محمد بن علی نقی (متوفی 252ھ) شیعوں کے دسویں امام، امام علی نقی علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند ہیں جو سید محمد اور اہل قریہ کی اصطلاح میں سبع الدجیل (مرد شجاع) کے نام سے معروف ہیں۔ روحانی اور اخلاقی عظمت اور منزلت کی وجہ سے شیعہ اور غیر شیعہ سب یہ گمان کرتے تھے کہ امام علی نقی علیہ السلام کے بعد منصب امامت ان کو ملے گا۔ لیکن امام علی نقیؑ کی زندگی میں ہی ان کی وفات نے اس گمان کو ختم کر دیا اور یہ واضح ہو گیا کہ امام علی النقیؑ کے بعد امامت امام حسن العسکریؑ کو ہی ملے گا۔

سید محمد
ناممحمد بن علی النقی
وجہ شہرتامام زادہ
کنیتابو جعفر
لقبسید محمد
تاریخ پیدائش228 ق صریا (مدینہ)
مدفنشہر بلد، کاظمین اور سامرا کے درمیان
والدامام علی نقیؑ
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ

سنہ 252ھ میں آپ بَلَد نامی شہر میں وفات پا گئے اور وہی پر مدفون ہیں۔ آپ کا روضہ پہلی بار چوتھی صدی ہجری میں تعمیر ہوا جس کے بعد مختلف ادوار میں علماء، مراجع اور بادشاہوں کے توسط سے اس کی تعمیر و توسیع ہوتی رہی ہے۔ جن میں سلسلہ آل بویہ بادشاہ عضدالدولہ دیلمی، سلسلہ صفویہ کے بادشاہ شاہ اسماعیل صفوی، چودہویں صدی ہجری کے مرجع تقلید میرزای شیرازی اور چودہویں صدی ہجری کے شیعہ محدث میرزا حسین نوری کا نام قابل ذکر ہیں۔

سید محمد کا روضہ عراق کے بلد نامی شہر میں واقع ہے جو سامرا کے جنوب میں 50 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ آپ کا روضہ تمام شیعوں خاص طور پر عراق کے شیعوں میں بے حد مقبول زیارت گاہ ہے۔ ان کی بہت سی کرامات نقل ہوئی ہیں۔

سید محمد کی نسل آپ کے پوتے شمس‌ الدین محمد جو میر سلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے، کے ذریعے آگے چلی۔ اسی طرح سادات آل بَعاج جو عراق اور ایران کے بعض مناطق میں زندگی بسر کرتے ہیں، آپ کی نسل سے ہیں۔

سید محمد کی زندگی اور کرامات کے بارے میں مختلف کتابیں بھی لکھی گئی ہیں؛ من جملہ ان میں محمد علی اُردوبادی (1312-1380ھ) کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب "حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" مشہور ہے جو فارسی میں "ستارہ دُجَیل" کے نام سے ترجمہ ہوا ہے۔

7 جولائی 2016ء کو شام کے وقت سید محمدؑ کا روضہ ایک دہشت گردانہ حملے کا شکار ہوا۔

زندگی‌ نامہ

سید محمد امام ہادیؑ کے فرزند ارجمند ہیں۔[1] کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ کا نام حدیث یا سلیل تھا۔[2] آپ کی پیدائش سنہ 228ھ کو مدینہ کے قریب صریا نامی جگہے پر ہوئی۔[3] سنہ 233ھ کو متوکل عباسی کے حکم پر جب امام ہادیؑ کو سامرا احضار کیا گیا تو سید محمد صریا ہی میں رہے۔[4] آپ کس سنہ ہجری کو سامرا اپنے والد گرامی کے پاس چلے گئے اس بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں، لیکن کہا جاتا ہے کہ سنہ 252ھ کو سامرا سے مدینہ کی طرف چل نکلے[5] اور جب بلد نامی جگہے پر پہنچے تو بیماری کی وجہ سے فوت ہوگئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔[6]

سید محمد کی کنیت ابوجعفر اور ابوعلی تھی۔[7] اسی طرح آپ سید محمد بعاج،[8] سَبع الدُّجَیل اور سَبع الجزیرہ کے القاب سے بھی ملقب تھے۔[9]

اولاد

چودہویں صدی ہجری کے مورخ شیخ عباس قمی نے سید حسن براقی (متوفی 1332ھ) سے نقل کیا ہے کہ آپ کی نسل آپ کے پوتے شمس‌الدین محمد (متوفی 832 یا 833ھ) کے ذریعے آگے چلی۔[10] شمس‌الدین کا نسب چار واسطوں سے سید محمد کے فرزند علی تک پہنچتا ہے اور چونکہ وہ بخارا میں متولد اور وہیں پر جوان ہوئے تھے میرسلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے اور ان کی اولاد بخاریوں کے نام سے معروف تھے۔[11] وہاں سے وہ بلاد روم چلے گئے اور شہر بروسا میں مقیم ہوئے اور وہیں پر مدفون ہیں۔[12] شیخ عباس قمی اسی طرح سید حسن براقی سے نقل کرتے ہیں کہ سید محمد بَعاج بھی سید محمد کی اواد میں سے تھے۔[13] کہا جاتا ہے کہ سادات آل بعاج جو میسان، ذی‌قار، واسط، قادسیہ، بغداد اور نجف اشرف[14] اسی طرح ایران کے شہر خوزستان وغیرہ میں آباد ہیں، بھی سید محمد کے فرزند علی اور احمد کی اولاد ہیں۔[15]

مقام و منزلت

شیعہ محقق باقر شریف قرشی(متوفی 1433ھ) کے مطابق سید محمد کے اخلاق اور ادب نے ان کو دوسروں سے ممتاز بنایا تھا۔[16] اسی بنا پر بعض شیعہ حضرات کا خیال تھا ک امام ہادیؑ کے بعد امامت کا منصب سید محمد کو ملے گا۔[17] سید محمد ہمیشہ اپنے بھائی امام حسن عسکریؑ کے ساتھ ہوا کرتے تھے[18] اور باقر شریف قرشی کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمے لئے تھے۔[19] شیخ عباس قمی کے نقل کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی موت پر اپنے گریبان چاک کئے اور اس کام پر آپ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں حضرت موسی کا اپنے بھائی حضرت ہارون کی موت پر گریبان چاک کرنے کے ساتھ استناد کرتے تھے۔[20]

تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین سعد بن عبداللہ اشعری اور حسن بن موسی نوبختی کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور مہدی موعود قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور بداء حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔[21] یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے[22] اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے امام حسن عسکریؑ کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔[23] ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں آل ابی‌ طالب، بنی‌ ہاشم اور قریش وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔[24]

شیعہ محدث میرزا حسین نوری (متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات متواتر طور پر اور اہل سنت کے یہاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر عراق کے لوگ ان کے نام کی قسم کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔[25] بعض منابع میں سید محمد سے بعض کرامت نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمد علی اردوبادی (1312-1380ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔[26]

روضہ

 
سنہ 2016ء میں داعش کے حملے میں سید محمد کے روضے کو نقصان پہنچا

سید محمد کا روضہ عراق کے شہر بلد میں کاظمین کے شمال میں 85 کیلومیٹر اور سامراء کے جنوب میں 50 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ روضہ عراق کے شیعوں کے یہاں مورد احترام زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ جو لوگ سامراء میں حرم عسکریین کی زیارت کے لئے جاتے ہیں وہ سید محمد کے زوضے کا بھی ضرور زیارت کرتے ہیں۔[27]

حرم سید محمد کی ابتدائی تعمیر کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں؛ لیکن سنہ 1379 سے 1384ھ تک میں آپ کے مرقد کی تعمیراتی کاموں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمیر چوتھی صدی ہجری میں آل بویہ کے حکمران عضدالدولہ دیلمی کے دور میں ہوئی تھی۔[28] دوسری بار اس کی تعمیر دسویں صدی ہجری میں فتح بغداد کے بعد شاہ اسماعیل صفوی کے حکم سے ہوئی ہے۔[29] سنہ 1189ھ میں بھی آپ کے روضے کی تعمیر کے بارے میں حکایت ہوئی ہے۔[30]

اسی طرح زین‌ العابدین بن محمد سلماسی (متوفی 1266ھ) جو سید بحر العلوم کے شاگرد رہے ہیں نے سنہ 1208 ھ میں امیر حسین خان سردار کے حکم سے سید محمد کے مرقد پر گچ اور اینٹ سے ایک عمارت اور زائرین کے لئے ایک زائر سرا تعمیر کروایا۔[31] سنہ 1244ھ کو ملا محمد صالح قزوینی حائری نے پرانی عمارتوں کو خراب کر کے نئی عمارتیں بنانا شروع کیا جو سنہ 1250ھ میں اختتام کو مکمل ہوئی۔[32] اسی طرح میرزای شیرازی (1230-1312ھ) نے سامرا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد اور میرزا محمد تہرانی عسکری نے بھی حرم سید محمد کی تعمیراتی امور انجام دئے اور اس میں نئے کمروں کا اضافہ کیا۔[33] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق میرزا حسین نوری (1254-1320ھ) نے بھی سنہ 1317ھ میں اس کی تعمیر کی ہیں۔[34]

شیعہ مرجع تقلید آقا حسین قمی کے فرزند سید محمد طباطبایی نے اپنے والد کی مرجعیت کے دور میں حرم سید محمد کے لئے جمع شدہ اموال سے سنہ 1379-1384ھ میں جدید تعمیرات انجام دیئے جس میں 150 مربع میٹر پر مشتمل صحن، گنبد، مینار اور ضریح نصب کیا گیا۔[35]

عتبات عالیات کی تعمیراتی کمیٹی نے سنہ 1392ش میں سید محمد کے مرقد کی تعمیر شروع کی۔[36] اگرچہ 7 جولائی 2016ء کو حرم سید محمد پر داعش کے حملے میں حرم کے بعض حصوں کو نقصان پهنچا،[37] لیکن اس کی تعمیر سنہ 2019ء کے بہار تک جاری رہی۔[38]

مونو گرافی

سید محمد کے بارے میں لکھی گئی کتابوں[39] میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • "حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" جسے محمد علی اُردوبادی (1312-1380ھ) نے عربی زبان میں تألیف کی ہیں۔ اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ "ستارہ دُجَیل" کے نام سے ہوا ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے: پہلے حصے میں سید محمد اور آپ کے مرقد[40] کی معرفی کی گئی ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں آپ سے متعلق بعض کرامات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[41] اردوبادی نے کتاب کے پہلے حصے میں حسن بن موسی نوبختی کی جانب سے سید محمد سے منسوب فرقے کی بحث کے ذیل میں سامرا میں آپ کی موت واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے[42] شہر بلد میں آپ کے مزار کی شہرت کو روز روشن کی طرح قرار دیا ہے۔[43]
  • "رسالہ ای در کرامات سید محمد بن علی الہادی" جس کے مصنف جابر آل عبدالغفار کشمیری (متوفی 1320ھ) ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی صاحب کتاب شناس شیعہ (متوفی 1389ھ) اس کتاب کو میرزا حسین نوری کی درخواست پر لکھی گئی ہے۔[44]
  • "رسالۃ فی کرامات السید محمد ابن الامام علی الہادی" جس کے مصنف ہاشم محمد علی بلداوی (متوفی 1305ھ) ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تدوین میں سید قاسم بلداوی کی کتاب "الفضائل الفاخر" سے استفادہ کیا ہے۔[45]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص311-312۔
  2. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔
  3. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔
  4. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔
  5. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص4۔
  6. ابن صوفی، المجدی فی انساب الطالبیین، 1422ق، ص325۔
  7. حرزالدین، مراقد المعارف، 1371ش، ج2، ص262۔
  8. ملاحظہ کریں: حرزالدین، مراقد المعارف، 1371ش، ج2، ص262۔
  9. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص2۔
  10. قمی، منتہی الآمال، 1379ش، ج3، ص1893۔
  11. حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج3، ص461-462۔
  12. حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج3، ص461-462۔
  13. قمی، منتہی الآمال، 1379ش، ج3، ص1893۔
  14. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص10۔
  15. حرزالدین، مراقد المعارف، 1371ش، ج2، ص262(پانویس2)۔
  16. قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، 1433ق، ج34، ص26۔
  17. قمی، منتہی الآمال، 1379ش، ج3، ص1891؛ قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، 1433ق، ج34، ص26۔
  18. اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ص21۔
  19. قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، 1433ق، ج34، ص26۔
  20. قمی، سفینۃ البحار، 1414ق، ج2، ص410؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ق، ج10، ص5۔
  21. اشعری قمی، المقالات و الفرق، 1360ش، ص101؛ نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ق، ص94۔
  22. اشعری، المقالات و الفرق، 1360ش، ص101۔
  23. مجلسی، بحار الانوار، 1363ش، ج‏50، ص246۔
  24. مجلسی، بحار الانوار، 1363ش، ج‏50، ص245۔
  25. نوری، نجم الثاقب، 1384ق، ج1، ص272۔
  26. اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص50 بہ بعد۔
  27. «سید محمد»۔
  28. فقیہ بحر العلوم و خامہ‌ یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص520۔
  29. فقیہ بحر العلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521-520۔
  30. فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521-520۔
  31. بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص8۔
  32. فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521۔
  33. فقیہ بحرالعلوم و خامہ‌یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص521۔
  34. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ق، ج17، ص289۔
  35. فقیہ بحر العلوم و خامہ‌ یار، زیارتگاہ‌ہای عراق، ج1، ص522۔
  36. «چند طرح بازسازی حرم امام زادہ سید محمد آمادہ بہرہ‌برداری»
  37. «الصور: إحباط محاولۃ تفجير مرقد (سيد محمد) في بلد۔۔ و مقتل ثلاثۃ انتحاريين أمام بوابۃ دخول الزائرين»
  38. «چند طرح بازسازی حرم امام زادہ سید محمد آمادہ بہرہ‌ برداری»
  39. «السيّد محمّد بن الإمام الہادي عليہ‌السّلام»
  40. اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابو جعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص50۔
  41. اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص50 بہ بعد۔
  42. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ق، ص94۔
  43. اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، 1427ق، ص35۔
  44. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ق، ج17، ص289۔
  45. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ق، ج17، ص289-290۔

مآخذ

  • احسان مقدس، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، نشر مشعر۔
  • اشعری قمی، المقالات و الفرق، تصحیح محمد جواد مشکور، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، 1361ہجری شمسی۔
  • رجائی، مهدی، المعقبون، من آل ابی‌ طالب، موسسہ عاشورا، قم، 1385ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، تحقیق علی اکبر غفاری بیروت، دار المعرفہ، 1399ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، قم، دار المعارف الإسلامیة، 1411ھ۔
  • قرشی، باقر شریف، زندگانی امام حسن عسکریؑ‏، ترجمہ سید حسن اسلامی‏، قم‏، جامعہ مدرسین‏، 1375ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب ،اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تهران، دارالکنب الاسلامیہ، 1388ھ۔
  • مجلسی، بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، تهران‏، اسلامیة،1363ہجری شمسی۔
  • مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، 1413ھ۔