قبرستان باب الصغیر
قبرستان باب الصغیر دمشق (شام) کے قدیم ترین اور اہم ترین قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ جس میں بعض امام زادے، اصحاب پیغمبر (ص) اور تابعین مدفون ہیں۔
قبرستان وادی الصغیر کی قدمت کی بازگشت سر زمین شام میں اسلام وارد ہونے کے ابتدائی برسوں کی طرف ہوتی ہے۔ مقام راس الشہداء (شہدائے کربلا کے سروں کے دفن ہونے کا مقام) باب الصغیر کے قریب میں واقع ہے جس کے سبب اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بعض متفکرین، زہاد اور مشہور بادشاہ بھی اس قبرستان میں مدفون ہیں۔
تاریخچہ، محل وقوع و اہمیت
قبرستان باب الصغیر دمشق کے قدیمی ترین قبرستانوں میں سے ایک ہے جس کی تاریخ سر زمین شام میں اسلام کے وارد ہونے کے ابتدائی برسوں کی طرف پلٹتی ہے۔
یہ قبرستان شہر دمشق کے قدیمی دروازوں میں سے ایک باب الصغیر کے قریب واقع ہے۔
اس کی اہمیت اس میں بعض اصحاب پیغمبر (ص)، امام زادوں، تابعین، متفکرین، زہاد اور مشہور سلاطین کے دفن کے وجہ سے ہے۔
اس میں مدفون مشاہیر
منابع تاریخی میں اس قبرستان میں بعض ایسی شخصیتوں کے دفن ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آج ان کی قبر کے کوئی آثار باقی نہیں ہیں۔ منجملہ ان میں سے محمد بن عمر بن علی (ع)، ان کی زوجہ خدیجہ بنت امام زین العابدین (ع) و ام الحسن بنت جعفر بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب (ع) کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔[1] دوسری طرف تاریخی منابع میں بعض موجودہ زیارت گاہوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔ جن میں عبد اللہ بن زین العابدین و عبد اللہ بن امام جعفر صادق (ع) کے مزارات اور مقام راس الشہداء شامل ہیں۔[2]
ائمہ کی اولاد | صحابه | بنی ہاشم و خاندان پیغمبر سے منسوب خواتین | شام کے مشہور سلاطین | تابعین | دمشق کے مشہور دانشمند و زہاد |
---|---|---|---|---|---|
سکینہ بنت امام حسین (ع) | قبر منسوب بہ بلال حبشی | حمیده بنت مسلم بن عقیل | معاویہ بن ابو سفیان | اویس قرنی | شمس الدین ذهبی |
ام کلثوم بنت امام علی (ع) | قبر منسوب بہ عبدالله بن مکتوب | فضہ کنیز زہرا | معاویہ بن یزید بن معاویہ | ابن هشام نحوی | |
قبر منسوب بہ [[فاطمہ صغری بنت امام حسین (ع)]] | قبر منسوب بہ عبداللہ بن جعفر | اسماء بنت عمیس | صلاح الدین ایوبی | ابن رجب حنبلی | |
عبداللہ بن امام جعفر صادق (ع) | سهل بن ربیع انصاری | میمونہ بنت امام حسن (ع) | ملک عادل ایوبی | ابن قیم جوزی | |
عبداللہ بن امام سجاد (ع) | ابو درداء و ام درداء | قبر منسوب بہ ام سلمہ | نور الدین محمود زنگی شهید | ابن تیمیہ | |
فضاله بن عبید | قبر منسوب بہ ام حبیبہ | ابن عساکر | |||
ابان بن عثمان بن عفان | حفصہ بنت عمر بن خطاب | ولید بن عبد الملک | بہلول | ||
اوس بن اوس | ابراهیم قونوی | ||||
وائله بن الاسقع | قطب الدین شیرازی |
شہدائے کربلا کے سروں کے دفن ہونے کا مقام
قبرستان باب الصغیر کے نزدیک شہدائے کربلا میں سے 16 افراد کے سروں کے دفن ہونے کا مقام ہے جن کے اسماء یہ ہیں: عباس، عبد اللہ، محمد، جعفر، عثمان اور عمر امام علی (ع) کی بیٹے، علی اکبر اور عبد اللہ امام حسین (ع) کے بیٹے، قاسم بن حسن، جعفر بن عقیل، محمد بن مسلم بن عقیل، عون بن عبد اللہ بن جعفر، حبیب بن مظاہر، عبد اللہ بن عقیل، عبد اللہ بن عوف اور حر بن یزید۔[3] البتہ سید محسن امین عاملی نے ایک کتیبہ کی طرف استناد کرتے ہوئے جسے انہوں نے سن 1321 ہجری قمری کے بعد وہاں نصب دیکھا تھا، اس میں شہداء کربلا میں سے فقط 3 شہداء کے نام ذکر تھے، انہی کے سروں کا مدفن شمار کرتے ہیں، ان کے اسماء یہ ہیں: حضرت عباس، حضرت علی اکبر اور حضرت حبیب بن مظاہر۔[4]
شہداء کے سروں کے دفن ہونے کا مقام ایک مستقل صحن میں واقع ہے اور قبرستان باب الصغیر کے محوطہ سے مکمل طور پر جدا ہے۔ مقام راس الشہداء صحن کے وسط میں واقع ہے اور قبور کے اوپر چاندی کی ایک ضریح ھندوستان کے اسماعیلی بہرہ شیعہ کے داعی کی طرف نصب کی گئی ہے۔ ضریح کے اندر 16 شہدائے کربلا سروں کے اعتبار سے 16 کپڑے کے عمامے بنائے گئے ہیں۔ صحن کا مشرقی حصہ ایک نسبتا جدید مسجد سے متصل ہے جس کے شبستان میں ایک محراب ہے جس کی نسبت امام زین العابدین (ع) سے دی جاتی ہے۔ صحن کے اندر ایک کنواں موجود ہے زائرین کا یہ ماننا ہے کہ اس کے پانی شہداء کربلا کے سروں کو غسل دیا گیا ہے۔[5]
اسی طرح سے شہداء کربلا کے سروں کے دفن کے مقام کے پاس ایک مسجد واقع ہے جس کا نام مسجد امام زین العابدین (ع) ہے اور جو دمشق کی قدیمی ترین مساجد میں سے ہے کہ جس میں اسیران کربلا نے قیام کیا تھا۔[6]
حوالہ جات
مآخذ
- امین، سید محسن، أعیان الشیعة، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۴۰۶ق.
- حسینی جلالی، محمد حسین، مزارات اهل البیت و تاریخها، مؤسسہ اعلمی، بیروت، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵م.
- حموی بغدادی، یاقوت، معجم البلدان، دارصادر، بیروت، ۱۹۹۵م.
- سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین علیهالسلام، قم، انتشارات دانشگاه شهید محلاتی، چاپ اول، ۱۴۱۹ق
- فهری، سید اجمد، مراقد اهل البیت فی الشام، مکتب الامام الخامنئی، سوریہ، ۱۴۲۸ق.
- زیارتگاههای اهل بیت و اصحاب ائمہ (ع) در سوریہ نوشتہ احمد خامہ یار فصلنامہ وقف میراث جاویدان، شماره ۷۶، زمستان ۱۳۹۰، ص۸۷-۱۲۶