مندرجات کا رخ کریں

امام علی نقی علیہ السلام

ویکی شیعہ سے
امام علی نقی علیہ السلام
شیعہ امامیہ کے دسویں امام
روضہ امام علی نقیؑ، سامرا، عراق
روضہ امام علی نقیؑ، سامرا، عراق
نامعلی بن محمد
کنیتابوالحسن (ثالث)
القابنجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین، طیّب
تاریخ ولادت15 ذوالحجہ ، سال 212 ھ
جائے ولادتصریا، مدینہ
مدت امامت33 سال (220 تا 254ھ)
شہادت3 رجب، 254ھ
مدفنسامرا، عراق
رہائشمدینہ
والد ماجدمحمد بن علی
والدہ ماجدہسمانہ مغربیہ
ازواجحدیث
اولادحسن، محمد، حسین، جعفر
عمر42 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


علی بن محمد، امام ہادی یا امام علی النقی (212-254ھ)کے نام سے مشہور، شیعوں کے دسویں امام اور امام محمد تقیؑ کے فرزند ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دورانِ امامت آپؑ چند عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں سے ایک متوکل عباسی تھے۔ دوران امامت کے اکثر ایام آپؑ نے سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے۔

عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہے من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنزیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ اور زیارت غدیریہ بھی آپ سے منقول ہوئی ہیں۔

عباسی خلفاء امام کو محدود کر کے شیعوں کے ساتھ رابطے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے اس لئے امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے اصحاب میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، اَیوب بن نوح اور حسن بن راشد شامل ہیں۔

آپ کا روضہ سامرا میں شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔ اس بارگاہ میں آپؑ اور آپ کے فرزند امام حسن عسکریؑ دفن ہونے کی وجہ سے اسے حرم عسکریَین کہا جاتا ہے۔ سنہ 2006 اور 2007 ء میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں اسے مسمار کیا گیا تھا جسے بعد میں پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔

نسب، کنیت اور القاب

علی بن محمد، امام ہادی اور علی النقیؑ سے مشہور ہیں۔ آپ کے والد امام محمد تقی علیہ السلام، شیعیان اہل بیتؑ کے نویں امام اور آپؑ کی والدہ ایک کنیز تھیں[1] جن کا نام سَمانہ مَغربیہ[2] یا سوسَن[3] تھا۔

شیعوں کے دسویں امام کے سب سے مشہور القاب ہادی اور نَقی ہیں۔[4] کہا جاتا ہے کہ آپ کو "ہادی" کا لقب دینے کی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے دَور میں لوگوں کو نیکی کی طرف بہترین رہنمائی کرتے تھے۔[5] مرتضیٰ، عالم، فقیہ، امین، ناصح، خالص اور طیب جیسے القاب بھی آپ کے لیے مذکور ہیں۔[6]

شیخ صدوق (متوفی 381ھ) نے اپنے اساتذہ سے نقل کیا ہے کہ امام ہادی اور ان کے فرزند امام حسن عسکریؑ کو عسکری کہا جاتا ہے کیونکہ وہ سامرا کے عسکر نامی علاقے میں رہتے تھے۔[7] اہل سنت عالم دین ابن جوزی (متوفی 654ھ)، نے بھی اپنی کتاب تَذْکرۃ الخَواص میں عسکری کو امام ہادی سے اسی وجہ سے منسوب کیا ہے۔[8]

ان کی کنیت ابو الحسن ہے،[9] اور حدیث کے منابع میں انہیں ابو الحسن سوم کہا جاتا ہے،[10] تاکہ ابو الحسن اول، یعنی امام کاظمؑ اور ابو الحسن دوم یعنی امام رضاؑ کے ساتھ مشتبہ نہ ہو۔[11]

سوانح حیات

زندگی نامہ امام ہادیؑ

15 ذی‌الحجہ 212ھ
ولادت امام ہادیؑ

218ھ
وفات مامون عباسی- ناصبی عالم جنیدی کا امام ہادیؑ کے بچپنے میں آپؑ کے علم کا اعتراف

219ھ
معتصم عباسی کے حکم سے امام جواد کی گرفتاری اور بغداد کی طرف اسیر

آخر ذی‌القعدہ 220ھ
شہادت امام جوادؑ

231ھ
مدینہ میں امام حسن عسکریؑ کی ولادت- قرآن کا مخلوق ہونے کے عقیدے کی تحقیق- امام علی النقیؑ کا خلق قرآن کے بارے میں جدال کو بدعت قرار دیکر خط تحریر کرنا

232ھ
واثق بن معتصم کی وفات

234ھ
متوکل کے حکم سے امام ہادیؑ کی گرفتاری اور سامرا کی طرف اسارت- دعوت متوکل کی طرف سے ابن‌سکیت کو امام ہادی کا علم جانچنے کی دعوت

234 تا 247
زینب کذاب کا ظہور اور امام علی النقیؑ کے ذریعے اس کی رسوائی

236ھ۔
متوکل کے حکم سے تخریب قبر امام حسینؑ

237ھ
یعقوب لیث صفاری کے قیام کا آغاز

244ھ
امیر المومنینؑ اور انکی آل کی محبت کے اظہار پر متوکل کے حکم سے ابن‌سکیت کی شہادت

246ھ
وفات دعبل خزاعی

247ھ
متوکل کی امام ہادی کو جسارت- متوکل کا اپنے بیٹے منتصر کے ہاتھوں قتل اور زیارت امام حسینؑ سے منع اور منتصر کے حکم سے فدک کو اہل بیتؑ کی طرف پلٹانا

248ھ
مستعین کی خلافت کا آغاز

252ھ
مستعین کا استعفی اور معتز کی خلافت- وفات محمد ابن امام ہادیؑ

3 رجب 254ھ
شہادت امام علی النقیؑ

شیخ کلینی،[12] شیخ طوسی،[13] شیخ مفید[14] اور ابن شہر آشوب،[15] کی رائے کے مطابق امام ہادیؑ 15 ذوالحجہ 22 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔[16] البتہ اسی سال 2 رجب یا 5 رجب،[17] یا سنہ 215 ہجری کے رجب یا جمادی الثانی[18] کو بھی آپ کی تاریخ پیدائش کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

چوتھی صدی کے مورخ مسعودی کے مطابق، جس سال امام جواد علیہ السلام نے اپنی اہلیہ ام الفضل کے ساتھ حج کیا، اسی وقت امام ہادی کو بھی مدینہ لایا گیا جبکہ اسوقت آپ چھوٹے تھے[19] اور سنہ 233 ہجری تک مدینہ میں رہے۔ تیسری صدی عیسوی مورخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ اسی سال متوکل عباسی نے امام ہادی کو سامرا بلوایا[20] اور انہیں عسکر نامی علاقے میں اپنے زیر تسلط رکھا جہاں وہ اپنی زندگی کے آخر تک رہے۔[21]

امام ہادیؑ، امام جوادؑ اور امام عسکریؑ کی زندگیوں کے بارے میں دوسرے شیعہ اماموں کی بنسبت زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ماہر تاریخ محمد حسین رجبی دوانی (پیدائش 1939) کے مطابق اس کی وجہ ان ائمہؑ کی مختصر زندگی، ان کا محصور ہونا اور اس وقت تاریخ کی کتابوں کے مصنفین کا غیر شیعہ ہونا ہے۔[22]

جُنیدی کا شیعہ ہونا

اثبات الوصیہ میں نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق امام جوادؑ کی شہادت کے بعد عباسی حکومت نے ابو عبداللہ جُنَیدی نامی شخص جو متعصب اور اہل بیتؑ کی دشمنی میں مشہور تھا کو امام ہادیؑ کو تعلیم دینے، امام کو زیر نظر رکھنے اور شیعوں کو ان سے رابطہ کرنے سے روکنے پر مأمور کیا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد یہ شخص امام کے علم اور شخصیت سے متاثر ہو کر شیعہ ہوگیا۔[23]

اولاد

شیعہ مآخذ کے مطابق امام ہادی کی اولاد میں چار بیٹے؛ حسنؑ، محمد، حسین، جعفر[24] اور ایک بیٹی تھی، جس کا نام شیخ مفید نے عائشہ[25] اور ابن شہر آشوب[26] نے عِلِّیّہ (یا عَلیِّہ) بتایا ہے۔ دلائل ُالاِمامہ میں عائشہ اور دَلالہ نامی دو بیٹیوں کا ذکر کیا ہے۔[27] اہل سنت عالم دین ابن حجر ہیثمی نے بھی اپنی کتاب الصَواعِقُ المُحرِقَہ میں کہا ہے کہ شیعوں کے دسویں امام کی اولاد میں چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔[28]

شہادت اور آرامگاہ

شیخ مفید (متوفی: 413 ہجری) کے مطابق امام ہادیؑ نے سامرہ میں 20 سال 9 ماہ قیام کرنے کے بعد 41 سال کی عمر میں رجب سنہ 254 ہجری میں وفات پائی۔[29] اسی طرح دلائل الامامہ اور کَشْف ُ الغُمَّہ میں آیا ہے کہ دسویں امام، مُعْتَز عباسی (252-255ھ) کے دور میں مسموم ہوئے اور اسی وجہ سے شہید ہوئے۔[30] ابن شہرآشوب (متوفی: 588ھ) کا خیال ہے کہ آپؑ مُعْتَمد (حکومت: 256-278ھ) کی حکومت کے آخر میں شہید ہوئے اور ابن بابویہ سے روایت کیا ہے کہ کہ معتمد نے آپ کو زہر دیا تھا۔[31]

بعض ذرائع کے مطابق آپ کی شہادت 3 رجب کو ہوئی[32] جبکہ بعض نے 25 یا 26 جمادی الثانی بتایا ہے۔[33] اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری کیلنڈر میں 3 رجب کو آپ کی شہادت کے دن کے طور پر درج کیا گیا ہے۔

چوتھی صدی کے مورخ مسعودی کے مطابق امام حسن عسکری نے اپنے والد کے جنازے میں شرکت کی۔ جنازے کو موسی بن بغا کے گھر کے سامنے راستے میں رکھا گیا اور عباسی خلیفہ کے جنازے میں شرکت سے پہلے امام عسکری نے اپنے والد کی میت پر نماز ادا کی۔ مسعودی نے امام ہادی کے جنازے میں بھیڑ کی اطلاع دی ہے۔[34]

حرم عسکریین

امام ہادیؑ سامرہ کے اسی گھر میں دفن ہوئے جہاں آپ رہتے تھے۔[35] سامرہ میں امام ہادیؑ اور ان کے فرزند امام حسن عسکریؑ کی تدفین کی جگہ روضہ عسکریین کے نام سے مشہور ہے۔ امام علی النقیؑ کو اپنے گھر میں دفن کرنے کے بعد امام عسکریؑ نے ان کی قبر کے لیے ایک خادم مقرر کیا۔ سنہ 328ھ میں ان دونوں اماموں کی قبروں پر پہلا گنبد بنایا گیا۔[36] عسکریین کے مزار کی مختلف ادوار میں مرمت اور تعمیر نو ہوئی ہے۔[37] ہر سال مختلف علاقوں سے شیعہ امام نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کی زیارت کے لیے سامرا کا سفر کرتے ہیں۔

دہشت گردوں کے دھماکے میں حرم امامین عسکریین کی شہادت

22 فروری 2006 ء اور 13 مارچ 2008ء کو حرم عسکریین دہشتگردوں کے حملوں میں تخریب ہوئی۔[38] مقدس مقامات کی تعمیر نو کے ادارے نے سنہ 2016 عیسوی میں تعمیر نو کا کام مکمل کیا[39] اور ضریح بھی آیت اللہ سید علی سیستانی کے زیر اہتمام تعمیر کی گئی ہے۔[40]

امامت کا دَور

امام ہادیؑ:

"النّاسُ فِي الدُّنْيا بِالاْمْوالِ وَفِى الاْخِرَۃِ بِالاْعْمالِ"
لوگ دنیا میں اپنے اموال کے ساتھ ہیں اور آخرت میں اپنے اعمال کے ساتھ۔

مآخذ، مسند الامام الہادی، ص304۔

امام ہادیؑ 8 سال کی عمر میں سنہ 220 ہجری میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔[41] بعض مصادر کے مطابق امام کی امامت کے آغاز میں آپ کی کمسنی کا مسئلہ شیعوں کے لئے شک و تردید کا باعث نہیں بنا کیونکہ آپ کے والد گرامی امام جوادؑ کی امامت کا آغاز بھی کمسنی میں ہوا تھا۔[42] شیخ مفید کے مطابق امام جوادؑ کے بعد چند گنے چنے افراد کے سوا تمام شیعوں نے امام ہادیؑ کی امامت کو تسلیم کیا۔[43] یہ چند افراد کچھ عرصے کے لئے موسی بن محمد (متوفی  296ہجری ) المعروف بہ موسی مبرقع کی امامت کے قائل ہوئے (جو قم میں مدفون ہیں)؛ لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی امامت کے عقیدے سے پلٹ گئے اور امام ہادیؑ کی امامت کو قبول کیا۔[44] سعد بن عبد اللہ اشعری کہتے ہیں: یہ افراد اس لئے امام ہادیؑ کی امامت کی طرف پلٹ آئے کہ موسی مبرقع نے ان سے بیزاری اور برائت کا اظہار کیا اور انہیں بھگا دیا۔[45] شیخ مفید[46] اور ابن شہر آشوب،[47] کے مطابق، امام ہادیؑ کی امامت پر شیعیان آل رسولؐ کا اتفاق رائے آپؑ کی امامت کی محکم اور ناقابل انکار دلیل ہے۔[48] محمد بن یعقوب کُلینی اور شیخ مفید نے آپؑ کی امامت کے لئے دوسری نصوص اور دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔[49]

ابن شہر آشوب کے مطابق سابقہ ائمہ علیہم السلام کے نصوص کے ذریعے شیعہ امام ہادی کی امامت سے آگاہ ہوئے؛ ان نصوص کو نقل کرنے والوں میں اسماعیل بن مہران اور ابو جعفر اشعری جیسے افراد شامل ہیں۔[50]

ہم عصر عباسی خلفاء

امامت امام علی نقیؑ 220-254ھ
منتصر6 مہینے 248ھ کے
امام علی نقی کی امامت کے ہم عصر حکمران

  امام ہادیؑ 33 سال (220-254ھ) تک منصب امامت پر فائز رہے[51] اور اس دوران بنی عباس کے کئی ایک خلفاء کے ساتھ ہم عصر تھے۔ آپ کی امامت کا آغاز معتصم کی خلافت کے دوران ہوا اور اختتام مُعْتَز کے دور میں ہوا۔[52] البتہ ابن شہر آشوب نے امام کی عمر کا پایان معتمد عباسی کے دور میں قرار دیا ہے۔[53]

شیعوں کے دسویں کی مدتِ امامت کے سات سال کا عرصہ معتصم عباسی کی خلافت کے دور میں گزرا۔[54] کتاب تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم(عج) کے مصنف جاسم حسین کے مطابق، معتصم کی شیعوں کے ساتھ سخت گیری، امام جوادؑ کے زمانے کی نسبت امام ہادیؑ کے دَور میں کچھ کم ہوئی تھی اور علویوں کے ساتھ رواداری کچھ بڑھ گئی تھی۔ اس کے روئے میں یہ تبدیلی معاشی حالات میں بہتری اور علوی قیام میں کمی کی وجہ سے تھی۔[55] اس کے علاوہ دسویں امام کی امامت کے تقریباً پانچ سال واثق کی خلافت میں، چودہ سال متوکل کی خلافت کے دوران، چھ مہینے مستنصر کی خلافت میں، دو سال نو ماہ مستعین کی خلافت میں اور آٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ مُعْتَز کی خلافت کے دوران گزرے[56]

امام ہادیؑ:

"اَلْحِكْمَۃُ لا تَنْجَعُ فِى الطِّباعِ الْفاسِدَۃِ"۔
حکمت فاسد طینتوں پر اثر نہیں کرتی۔

مآخذ، مسند الامام الہادی، ص304۔

سامرا میں طلب کیا جانا

حکمران صرف ظواہر کو دیکھتے ہیں

عن صالح بن سعيد قال: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ ع فَقُلْتُ جُعِلْتُ‏ فِدَاكَ‏ فِي‏ كُلِ‏ الْأُمُورِ أَرَادُوا إِطْفَاءَ نُورِكَ وَ التَّقْصِيرَ بِكَ حَتَّى أَنْزَلُوكَ ہَذَا الْخَانَ‏ الْأَشْنَعَ خَانَ الصَّعَالِيكِ فَقَالَ ہَاہُنَا أَنْتَ يَا ابْنَ سَعِيدٍ ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِہِ فَقَالَ انْظُرْ فَنَظَرْتُ فَإِذَا بِرَوْضَاتٍ آنِقَاتٍ وَ رَوْضَاتٍ نَاضِرِاتٍ فِيہِنَّ خَيْرَاتٌ عَطِرَاتٌ وَ وِلْدَانٌ كَأَنَّہُنَّ اللُّؤْلُؤُ الْمَكْنُونُ وَ أَطْيَارٌ وَ ظِبَاءٌ وَ أَنْہَارٌ تَفُورُ فَحَارَ بَصَرِي وَ الْتَمَعَ وَ حَسَرَتْ عَيْنِي فَقَالَ حَيْثُ كُنَّا فَہَذَا لَنَا عَتِيدٌ وَ لَسْنَا فِي خَانِ الصَّعَالِيكِ‏" (ترجمہ: صالح بن سعید سے مروی ہے: میں ابوالحسن (امام ہادی) علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں تمام امور میں آپ پر فدا ہوجاؤں، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو بجھا دیں آپ کے حق میں کوتاہی کریں۔ اسی بنا پر آپ کو اس برے مقام" خان الصعالیک" (اور نامناسب کاروان سرا) میں ٹھرایا گیا ہے۔ امامؑ نے فرمایا: اے ابن سعید کے فرزند! تمہاری مراد یہ مقام ہے؟ اور پھر ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا: دیکھو؛ پس میں نے ایک دوسرے سے ملے ہوئے جاذب نظر باغات، معطر خواتین، صدف میں پیوست موتیوں جیسے غلاموں، پرندوں اور جاری نہروں کو دیکھا؛ پس میری آنکھیں حیرت زدہ ہوئیں۔ چمکتی ہوئی روشنیاں مجھ تک آتی تھیں اور میری نظریں عاجز ہوچکی تھیں۔ بعد ازاں امامؑ نے فرمایا: ہم جہاں بھی ہوں یہ ساری سہولیات ہمارے لئے فراہم ہیں۔ اور ہم خان صعالیک میں نہیں ہیں۔ [بات صرف یہ ہے کہ حکمران صرف ظواہر کو دیکھتے ہیں]۔ [57])

مآخذ، الكليني، الکافی، ج1 ص498۔

متوکل نے سنہ 233 ہجری میں امامؑ کو مدینہ سے سامرا آنے پر مجبور کیا۔[58] شیخ مفید کے مطابق یہ واقعہ سنہ 243 ہجری میں واقع ہوا ہے؛[59] لیکن اسلامی تاریخ کے محقق رسول جعفریان کے مطابق یہ تاریخ درست نہیں ہے۔[60] کہا جاتا ہے کہ متوکل کے اس اقدام کی وجہ مدینہ میں عباسی حکومت کے اہلکار عبداللہ بن محمد[61] اور مکہ و مدینہ میں خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ امام جماعت بریحہ عباسی کا امام ہادیؑ کے خلاف بدگوئی تھی۔[62] اسی طرح شیعوں کا دسویں امام کی طرف جھکاؤ کی خبریں بھی سامرا طلب کرنے کا باعث بنیں۔[63]

مسعودی کے مطابق بریحہ نے متوکل کو ایک خط لکھا اور کہا اگر مکہ اور مدینہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہو تو علی بن محمد کو یہاں سے نکال دو؛ کیونکہ وہ لوگوں کو اپنی طرف بلا رہا ہے اور بہت ساروں کو اپنے گرد جمع کیا ہے۔[64] اسی وجہ سے یحیی بن ہَرثَمہ امام علی نقیؑ کو سامرا لانے پر مأمور کیا گیا۔[65] امام ہادیؑ نے متوکل کو ایک خط کے ضمن میں بدخواہوں کی شکایات اور بدگوئیوں کی تردید کی اور متوکل نے جواب میں احترام آمیز انداز اپنا کر ایک خط لکھا اور آپؑ کو سامرا آنے کی دعوت دی۔[66] متوکل کے خط کا متن شیخ مفید اور کلینی کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔[67]

رسول جعفریان کا کہنا ہے کہ متوکل نے امامؑ کو مدینہ سے سامرا منتقل کرنے کا منصوبہ اس انداز سے ترتیب دیا تھا کہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور امامؑ کی جبری منتقلی کی خبر حکومت کے لئے ناخوشگوار صورت حال کے اسباب فراہم نہ کرے؛[68] اہل سنت عالم دین سبط ابن جوزی اس سلسلے میں یحیی بن ہرثمہ سے جو حکایت کرتے ہیں اس کے مطابق مدینہ کی عوام کے درمیان غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور عوامی رد عمل اس حد تک پہنچا کہ اعلانیہ طور پر آہ و فریاد کرنے لگے اور اس قدر زیادہ روی کی کہ مدینہ نے اس سے قبل کبھی اس قسم کی صورت حال نہیں دیکھی تھی۔[69] امام ہادیؑ مدینہ سے کاظمین آئے جہاں عوامی سطح پر بہت زیادہ خیر مقدم کیا گیا۔[70] کاظمین میں آپؑ کو خزیمہ بن حازم کے گھر میں ٹھہریا اور وہاں سے سامرا کی جانب لے جایا گیا۔[71]

شیخ مفید لکھتے ہیں: متوکل ظاہری طور پر امام علی نقیؑ کی احترام کرتا تھا؛ لیکن آپ کے خلاف حقیقت میں سازش کرتا تھا۔[72] طبرسی کے مطابق متوکل کا ایسا کرنے کا مقصد لوگوں کی نظروں میں امام کا مقام اوران کی عظمت کو کم کرنا تھا۔[73] شیخ مفید کے مطابق سامرا میں پہنچنے کے پہلے دن متوکل کے حکم سے آپؑ کو ایک دن "خَانِ الصَّعَالِيكِ" (مسکین اور غریب افراد کا مسکن) میں ٹھہرایا گیا اور اگلے دن آپؑ کو اس مکان میں منتقل کیا گیا جو آپؑ کی سکونت کے لئے معین کیا گیا تھا۔[74] صالح بن سعید کی رائے کے مطابق متوکل نے یہ اقدامات امامؑ کی تحقیر کی غرض سے کیا تھا۔[75]

عباسی حکمران، امام ہادیؑ کے قیام کے دوران ان پر سختی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، انہوں نے اس کمرے میں ایک قبر کھودی تھی جہاں آپؑ رہتے تھے۔ وہ لوگ امامؑ کو پیشگی اطلاع کے بغیر رات میں خلیفہ کے محل میں بلاتے تھے اور شیعوں سے رابطہ کرنے سے منع کرتے تھے۔[76] بعض مصنفین نے امام ہادیؑ کے خلاف متوکل کے اس رویہ کے اسباب درج ذیل لکھے ہیں:

  1. متوکل عقائد کے لحاظ سے اہل حدیث کی طرف مائل تھا جو معتزلہ اور شیعوں کے مخالف تھے اور اہل حدیث متوکل کو شیعوں کے خلاف اکساتے تھے۔
  2. متوکل اپنی سماجی حیثیت کا فکرمند تھا اور شیعہ اماموں کے ساتھ لوگوں کی وابستگی سے خوفزدہ تھا۔ اس لیے اس ربطے کو توڑنے کی کوشش کرتا تھا۔[77] اس سلسلے میں متوکل نے امام حسینؑ کے حرم کو مسمار کر دیا اور امام حسینؑ کے زائرین کے ساتھ سخت برتاؤ کرتا تھا۔[78]

متوکل کے بعد اس کا بیٹا منتصر اقتدار میں آیا۔ اس دور میں امام ہادیؑ سمیت علویوں پر حکومت کا دباؤ کم ہو گیا۔[79]

غالیوں کے ساتھ آپ کا رویہ

غالی امام ہادی کی امامت کے دَور میں سرگرم تھے۔ وہ لوگ اپنے آپ کو امام ہادی کے ساتھی اور قریبی لوگوںمیں شمار کرتے تھے اور امام ہادیؑ سمیت شیعہ ائمہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے کہ احمد بن محمد بن عیسی اشعری کے امام ہادی کو لکھے گئے خط کے مطابق ان باتوں کو سن کر لوگوں کے دل دہل جاتے تھے۔ دوسری طرف چونکہ یہ ائمہؑ کی طرف منسوب تھیں اس لیے ان کی تردید یا رد کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ وہ لوگ واجب اور حرام کی توجیہ کرتے تھے۔ مثال کے طور پر، آیہ مجیدہ؛ وَ أَقِيمُواْ الصَّلاَۃَ وَآتُواْ الزَّكَاۃَ؛ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو، [80] سے مراد مخصوص افراد لیتے تھے، نہ کہ نماز پڑھنا اور زکات دینا۔ امام ہادیؑ نے احمد بن محمد کے جواب میں لکھا کہ اس طرح کی تاویلیں ہمارے دین کا حصہ نہیں ہیں لہذا ان سے پرہیز کریں۔[81] فتح ابن یزید جرجانی کا خیال تھا کہ کھانا پینا امامت کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور اماموں کو کھانے پینے کی ضرورت نہیں ہے، اس کے جواب میں امام علی نقیؑ نے انبیاء کے کھانے پینے اور بازار میں چلنے پھرنے کا حوالہ دیا اور فرمایا: ہر جسم ایسا ہی ہے، اللہ کے سوا جس نے جسم کو جسمانیت بخشی۔[82]

امام علی نقیؑ کو سہل ابن زیاد نے ایک خط میں علی بن حسکہ کے بارے میں لکھا تھا جس کے جواب میں امامؑ نے علی بن حسکہ کی اہل بیت سے وابستگی کو رد کیا، ان کی باتوں کو غلط قرار دیا، شیعوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی اور اس کی موت کا حکم بھی جاری کیا۔ اس خط کے مطابق علی ابن حسکہ امام ہادیؑ کی الوہیت پر یقین رکھتا تھا اور امام کی طرف سے اپنے آپ کو باب الامام اور پیغمبر کے طور پر متعارف کراتا تھا۔[83] امام ہادی نے نصیری فرقہ کے بانی محمد بن نُصیر نمیری،[84] حسن بن محمد المعروف ابن بابا اور فارس بن حاتم قزوینی پر بھی لعنت کی ہے۔[85]

غالیوں میں سے ایک احمد بن محمد سیاری تھا جو خود کو امام ہادیؑ کے اصحاب کے زمرے میں شمار کرتا تھا،[86] جس کو بہت سے علمائے رجال نے غالی اور فاسد المذہب قرار دیا ہے۔[87] اس شخص کی کتاب القرأت ان احادیث کا اصلی مصادر میں سے ایک ہے جن سے تحریف قرآن کے حوالے سے استناد کیا گیا ہے۔[88] امام ہادیؑ نے ایک مفصل رسالہ لکھا ہے جسے ابن شعبہ حَرّانی نے نقل کیا ہے، اس میں امام نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا ہے اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح و غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا ہے۔[89] اس کے علاوہ امام ہادیؑ ان شیعوں کا دفاع بھی کرتے تھے جن پر غلو کا غلط الزام لگایا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر جب قم والوں نے محمد بن اورمہ کو غلو کے الزام میں قم سے نکال دیا تو آپؑ نے قم کے لوگوں کو ایک خط لکھا جس میں اسے غلو کے الزام سے بری قرار دیا۔[90]

شیعوں سے رابطہ

امام ہادی کے زمانے میں عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا لیکن اس کے باوجود عراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعوں اور امام نقیؑ کے درمیان رابطہ برقرار تھا اور ادارہ وکالت اور خطوط کے توسط شیعوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ رسول جعفریان کے مطابق امام ہادیؑ کے زمانے میں قم ایرانی شیعوں کے اجتماع کا سب سے اہم مرکز تھا اور اس شہر کے شیعوں اور ائمہؑ کے درمیان مضبوط تعلقات تھے۔[91] محمد بن داؤد قمی اور محمد طلحی قم اور آس پاس کے شہروں سے خمس اور عطیات امامؑ تک پہنچاتے تھے اور ان کے فقہی اور کلامی سوالات بھی آپؑ کو منتقل کرتے تھے۔[92] رسول جعفریان کے مطابق امام کے وکلاء خمس جمع کر کے امام کو بھیجنے کے علاوہ کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے تھے اور اپنے علاقوں میں اگلے امام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔[93]کتاب سازمان وکالت کے مؤلف محمدرضا جباری نے علی بن جعفر ہمانی، ابوعلی بن راشد اور حسن بن عبد ربّہ کو امام ہادی کے وکلاء میں شمار کیا ہے۔[94]

امامؑ اور خلق قرآن کا مسئلہ

امام ہادی علیہ السلام نے ایک شیعہ کے نام ایک خط میں ان سے کہا کہ وہ قرآن کی تخلیق کے مسئلہ پر تبصرہ نہ کریں اور قرآن کے حدوث اور قِدَم میں سے کسی نظریے کا ساتھ نہ دیں۔ اس خط میں انہوں نے قرآن کی تخلیق کے معاملے کو فتنہ قرار دیا اور اس بحث میں شامل ہونے کو تباہی قرار دیا۔ آپؑ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور اس بحث کو ایسی بدعت سمجھا جس میں سائل اور جواب دینے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔[95] اس دور میں قرآن کے حدوث اور قِدَم کی بحث، اہل سنت کے درمیان بعض فرقوں اور گروہوں کے ظہور کا باعث بنی۔ مأمون اور معتصم نے قرآن کی تخلیق کے نظریہ کا ساتھ دیا تھا اور مخالفین پر اس قدر دباؤ ڈال رہے تھے؛ کہ اس دَور کو مشکل دور کہا جاتا تھا؛ لیکن متوکل، قرآن کے قدیم ہونے کی حمایت کرتا تھا اور شیعہ سمیت دیگر مخالفین کو بدعت گذار قرار دیتا تھا۔[96]

احادیث

کتب اربعہ، تُحَف ُالعُقول، مِصْباحُ الْمُتَہَجِّد، الاِحتِجاج و تفسیر عیاشی جیسی شیعہ احادیث کے مصادر میں امام ہادیؑ سے بعض احادیث نقل کی گئی ہیں۔ ان سے جو احادیث نقل ہوئی ہیں وہ ان سے پہلے کے ائمہ کی نسبت کم ہیں۔ عطاردی نے اس کی وجہ عباسی حکومت کے زیر نظر سامرا میں امام کی جبری رہائش کو قرار دیا ہے جس کی وجہ سے امامؑ کو علوم اور دینی تعلیمات پھیلانے کا موقع نہیں ملا۔[97] امام ہادی سے منقول روایات میں آپ کو ابی الحسن الہادی، ابی الحسن الثالث، ابی الحسن الاخیر، ابی الحسن العسکری، الفقیہ العسکری، الرجل، اَلطَّیِّب، الاخیر، الصادق بن الصادق اور الفقیہ جیسے مختلف ناموں سے ذکر کیا گیا ہے، اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مختلف نام تَقیہ کی وجہ سے استعمال ہوئے ہیں۔[98]

امام ہادی سے منقول روایات توحید، امامت، زیارت، تفسیر اور فقہ کے مختلف ابواب جیسے طہارت، نماز، روزہ، خُمس، زکات، شادی بیاہ اور آداب کے بارے میں ہیں۔ امام ہادیؑ سے 21 سے زائد احادیث توحید اور تنزیہ کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔[99]

امام ہادیؑ کا جَبر و اختیار کے بارے میں ایک رسالہ بھی موجود ہے۔ اس رسالے میں حدیث «لا جبر و لا تفویض بل امر بین الاَمرین» کی وضاحت قرآن کی بنیاد پر کی گئی ہے اور جبر و تفویض کے بارے میں شیعہ کلامی مبانی بیان ہوئے ہیں۔[100] امام ہادیؑ کی طرف سے احتجاجات امام ہادیؑ کے عنوان سے نقل ہونے والی اکثر احادیث، جبر اور تفویض کے بارے میں ہیں۔[101]

زیارت

زیارت جامعہ کبیرہ[102] اور زیارت غدیریہ امام ہادی سے نقل ہوئی ہیں۔[103] زیارت جامعہ کبیرہ کو امام شناسی کا ایک کورس سمجھا جاتا ہے۔[104] زیارت غدیریہ کا محور تولی و تبری ہے اور اس کا مضمون امام علیؑ کے فضائل پر مشتمل ہے۔[105]

متوکل کے دربار میں امام ہادی کے اشعار

چوتھی صدی ہجری کے مورخ مسعودی کے مطابق متوکل کو خبر دی گئی کہ امام کے گھر میں جنگی اسلحہ اور شیعوں کی جانب سے امام کو لکھے گئے خطوط موجود ہیں۔ اس وجہ سے متوکل کے حکم پر ایک گروہ نے امام کے گھر پر اچانک حملہ کیا۔[106] جب امام کو متوکل کے پاس لے جایا گیا تو متوکل کے ہاتھ میں شراب کا ایک جام تھا جسے امام کو پیش کیا۔[107] امام نے جواب میں کہا، میرا گوشت و پوست شراب سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے یہ کہہ کر متوکل کی درخواست کو رد کردیا[108] اس وقت متوکل نے امام سے کچھ اشعار پڑھنے کا تقاضا کیا جو اسےوَجد میں لے آئے[109] امام نے میں اشعار کم کہتا ہوں کہہ کر ان کی درخواست ٹھکرا دی؛ لیکن متوکل کے اصرار پر امام نے درج ذیل اشعار کہے :[110]

"باتوا علی قُلَلِ الأجبال تحرسهم""غُلْبُ الرجال فما أغنتهمُ القُللُ"
"واستنزلوا بعد عزّ عن معاقلهم""فأودعوا حُفَراً، یا بئس ما نزلوا"
"ناداهُم صارخ من بعد ما قبروا""أین الأسرة والتیجان والحلل؟"
"أین الوجوه التی کانت منعمة""من دونها تضرب الأستار والکللُ"
"فأفصح القبر عنهم حین ساء لهم""تلک الوجوه علیها الدود یقتتل (تنتقل)"
"قد طالما أکلوا دهراً وما شربوا""فأصبحوا بعد طول الأکل قد أُکلوا"
"وطالما عمروا دوراً لتحصنهم""ففارقوا الدور والأهلین وانتقلوا"
"وطالما کنزوا الأموال وادخروا""فخلفوها علی الأعداء وارتحلوا"
"أضحت مَنازِلُهم قفْراً مُعَطلة""وساکنوها إلی الأجداث قد رحلوا.[111]"

ترجمہ= انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات بسر کی تا کہ وہ ان کی محافظت کریں؛ لیکن ان چوٹیوں نےان کا خیال نہ رکھا۔ عزت و جلال کے دور کے بعد انہیں نیچے کھینچ لیا گیا انہیں گڑھوں میں جگہ دی گئی اور کتنی ناپسند جگہ اترے ہیں۔ ان کے دفن ہونے کے بعد، کسی نے ان کو آواز دی: "تخت، تاج اور زیور کہاں گئے؟" "کیا ہوا ان چہروں کا جو نعمتوں کے عادی تھے اور جن کے سامنے پردے لٹکائے جاتے تھے۔" اور قبر بولنے لگی: "ان چہروں پر کیڑے لڑ رہے ہیں۔" کبھی یہ لوگ زیادہ کھاتے اور طویل عرصہ پہنتے تھے اور کافی دیر کھانے کے بعد ان کو کھایا گیا۔ انہوں نے وہاں محفوظ رہنے کے لیے کافی عرصے تک گھر بنائے اور پھر وہ اپنے گھروں اور عزیزوں سے دور ہو کر چلے گئے۔ انہوں نے ایک عرصے تک مال جمع کیا اور ذخیرہ کیا، پھر اسے اپنے دشمنوں کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے گھر خالی رہہ گئے اور ان کے باشندے اپنی قبروں کی طرف سفر کر گئے۔

مسعودی کا کہنا ہے کہ امام کے اشعار سے متوکل سمیت تمام حاضرین سخت متاثر ہوئے؛ یہاں تک کہ متوکل کا چہر آنسؤوں سے بھیگ گیا اور اس نے بساط مےنوشی لپیٹنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ امامؑ کو اکرام و احترام کے ساتھ گھر چھوڑ آئیں۔[112]

راوی اور اصحاب

سید محمدکاظم قزوینی (متوفی: 1415ھ) نے اپنی کتاب الامام الہادی من المہد الی اللحد میں 346 افراد کو امام ہادی کے اصحاب کے طور پر متعارف کرایا ہے۔[113] رسول جعفریان کے مطابق امام ہادیؑ کے شناختہ شدہ راویوں کی تعداد تقریباً 190 ہے جن میں سے تقریباً 180 سے احادیث موجود ہیں۔[114] شیخ طوسی کے رجال کے مطابق آپؑ سے احادیث نقل کرنے والوں کی تعداد 185 سے زیادہ ہے۔[115] عطاردی نے مسند الامام الہادی میں امام ہادیؑ کے راویوں کے عنوان سے 179 لوگوں کا نام ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں ثقہ، ضعیف، حسن، متروک اور مجہول سب شامل ہیں۔[116] عطاردی کے مطابق جن راویوں کا انہوں نے نام لیا ہے ان میں سے بعض شیخ طوسی کی رجال میں نہیں ہیں اور بعض راویوں کا ذکر شیخ طوسی نے اپنے رجال میں کیا ہے، لیکن عطاردی میں مذکور نہیں ہیں۔[117]

عبدالعظیم حسنی، عثمان بن سعید،[118]ایوب بن نوح،[119] حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر[120] آپ کے اصحاب میں سے تھے۔ ابن شہر آشوب نے جعفر بن سہیل الصیقل کا نام امامؑ کے وکیلوں میں لیا ہے اور محمد بن عثمان کو باب امام علی النقی کے طور پر معرفی کیا ہے۔[121]

رسول جعفریان نے امام ہادی علیہ السلام کے بعض اصحاب کے نام کے لاحقوں کے ذریعے انہیں ایرانی قرار دیا ہے۔ آپ نے امام علی النقیؑ کے اصحاب میں سے بشر بن بشار نیشابوری، فتح بن یزید جرجانی، حسین بن سعید اہوازی، حمدان بن اسحاق خراسانی، علی بن ابراہیم طالقانی، محمد بن علی کاشانی،[122] ابراہیم بن شیبہ اصفہانی اور ابومقاتل دیلمی[123] جیسے افراد کی جائے سکونت کو ایران قرار دیا ہے۔[124]

امام ہادی کے ہمدان میں اپنے وکیل کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امام کے بعض اصحاب ہمدان میں رہتے تھے کیونکہ اس خط میں امام لکھتے ہیں:"میں نے ہمدان میں اپنے چاہنے والوں سے آپ کی سفارش کی ہے۔"[125] اسی طرح جعفریان کا کہنا ہے کہ بعض شواہد کے مطابق امام کے بعض اصحاب ایران کے شہر قزوین میں بھی رہتے تھے۔[126]

مونوگراف

امام ہادی علیہ السلام کے بارے میں عربی اور فارسی میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں۔ امام ہادی کی کتابیات کے مضمون میں اس میدان میں فارسی اور عربی میں تیس کتابیں متعارف کرائی گئی ہیں۔[127] ان کتابوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  1. مُسنَد الامام الہادی، جسے عزیز اللہ عطاردی (متوفی: 1393ھ) نے لکھی ہے۔ اس کتاب میں امام ہادی کی تقریباً 350 احادیث جمع کی گئی ہیں؛
  2. حیاۃ الامام علی الہادی بقلم باقر شریف القرشی (وفات: 1433ھ): یہ کتاب امام الہدی کی زندگی سے متعلق ہے؛
  3. اَّلنّورُ الہادی اِلیٰ اَصحابِ الاِمام الہادی تألیف عبد الحسین شَبِستری (متوفی 1395 شمسی): اس کتاب میں امام ہادیؑ کے 193 اصحاب کا تذکرہ کیا ہے؛
  4. موسوعۃ امام الہادی؛ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے جس کے کل 2019 صفحات ہیں۔
  5. کتاب شکوہ سامرا، اس کتاب میں امام ہادی اور امام عسکریؑ کے بارے میں لکھے گئے مختلف مضامین کا ایک مجموعہ ہے، جسے امام صادق (ع) یونیورسٹی پریس نے 508 صفحات پر شائع کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص228۔
  2. مفید، الارشاد، ص635۔
  3. نوبختی، فرق الشیعہ، دارالاضوا، ص93۔
  4. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص401۔
  5. قرشی، حیاۃ الامام علی الہادی، 1429ق، ص21۔
  6. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1421ق، ج4، ص401۔
  7. صدوق، علل الشرایع، 1385ق، ج1، ص241۔
  8. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، 1426ق، ج2، ص492۔
  9. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص401؛ طوسی، تہذیب الاحکام، 1418ق، ج6، ص104۔
  10. برای نمونہ نگاہ کنید بہ: کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص97، 341۔
  11. قرشی، حیاۃ الامام علی الہادی، 1429ق، ص21۔
  12. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص497۔
  13. طوسی، تہذیب الاحکام، 1418ق، ج6، ص104۔
  14. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297۔
  15. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص401۔
  16. مفید، الارشاد ص635۔
  17. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص228۔
  18. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص497۔
  19. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص228۔
  20. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص484۔
  21. ملاحظہ: ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، 1426ق، ج2، ص492۔
  22. علل محدود بودن اطلاعات تاریخی دربارہ امام ہادی(ع)، وبگاہ تحلیلی نخبگان۔
  23. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص231-230۔
  24. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311-312؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص402۔
  25. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص312۔
  26. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص402۔
  27. طبری، دلائل الإمامۃ، 1413ق، ص412۔
  28. ابن حجر ہیثمی، الصواعق المحرقۃ، مکتبۃ القاہرۃ، ص207۔
  29. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311و312؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، 497-498؛ طوسی، تہذیب الاحکام، 1418ق، ج6، ص104۔
  30. طبری، دلائل الامامہ، 1413ق، ص409؛ اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج2، ص375۔
  31. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص401۔
  32. نوبختی، فرق الشیعہ، دارالاضوا، ص92؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص401۔
  33. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج2، ص375۔
  34. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص243۔
  35. طوسی، تہذیب الاحکام، 1418ق، ج6، ص104۔
  36. محلاتی، مآثر الکبرا، 1384ش، ج1، ص318۔
  37. ملاحظہ کریں: محلاتی، مآثر الکبرا، 1384ش، ج1، ص318-393۔
  38. خامہ یار، تخریب زیارتگاہ‎ ہای اسلامی در کشورہای عربی، 1393ش، ص29 و 30۔
  39. عملیات بازسازی گنبد حرم امامین عسکریین پایان یافت، خبرگزاری ایلنا۔
  40. «آخرین وضعیت پروژہ ساخت ضریح حرم امامین عسکریین(ع)»، خبرگزاری فارس۔
  41. قمی، منتہى الآمال، 1379ش، ج3، ص 1878
  42. حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1385ش، ص81۔
  43. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص300۔
  44. نوبختی، فرق الشیعہ، ص134۔
  45. اشعری قمی، المقالات و الفرق، 1361ش، ص99 ۔
  46. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص300۔
  47. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص402۔
  48. عطاردی، مسند الامام الہادی، 1410ق، ص20 ۔
  49. کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص323-325؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص298۔
  50. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص402۔
  51. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص109۔
  52. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص109۔
  53. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص401۔
  54. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1374ش، ص595۔
  55. جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1376ش، ص81۔
  56. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج2، ص109و110۔
  57. مجلسی، بحارالانوار، ج 50، ص 132۔؛ صفار، شیخ محمد، بصائر الدرجات ص 406 و 407۔؛ طبرسی، اعلام الورى ج2 ص126۔
  58. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص484۔
  59. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص310۔
  60. جعفریان، حيات فكرى و سياسى ائمہ، 1381ش، ص503۔
  61. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص309۔
  62. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص233۔
  63. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2 ص493۔
  64. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص233۔
  65. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص233۔
  66. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص309۔
  67. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص309؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص501۔
  68. جعفریان، رسول، حيات فكرى و سياسى ائمہ، 1381ش، ص505۔
  69. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2 ص492۔
  70. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص236-237۔
  71. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ق، ص237۔
  72. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311۔
  73. طبرسی، إعلام الوری، 1417ق، ج2، ص126۔
  74. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311۔
  75. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311۔
  76. مجلسی، بحار الأنوار،1403 ق، ج59، ص20۔
  77. طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ص438۔
  78. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1987م، ص478 ۔
  79. جعفریان، حیات فکری -سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص511۔
  80. سورہ بقرہ، آیہ43۔
  81. کشی، رجال الکشی، 1409ق، ص517۔
  82. اربلی، کشف الغمہ، 1381ق، ج2، ص338۔
  83. کشی، رجال الکشی، 1409ق، ص518-519۔
  84. نوبختی، فرق الشیعہ، دارالاضوا، ص93۔
  85. کشی، رجال الکشی، 1409ق، ص 520۔
  86. عطاردی، مسند الامام الہادی، 1410ق، ص323۔
  87. ملاحظہ کریں: نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص80، طوسی، فہرست، 1420ق، ص57۔
  88. جعفریان، اکذوبۃ تحریف القرآن بین الشیعۃ و السنۃ، 1413ق، ص76ـ77۔
  89. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول،1404ق، صص459-458
  90. نجاشی، رجال النجاشی، 1365ش، ص329۔
  91. جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ص654۔
  92. عطاردی، مسند الامام الہادی، 1410ق، ص45۔
  93. جعفریان، حیات فکری - سیاسی امامان شیعہ، ص631۔
  94. جباری، سازمان وکالت، 1382ش، ج2، ص513ـ514، 537۔
  95. شیخ صدوق، التوحید، 1398ق، ص224۔
  96. جعفریان، حیات فکری -سیاسی امامان شیعہ، 1393ش، ص650۔
  97. عطاردی، مسند الامام الہادی، ص10۔
  98. عطاردی، مسند الامام الہادی، ص10۔
  99. عطاردی، مسند الامام الہادی، 1410ق، ص 94 - 84۔
  100. عطاردی، مسند الامام الہادی، 1410ق، ص 213 - 198۔
  101. عطاردی، مسند الامام الہادی، 1410ق، ص 227 - 198۔
  102. صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج2، ص609۔
  103. ابن مشہدی، المزار، 1419ق، ص263۔
  104. زیارت جامعہ کبیرہ یک دورہ کامل امام شناسی است، ایکنا۔
  105. زیارت جامعہ کبیرہ یک دورہ کامل امام شناسی است، ایکنا۔
  106. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج4، ص11۔
  107. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج4، ص11۔
  108. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج4، ص11۔
  109. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج4، ص11۔
  110. مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص11۔
  111. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۱۱.
  112. مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج4، ص12۔
  113. قزوینی، الامام الہادی من المہد الی اللحد، 1413ق، ص140-467۔
  114. جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص512۔
  115. طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص383-393۔
  116. عطاردی، مسند الامام الہادی، 307
  117. عطاردی، مسند الامام الہادی، 307۔
  118. طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص401-389۔
  119. طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص384۔
  120. طوسی، رجال الطوسی، 1373ش، ص385۔
  121. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ق، ج4، ص402۔
  122. صدوق، التوحید، 1398ق، ص101۔
  123. عطاردی، مسند الامام الہادی، 1410ق، ص317۔
  124. جعفریان، حیات فکری -سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص530-533۔
  125. کشی، رجال الکشی، 1409ق، ص612۔
  126. جعفریان، حیات فکری -سیاسی امامان شیعہ، 1381ش، ص530-533۔
  127. کرجی، «کتابشناسی امام ہادی(ع)»، ص197-199۔

مآخذ

  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1987ء۔
  • ابن حجر ہیثمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقۃ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقۃ، قاہرہ، مکتبۃالقاہرہ، بی تا.
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص، قم، لیلی، 1426ھ۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنی ہاشمی، 1381ھ۔
  • اشعری قمی، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1361.
  • پایندہ، ابو القاسم، ترجمہ مروج الذہب و معادن الجوہر، تہران، انتشارات علمى و فرہنگى، چاپ پنجم، 1374ہجری شمسی۔
  • پيشوايی، مہدی، سيرہ پيشوايان، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1372ہجری شمسی۔
  • خامہ ‎یار، احمد، تخریب زیارت گاہ‎ ہای اسلامی در کشورہای عربی، قم، دارالاعلام لمدرسۃ اہل ‎البیت(ع)، 1393ہجری شمسی۔
  • جاسم، محمد حسين، تاريخ سياسى غيبت امام دوازدہم، مترجم: سيد محمدتقى آيت ‏اللہى‏، سوم، تہران، امير كبير، 1385ہجری شمسی۔
  • جباری، محمد رضا، سازمان وکالت و نقش آن در عصر ائمہ(ع)، قم، موسسہ امام خمینی(رہ)، 1382ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، اکذوبۃ تحریف القرآن بین الشیعۃ و السنۃ، تہران، مشعر، 1413ھ۔
  • جعفریان، رسول، حیات فكری و سیاسی ائمہ‏، قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، 1398ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، نجف، مکتبۃ الحیدریۃ، 1385ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، 1417ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامہ، قم، بعثت، چاپ اول، 1413ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، چاپ اول، 1418ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ و اصولہم، قم، مکتبۃ المحقق الطباطبایی، 1420ھ۔
  • عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الہادی علیہ السلام، قم، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، 1410ھ۔
  • علل محدود بودن اطلاعات تاریخی دربارہ امام ہادی(ع)، وبگاہ تحلیلی نخبگان، درج مطلب 5 خرداد 1391ش، مشاہدہ 13 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام علی النقی، تحقیق: باقرشریف قرشی، مہر دلدار، 1429ق/200م.
  • قزوینی، سید محمدکاظم، الامام الہادی من المہد الی اللحد، قم، مرکز نشر آثار شیعہ، 1413ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہى الآمال، قم‏، دلیل ما، 1379ش‏.
  • کرجی، علی، کتابشناسی امام ہادی(ع)، فرہنگ کوثر، ش70، تابستان 1386ہجری شمسی۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی - اختیار معرفۃ الرجال، تلخیص: محمد بن حسن طوسی، تصحیح: حسن مصطفوی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، 1409ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محلاتی، ذبیح اللہ، مآثر الکبراء فی تاریخ سامراء، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، 1384ش/1426ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب، قم، انصاریان، 1426ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، منشورات دارالہجرۃ، 1404ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تصحیح مؤسسہ آل البیت(ع)، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1365ہجری شمسی۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، بی تا.
  • عملیات بازسازی گنبد حرم امامین عسکریین پایان یافت، خبرگزاری ایلنا، انتشار: 7 شہریور 1394ش، مشاہدہ 13 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • «آخرین وضعیت پروژہ ساخت ضریح حرم امامین عسکریین(ع)»، خبرگزاری فارس، انتشار: 18 آذر 1391ش، مشاہدہ 13 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • شکوہ سامرا: مجموعہ مقالات دربارہ امام ہادی و امام عسگری علیہما السلام پاتوق کتاب فردا، مشاہدہ 13 مرداد 1402ہجری شمسی۔
  • زیارت جامعہ کبیرہ یک دورہ کامل امام شناسی است، ایکنا، 16 بہمن 1400ش، مشاہدہ 13 مرداد 1402ہجری شمسی۔
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
بارہ امام
امام علی علیہ السلام امام سجّاد علیہ‌السلام امام موسی کاظم علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام
امام حسن مجتبی علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام