دعبل بن علی خزاعی

ویکی شیعہ سے
(دعبل خزاعی سے رجوع مکرر)
دعبل خزاعی
ایران کے شہر شوش میں دعبل خزاعی کا مقبرہ
ایران کے شہر شوش میں دعبل خزاعی کا مقبرہ
کوائف
نام:دعبل بن علی خزاعی
لقب:دعبل
پیدائش148ھ
جائے پیدائشکوفہ
وفات245ھ
مقام دفنشوش
اصحابامام کاظمؑ اور امام رضاؑ
سماجی خدماتاہل بیتؑ کی شأن میں متعدد اشعار خاص کر قصیدہ تائیہ
تالیفاتدیوان دعبل • طبقات الشعراء‌
مذہبشیعہ اثنا عشری


دِعْبِل بْن عَلی خُزاعی (148-245ھ) امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے اصحاب اور شیعہ شعراء میں سے تھا۔ قصیدۀ تائیّہ کی وجہ سے آپ مشہور ہوئے۔ اس قصیدے کو انہوں نے پہلی بار مَرْو میں امام رضاؑ کے سامنے پڑھا جسے امام رضاؑ اور شیعوں نے بہت پسند کیا۔

دعبل نے امام کاظمؑ اور امام رضاؑ سے احادیث نقل کی ہے منجملہ ان میں خُطبہ شِقشِقیّہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ دعبل اپنی شاعری میں اہل‌ بیتؑ کے دشمنوں کی ملامت کرتے تھے۔ آپ سنہ 245ھ کو بنی‌ عباس کے کسی حاکم کے خلاف ملامتی شعر پڑھنے کے جرم میں قتل کیا گیا اور شوش میں مدفون ہیں۔

تعارف اور مقام

دِعْبِل بْن عَلی خُزاعی اہل‌ بیتؑ کے راوی اور دوسری و تیسری صدی ہجری کے شاعر تھے۔[1] قصیدۀ تائیّہ آپ کا مشہور قصیدہ ہے جسے آپ نے اہل‌ بیتؑ کی فضیلت اور ان پر آنے والے مظالم کے بارے میں پڑھا ہے۔ آپ نے اس قصیدے کو پہلی مرتبہ مرو کے مقام پر امام رضاؑ کے سامنے پڑھا جسے امام اور شیعوں نے پسند کیا۔[2]

دعبل نے اہل‌ بیتؑ کی مدح و ثنا میں کئی اشعار کہے ہیں۔[3] امام رضاؑ کی شہادت کی خبر سن کر انہوں نے اس موقع پر قصیدہ رائیہ کے نام سے ایک مرثیہ پڑھا۔[4] بعض محققین کے مطابق شعر و شاعری میں دعبل کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔[5] «طبقات الشعرا» اور دیوان اشعار ان کے شعری مجموعے ہیں۔[6] کتاب أعیانُ‌ الشیعہ کے مصنف سید محسن امین کے مطابق ان کا شعری مجموعہ تیرہویں صدی ہجری تک موجود تھا؛ لیکن اس کے بعد کچھ مدت کے لئے یہ ناپید ہو گیا۔[7] بعض مصنفین نے مختلف کتابوں میں نقل ہونے والے ان کے اشعار کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[8]

دعبل کا اصل نام حسن، عبدالرحمن یا محمد ذکر کیا گیا ہے؛ لیکن آپ «دعبل» کے نام سے مشہور تھے۔[9] آپ کی کنیت ابوعلی[10] یا ابوجعفر[11] ذکر کی گئی ہے۔ آپ سنہ 148ھ کو متولد ہوئے۔[12] دعبل کوفہ کا رہنے والا تھا اور مختلف شہروں کا سفر کرتا رہتا تھا۔[13]دعبل کا نسب یمن کے قبیلہ خُزاعہ سے جا ملتا ہے۔[14] بُدَیل بن ورقاء اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن بُدَیل دعبل کے آباء و اجداد اور پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب میں سے تھے۔[15] عبد اللہ بن بُدَیل کا شمار امام علیؑ کے اصحاب میں بھی ہوتا ہے جو جنگ صِفّین میں مُعاویۃ بن ابی‌سُفیان کے خلاف قبیلہ خزاعہ کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔[16] البتہ بعض مآخذ میں ان کا نسَب کسی اور طریقے سے ذکر ہوا ہے۔[17]

تائیہ دعبل سے اقتباس۔ آخری دو بیت کو امام رضاؑ نے اضافہ کیا ہے:

أَ فَاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلا ** وَ قَدْ مَاتَ عَطْشَاناً بِشَطِّ فُرَات‏
إِذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فَاطِمُ عِنْدَہ ** وَ أَجْرَيْتِ دَمْعَ الْعَيْنِ فِي الْوَجَنَات
أَ فَاطِمُ قُومِي يَا ابْنَۃَ الْخَيْرِ فَانْدُبِي ** نُجُومُ سَمَاوَاتٍ بِأَرْضِ فَلَاۃ
قُبُورٌ بِكُوفَانَ وَ أُخْرَى بِطَيْبَۃ ** وَ أُخْرَى بِفَخٍّ نَالَہَا صَلَوَات‏
وَ أُخْرَى بِأَرْضِ الْجَوْزَجَانِ مَحَلُّہَا ** وَ قَبْرٌ بِبَاخَمْرَى لَدَى الْغُرُبَات‏
وَ قَبْرٌ بِبَغْدَادٍ لِنَفْسٍ زَكِيَّۃ ** تَضَمَّنَہَا الرَّحْمَنُ فِي الْغُرُفَات
وَ قَبْرٌ بِطُوسٍ يَا لَہَا مِنْ مُصِيبَۃٍ ** أَلَحَّتْ عَلَى الْأَحْشَاءِ بِالزَّفَرَاتِ‏
إِلَى الْحَشْرِ حَتَّى يَبْعَثَ اللَّہُ قَائِماً ** يُفَرِّجُ عَنَّا الْغَمَّ وَ الْكُرُبَات

اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج2، ص318-327۔

نقل حدیث

حرم امام رضاؑ میں نصب کتیبہ رائیہ کا ایک حصہ جس پر درج ہے:
قَبْرَانِ فِي طُوسَ خَيْرُ النَّاسِ كُلِّہِمْ ** وَ قَبْرُ شَرِّہِمْ ہَذَا مِنَ الْعِبَرِ
مَا يَنْفَعُ الرِّجْسُ مِنْ قُرْبِ الزَّكِيِّ وَ لَا ** عَلَى الزَّكِيِّ بِقُرْبِ الرِّجْسِ مِنْ ضَرَر۔

دعبل امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کے اصحاب میں سے تھا،[18] اور امام جوادؑ کو بھی درک کیا ہے۔[19] آپ خطبۀ شِقْشِقیّہ کے راویوں میں سے ہیں۔[20] شیعہ ائمہ کے اصحاب میں انہیں خاص مقام حاصل ہے۔[21]

دعبل نے سُفیان ثوری، مالک بن اَنَس (اہل سنت مالکی مذہب کے پیشوائے)، سعید بن سُفیان اور محمد بن اسماعیل سے روایت کی ہے۔[22] اسی طرح علی بن علی بن رَزین (دعبل کے بھائی)، موسی بن حَمّاد یزیدی، اباصَلت ہِرَوی اور علی بن حکیم منجملہ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے دعبل سے حدیث نقل کی ہیں۔[23]

وفات

ایران کے شہر شوش میں دعبل خزاعی سے منسوب مقبرہ

دعبل سنہ 245ھ[24] کو بنی‌ عباس کے کسی حاکم کے خلاف ملامتی شعر پڑھنے کے جرم میں قتل ہوا۔[25] کہا جاتا ہے کہ آپ بہت تند و تیز زبان کے مالک تھے اور ان کی زبان سے کسی بھی حاکم یا وزیر کو امان نہیں تھا اور بہت سے لوگ ان کی زبان سے ڈرتے تھے۔[26] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ دعبل اہل‌ بیتؑ کے حوالے سے ایک خاص تعصب رکھتا تھا[27] اور صرف اہل‌ بیتؑ کے دشمنوں کی مزمت اور ملامت کرتا تھا۔[28] مختلف حاکموں کی مزمت میں اشعار پڑھنے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ایک جگہ سے دوسرے جگہ فرار کرنے پر مجبور ہوتا تھا۔[29]

بعض محققین یہ احتمال دیتے ہیں کہ ان کو قتل کرنے کی وجہ عباسی خلیفہ مُتَوکِّل عَبّاسی کی مزمت تھی؛ چونکہ متوکل عباسی کے ہاتھوں حرم امام حسینؑ کی تخریب کے بعد دعبل نے اپنے ایک شعر میں متوکل کی مزمت کی اور امام حسینؑ کی قبر پر مرثیہ پڑھا۔[30] بعض منابع میں ان کی وفات کے حوالے سے اور جگہوں کی تعیین کی گئی ہے۔[31] تفسیر روح‌الجِنان کے مصنف ابوالفتوح رازی کے مطابق دعبل اپنی عمر کے آخری لحظات میں توحید، نبوت اور ولایت امام علیؑ پر اقرار کے اشعار پڑھے[32] جسے ان کی قبر پر تحریر کیا گیا۔[33] دعبل کی وصیت کی تھی کہ قصیدہ تائیہ کو ان کی قبر پر لکھا جائے۔[34]دعبل کا مقبرہ ایران کے شہر شوش میں واقع ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. قلی‌زادہ علیار، «مزارات الشیعہ در قصیدہ تائیہ دعبل خزاعی»، ص53۔
  2. ملاحظہ کریں: امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص517-503۔
  3. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص538-540۔
  4. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، 1378ھ، ج2، ص251۔
  5. حمد، «مقدمہ»، در دیوان دعبل بن علی الخزاعی، 1414ھ، ص11۔
  6. حموی، معجم الادباء، 1414ھ، ج3، ص1287۔
  7. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص415۔
  8. حمد، «مقدمہ»، در کتاب دیوان دعبل بن علی الخزاعی، 1414ھ، ص13۔
  9. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص401۔
  10. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص524
  11. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج8، ص379
  12. نجاشی،‌ رجال النجاشی، 1418ھ، ص277۔
  13. حموی، معجم الادباء، 1414ھ، ج3، ص1284۔
  14. اعلمی، «مقدمہ»، در کتاب دیوان دعبل الخزاعی، 1417ھ، ص4۔
  15. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص513۔
  16. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص514-516۔
  17. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج20، ص294۔
  18. ابن‌شہرآشوب، معالم العلماء، المطبعۃ الحیدریہ، ص151۔
  19. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص527۔
  20. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، امالی، 1414ھ، ص372۔
  21. ملاحظہ کریں: حلی، خلاصۃ الاقوال، 1417ھ، ص144؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج6، ص401۔
  22. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص527-528۔
  23. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص528-529۔
  24. نجاشی،‌ رجال النجاشی، 1418ھ، ص277۔
  25. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص542۔
  26. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج20، ص294۔
  27. حصری، زہر الآداب، 1417ھ، ج1، ص99۔
  28. امینی، الغدیر، 1416ھ، ج2، ص522۔
  29. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج20، ص295۔
  30. قربانی‌زرّین، «دعبل خزاعی»، ص792؛ ملاحظہ کریں: دعبل خزاعی، شعر دعبل بن علی الخزاعی، 1403ھ،‌ ص337-338۔
  31. ملاحظہ کریں: حموی، معجم الادباء، 1414ھ، ج3، ص1287؛ ابن‌خلکان، وفیات الأعیان، 1900م، ج2، ص270؛ حموی، معجم البلدان، 1399ھ، ج3، ص160۔
  32. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج4، ص229۔
  33. ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، 1378ھ، ج2، ص267۔
  34. صدر، تأسیس الشیعہ لعلوم الاسلام، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ص195۔
  35. حرزالدین، مراقد المعارف، 1371ہجری شمسی، ج1، ص288۔

مآخذ

  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، الأغانی، بیروت، دار الحیاء التراث العربی، 1415ھ۔
  • ابن‌خلکان، احمد بن محمد، وفیات الأعیان و أنباء أبناء الزمان، بیروت، دار صادر، 1900م۔
  • ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، معالم العلماء، تصحیح محمدصادق بحر العلوم، المطبعۃ الحیدریۃ، نجف اشرف، بی‌تا۔
  • اِربِلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تبریز، بنی‌ہاشمی، 1381ھ۔
  • امین، سید محسن، اَعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1416ھ۔
  • حرزالدین، محمد، مراقد المعارف، قم، منشورات سعید بن جبیر، 1371ہجری شمسی۔
  • حصری، ابراہیم بن علی، زہر الآداب و ثمر الالباب، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، قم، نشر فقاہت، 1417ھ۔
  • حمد، حسن، «مقدمہ»، در دیوان دعبل بن علی الخزاعی، تألیف دعبل خزاعی، بیروت، دار الکتب العربی، 1414ھ۔
  • حموی، یاقوت، معجم الادباء ارشاد الاریب الی معرفۃ الادیب، بیروت، دار الغرب الاسلامی، 1414ھ۔
  • حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1399ھ۔
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا،‌ بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1417ھ۔
  • دعبل خزاعی، دیوان دعبل الخزاعی، شرح و تحقیق ضیاء حسین الأعلمی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1417ھ۔
  • دعبل خزاعی، شعر دعبل بن علی الخزاعی، تصحیح: عبدالکریم الأشتر، دمشھ، مجمع اللغۃ العربیۃ، 1403ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضاؑ، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
  • صدر، حسن، تأسیس الشیعۃ لعلوم الاسلام، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بی‌تا۔
  • طہرانی، محمدحسین، مطلع الانوار، بہ تحقیق: محمدمحسن طہرانی، تہران، مکتب وحی، 1437ھ۔
  • قربانی‌زرّین، باقر، «دعبل خزاعی»، در جلد 17 دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1391ہجری شمسی۔
  • قلی‌زادہ علیار، مصطفی، «مزارات الشیعہ در قصیدہ تائیہ دعبل خزاعی»، در فصلنامہ زیارت، شمارہ 34، بہار 1397ہجری شمسی۔
  • نجاشی،‌ احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1418ھ۔