی، تاریخ اخذ: 23 مہر 1404ہجری شمسی۔
- شہید اول، عاملی، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الإمامیۃ، محقق و مصحح: مروارید، محمد تقی، مروارید، علی اصغر، بیروت، دار التراث - الدار الإسلامیۃ، چاپ اول، 1410ھ۔
- شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
- شیخ صدوق، علل الشرائع، قم، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، محقق و مصحح: کشفی، سید محمدتقی، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ،چاپ سوم، 1387ہجری شمسی۔
- صادقی فدکی، سید جعفر، «بررسی و نقد دیدگاہ فقیہان شیعہ و اہلسنت دربارہ اضطباع و رمل»، در دوفصلنامہ علمی فقہ مقارن، شمارہ 21، سال یازدہم، بہار و تابستان 1402ہجری شمسی۔
- صافی گلپایگانی، لطف اللہ، مناسک حج، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت اللہ صافی گلپایگانی، 1390ہجری شمسی۔
- طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق: حسینی، سید احمد، تہران، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، 1375ہجری شمسی۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تبصرۃ المتعلمین فی أحکام الدین، محقق و مصحح: یوسفی غروی، محمد ہادی، تہران، مؤسسہ چاپ و نشر وابستہ بہ وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1411ھ۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، محقق و مصحح: بہادری، ابراہیم، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1420ھ۔
- علامہ حلّی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1413ھ۔
- علوی عاملی، احمد بن زین العابدین، مناہج الأخیار فی شرح الإستبصار، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ اول، 1399ھ۔
- فاضل ہندی، محمد بن حسن، کشف اللثام و الإبہام عن قواعد الأحکام، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1416ھ۔
- فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، منشورات دار الرضی، قم، چاپ اول، بیتا۔
- قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، 1386ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسہ الوفاء، 1403ھ۔
- مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: موسوی کرمانی، سید حسین، اشتہاردی، علیپناہ، طباطبائی، سید فضل اللہ، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانپور، چاپ دوم، 1406ھ۔
- محدث بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحکام العترۃ الطاہرۃ، محقق و مصحح: ایروانی، محمد تقی، مقرم، سید عبد الرزاق، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1405ھ۔
- محقق سبزواری، محمدباقر، کفایۃ الاحکام، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1423ھ۔
- مغنیہ، محمد جواد، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، بیروت، دار التیار الجدید - دار الجواد، چاپ دہم، 1421ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، مناسک جامع حج، قم، انتشارات مدرسۃ الإمام علی بن أبی طالب(ع)، اول، 1426ھ۔
- منسوب بہ امام صادق(ع)، جعفر بن محمد،، مصباح الشریعۃ، ترجمہ و شرح: گیلانی، عبدالرزاق بن محمدہاشم، محقق و مصحح: آقا جمال خوانساری، محمد بن حسین، پیام حق، تہران، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
- موسوی عاملی، محمد بن علی، مدارک الاحکام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1411ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق و مصحح: قوچانی، عباس، آخوندی، علی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
- نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت، اسرار و معارف حج، تہران، دار الحدیث، 1385ہجری شمسی۔
- نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت، پیشدرآمدی بر فرہنگنامۂ اسرار و معارف حج، تہران، نشر مشعر، 1387ہجری شمسی۔
- وجدانیفخر، قدرت اللہ، الجواہر الفخریۃ فی شرح الروضۃ البہیۃ، قم، انتشارات سماء قلم، چاپ دوم، 1426ھ۔