حضرت یوسف
تھمب نیل بنانے کے دوران میں نقص: | |
قرآنی نام: | یوسف |
---|---|
جائے پیدائش: | کنعان |
مدفن: | فلسطین |
قوم کا نام: | بنی اسرائیل |
قبل از: | ببرز بن لاوی |
بعد از: | حضرت یعقوب |
مشہوراقارب: | یعقوبؑ |
ہم عصر پیغمبر: | یعقوب |
دین: | توحیدی |
عمر: | 120 سال |
قرآن میں نام کا تکرار: | 27 مرتبہ |
اہم واقعات: | حضرت یوسف کا کنویں میں ڈالنا، یوسفؑ و زلیخا کا واقعہ، عزیز مصر کے منصب پر فائز ہونا، قحط سالی سے مصر والوں کی نجات |
اولوالعزم انبیاء | |
حضرت محمدؐ • حضرت نوح • حضرت ابراہیم • حضرت موسی • حضرت عیسی |
حضرت یوسُف علیہ السلام حضرت یعقوبؑ کے فرزند اور بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے۔ آپ نے نبوت پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ چند سال تک مصر پر حکومت بھی کی۔ قرآن مجید میں ایک سورہ کا نام بھی یوسف ہے جس میں آپ کے حالات زندگی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔
حضرت یوسف کو بچپنے میں ان کے بھائیوں نے کنویں میں پھینکا، لیکن ایک گروہ نے انہیں نجات دی اور غلام کی حیثیت سے مصر لے جاکر عزیز مصر کے ہاتھوں بیچ دیا۔ عزیز مصر کی بیوی زلیخا آپ کے حسن کی گرویدہ ہوگئی اور حضرت یوسف کے انکے ساتھ رابطہ رکھنے سے انکار پر عزیز مصر سے ان پر خیانت کی تہمت لگائی اور جیل میں ڈلوا دیا۔
کئی سال بعد آپؑ نے اپنی بے گناہی کو ثابت کیا اور جیل سے رہا ہوئے۔ مصر کے بادشاہ کے خواب کی تعبیر کرنے اور مصر کو قحط سالی سے نجات دینے کے لیے راہ حل بتانے پر بادشاہ کے محبوب ہوئے اور ان کے وزیر بنے۔
قرآن مجید میں مذکور حضرت یوسف کی داستان توریت میں ذکر شدہ واقعہ سے کچھ مختلف ہے؛ جن میں سے ایک یہ کہ قرآن کے مطابق یوسفؑ کے بھائی حضرت یعقوب سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں ان کے ساتھ صحرا بھیجیں لیکن توریت کے مطابق حضرت یعقوب خود ہی جناب یوسفؑ کو بھائیوں کے ساتھ جانے کے لئے کہتے ہیں۔
حضرت یوسفؑ کی عمر 120 سال تک بتائی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ فلسطین میں دفن ہوئے۔
مقام و منزلت
حضرت یوسف جناب یعقوبؑ کے بیٹے اور بنی اسرائیل کے نبی تھے۔ آپ کی والدہ کا نام راحیل تھا۔[1] آپ کے گیارہ بھائی تھے جن میں سے بنیامین اور آپ کی ماں ایک تھیں۔[2] حضرت یوسفؑ بنیامین کے علاوہ باقی سب بھائیوں سے عمر میں چھوٹے تھے۔[3]
یوسفؑ کا نام قرآن مجید میں 27 مرتبہ ذکر ہوا ہے[4] اور قرآن کی بارہویں سورت آپ ہی کے نام سے منسوب ہے۔ قرآن نے آپ کو اللہ تعالی کے مخلص بندوں میں سے قرار دیا ہے۔[5] جس کے بارے میں علامہ طباطبایی کا کہنا ہے کہ آپ نے نہ صرف زلیخا کی خواہش کے مطابق عمل نہیں کیا بلکہ دل میں بھی اس کام کی طرف کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے۔[6] اسی طرح قرآن میں آپ کو محسنوں میں بھی شمار کیا گیا ہے۔[7]
نبوت
حضرت یوسفؑ کا شمار بزرگ انبیا میں ہوتا ہے۔[8] قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق حضرت یوسف، نبی اور رسول تھے۔[9] تفسیر نمونہ کے مطابق حضرت یوسف کا خواب کہ جس میں گیارہ ستارے، سورج اور چاند کا انکو سجدہ کرنا، حضرت یوسف کے ثروت اور حکومت تک پہنچنے کے علاوہ مستقبل میں نبوت پر فائز ہونے کی طرف بھی اشارہ تھا۔[10] علامہ طباطبایی کا بھی کہنا ہے کہ سورہ یوسف کی چھٹی آیت کے مطابق حضرت یوسفؑ پر نعمت کے کامل ہونے سے مراد آپؑ کا نبوت پر فائز ہونا ہے۔[11]
حالات زندگی
سورہ یوسف میں حضرت یوسف کے حالات زندگی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے قصے کو اَحْسَنُ الْقِصَص (سب سے اچھا قصہ) کے نام سے یاد کیا ہے۔[12] اور آپ کا بچپنا، کنویں میں پھینکنے، عزیز مصر کے ہاتھوں بیچنے، یوسفؑ و زلیخا کا واقعہ، جیل جانے، والد اور بھائیوں سے ملاقات اور مصر کی حکومت سب کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔[13]
کنویں میں پھینکنا اور مصر کی طرف منتقل ہونا
- مزید معلومات کے لئے دیکھئے: سورہ یوسف
قرآن کے سورہ یوسف میں آپ کے حالات زندگی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کے مطابق، حضرت یوسفؑ خواب دیکھتے ہیں کہ گیارہ ستارے، چاند اور سورج ان کے لیے سجدہ کر رہے ہیں اور یہ خواب حضرت یعقوبؑ کو بیان کرتے ہیں۔ جناب یعقوب، اس خواب کو بھائیوں سے بیان کرنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ خطرناک سازش کر سکتے ہیں۔[14]
مفسروں نے گیارہ ستاروں سے مراد یوسف کے بھائی اور سورج و چاند سے مراد ان کے والدین لیا ہے کہ یوسفؑ دنیوی مقام و منزلت پر فائز ہونے کے بعد ان لوگوں نے آپ کی تعظیم کی۔[15]
حضرت یعقوب کے بیٹوں کا کہنا تھا کہ یوسفؑ اور ان کے بھائی بنیامین والد کے ہاں زیادہ عزیز ہیں۔[16] اس لیے ایک دن انہوں نے جناب یعقوب سے اجازت مانگی کہ وہ یوسفؑ کو ان کے ہمراہ صحرا بھیجیں۔[17] صحرا میں انہوں نے یوسفؑ کو کنویں میں پھینک دیا اور واپس آکر جناب یعقوب سے کہا کہ انہیں بھیڑیے نے چیر پھاڑا ہے۔[18] قرآنی آیت کے مطابق، جناب یعقوبؑ نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا[19] اور یوسفؑ کے فراق میں گریہ کرکے نابینا ہوگئے۔[20]
امام صادقؑ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یعقوبؑ کتنا مغموم ہوئے؟ آپ نے فرمایا: «جس عورت کا بچہ مرگیا ہے اس عورت کے غم کے 70 برابر غمگین ہوئے۔[21] کسی قافلے نے یوسفؑ کو کنویں سے نکالا[22] اور غلام بنا کر مصر لے گئے اور عزیز مصر نے انہیں خریدا اور یوں عزیز مصر کے گھر تک پہنچ گئے۔[23]
یوسف کا جمال اور زلیخا اور آپ کا قصہ
قصص القرآن کی کتابوں کے مطابق یوسف ایک خوبرو جوان تھے۔[24] [یادداشت 1] اسی لئے عزیز مصر کی بیوی زلیخا ان کی عاشق ہوگئی، لیکن یوسفؑ نے اپنے پر قابو کرتے ہوئے زلیخا کی درخواست کو رد کر دیا۔[25] [یادداشت 2] یہ بات شہر کے لوگوں تک پہنچی اور شہر کی خواتین میں سے ایک گروہ نے زلیخا کی مذمت کی۔ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور شہر کی 40 عورتوں کو مدعو کیا۔ ان کو ایک چاقو اور میوہ تھما دیا۔[26] پھر یوسفؑ کو مجلس میں بلایا۔ جب آپؑ داخل ہوئے تو خواتین آپ کے حسن کے نظارہ میں اتنا محو ہو گئیں کہ میوہ کی جگہ اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔[27]
اس واقعے کے بعد ہر دن کوئی نا کوئی عورت یوسفؑ سے غیر مشروع رابطے کی درخواست کرتی تھی تو آپؑ نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ ان سے نجات دے کر زندان بھیج دیں۔ اس کے چند دن بعد زلیخا کے حکم سے جیل بھیج دیئے گئے۔[28]
بادشاہ کے خواب کی تعبیر اور عزیز مصر بننا
حضرت یوسفؑ نے تعبیر خواب جاننے کی وجہ سے دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر کی کہ ان میں سے ایک مارا جائے گا اور دوسرے کو جیل سے رہائی اور بادشاہ کے حضور مقام ملے گا۔[29] اس واقعے کے چند سال بعد، مصر کے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات کمزور گائے، سات موٹی تازی گائے کھا رہی ہیں۔ نیز سات سرسبز خوشے اور سات خشک خوشے بھی دیکھا۔[30] کوئی بھی اس خواب کی تعبیر نہیں کرسکا یہاں تک کہ وہ قیدی آزاد ہو کر دربار میں پہنچا تھا، تو اسے حضرت یوسف یاد آئے اور کہا کہ وہ اس خواب کی تعبیر کر سکتے ہیں۔[31]
وہ جیل گیا اور وہاں حضرت یوسف سے خواب کی تعبیر پوچھی، آپؑ نے کہا: تمہارے پاس سات سال میں پانی کی فراوانی ہوگی اس کے بعد سال خشک سالی ہوگی۔ یوں تجویز دی کہ سات سال کی قحط سالی کے لئے پہلے کے سات سال میں خوب کھیتی باڑی کریں، اور ضرورت سے زیادہ کے غلات کو خوشہ سمیت ذخیرہ کریں تاکہ صحیح رہ سکیں۔[32]
بادشاہ کو حضرت یوسف کی تعبیر اور اس کا راہ حل پسند آیا، حضرت یوسف کو دربار میں بلایا۔ آپ نے بادشاہ کے بھیجے ہوئے شخص سے کہا کہ وہ بادشاہ سے مصر کی عورتوں کا ہاتھ کاٹنے اور آپ کے گرفتار ہونے کے واقعے کو بھی بیان کرے۔ بادشاہ نے اس بارے میں تحقیق کیا اور شہر کی عورتوں کو دربار میں بلایا اور مصر کی عورتوں نے یوسفؑ کی بیگناہی کی گواہی دی اور زلیخا نے بھی اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔[33]
خواب کی تعبیر اور بیگناہی ثابت ہونے کے بعد مصر کے بادشاہ نے آپؑ کو جیل سے آزاد کیا اور اپنے وزیر اور عزیز مصر کے منصب پر فائز کیا۔[34]
گھر والوں سے ملاقات
مصر کی خشک سالی کے دوران کنعان میں بھی قحط سالی آگئی۔ اسی لئے حضرت یعقوب نے بیٹوں کو گندم لانے کے لئے مصر بھیج دیا۔[35] حضرت یوسف نے بھائیوں کو دیکھتے ہی پہچان لیا، لیکن وہ آپ کو نہ پہچان سکے۔[36] آپ نے بھائیوں سے اچھا سلوک کیا[37] اور اپنی قمیص بھیج کر یعقوبؑ کی آنکھوں کی بینائی کو ٹھیک کردیا۔[38] اس کے بعد حضرت یعقوب اور ان کی اولاد ان سے ملنے مصر چلے گئے۔[39]
شادی اور اولاد
چوتھی صدی ہجری کے مسلمان مورخ مسعودی کے نقل کے مطابق، یوسفؑ نے مصر میں شادی کی اور دو بیٹے؛ اِفرائیم اور میشا پیدا ہوئے۔ افرائیم، یوشَع بن نون کے باپ تھے۔[40]
زلیخا سے شادی
بعض احادیث میں جناب یوسف عزیز مصر بننے کے بعد زلیخا سے شادی کرنے کا ذکر آیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں یوں ذکر ہوا ہے کہ یوسف نے ایک عورت کو دیکھا جو کہہ رہی تھی کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اطاعت کی وجہ سے غلام کو بادشاہ اور بادشاہ کو معصیت کی وجہ سے غلام بنا دیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو کہا میں زلیخا ہوں اور یوں اس کے ساتھ شادی کی۔[41] سید نعمت الله جزایری کا کہنا ہے کہ زلیخا جناب یوسفؑ کی دعا کی بدولت جوان ہوئی اور پھر آپ نے اس سے شادی کی۔[42] لیکن بعض نے ان روایات پر تحقیق کرنے کے بعد ان روایات کو مخدوش اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔[43] بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت یوسف کے دونوں بیٹے (مِنشا و افرایم یا اِفرائیم) زلیخا سے تھے۔[44]
ارتکاب تَرک اولی
- مزید معلومات کے لئے دیکھئے: ترک اولی
سورہ یوسف کی آیت 42 کے مطابق، جب حضرت یوسفؑ زندان میں تھے تو اس وقت ایک قیدی کو آزادی کی خبر دی اور کہا: بادشاہ کے پاس میری بے گناہی کو بیان کرو، لیکن شیطان نے اسے بھلا دیا اور اسی وجہ سے مزید کئی سال تک حضرت یوسفؑ زندان میں رہے۔ اس بارے میں مفسروں کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ شیطان نے حضرت یوسف کے ذہن سے خدا کی یاد کو بھلا دیا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ شیطان کی وجہ سے وہ قیدی بھول گیا اور جناب یوسفؑ کی بے گناہی کو بادشاہ کے پاس بیان نہ کرسکے۔ علامہ طباطبائی پہلے نظریئے کو قرآن کے ساتھ سازگار نہیں سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ایک طرف سے قرآن مجید میں جناب یوسفؑ کو مخلصین میں سے قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان کسی بھی صورت میں مخلصوں کے ذہن میں نفوذ نہیں کر سکتا ہے۔[45] [یادداشت 3] بہر حال مفسروں نے جناب یوسفؑ کے عمل کو ترک اولی سے تعبیر کیا ہے؛ کیونکہ انبیاء اور وہ لوگ جو توحید کے اعلی مراتب پر فائز ہیں ان سے اسی مقدار میں دنیوی اسباب سے متوسل ہونا مناسب نہیں ہے۔[46]
یوسف کا قصہ اور قرآن و توریت کا باہمی فرق
علامہ طباطبائی کے نقل کے مطابق قرآن مجید کے برخلاف،[47] توریت میں یوں آیا ہے کہ جناب یوسفؑ نے چاند، سورج اور ستاروں کا سجدہ کرنے کے خواب کو اپنے بھائیوں سے بیان کر دیا اور انہوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں بعد میں یہ ہم پر حاکم نہ بنے، حسد کرنے لگے۔ نیز توریت کے مطابق جب خواب کو اپنے باپ سے نقل کیا تو جناب یعقوبؑ غصہ ہوئے اور کہا: کیا میں، تمہاری ماں اور گیارہ بھائی تمہیں سجدہ کریں گے؟![48]
دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کے مطابق، یوسف کے بھائیوں نے آپؑ کو اپنے ساتھ صحرا لے جانے کی جناب یعقوب سے درخواست کی اور حضرت یعقوب نے آپؑ کو صحرا بھیج دیا،[49] لیکن توریت کے مطابق جناب یعقوب نے خود ہی جناب یوسفؑ سے کہا کہ بھائیوں کے ساتھ صحرا چلا جائے تاکہ بھائیوں اور گوسفندوں کی خیریت دریافت کر سکے۔[50]
وفات و محل دفن
چوتھی صدی ہجری کے مورخ مسعودی کے مطابق جناب یوسفؑ کی عمر 120 سال تھی۔ اور رحلت کے وقت اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہوئی کہ جو نور اور حکمت ہاتھ میں ہے اسے ببرز بن لاوی بن یعقوب کے حوالے کرے۔ اس وقت آپؑ نے ببرز بن لاوی اور بنی اسرائیل کے 80 مردوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ عنقریب ایک گروہ تم پر غالب آئے گا اور تمہیں سخت عذاب سے دوچار کرے گا، یہاں تک کہ لاوی کی اولاد میں سے موسی نامی انسان کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا۔[51] جناب یوسف کی وفات کے بعد، ہر گروہ آپ کو اپنے محلے میں دفن کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اختلاف سے بچنے کے لیے آپ کو مرمر کے ایک صندوق میں رکھ کر دیائے نیل میں دفن کیا۔ کئی سالوں کے بعد حضرت موسی نے آپ کے جنازے کو وہاں سے نکال دیا۔[52] چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے مورخ یاقوت حَمَوی کے مطابق آپ کو فلسطین میں دفن کیا گیا۔[53]
ہنری آثار
حضرت یوسف کا قصہ ہنری آثار، جیسے نقاشی، کاشی کاری، ادبیات، سینما اور ٹی وی پر بھی منعکس ہوتا رہا ہے۔ اور سنہ 2008ء میں ایک ٹی وی سیریل کی شکل میں یوسف پیغمبر کے نام سے نشر ہوا۔[54] آٹھویں صدی ہجری کے ایرانی شاعر حافظ شیرازی نے اپنے مندرجہ ذیل شعر میں ان کی داستان کی طرف اشارہ کیا ہے:
|
حوالہ جات
- ↑ صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص106.
- ↑ صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص106.
- ↑ صحفی، قصہ های قرآن، 1379شمسی، ص87.
- ↑ جعفری، «نامہای پیامبران در قرآن»، ص25 -26
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 24۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص130.
- ↑ سورہ انعام، آیہ 84۔
- ↑ جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص259.
- ↑ قطب الدین راوندی، قصص الانبیاء، 1430ھ، ص348.
- ↑ ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج9، ص310.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص82.
- ↑ سوره یوسف، آیہ 3۔
- ↑ سوره یوسف، آیات8 تا 100.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 4و5.
- ↑ ابن کثیر، قصص الانبیاء، 1416ق/1996م، ص191.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 8۔
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 12.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 17۔
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 18.
- ↑ سوره یوسف، آیہ 84.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج12، ص242
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 10و19.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 21.
- ↑ ملاحظہ کریں: جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص217؛ بلاغی، قصص قرآن، 1380شمسی، ص98؛ صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص114و115.
- ↑ صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص115و116؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 23.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج5، ص396.
- ↑ صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص117و118؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 30و31.
- ↑ جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص221؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 33تا35.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص105تا106؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ 41.
- ↑ جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص223؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 43.
- ↑ جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص223؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 44و45.
- ↑ جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص223؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ 47تا49.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص105تا106؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ 50و51.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص108.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص110.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص109؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 58.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص110؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 59.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص119؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 93تا96.
- ↑ بلاغی، قصص قرآن، ص119؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ100.
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص49.
- ↑ قطب الدین راوندی، قصص الانبیاء، 1430ھ، ص351.
- ↑ جزایری، النورالمبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص234.
- ↑ ملاحظہ کریں: معارف و دیگران، «بررسی روایات تفسیري فریقین در مسئلۀ ازدواج حضرت یوسف با زلیخا»، ص7تا32.
- ↑ مقدسی، البدء و التاريخ، بور سعید، ج3، ص69؛ ابن کثیر، البداية و النهاية، 1407ھ، ج1، ص210؛https://pasokh.org/fa/Question/View/73787/آيا-از-فرزندان-و-نوادگان-حضرت-يوسف-ـ-عليه-السلام-ـ-پيامبر-هم-شد-و-اصلاً-يوسف-ـ-عليه-السلام-ـ-فرزند-داشته-است
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص181.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،1374شمسی، ج9، ص414.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 4.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، 261.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ 12.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص261.
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص74.
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص75.
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج1، ص478.
- ↑ «چهار سال با یوسف پیامبر»، وبگاه ویستا، تاریخ بازدید: 11 شهریور 1398.
- ↑ حافظ، غزلیات، غزل 255
نوٹ
- ↑ فقد كان يوسف عليهالسلام رجلا ...وكان ذا جمال بديع يدهش العقول ويسلب الألباب...، وكانت الملكة فتاة فائقة الجمال وكذلك تكون حرم الملوك والعظماء. المیزان، منشورات اسماعیلیان، ج11، ص126؛ ان دنوں یوسف ایک خوبرو جوان تھے اور ان کا جمال دیکھ کر دیکھنے والوں کے دل اور عقلیں مدہوش ہوجاتی تھیں۔۔۔ دوسری طرف مصر کی ملکہ بھی بہت خوبرو تھی کیونکہ سلاطین کی عادت یہی ہوتی تھی کہ دربار کے لئے کسی حسین عورت کو انتخاب کیا جائے۔ موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ج11، ص170
- ↑ علامہ طباطبایی اپنی کتاب المیزان میں اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سلاطین اور بادشاہوں کے گھر پر اپنی چاہت کے مطابق زندگی گزارنے کے وسائل فراہم ہوتے ہیں اور عزیز مصر کا گھر بھی یوسف کو گناہ میں آلودہ کرنے کے لئے ایسا ہی تھا۔ ولبيوت الملوك والأعزة أن تحتال لشتى مقاصدها و مآربها بأنواع الحيل و المكايد فإن عامة الأسباب و إن عزّت و امتنعت ميسّرة لها. طباطبایی، المیزان، 1391ھ، ج11، ص122.
- ↑ سورہ حجر آیات 39و40 ...لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ* إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ. تو میں بھی زمین میں ان (بندوں) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔
مآخذ
- ابن طاووس، علی بن موسی، المجتنی من الدعاء المجتبی، قم، دار الذخائر، چاپ اول، 1411ھ۔
- ابن کثیر، قصص الانبیاء و اخبار الماضین (خلاصۃ تاریخ ابن کثیر)، تدوین محمد بن احمد کنعان، بیروت، مؤسسۃ المعارف، چاپ اول، 1416ق/1996ء۔
- بلاغی، صدر الدین، قصص قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ ہفدہم، 1380ھ۔
- «چہار سال با یوسف پیامبر»، وبگاہ ویستا، تاریخ بازدید: 11 شہریور 1398.
- جزایری، نعمت اللہ، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، بیروت، دار الاضوا، چاپ دوم، 1423ھ۔
- حافظ شیرازی، شمس الدین محمد، غزلیات حافظ، غزل 255، وبگاہ گنجور، تاریخ بازدید 31 شہریور 1398شمسی ہجری۔
- صحفی، سید محمد، قصہہای قرآن، قم، اہل بیت، چاپ دوم، 1379شمسی ہجری۔
- ضیاء آبادی، محمد، تفسیر سورہ یوسف، تہران، موسسہ بنیاد خیریہ الزہرا(علیہا السلام)، 1388شمسی ہجری۔
- طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
- قطب الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الانبیاء الحاوی لاحادیث کتاب النبوہ للشیخ الصدوق، قم، انتشارات علامہ مجلسی، 1388شمسی ہجری۔
- مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہالسلام، قم، اسماعیلیان، چاپ سوم، 1384شمسی ہجری۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374شمسی ہجری۔
- یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت دار صادر، چاپ دوم، 1995ء۔