سوره اعراف آیت نمبر 142

ویکی شیعہ سے
(اعراف 142 سے رجوع مکرر)
سورہ اعراف آیت نمبر 142
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت وواعدنا
سورہاعراف
آیت نمبر142
پارہ9
محل نزولمکہ
موضوعتارخی
مضمونحضرت موسی کا خدا کے ساتھ چالیس روزہ میعاد اور حضرت ہارون کی جانشینی
مربوط آیاتسورہ بقرہ آیت 51


سورہ اعراف آیت نمبر 142 میں خدا کے ساتھ حضرت موسی کے چالیس روزہ وعدے کا ذکر آیا ہے جس کے دوران انہوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون کو ضروری سفارشات کے ساتھ اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ بعض شیعہ اعتقادی مباحث جیسے امام علیؑ کی جانشینی، انبیاء کی عصمت، بداء اور مقام امامت کی مقام نبوت پر برتری اور فوقیت وغیرہ اسی آیت کے ذیل میں بحث کی جاتی ہیں۔ اسی طرح چلہ کلیمیہ اور ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی نماز جیسی عبادی اعمال بھی اسی آیت سے مربوط ہیں۔ اس آیت کی عرفانی تفاسیر بھی عرفاء کے آثار میں نمایاں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح صوفیوں کے نزدیک چلہ‌ نشینی کی بنیاد بھی حضرت موسی کے چالیس دن کے اسی وعدے کو قرار دیا جاتا ہے۔

متن اور ترجمہ

وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِينَ لَيْلَۃً ۚ وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيہِ ہَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
اور ہم نے موسیٰ سے (توراۃ دینے کے لیے) تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا اور اسے مزید دس (راتوں) سے مکمل کیا۔ اس طرح ان کے پروردگار کی مدت چالیس راتوں میں پوری ہوگئی اور جناب موسیٰ نے (کوہ طور پر جاتے وقت) اپنے بھائی ہارون سے کہا تم میری قوم میں میرے جانشین بن کر رہو۔ اور اصلاح کرتے رہو اور (خبردار) مفسدین کے راستہ پر نہ چلنا۔"



(سورہ اعراف: آیت 142)


آیت کی داستان

مفسرین کے مطابق حضرت موسی اپنے پروردگار کے ساتھ تیس روزہ وعدے پر بنی‌ اسرائیل کے بعض بزرگان کے ساتھ وعدہ گاہ پہنچ چاتے ہیں اور حضرت ہارون کو کچھ ضروری سفارشات کے ساتھ اپنا جانشین مقرر کرتے ہیں، لیکن خدا کی طرف سے وعدے کی مدت میں دس دن کا اضافہ ہوتا ہے جس کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ یہ دس دن ذی‌ الحجہ کا پہلا عشرہ تھا اور وعدے کی ابتداء ذی‌ القعدہ کی پہلی تاریخ تھی۔[1]

مورد استناد اعتقادی مسائل

شیعہ محققین سورہ اعراف کی آیت نمبر 142 کے ذیل میں بعض شیعہ اعتقادی مسائل جیسے حضرت علیؑ کی جانشینی اور حدیث منزلت،[2] انبیاء کی عصمت،[3] مقام امامت کا مقام نبوت پر برتری[4] اور بداء[5] وغیرہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

امام علیؑ کی جانشینی

شیعہ حدیث منزلت جس میں رسول خداؐ اور حضرت علیؑ کی نسبت کو حضرت موسی اور حضرت ہارون کی طرح قرار دیا گیا ہے،[6] سے پیغمبر اکرمؐ کے بعد حضرت علیؑ کی جانشینی اور دوسرے اصحاب پر آپؑ کی فوقیت اور برتری ثابت کرنے کے لئے استدلال کرتے ہیں۔[7] حدیث منزلت سے مربوط اکثر مطالب سے اسی آیت کے ذیل میں بحث کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مأمون عباسی نے بھی امام علیؑ کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے حدیث منزلت اور اسی آیت سے استدلال کیا تھا۔[8]

لیکن بعض اہل‌ سنت مفسرین کا کہنا ہے کہ حضرت موسی اپنی غیر موجودگی میں معاشرے کے امور کو اپنے بھائی حضرت ہارون کے سپرد کرنے کی بجائے اپنی والدہ کی طرح خدا کے سپرد کرتا تو ان کی قوم کسی گرفتاری میں مبتلا نہیں ہوتی۔[9] اس بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے حضرت موسی کی غلطی کو نہیں دہرایا اور اہل سنت کے عقیدے کے مطابق اپنی ملت کو خدا کے سپرد کر کے چلے گئے ہیں۔[10] لیکن کتاب الغدیر کے مصنف علامہ امینی کے مطابق قرآن، سنت اور تاریخ کی مستند اور قطعی دلائل کی روشنی میں امام علیؑ کی جانشینی عید غدیر کے دن اظہر من الشمس ثابت ہو چکی ہے۔[11]

حضرت ہارون کو نہی کرنا ان کی عصمت کے منافی نہیں ہے؟

شیعہ مفسرین اس سوال کے جواب میں کہ آیا حضرت موسی کی طرف سے حضرت ہارون کو مفسیدن کی پیروی کرنے سے منع کرنا حضرت ہارون کی عصمت کے منافی نہیں ہے؟ کہتے ہیں کہ کسی شخص کو امر یا نہی کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مذکورہ شخص سے وہ کام سرزد بھی ہو گیا ہو،[12] اور یہاں حضرت موسی اپنے بھائی حضرت ہارون کو بنی‌ اسرائیل کے مقام و مرتبے کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کے لئے تاکید کر رہے ہیں۔[13] اس کے علاوہ یہاں پر حضرت ہارون کو نہی کرنا ممکن ہے بنی اسرائیل کو تعلیم دینے کی خاطر ہو[14] یا شیعہ عالم دین سید محمد حسین طہرانی کے مطابق یہ نہی ممکن ہے حضرت موسی اپنی غیر موجودگی میں حضرت ہارون کو قومی مسائل میں مفسدین سے مشورت کرنے سے منع کرنے کے لئے کی ہو۔[15]

میعاد کی تبدیلی میں امتحان اور بداء کا پہلوں

حضرت موسی کے تیس روزه میعاد میں دس دن کا اضافہ کر کے چالیس دن قرار دینا جبکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 51 میں اس میعاد کو شروع سے ہے چالیس دن قرار دینے کے بارے میں مختلف تفاسیر بیان کی گئی ہیں لیکن شیعہ مفسر اور فقیہ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی کے مطابق جو چیز اہل‌ بیتؑ کی احادیث کے ساتھ زیادہ سازگار ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ حقیقت میں یہ میعاد چالیس دن کا ہی تھا لیکن خدا نے بنی اسرائیل کا امتحان لینے کے لئے پہلے تیس دن ذکر کیا اس کے بعد دس دن کا اضافہ کیا تاکہ بنی اسرائیل کے منافقین کو مؤمنین کے صفوں سے جدا اور علیحدہ کیا جا سکے۔[16]

امام باقرؑ حضرت موسی کی غیر موجودگی میں بنی اسرائیل کی گوسالہ‌ پرستی کی دلیل حضرت موسی کے تیس روزہ وعدے کا پورا نہ ہونا قرار دیتے ہیں[17] اسی طرح ایک اور جگہے پر تیس دن کا چالیس دن میں تبدیل ہونے کو خدا کی طرف سے بداء قرار دی گئی ہے۔[18]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: سامری کا بچھڑا


مقام امامت کی مقام نبوت پر فوقیت

بعض شیعہ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ آیت "وواعدنا" سے مقام امامت کی مقام نبوت پر فوقیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ حضرت موسی کی طرف سے حضرت ہاروں کو اپنا جانشین اور بنی‌ اسرائیل کا امام مقرر کرنے سے پہلے حضرت ہارون نبوت کے مقام پر فائز تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ امامت کا مقام نبوت کے مقام سے جدا اور بالاتر مقام ہے۔[19]

مربوطہ مناسک

کتاب منتخب مفاتیح الجنان کا ایک ورقہ جس میں ذی‌ الحجہ کے پہلے عشرے کی نماز میں آیت وواعدنا کی طرف اشارہ ہوا ہے۔

چلہ کلیمیہ

ذی‌ القعدہ کی پہلی تاریخ سے لے کر ذی‌ الحجہ کی دسویں تاریخ تک عبادات اور خدا کے ساتھ راز و نیاز کرنے کو چلہ کلیمیہ کہا جاتا ہے جس کے لئے مخصوص آداب اور اعمال بیان کئے گئے ہیں۔[20] آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق حضرت موسی ان چالیس دنوں میں کھانے پینے اور سونے کی بجائے کوہ طور پر خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات میں مشغول تھے۔[21] ان کے مطابق چلہ کلیمیہ کے نتیجے میں حضرت موسی پر تورات اور وحی الہی نازل ہوئی۔[22]

ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی نماز

شیعہ احادیث کے مطابق ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں نماز مغرب اور عشاء کے درمیان دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے جو "ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی نماز" کے نام سے مشہور ہے۔ امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق اس نماز کا طریقہ اس طرح ہے کہ ہر رکعت میں سورہ حمد اور سورہ توحید کے بعد آیت " وواعدنا" پڑھی جاتی ہے۔[23]

عرفانی پہلو

آیت "وواعدنا" سے مختلف عرفانی مطالب بھی استفادہ کئے جاتے ہیں مثال کے طور پر تفسیر کشف الاسرار کے مصنف میبدی وعدہ دینے کے بعد وعدے کے مطابق عمل کرنے کو مذہب عشق کے ارکان میں شمار کرتے ہیں اور اس آیت میں خدا کی طرف سے وعدہ میں تبدیلی لانے کو وفا کا مظہر قرار دیتے ہیں۔[24] وہ کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ حضرت موسی حضرت خضر کے طلب میں آدھے دن کی بھوک برداشت نہ کر سکے اس سفر میں چالیس دن تک انہیں کھانے پینے اور سونے کا خیال تک نہیں آیا۔[25] دوسری طرف حضرت موسی فرعون کی طرف جاتے ہوئے خدا سے حضرت ہارون کو ساتھ بھیجنے کی درخواست کرتے ہیں لیکن ان چالیس ایام میں چونکہ خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات کا ادارہ رکھتا تھا حضرت ہارون کو اپنا جانشین مقرر کر کے خود اکیلے عازم ہو جاتے ہیں۔[26] میبدی اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت موسی حقیقت میں دو سفر طے کر رہے تھے ایک کوہ طور کی جانب آگ کی تلاش میں اور دوسرا سفر طرب میعاد گاه کی طرف۔[27]

عرفا اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت کے مطابق جو بھی چالیس دن تک مخلوق سے قطع تعلق ہو کر اپنی نیت کو خدا کے ساتھ خالص کرے تو خدا علم و حکمت کے دروازے اس کے لئے کھول دیتے ہیں۔[28] کوہ طور پر حضرت موسی کا چالیس دن کی خلوت[29] اور مشہور حدیث "مَن أَخْلَصَ لِلّہِ أَربَعینِ صَباح..."[30] کو صوفیوں کے چلہ‌ نشینی کی بنیاد قرار دی جاتی ہے۔[حوالہ درکار]


شیعہ مفسر قرآن اور فقیہ آیت اللہ جوادی آملی چلہ کلیمیہ کو دین اسلام کے رسومات میں سے قرار دیتے ہیں۔[31] اسی طرح حسن حسن‌زادہ آملی اور سید محمد حسین حسینی طہرانی نے بعض افراد کے لئے سیر و سلوک میں اس چیز کی سفارش کی ہیں۔[32]

حوالہ جات

  1. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج1، ص239؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏6، ص 341؛ فخرالدین رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج14، ص352۔
  2. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏6، ص: 344۔
  3. علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج‏8، ص236؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏6، ص342؛ نجفی خمینی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج‏5، ص337۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏6، ص341۔
  5. علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج‏1، ص198۔
  6. پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، فرہنگ شیعہ، 1386ہجری شمسی، ص226۔
  7. میرحامدحسین، عبقات الأنوار، 1366ہجری شمسی، ج‏11، ص181 و 369۔
  8. طہرانی، امام‌شناسی، 1418ھ، ج9، ص113–114۔
  9. بخاری، شرح التعرف لمذہب التصوف، 1363ہجری شمسی، ج4، ص1517
  10. میبدی، کشف الأسرار، 1371ہجری شمسی، ج‏3، ص139۔
  11. ملاحظہ کریں: علامہ امینی، تکملۃ الغدیر، 1429ھ، ج1، ص48۔
  12. نجفی خمینی، تفسیر آسان، 1398ھ، ج‏5، ص337۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏6، ص342۔
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏6، ص342۔
  15. علامہ طہرانی، امام‌شناسی، 1418ھ، ج‏10، ص166۔
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏6، ص340۔
  17. بحرانی‏، البرہان‏، 1416ق‏، ج2، ص33؛ عروسی حویزی، تفسیر نور الثقلین، 1415ھ، ج6، ص341۔
  18. عیاشی، تفسیر عیاشی، ج1، ص44 ح 46 بہ نقل از علامہ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج‏1، ص198۔
  19. مراجعہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج‏1، ص311 و ج6، ص341۔
  20. منصوری لاریجانی، در محضر حافظ، 1390ہجری شمسی، ج2، ص233؛ «اربعین موسوی»، سایت عرفان و حکمت۔
  21. «آیت اللہ جوادی آملی: اربعین‌گیری از بہترین راہ‌ہای دریافت فیوضات است/ ہیچ دشمنی بدتر از ہوس وجود ندارد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  22. «آیت‌اللہ جوادی آملی: اربعین‌گیری از بہترین راہ‌ہای دریافت فیوضات است/ ہیچ دشمنی بدتر از ہوس وجود ندارد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  23. سید ابن طاوس، إقبال الأعمال، 1409ھ، ج1، ص317؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج8، ص183۔
  24. میبدی، کشف الأسرار، 1371ہجری شمسی، ج‏3، ص731۔
  25. میبدی، کشف الأسرار، 1371ہجری شمسی، ج‏3، ص731۔
  26. میبدی، کشف الأسرار، 1371ہجری شمسی، ج‏3، ص732۔
  27. میبدی، کشف الأسرا، 1371ہجری شمسی، ج‏3، ص732۔
  28. سہروردی، عوارف المعارف (ترجمہ)، 1375ہجری شمسی، ص100۔
  29. سورہ بقرہ، آیہ 51؛ سورہ اعراف، آیہ 142
  30. باخرزی، اوراد الاحباب، 1358ہجری شمسی، ج2، ص291–295
  31. «آیت اللہ جوادی آملی: اربعین‌گیری از بہترین راہ‌ہای دریافت فیوضات است/ ہیچ دشمنی بدتر از ہوس وجود ندارد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  32. «اربعین موسوی»، سایت عرفان و حکمت۔

مآخذ

  • «اربعین موسوی»، سایت عرفان و حکمت، تاریخ انتشار: 1 ذی القعدہ 1440ھ، تاریخ مشاہدہ: 25 تیر 1402ہجری شمسی۔
  • امینی، عبدالحسین، تکملۃ الغدیر: ثمرات الاسفار الی الاقطار، بہ تحقیق مرکز الامیر لاحیاء التراث الاسلامی، مراجعۃ و تصحیح مرکز الغدیر للدراسات و النشر و التوزیع، بیروت، 1429ق/2008ء۔
  • «آیت اللہ جوادی آملی: اربعین‌گیری از بہترین راہ‌ہای دریافت فیوضات است/ ہیچ دشمنی بدتر از ہوس وجود ندارد»]، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، تاریخ انتشار: 9 مہر 1390ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 25 تیر 1402ہجری شمسی۔
  • باخرزی، یحیی بن احمد، اوراد الاحباب و فصوص‌الآداب، تہران، چاپ ایرج افشار، 1358ہجری شمسی۔
  • بحرانی، ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن‏، تحقیق، قسم الدراسات الاسلامیۃ موسسۃ البعثۃ، تہران‏، بنیاد بعثت‏، چ1، 1416ھ۔
  • بخاری، اسماعیل مستملی، شرح التعرف لمذہب التصوف، بتحقیق محمد روشن، تہران، انتشارات اساطیر، 1363ہجری شمسی۔
  • «توصیہ‌ہای یک استاد اخلاق برای چلہ کلیمیہ»، سایت عقیق، تاریخ انتشار: 02 تیر 1399ہجری شمسی؛ تاریخ مشاہدہ، 25 تیر 1402ہجری شمسی۔
  • پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، فرہنگ شیعہ، زمزم ہدایت، قم، چاپ دوم، 1386ہجری شمسی۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ھ۔
  • سہروردی، شہاب‌الدین، عوارف المعارف، ترجمہ ابومنصور اصفہانی ابوحفص، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چ 2، 1375ہجری شمسی۔
  • سید ابن‌طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی‏، عیون أخبار الرضا علیہ السلام‏، مصحح: مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان‏، 1378ق‏۔
  • عروسی حویزی عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، بتحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1415ھ۔
  • طباطبایی سید محمد حسین، المیزان، چاپ پنجم، قم، مکتبہ الانشر الاسلامی، 1417ھ۔
  • علامہ طہرانی، سید محمدحسین، امام‌شناسی، مشہد، نشر علامہ طباطبائی، 1418ھ۔
  • فخرالدین رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: طیب موسوی جزائری، ‏قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، ‏ بحار الأنوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی‏، 1403 ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چ1، 1374ہجری شمسی۔
  • میرحامدحسین، عبقات الأنوار فی إثبات إمامۃ الأئمۃ الأطہار، اصفہان، کتابخانہ امیرالمؤمنین(ع)، چاپ دوم، 1366ہجری شمسی۔
  • میبدی، رشیدالدین، کشف الأسرار و عدۃ الأبرار، تحقیق: علی اصغر حکمت، تہران‏، انتشارات امیر کبیر، 1371ش‏۔
  • نجفی خمینی، محمدجواد، تفسیر آسان، تہران، انتشارات اسلامیہ، 1398ھ۔