حوا

ویکی شیعہ سے
(حضرت حوا سے رجوع مکرر)
شہر جدہ میں جناب حوا سے منسوب مقبرہ
جدہ میں حضرت حوا کے مقبرہ کا قدیم منظر

حوا پہلی عورت، حضرت آدم کی زوجہ اور نسل بشر کی مادر گرامی ہیں۔ یہودی، مسیحی مقدس کتب میں آپ کا نام بیان ہوا ہے لیکن قرآن میں حوا کا نام ذکر نہیں ہوا صرف آدم کی زوجہ کے عنوان سے آپ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی تفسیری، تاریخی روائی کتابوں میں حوا کا نام ذکر ہوا ہے، آپ کے بارے میں مختلف کہانیاں بیان ہوئی ہیں جیسے کہ آپ کی خلقت کے بارے میں، حضرت آدم و حضرت حوا کا منع کئے گئے پھل کو کھانا، آپ کا زمین پر اتارا جانا اور زمین پر بھیجنے کے بعد آپ کی زندگی۔ حوا کے محل دفن کے بارے میں اختلاف ہے اور سعودی عرب کے شہر جدہ میں واقع قبر کو آپ سے نسبت دی گئی ہے۔

لغوی و اصطلاحی معنی

توریت میں یہ نام عبری صورت میں "حوا" آیا ہے. تورات کے یونانی زبان میں ترجمے کے دوران یہ لفظ Evα اور لاتینی میں Heva تھا اور لاتینی سے Eve کی صورت میں مغربی زبان میں داخل ہوا ہے. حوا کے اصلی لفظ کی شناخت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس اصل کی شناخت کے لئے نو نظریے ذکر ہوئے ہیں.

پہلا نظریہ: عہد عتیق کے مطابق حضرت آدم نے اپنی زوجہ کا نام حوا رکھا، اس لئے کہ وہ تمام زندہ افراد کی ماں ہے. دوسرا نظریہ: ممکن ہے یہ کلمہ حیاہ سے تبدیل (حی کا معنی زندہ) کیا گیا ہو. اسکینر کی نظر میں حوا جو کہ ایک پہلی عورت اور حضرت آدم کی زوجہ کا مستقل نام ہے، احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ ایک پرانے نظریے سے ماخوذ ہے جس کی بناء پر، پہلی ماں، اور وحدت نسل کی نمائندہ ہے. اس لئے، حوا کا لفظ اولاً حیات کے معنی میں اور اس کے بعد حیات کا سر چشمہ، یعنی مادر ہو. تیسرا نظریہ: تیسرا نظریہ لفظ حوا کا لفظ "آرامی حیوی" یا "حویا" سے شباہت رکھنا ہے کہ جن کا معنی "سانپ" ہے. لھذا حوا کے نام کی اصل کی شناخت یہ ہے کہ اس نے حضرت آدم کو ورغلانے کے لئے سانپ جیسا عمل کیا، جس طرح کہ سانپ حوا کی ہلاکت کا باعث بنا، اسی طرح حوا نے بھی اپنے خاوند کے لئے سانپ کی طرح عمل کیا. [1]

عربی زبان کے لفظ شناسی منابع میں بھی حوا لفظ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے جہاں پر اصل کی شناخت کے لئے دو لفظ "حوو" اور "حوی" کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، حالانکہ حوا لغت شناسان کی نظر میں اسم خاص ہے کہ جس کا معنی بغیر کسی لغوی وجہ کے صرف "حضرت آدم" کی زوجہ ہے. [2] تحریری صورت میں حوا کا لفظ عربی زبان میں چند اصلی معنی میں ملتا ہے: ایک کا مادہ "ح و و" "کالے رنگ پر دلالت کرنے والا سبز کی مانند یا سرخ مائل بہ سیاہ"، احوی مونث، کسی چیز یا عورت کی صفت کہ جس کا رنگ سبز یا مائل بہ سیاہ ہو [3] دوسرا مادہ "ح ی ی" "دو دلالت زندگی اور سانپ" جس کا معنی سپیرا ہے. [4] اسی طرح ابن منظور کے قول کے مطابق اگر حوا الف لام کے ساتھ ذکر ہو تو یہ ایک گھوڑے کا نام ہے. [5]

حوا یہودیت کی نگاہ میں

حوا کی خلقت

زمانہ قدیم میں انسان کی خلقت کے بارے میں دو روایت بیان ہوئی ہیں. پہلی روایت میں، انسان مرد اور عورت (نر و مادہ) کی صورت میں خلق ہوا ہے اور دوسری روایت کے مطابق، پہلے مرد اور اس کے بعد عورت کی خلقت ہوئی ہے. اہل تحقیق معتقد ہیں کہ یہ دو روایت توریت کے دو مختلف ویرایشی متون سے ہیں.

اس سے قدیمی تر روایت میں، خدا نے مرد کی خلقت کے بعد، خشکی میں رہنے والے حیوان اور پرندوں کو مٹی سے خلق کیا. اور آدم نے ہر ایک کے لئے نام چنا، لیکن اسے ان میں سے اپنے لئے کوئی مناسب دوست نہ ملا. اسی لئے خداوند نے آدم کو ایک لمبی نیند سلا دیا، اور اس کی ایک پسلی کو منتخب کیا، اور اس سے عورت کی خلقت کی پھر اس عورت کو آدم کے لئے پیش کیا.

آدم اور حوا کا زمین پر آنا

زمانہ قدیم کے مطابق، آدم اور اس کی زوجہ، دونوں شرم کا احساس کئے بغیر، جنت میں بغیر کپڑوں کے تھے. سانپ نے عورت کو فریب دیا اور جس درخت کے پھل سے خداوند نے آدم اور اس کی زوجہ کو منع کیا تھا اسے کھانے کی تشویق کی. عورت نے اس پھل کو کھایا اور آدم کو بھی کھلایا جس کے نتیجے میں دونوں کی آنکھیں کھلی اور انہیں سمجھ آئی کہ ان کے جسم پر کپڑے نہیں. چونکہ خدا نے آدم سے پوچھ گچھ کی، آدم نے اپنی زوجہ سے پوچھا اور اس نے سانپ کو متہم کیا. اس لئے خداوند نے آدم اس کی زوجہ اور سانپ کو اس جرم کی سزا دی جس جرم کے وہ مرتکب ہوئے تھے. پھر عورت کو کہا گیا: "تمہارے حمل کے درد کو بہت زیادہ کر دوں گا، درد کے ساتھ بچہ پیدا کرو گی اور شوہر کی مشتاق رہو گی اور وہ تم پر حکمرانی کرے گا" اس کے بعد آدم اور حوا کو جنت سے باہر نکالا گیا اور درخت حیات کھانے سے روکا گیا تا کہ ہمیشہ زندہ نہ رہ سکیں.

عہد قدیم(توریت) میں حوا کا نام

توریت میں حوا کے لئے تین نام بیان ہوئے ہیں کہ ان میں سے ہر نام، اس کتاب میں اپنے لئے ایک خاص معنی اور استعمال رکھتا ہے. پہلا اللہ تعالیٰ نے، حوا اور اس کے خاوند کو ایک نام یعنی آدم کے نام سے پکارا ہے. دوسرا نام، ایشاہ، یہ نام حوا کے لئے آدم نے رکھا جو اس کی بیوی اور شریک حیات ہونے پر دلالت کرتی ہے. یہ نام خلقت اور اس کے جنت سے نکالے جانے کی کہانی میں آیا ہے. حوا تیسرا نام ہے جو جنت سے نکالے جانے کے بعد اس کے لئے استعمال ہوا ہے. ایک بار مطلق طور پر پوری انسانی بشر کی ماں، اور دوسری بار پہلے بیٹے قابیل کی ماں. [6]

حوا کی زندگی زمین پر آنے کے بعد

توریت کی بعض ملحقات میں، حوا کے جنت سے باہر آنے کے بعد کی زندگی کے بارے میں کچھ معلومات ہیں. جیسا کہ لکھا گیا ہے کہ جب آدم اور حوا "عدن" سے باہر آئے، تو کھانے کی تلاش میں نکلے لیکن ایسی غذا جو جنت میں کھاتے تھے، نہ ڈھونڈ سکے، لہذا توبہ کرنے کا ارادہ کیا. اور آدم نے یہ فیصلہ کیا کہ توبہ کے لئے، حوا گردن تک دریائے دجلہ میں اتریں گی اور ٣٧ دن تک اسی حالت میں کھڑی رہیں گی. اور خود آدم دریائے اردن میں چالیس دن تک رہیں گے. لیکن اٹھارویں دن شیطان نے ایک فرشتے کی شکل میں ظاہر ہو کر دوبارہ حوا کو دھوکہ دیا اور کہا کہ خدا نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے جس کی وجہ سے حوا مقرر وقت سے پہلے پانی سے باہر آ گئیں. آدم اس سے برہم ہوئے کہ اپنا عہد کیوں توڑا ہے پھر حوا کو معلوم ہوا کہ وہ دوبارہ شیطان کے دھوکے میں آ گئی ہے. حوا نے اپنی دونوں غلطیاں تسلیم کیں اور آدم کو چھوڑ کر مغرب کی جانب چلی گئیں جب کہ اس وقت وہ حاملہ تھیں. اور وضع حمل کے وقت شدید درد کا سامنا ہوا اور جتنا بھی خدا کو مدد کے لئے پکارا کوئی جواب نہ آیا. پھر رو کر آدم کو مدد کے لئے بلایا. آدم کی دعا سے، حوا کے وضع حمل کے وقت فرشتے مدد کے لئے حاضر ہوئے اور اس کے لئے شرائط کو مہیا کیا پھر اس نے قائن (قابیل) کو جنم دیا. پھر آدم، اپنی زوجہ اور فرزند کو لے کر مشرق کی طرف واپس لوٹ آیا اور حوا نے وہیں پر دوسرے بیٹے ہابیل کو جنم دیا.

اسی روایت کے مطابق، حوا نے خواب دیکھا کہ قابیل کے ہاتھ اپنے بھائی ہابیل کے خون میں تر ہیں. آدم کو اپنی خواب سے آگاہ کیا، لہذا فیصلہ کیا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کریں اس لئے ہابیل کو کھیتی باڑی اور قابیل کو مویشیوں کا چرواہ بنا دیا. [7]

حوا مسیحت کی نگاہ میں

انجیل میں، صرف دو جگہ پر پہلی عورت کی طرف حوا کے نام سے اشارہ کیا گیا ہے. ایک بار عیسائیوں کو دھوکے سے بچنے کے لئے حوا کی مثال دی گئی اور دوسری بار، یہ اشارہ کیا گیا کہ حوا کی خلقت آدم کے بعد ہے اور یہ کہ دھوکہ حوا نے کھایا تھا نہ کہ آدم نے، اور کہا گیا ہے کہ عورت استاد نہیں بن سکتی اور نہ ہی اپنے خاوند پر حکم چلا سکتی ہے اور صرف ایمان اور تقویٰ کی بناء پر یا اولاد پیدا کرنے پر، اسے اس گناہ سے نجات مل سکتی ہے جس کی وہ مرتکب ہوئی ہے. [8]

حوا اسلامی نکتہ نگاہ میں

حوا کا لفظ قرآن اور حدیث میں

قرآن کریم میں حوا کا لفظ ذکر نہیں ہوا اور حضرت آدم سے متعلق آیات کے ذیل میں، حوا کو حضرت آدم کی زوجہ (زوجک) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے. [9]

البتہ احادیث، اور تاریخی و تفسیری کتابوں میں، حضرت آدم کی زوجہ کو حوا کا نام دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اس نام کی وجہ یہ ہے کہ حوا تمام زندہ انسانوں کی ماں [10] یا حی (زندہ موجود، یعنی آدم) سے خلق ہوئی ہے. [11] اسی طرح ایک روایت میں، آدم نے حوا کو "اثا" کا نام دیا نبطی زبان میں اس کا معنی عورت ہے. [12]

آدم اور حوا کی خلقت قرآن کی نگاہ میں

قرآن کریم میں تاکید کی گئی ہے کہ آدم کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے [13] اور اسی طرح کہا ہے: " (خدا) نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا". [14]

اکثر قدیمی مفسرین معتقد ہیں کہ ان آیات میں "نفس" سے مراد آدم اور "زوج" سے مراد حوا ہے اور روایات کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے حوا کو آدم کی پسلی [15] یا آدم کی خلقت کے بعد جو مٹی بچ گئی تھی اس سے خلق کیا. [16]

بعض مفسرین کی نگاہ میں، ان آیات سے مراد یہ ہے کہ خدا نے آدم کے جوڑے کو اس کی اپنی جنس سے خلق کیا، جیسا کہ دوسری آیات کی عبارت "من انفسکم" [17] کا یہی معنی ہے. اس کے علاوہ یہ تفسیر سورہ اعراف کی آیت ١٨٩ کے ذیل میں جہاں پر کہا گیا ہے "تا کہ اس سے آرام پائے" اس کے ساتھ زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ہر کوئی اپنے ہمجنس کی طرف مائل ہے اور اسی سے انس رکھتا ہے. [18]

بعض ہم عصر مفسرین نے کہا ہے کہ نفس واحد سے مراد، آدم ابوالبشر نہیں، بلکہ اس سے مراد، خلقت انسان کی اصل اور ابتداء ہے (جس میں عورت اور مرد دونوں شامل ہیں) اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عورت اور مرد، ایک ہی گوہر سے پیدا کئے گئے ہیں. [19]

بعض نے حیاتیات کے جدید نظریات کو مدنظر رکھتا ہوئے "نفس واحد" کو پہلی جاندار چیز کہا ہے کہ جس سے بشر نے نشئت لی ہے. اس جاندار نے ابتداء میں غیر جنسی صورت میں تولید مثل کی اور بعد میں مونث جاندار جو کہ خود اس کے ہی وجود سے بنی تھی، کے ساتھ مباشرت کی جس کے نتیجے میں انسان کی نسل وجود میں آئی. اس نظریے کی بناء پر، تکامل انسان کے پہلے مرحلے میں، اس کا جوڑا مستقل طور پر خلق نہیں ہوا، بلکہ یہ جوڑا خود اس کے وجود سے خلق ہوا. اسی لئے، پہلے مرحلے میں انسان کی تولید مثل، جنسی نہیں تھی. اس کے علاوہ اولاد کی جنسیت کا بلاواسط باپ پر دارومدار رکھنا (نہ ماں پر) اس واقعیت کا عکاس ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی جنس ایک ہی نفس سے، یعنی مرد سے، وجود میں آئی ہے. [20]

قرآن کی نگاہ میں آدم و حوا کا جنت سے باہر آنا

قرآن کریم میں حوا کی خلقت کے بارے میں کچھ بیان نہیں ہوا ہے. قرآن کی آیات کے مطابق، آدم اور اس کی زوجہ خدا کے حکم سے جنت میں ساکن ہوئے. وہ جنت میں ہر کھانے والی چیز سے مستفید ہوتے تھے. سوائے ایک درخت کے پھل سے اور ان سے کہا گیا تھا کہ اگر اس درخت کے نزدیک جائیں گے تو ان کا حساب ظالمین سے ہو گا. شیطان نے ان دونوں کو دھوکہ دیا اور انہوں نے اس ممنوعہ پھل کو کھایا. جس کے نتیجے میں ان کے جسم ایک دوسرے کے لئے ظاہر ہو گئے انہوں نے کوشش کی کہ جنتی پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانپیں. اس کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انکو معاف کر دے. اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ زمین پر جائیں اور موت آنے تک وہیں پر زندگی گزاریں جب موت آ جائے تو وہاں کو ترک کریں. [21]

آدم کے گناہ میں حوا کا کردار

قرآن کریم میں آدم کے پہلے گناہ میں حوا کا کوئی کردار نہیں بتایا گیا. عہد عتیق کے مطابق سانپ نے حوا کو اور اس نے آدم کو دھوکہ دیا، حالانکہ قرآن کریم کے مطابق، شیطان نے ان دونوں کو دھوکہ دیا. [22] حتی کہ سورہ طہ کی آیت ١٢٠ میں شیطان کی گفتگو اور اس کا وسوسہ ڈالنا صرف آدم کے لئے بیان ہوا ہے کہ شیطان نے بلاواسطہ طور پر آدم سے خطاب کیا. اور شیطان کا یہ خطاب حوا کے ساتھ تھا اس بارے میں اس آیت میں کوئی اشارہ نہیں ہوا. حالانکہ یہودی اور مسیحی سنت میں، حوا کو دھوکہ کھانے اور گمراہ کرنے والا کہا گیا ہے، قرآن مجید میں آدم اور حوا، دونوں کا قصور ایک جتنا بتایا گیا ہے اور پہلی زوج بشری ہونے کے عنوان سے دونوں جنت سے خارج ہونے کا باعث بنے ہیں. [23]

حوا کا دھوکہ کھانا احادیث کی نگاہ میں

اگرچہ تفسیری احادیث میں، شیطان سے دھوکہ کھانے اور آدم و حوا کا جنت سے باہر نکالنے کے بارے میں، حوا کے کردار کے بارے میں مطالب بیان ہوئے ہیں [24] جو کہ ظاہراً عہد عتیق میں بیان کی گئی داستان کی وجہ سے ہے. [25] اسی طرح حدیث میں حوا کا نام بھی آیا ہے: "اگر حوا نہ ہوتی تو عورت ذات اپنے شوہر سے خیانت نہ کرتی" [26] اس خیانت سے مراد، آدم کے پہلے گناہ میں حوا کا کردار ہے. [27] اسی طرح جنت سے باہر آنے کے بعد حوا کے دھوکہ کھانے کے بارے میں روایات موجود ہیں. روایت کے مطابق، حوا حاملہ ہوتی تھی لیکن اس کا بچہ زندہ نہیں رہتا تھا. شیطان (کہ جس کا نام حارث تھا) حوا کے پاس آیا اور اسے کہا کہ بچے کا نام عبدالحارث رکھو تا کہ زندہ رہے. انہوں نے ایسا ہی کیا حالانکہ یہ شیطان کا دھوکہ تھا. [28] اس روایت کے مطابق، حوا کی وجہ سے آدم کو دوبارہ دھوکہ ملا. (شیعہ اور سنی علماء اس سلسلے میں کچھ تنقید یا تاؤیلات رکھتے ہیں) [29] علامہ مجلسی کے بقول یہ روایات شیعہ اماموں سے صادر ہونا تقیہ (مصلحت) کی بناء پر ہے، علامہ طباطبائی نے اس اور اس جیسی دوسری روایت کو جعلی اور اسرائیلیوں کی طرف سے کہا ہے. [30]

حوا تاریخی کتب میں

اگرچہ شیعہ اور سنی کی حدیثی منابعوں میں، حوا کے بارے میں محدود روایات ذکر ہوئی ہیں، تاریخ کی کتابوں میں، تراجم و قصص انبیاء کے بارے میں مختلف، عموماً اسرائیلیوں کے بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں. [31] ان روایات کے مطابق، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو جنت میں سکونت دی، تو وہ اکیلے تھے. اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک لمبی نیند سلایا اور حوا کو آدم کی بائیں طرف کی پسلی سے خلق کیا. اس دوران، آدم نے کسی قسم کا درد احساس نہیں کیا، کیونکہ اس کے علاوہ دوسری کسی صورت میں عورت کی طرف رغبت نہیں رکھتا. اس کے بعد حوا کو بہشتی کپڑے پہنائے، اور اسے تیار کیا اور آدم کے سر کی طرف بٹھایا. آدم نے بیدار ہونے کے بعد اسے دیکھا اور اسے حوا کا نام دیا.

اسی منابع میں آیا ہے کہ آدم اور حوا جنت میں ناز و نعمت میں تھے، لیکن ابلیس جو کہ سانپ کے منہ سے بولتا تھا، اس نے مور کی مدد سے انہیں دھوکہ دیا اور ممنوعہ پھل کو پہلے حوا اور اس کے بعد آدم نے کھایا. روایت میں ہے کہ جب تک آدم کا عقل سالم تھا اس نے یہ ممنوعہ پھل نہیں کھایا، اس کے بعد، حوا نے آدم کو شراب پلایا اور پھر اسے اس درخت کے پاس لے گئی اور اسے ممنوعہ پھل کھانے کے لئے کہا.

آدم اور حوا امر الہی کی مخالفت اور ممنوعہ پھل کو کھانے کے بعد، جنت سے باہر نکالے گئے. مشترک سزا کے علاوہ، حوا کو اور اس کے بعد دوسری تمام عورتوں کو بہت سی سزائیں جیسے کہ ماہواری، حاملگی، زچگی کا درد، دی گئیں. جنت سے نکالے جانے کے بعد، آدم ہندوستان میں اور حوا جدہ میں اتریں اور توبہ کے بعد، عرفات کے مقام پر ایک دوسرے سے ملاقات کی. انہوں نے حج کے بعض اعمال کو بجا لایا اور حوا کو پہلی بار ماہواری ہوئی. آدم نے زمین پر اپنے پاؤں مارے اور آب زمزم جاری ہوا اور حوا نے اس پانی سے غسل کیا. حوا بیس بار حاملہ ہوئی اور چالیس بچے جنم دئیے.

حوا کی وفات آدم کے ایک سال بعد ہوئی اور اس کے جوار میں سپرد خاک کیا گیا.[32]

حوا کا مدفن

حوا کے دفن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے. بعض نے کہا ہے کہ حوہ جدہ پر اتریں اور وہیں پر مدفن ہوئیں. [33]اور ایک قول کے مطابق اسے اس لئے جدہ کا نام دیا گیا ہے. ظاہراً حوا کا پہلا مقبرہ ایرانیوں نے بنایا ہے. [34] سعودی عرب کی حکومت نے یہ مقبرہ خراب کیا. بعض تاریخی قول اور روایات کے مطابق، حوا مکہ میں واقع کوہ ابوقبیس کے غار، اور حضرت آدم کے ساتھ دفن ہوئی ہیں. [35]

حوالہ جات

  1. دانشنامہ معیار کتاب مقدس، ذیل "Eve".
  2. فیروزآبادی، القاموس المحیط، ذیل «حوو»؛ زَبیدی، تاج العروس من جواهرالقاموس، ذیل «حوو»؛ ابن منظور، لسان العرب، ذیل «حوی».
  3. فیروزآبادی، القاموس المحیط، ذیل «حوو»؛ زَبیدی، تاج العروس من جواهرالقاموس، ذیل «حوو»؛ ابن منظور، لسان العرب، ذیل «حوی».
  4. خلیل بن احمد، کتاب العین، ذیل «حیو».
  5. ابن منظور، لسان العرب، ذیل «حوی».
  6. دانشنامہ معیار کتاب مقدس، ذیل "Eve".
  7. کوہن، گنجینہ ای از تلمود، ج۱، ص۱۸۳؛ دانشنامہ معیار کتاب مقدس، ذیل "Eve".
  8. دانشنامہ معیار کتاب مقدس، ذیل "Eve".
  9. بقره، آیہ۳۵؛ اعراف، آیہ۱۹؛ طہ، آیہ۱۱۷.
  10. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۴۰.
  11. طبری، جامع، ذیل بقره: ۳۵؛ ابن بابویہ، علل الشرایع، ج۱، ص۲؛مجلسی، بحار الانوار، ج۱۱، ص۱۰۰-۱۰۱.
  12. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹.
  13. آل عمران، آیہ۵۹؛ حجر، آیہ۲۸ اور دوسری آیات.
  14. نساء، آیہ۱؛ اعراف، آیہ۱۸۹.
  15. ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص۱۷۵؛ قمی، تفسیرالقمی، ذیل نساء: ۱؛ ابن بابویہ، علل الشرایع، ج۲، ص۴۷۱.
  16. عیاشی، کتاب التفسیر، ذیل نساء: ۱؛ ابن بابویہ، الامالی، ج۱، ص۲۵۹-۲۶۰؛ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، ذیل آیات؛ طبرسی، تفسیر مجمع البیان، ذیل آیات؛ فخر رازی، التفسیرالکبیر، او، مفاتیح الغیب، ذیل آیات.
  17. توبہ، آیہ۱۲۸؛ نحل، آیہ۷۲.
  18. شریف رضی، حقائق التأویل فی متشابہ التنزیل، ج۱، ص۳۰۸۳۰۹؛ فخر رازی، التفسیرالکبیر، او، مفاتیح الغیب، ذیل نساء: ۱؛ طباطبائی، تفسیر المیزان، ذیل نساء: ۱؛ سبحانی، القصص القرآنیة: دراسة و معطیات و اهداف، ج۱، ص۹۲۹۳.
  19. رشیدرضا، تفسیرالقرآن الحکیم الشہیر بتفسیر المنار، ذیل نساء: ۱؛ جوادی آملی، زن در آینہ جلال و جمال، ج۱، ص۴۲۴۴.
  20. رشیدرضا، تفسیرالقرآن الحکیم الشہیر بتفسیر المنار، ذیل نساء: ۱؛ بہبودی، «بازنگری تاریخ انبیاء در قرآن»، ص۲۸۶۲۹۲.
  21. بقره، آیہ۳۵-۳۸؛ اعراف، آیہ۱۹-۲۵؛ طہ، آیہ۱۱۵-۱۲۳.
  22. بقره، آیہ۳۶؛ اعراف، آیہ۲۰.
  23. ذیل مادّه، دانشنامہ جہان اسلام، چاپ اول.
  24. یعقوبی، تاریخ، ج۱، ص۵۶.
  25. طباطبائی، تفسیر المیزان، ج۱، ص۱۴۰.
  26. بخاری، صحیح البخاری، ج۴، ص۱۲۶؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۴، ص۱۷۹.
  27. نووی، صحیح مسلم بشرح النووی، ج۱۰، ص۵۹؛ ابن حجر عسقلانی، فتحالباری: شرح صحیح البخاری، ج۶، ص۲۶۱.
  28. ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، ج۵، ص۱۱؛ ترمذی، سنن الترمذی، ج۴، ص۳۳۲؛ طبری، تاریخ (بیروت)، ج۱، ص۱۴۸-۱۵۰؛ قمی، تفسیرالقمی، ذیل اعراف: ۱۹۰.
  29. علم الہدی، تنزیةالانبیاء، ج۱، ص۲۹۳۴؛ ذیل اعراف: ۱۹۰، طبرسی، تفسیر مجمع البیان.
  30. مجلسی، بحار الانوار، ج۱۱، ص۲۴۹۲۵۶.
  31. عبدالرحمان ربیع، الاسرائیلیات فی تفسیرالطبری: دراسة فی اللغة و المصادر العبریہ، ج۱، ص۱۰۶۱۰۸؛ محمد قاسمی، اسرائیلیات و تأثیر آن بر داستانهای انبیا در تفاسیر قرآن، ج۱، ص۲۴۰۲۶۲.
  32. ابن ہشام، کتاب التیجان فی ملوک حمیر، ج۱، ص۱۴۲۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ج۱، ص۱۵؛ ثعلبی، قصص الانبیاء، ج۱، ص۲۵۴۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج۶۹، ص۱۰۱-۱۱۱؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۱، ص۳۲۵۳؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۱۱، ص۹۹-۱۲۲.
  33. دیکھیے ابن قُتَیبہ، ص۱۵؛ ابن فقیہ، ص۲۶۸؛ طبری، ج ۱، ص۱۲۱۱۲۲؛ بکری، ج ۱، ص۶۲.
  34. دیکھیے ابن مجاور، قسم ۱، ص۴۷ ۴۸.
  35. طبری، ج۱، ص۱۶۱-۱۶۲.

مآخذ

  • آمال محمد عبد الرحمان ربیع، الاسرائیلیات فی تفسیرالطبری: دراسة فی اللغۃ و المصادر العبریۃ، قاہره ۱۴۲۲/۲۰۰۱
  • ابن ‌اثیر، الکامل فی التاریخ (علی بن محمد)، الکامل فی التاریخ، بیروت ۱۳۸۵۱۳۸۶/ ۱۹۶۵۱۹۶۶، چاپ افسٹ ۱۳۹۹۱۴۰۲/ ۱۹۷۹۱۹۸۲.
  • ابن‌ اثیر، الکامل فی التاریخ (مبارک بن محمد)، النہایۃ فی غریب الحدیث و الاثر، چاپ محمود محمد طناحی و طاهر احمد زاوی، بیروت ۱۳۸۳/۱۹۶۳، چاپ افسٹ قم، ۱۳۶۴ش
  • ابن بابویہ، الامالی، قم، ۱۴۱۷ق
  • ابن بابویہ، علل الشرایع، نجف ۱۳۸۵۱۳۸۶، چاپ افسٹ قم
  • ابن بابویہ، معانی الاخبار، چاپ علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۱ش
  • ابن حجر عسقلانی، فتح الباری: شرح صحیح البخاری، بولاق ۱۳۰۰۱۳۰۱، چاپ افسٹ بیروت
  • ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، بیروت: دار صادر
  • ابن ‌سعد، الطبقات الکبری (بیروت)
  • ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۵۱۴۲۱/ ۱۹۹۵۲۰۰۱
  • ابن فقیہ، غایة الامانی فی اخبار القطر الیمانی، چاپ سعید عبد الفتاح عاشور، قاہره، ۱۳۸۸/۱۹۶۸
  • ابن قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاہره، ۱۹۶۰م
  • ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، چاپ محمد فؤاد عبد الباقی، (قاہره ۱۳۷۳/ ۱۹۵۴)، چاپ افسٹ بیروت
  • ابن مجاور، صفة بلاد الیمن و مکہ و بعض الحجاز، المسماة تاریخ المستبصر، چاپ اسکار لوفگرن، لیدن، ۱۹۵۱۱۹۵۴ء
  • ابن منظور، لسان العرب
  • ابن ہشام، کتاب التیجان فی ملوک حمیر، صنعا، ۱۹۷۹ء
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، (چاپ محمد ذہنی افندی)، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱، چاپ افسٹ بیروت
  • بکری، عبد الله بن عبد العزیز، معجم ما استعجم، بہ کوشش مصطفی سقا، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء
  • بہبودی، محمد باقر، «بازنگری تاریخ انبیاء در قرآن»، پژوہش‌های قرآنی،ش ۱۱۱۲ (پاییز زمستان ۱۳۷۶ش)
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج ۴، چاپ عبد الرحمان محمد عثمان، بیروت، ۱۴۰۳ق
  • ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الانبیاء، المسمّی عرایس المجالس، بیروت: المکتبة الثقافیہ
  • جوادی آملی، عبد اللّه، زن در آینه جلال و جمال، قم، ۱۳۷۶ش
  • خلیل بن احمد، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، ۱۴۰۵ق
  • رشید رضا، محمد، تفسیرالقرآن الحکیم الشہیر بتفسیر المنار، (تقریرات درس) شیخ محمد عبده، ج ۴، مصر، ۱۳۷۳ق
  • مرتضی زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۴ق
  • سبحانی، جعفر، القصص القرآنیۃ: دراسہ و معطیات و اہداف، قم، ۱۴۲۷ق
  • شریف رضی، حقائق التأویل فی متشابہ التنزیل، چاپ محمد رضا آلکاشف الغطاء، بیروت، چاپ افسٹ قم
  • طباطبائی، تفسیر المیزان
  • طبرسی، تفسیر مجمع البیان
  • طبری، تاریخ (بیروت)
  • طبری، جامع
  • طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن
  • علم الہدی، علی بن حسین، تنزیہ الانبیاء، بیروت، ۱۴۰۹/۱۹۸۹
  • عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب التفسیر، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم، ۱۳۸۰۱۳۸۱ش، چاپ افسٹ تہران
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، او، مفاتیح الغیب، چاپ عماد زکی بارودی، قاہره، ۲۰۰۳ء
  • فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، چاپ یوسف الشیخ محمد بقاعی، بیروت، ۲۰۰۵ء
  • محمد قاسمی، حمید، اسرائیلیات و تأثیر آن بر داستانہای انبیا در تفاسیر قرآن، تہران، ۱۳۸۰ش
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، چاپ طیب موسوی جزائری، قم، ۱۴۰۴ق
  • کوہن، آبراہام، گنجینه‌ای از تلمود، ترجمہ امیر فریدون گرگانی، تہران، ۱۳۸۲ش
  • مجلسی، بحار الانوار
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، چاپ محمد فؤاد عبد الباقی، استانبول، ۱۴۰۱/۱۹۸۱
  • نووی، یحیی بن شرف، صحیح مسلم بشرح النووی، بیروت، ۱۴۰۷/۱۹۸۷
  • یعقوبی، تاریخ
  • دانش نامہ معیار کتاب مقدس
  • دانش نامہ جہان اسلام، چاپ اول