ابراہیم بن مہزیار اہوازی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | ابراہیم بن مہزیار اہوازی |
لقب/کنیت | ابو اسحاق |
تاریخ ولادت | تیسری صدی ہجری |
نامور اقرباء | بھائی: علی بن مہزیار، بیٹے: علی بن ابراہیم بن مہزیار و محمد بن ابراہیم بن مہزیار اہوازی۔ |
علمی معلومات | |
اساتذہ | علی بن مہزیار، صالح بن سندی، فضالہ بن ایوب، ابن ابی عمیر، حسین بن علی بن بلال۔ |
شاگرد | حسن بن علی سرسونی، عبد اللہ بن جعفر حمیری، سعد بن عبد اللہ اشعری، محمد بن احمد بن یحیی، حماد بن عبداللہ قندی۔ |
تالیفات | کتاب البشارات۔ |
خدمات | |
سماجی | وکیل امام حسن عسکری ؑ |
ابراہیم بن مَہزیار اہوازی، تیسری صدی ہجری کے شیعہ محدث، امام محمد تقی علیہ السلام کے صحابی اور امام علی نقی علیہ السلام و امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایات نقل کرنے والے روات میں سے ہیں۔
شیعہ منابع روایی میں ابراہیم بن مہزیار سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔ آیت اللہ خوئی کے مطابق، 50 سے زیادہ روایات کی سند میں ان کا نام ذکر ہوا ہے۔ شیعہ ماہرین رجال کے درمیان ان کی روایات کے معتبر ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ان کی وثاقت کے اثبات کے لئے کتاب کامل الزیارات کی بعض روایات کی سند میں ان کا نام ذکر ہونے سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس لئے کہ بعض علمائے رجال نے کامل الزیارات میں کسی راوی کے نام کے ذکر ہونے کو ایک عمومی وثاقت کے دلائل میں سے قرار دیا گیا ہے۔
سوانح حیات
ابراہیم خوزستان (ایران) کے علاقہ دورق کے رہنے والے تھے۔[1] نجاشی کے بقول ان کے والد عیسائی تھے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔[2] ان کی ولادت اور وفات کے سلسلہ میں معلومات دسترس میں نہیں ہیں۔ اس کے باوجود بعض محققین نے بعض دلائل و قرائن سے استناد کرتے ہوئے ان کے زندگی کا زمانہ 195 سے 265 ھ کے درمیان گمان کیا ہے۔[3] ان دلائل میں سے بعض یہ ہیں کہ وہ امام محمد تقی ؑ (شہادت 220 ھ)[4] کے صحابی تھے امام حسن عسکری ؑ کی شہادت (260 ھ) کے بعد بھی زندہ تھے[5] اور بعض روایت میں انہیں امام زمانہ ؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے۔[6]
ان کے تین بیٹے حسین، علی و محمد تھے۔ محمد امام حسن عسکری ؑ کے اصحاب میں سے تھے[7] اور ایک روایت کے مطابق امام زمانہ ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہو چکے ہیں۔[8] محقق معاصر علی اکبر غفاری کے مطابق ان کا نام کتب رجال میں ذکر نہیں ہوا ہے۔[9]
بعض شیعہ منابع رجالی و روایی میں ان کی کنیت ابو اسحاق نقل ہوئی ہے۔[10]
اصحاب ائمہ
شیخ طوسی نے ابراہیم بن مہزیار کو امام محمد تقی ؑ[11] اور امام علی نقی ؑ[12] کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ اس روایت کے مطابق جو کتاب الکافی میں محمد بن ابراہیم بن مہزیار سے نقل ہوئی ہے، ان کے والد ابراہیم بن مہزیار شیعوں کے گیارہویں امام حسن عسکری ؑ کے وکیل تھے۔[13] آیت اللہ خوئی اس روایت کو ضعیف مانتے ہیں۔[14]
امام زمانہ سے ملاقات
اس روایت کے مطابق جسے شیخ صدوق نے نقل کیا ہے ابراہیم بن مہزیار نے مکہ میں امام زمانہ ؑ سے ملاقات کی ہے۔[15] آیت اللہ خوئی نے اس روایت کے معتبر ہونے میں شک ظاہر کیا ہے۔[16] اسی طرح سے ایک روایت میں ان کے امام زمانہ ؑ کے وکلاء کے ساتھ رابطہ میں ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے[17] اور فضل بن حسن طبرسی نے انہیں امام مہدی ؑ کے سفیروں میں شمار کیا ہے۔[18] علامہ حلی نے اس روایت کو ضعیف شمار کیا ہے۔[19]
علم رجال میں مرتبہ
آیت اللہ خوئی کے مطابق، شیعہ ماہرین علم رجال ان کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ علامہ مجلسی انہیں ثقہ،[20] ابن داود حلی انہیں ممدوح[21] مانتے ہیں[22] اور شیخ عبد النبی جزائری کتاب حاوی الاقوال میں انہیں رجال کی بحث میں ضعیف شمار کرتے ہیں۔[23]
بزرگ شیعہ عالم رجال مامقانی اور بعض دیگر ابراہیم بن مہزیار کی وثاقت اور ان کی مدح کے سلسلہ میں چند دلائل پر تکیہ کرتے ہیں: جن میں ان کا اپنے بھائی علی بن مہزیار کا وصی ہونا اور امام مہدی کا سفیر ہونا شامل ہے۔[24] 23 جلدی کتاب معجم رجال الاحادیث کے مولف سید ابو القاسم خوئی ان کی مدح اور توثیق کے سلسلہ میں ان دونوں باتوں کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور خود ان کی توثیق کے لئے کتاب کامل الزیارات کی روایات کی سند میں[25] ان کا نام ذکر ہونے کو دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[26] بعض معاصر محققین کامل الزیارات میں کسی راوی سے نقل روایت کو اس کی عام توثیق قرار دیتے ہیں۔[27] اس لئے کہ ابن قولویہ نے اس کتاب کے مقدمہ میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں فقط ثقہ راویوں سے روایات نقل کی ہیں۔[28]
روایات
منابع روایی شیعہ میں جن میں کتب اربعہ بھی شامل ہیں، ابراہیم بن مہزیار سے احادیث نقل ہوئی ہیں۔[29] آیت اللہ خوئی کے مطابق 50 سے زیادہ روایات کی سند میں ان کا نام ذکر ہوا ہے۔[30]
ابراہیم بن مہزیار نے امام علی نقی ؑ و امام حسن عسکری ؑ[31] سے بلا واسطہ روایات نقل کی ہیں[32] اور اپنے بھائی علی بن مہزیار،[33] صالح بن سندی، ابن ابی عمیر، حسین بن علی بن بلال، خلیلان بن ہشام اور اپنے دیگر بھائی داود بن مہزیار جیسے راویوں سے با واسطہ روایت نقل کی ہے۔[34] اسی طرح سے عبد اللہ بن جعفر حمیری،[35] سعد بن عبد اللہ اشعری،[36] محمد بن احمد بن یحیی و محمد بن علی بن محبوب، جیسے روات نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔[37]
ابراہیم نے ائمہ ؑ کی شہادت، ان کی عمروں،[38] مسجد نبوی[39] و مسجد کوفہ[40] میں نماز پڑھنے کی فضیلت و ثواب زیارت امام حسین[41] جیسے موضوعات اور اسی طرح سے نماز[42] و حج[43] کے احکام کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں۔ بعض شیعہ فقہاء جیسے صاحب جواہر نے احکام نماز کے باب میں ان کی روایت سے استناد کیا ہے۔[44]
نجاشی نے البشارات نامی ایک کتاب کی نسبت ابراہیم بن مہزیار کی طرف دی ہے۔[45] بعض محققین نے احتمال دیا ہے کہ یہ البشارات وہی کتاب ہے جو ان کے بھائی علی بن مہزیار کی تالیف کردہ ہے[46] اور ابراہیم نے اس کی روایت کی ہے۔[47] حالانکہ نجاشی نے اس کتاب کی نسبت خود ابراہیم کی طرف دی ہے۔[48]
حوالہ جات
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۳.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۳.
- ↑ گذشتہ، «ابراہیم بن مہزیار»، ج۲، ص۴۵۸.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۷۴.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۱۸.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ص۴۴۵-۴۵۳.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۴۰۲.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۴۲.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۶۶، پانویس.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۶؛ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۵، ص۱۷.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۷۴.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۸۳.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۱۸.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۵.
- ↑ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ص۴۴۵-۴۵۳.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۷.
- ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۵۳۱-۵۳۲.
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۴۱۶.
- ↑ علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال، ۱۴۱۷ق، ص۵۱.
- ↑ علامہ مجلسی، الوجیزۃ فی الرجال، ص۱۶؛ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۵، ص۳۱.
- ↑ ابن داود حلی، کتاب الرجال، ۱۳۴۲ش، ص۱۹.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۴.
- ↑ جزائری، حاوی الاقوال، ۱۴۱۸ق، ج۳، ص۲۴۹.
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۴۳۱ق، ج۵، ص۱۸-۳۱؛ نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۴، خاتمہ، ص۲۶-۲۹.
- ↑ نگاہ کریں: ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۲۱، ۲۵، ۳۱، ۴۹، ۸۵، ۱۵۵، ۱۹۱.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۷.
- ↑ ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۳۵.
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۴.
- ↑ برای نمونہ نگاہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۵۷، ۴۶۱، ۴۶۳؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۶۳، ج۲، ص۴۴۴.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۷.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۷.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۵۷، ۴۶۱، ۴۶۳.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۷.
- ↑ برای نمونہ نگاہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۵۷.
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۵۷.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۰۷.
- ↑ برای نمونہ نگاہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ۴۵۷، ۴۶۱، ۴۶۳، ۴۷۲، ۴۷۵، ۴۸۶، ۴۹۱، ۴۹۷، ۵۱۸.
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۲۱.
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۳۱-۳۲.
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزیارات، ۱۳۵۶ش، ص۱۵۵.
- ↑ صدوق، من لا یحضر الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۶۳.
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۴۴.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج۸، ص۶۳؛ عاملی، مفتاح الکرامہ، ۱۴۱۹ق، ج۵، ص۴۵۸.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۶.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۱۶.
- ↑ طوسی، فہرست کتب الشیعہ، ۱۴۲۰ق، ص۲۶۵.
- ↑ نجاشی، رجال النجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۲۵۴.
- ↑ گذشتہ، «ابراہیم بن مہزیار»، ج۲، ص۴۵۸.
مآخذ
- ابن داود حلّی، حسن بن علی، کتاب الرجال، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۴۲ش
- ابن قولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تصحیح: عبد الحسین امینی، نجف، دار المرتضویہ، ۱۳۵۶ش
- ایروانی، محمد باقر، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، قم، انتشارات مدین، ۱۴۳۱ق
- جزائری، عبد النبی، حاوی الاقوال فی معرفت الرجال، قم، مؤسسہ الہدایہ لاحیاء التراث، ۱۴۱۸ق
- خویی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر آثار شیعہ، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ش
- صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق
- صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ق
- طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، تہران، بی نا، ۱۳۹۰ق
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، تحقیق: جواد قیومی اصفہانی، قم، جماعت المدرسین فی الحوزۃ العلمیہ بقم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۳۷۳ش
- طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعہ و اصولہم و اسماء المصنفین و اصحاب الاصول، تحقیق: عبد العزیز طباطبایی، قم، مکتبہ المحقق الطباطبایی، ۱۴۲۰ق
- عاملی، سید جواد، مفتاح الکرامہ فی شرح قواعد العلامہ، تصحیح: محمد باقر خالصی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۹ق
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفت الرجال، تحقیق: جواد قیومی، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۷ق
- کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی -اختیار معرفت الرجال، تلخیص: محمد بن حسن طوسی، تصحیح: حسن مصطفوی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، ۱۴۰۹ق
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق
- گذشتہ، ناصر، مدخل ابراہیم بن مہزیار در دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، ۱۳۶۸ش
- مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی احوال الرجال، تحقیق: محی الدین و محمد رضا مامقانی قم، مؤسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۳۱ق
- مجلسی، محمد باقر، الوجیزۃ فی الرجال، تحقیق: محمد کاظم رحمان ستایش، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی
- نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، تحقیق: موسی شبیری زنجانی، قم، جماعت المدرسین فی الحوزۃ العلمیہ بقم مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۳۶۵ش
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق
- نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۰۸ق