حق مہر
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
حق مَہر یا مہر وہ مقررہ رقم جو مسلمان مرد نکاح کے عوض اپنی منکوحہ کو ادا کرتا ہے یا ادا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے اور وہ عقد کے فورا بعد اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو ورثہ میں ملتی ہے اور وہ شوہر سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔
متعہ میں حق مہر کا تعیین نہ ہونا اکثر مراجع کے فتوے کے مطابق نکاح کے بطلان کا سبب بنتا ہے۔ قرآن کریم مردوں کو عورتوں کا حق مہر مکمل طور پر ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بیوی سے ناراضگی کی صورت میں اسے مہر سے ہاتھ اٹھانے یا اس کا کچھ حصہ واپس کرنے پر مجبور نہ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔
موجودہ دور میں حق مہر اور جہیزیہ میں بے تہاشا اضافے کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہے ہیں۔ احادیث میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبختی کی علامت قرار دیتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر حضرت زہراؑ) پر قناعت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔
مہر تاریخ کے آئینے میں
"مہر" لغت میں اس جنس کو کہا جاتا ہے جسے نکاح کے وقت شوہر بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ اصطلاح میں بھی مہر سے یہی مراد لیا جاتا ہے۔ نکاح کے ساتھ ہی یہ مال بیوی کی ملکیت میں آتی ہے اور وہ شوہر سے ہر وقت مطالبہ کر سکتی ہے۔
اسلام سے قبل حمورابیوں، زرتشتیوں، ایران باستان، اعراب اور یونانیوں میں بھی مہر کی مختلف اقسام رائج تھیں لیکن مسیحیوں میں ایسی کوئی رسم موجود نہیں تھی۔[1]
پرانے زمانے میں والدین "مہر" کو اپنا حق الزحمہ اور دودھ کی قیمت سمجھتے تھے اسی وجہ سے نکاح شغار کی رسم زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔ بیٹی اور بہن کے تبادلہ کو "مہر" شمار کیا جاتا تھا بغیر اس کی کہ بیوی کو کوئی فائدہ ہو۔ اسلام نے ان تمام رسومات کو منسوخ کر دیا۔
عقد نکاح منعقد ہونے کے بعد مرد اور عورت کے درمیان علقہ زوجیت وجود میں آجاتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی مختلف احکامات اور وظائف ایک دوسرے کی گردن پر آجاتے ہیں منجملہ یہ کہ نفقہ، مہریہ، اجرت المثل، نحلہ اور عقد کے وقت اگر شرط رکھی جائے کہ مرد کے اموال کا نصف حصہ بیوی کا ہو گا تو اس شرط پر عمل کرنا وغیرہ ہیں ان میں سے بعض صرف نکاح کی وجہ سے شوہر کے ذمہ آجاتی ہیں جیسے نفقہ اور مہر جبکہ بعض طلاق اور جدایی کی صورت میں مرد کی گردن پر آجاتی ہیں جیسے اجرت المثل، اور شوہر کے اموال کی تنصیف وغیرہ۔
دائمی نکاح سے پہلے مہر کا تعیین کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ عقد کے بعد بھی مرد اور عورت اس پر توافق کر سکتے ہیں لیکن اگر نکاح انقطاعی میں مہر معین نہ کیا جائے تو اکثر مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق عقد باطل ہے۔[2]
مہر آیات و روایات کی روشنی میں
لفظ "مہر" قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے [3] بلکہ مہر کی بجائے "صَدُقات»" [4]، "اجور" (اکثر اوقات متعہ اور کنیزوں کے ساتھ شادی کے موقع پر استعمال کیا گیا ہے)[5]، "صداق" اور "فریضہ" [6] استعمال ہوا ہے۔
حق مہر کا ادا نہ کرنا جو بیوی کی ملکیت ہے، قرآن میں آشکار ظلم اور گناہ سے تعبیر کیا ہے۔[7]
قرآن کی سورہ نساء کی آیت و ءاتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهنُّ نِحلَة...[8] میں حق مَہر کو "صَدُقَہ" کے عنوان سے یاد کیا ہے جو صدق کے مادے سے ہے، یہ خود علقہ زوجیت کے سچا ہونے اور مرد کی رغبت کی نشانی ہے۔[9] دوسری بات یہ کہ "هنّ" میں ضمیر کے ذریعے حق مہر کو عورت کی ملکیت قرار دی گئی ہے نہ بیوی کے ماں باپ کی ملکیت، تاکہ وہ اسے اپنا حق الزحمہ قرار دیں۔ ثالثاً "نِحلَہ" کا لفظ تصریح کر رہا ہے کہ حق مہر ایک پیشکش ہے نہ بیوی کی قیمت۔ جبکہ موجودہ دور میں بعض یہ توہم کرتے ہوئے کہ حق مہر عورت کی قیمت ہے، بے تحاشا مال و دولت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسلام کا مقرر کردہ حق مہر کو عورت کی شان و منزلت کے خلاف فرض کرتے ہیں۔ حق مہر خدا کی طرف سے بیوی کیلئے ایک عطیہ اور ہدیہ ہے جس پر مرد کا کوئی احسان نہیں ہے۔
امام باقرؑ فرماتے ہیں: "الصداق ما تراضيا علیه قل او کثر[10] یعنی حق مہر وہ چیز ہے جس پر طرفین (مرد اور عورت) راضی ہو چاہے کم ہو یا زیادہ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے حق مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو کسی بھی صورت میں معین نہیں کیا جا سکتا۔ امام صادقؑ قیامت کے دن معاف نہ ہونے والی چیزوں میں سے ایک کو عورتوں کا حق مہر قرار دیتے ہیں جنہیں ادا نہ کیا گیا ہو۔
احادیث میں بیوی کی بد قسمتی کی علامتوں میں سے ایک کو اس کے حق مہر کا زیادہ ہونا قرار دیتے ہیں۔ [11] اور اسے خاندان میں کینہ توزی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[12] پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: عورتوں کے تین گروہ کیلئے عذاب قبر نہیں ہو گا اور قیامت کے دن حضرت زہراؑ کے ساتھ محشور ہونگے: وہ عورت جو اپنے شوہر کے فقر اور تنگ دستی کے ساتھ سازگاری اختیار کرتی ہے، وہ عورت جو شوہر کی بد اخلاقی پر صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اور وہ عورت جو اپنا حق مہر شوہر کیلئے بخش دے۔ [13]
مہر السنّۃ
امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث میں مَہرُ السُّنہ کی مقدار 500 درہم بیان کی گئی ہے۔[14] تاریخی منابع میں حضرت زہراؑ کا مہر ۴۰۰ سے ۵۰۰ درہم ذکر کیا گیا ہے۔[15] ۵۰۰ درہم تقریبا۱۲۵۰ [16] سے ۱۵۰۰گرام[17] چاندی کے برابر ہے۔ اس زمانے میں چاندی کا ایک درہم سونے کے ایک دینار کے برابر تھا یوں "مہر السنہ" تقریبا 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہو جاتا ہے۔ [18][19]
مہر کی اقسام
اسلام میں مہر کی تین قسمیں ہیں:
مَہرُ المُسَمّی (تعیین شدہ مہر)
مَہر المسمی سے مراد وہ مہر ہے جس کی مقدرا پر شادی سے پہلے موافقت کی جاتی ہے اور اسے عقد میں ذکر کیا جاتا ہے یا عقد کے بعد اس پر موافقت کی جاتی ہے۔ مہر کا میاں بیوی دونوں کیلئے مشخص اور معین ہونا ضروری ہے لہذا مبہم اور غیر مشخص مہر صحیح نہیں ہے۔[20]
شرائط مہر المسمی:
- مالیت اور بعد اقتصادی رکھتا۔
- قابل تملیک اور قابل نقل و انتقال ہو۔
- مشخص اور معلوم ہو۔
- معین اور تصریح شدہ ہو۔
- منفعت عقلایی اور مشروع رکھتا ہو۔
- شوہر مہر ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔
مہر المثل
اگر دائمی نکاح میں عقد کے وقت مہر پر کوئی موافقت نہیں ہوئی ہو یا یہ کہ جس پر موفقت کی گئی ہے وہ مہر باطل ہو لیکن بیوی سے ہمبستری ہو گئی ہو اس صورت میں بیوی کی شان مثلا تعلیم، عمر، پیشہ اور دوسری خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے عرف اور اس علاقے میں رائج اور مرسوم مہر معین کیا جاتا ہے۔ مہر کی اس قسم کو مہر المثل کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ مہر جو اس جیسی دوسری عورتوں کے برابر ہو۔
مہر المُتعَہ
اگر عقد پڑھتے وقت مہر ذکر نہ کیا گیا ہو اور شوہر بیوی سے ہمبستری اور مہر تعیین کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اس وقت بیوی مہر المتعہ کا مستحق ہو جاتا ہے۔[21]
موارد تنصیف مہر
- مہر معین ہونے کے بعد اگر ہمبستری سے پہلے بیوی کو طلاق دے دے تو بیوی معین شدہ مہر کے نصف کی حقدار ہے[22]
- اگر مہر معین نہ ہوا ہو اور عَنَن (مرد میں ہمبستری کرنے قدرت نہ ہونا) کی وجہ سے عقد فسخ ہو جائے تو بیوی مہر المثل کے نصف کی مستحق ہے۔
کثرت مہر سے پیدا ہونے والی سماجی مشکلات
(مہر کس نے دیا ہے اور کس نے لیا ہے) والی غلط رسم و رواج پر عقیدہ رکھتے ہوئے زیادہ مہر رکھنے کے برے نتائج میں سے ایک ایسے زندانیوں کی فراوانی ہے جو بیوی کا حق مہر ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے کئی کئی سال قیدخانوں کے سلاخوں کے پیچھے اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔[23] اس کی وجہ سے مردوں میں شادی کرنے کی رجحان میں کمی اور شادی کی عمر میں اضافہ ہو رہے ہیں۔ والدین اور معاشرے کے ذمہ دار افراد کو اس حوالے سے مؤثر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ مکارم شیرازی کی تنقید
آیت اللہ مکارم شیرازی مہر معین کرتے وقت مرد کی طرف سے مہر ادا نہ کرنے کا ارادہ رکھنے یا مہر دینے کے حوالے سے اپنی مالی حیثیت نہ ہونا ثابت کرنا اور بیوی یک طرف سے مہر کی پہلی قسط دریافت کرنے کے بعد تمکین نہ دینے کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہوئے مہر کے حوالے سے موجود بعض قوانین کو اسلام پر اعتراض اور توہین کا سبب قرار دیتے ہیں۔ [24] آپ بے تہاشا مہر رکھنے کو باطل قرار دیتے ہوئے ایسے مواقع پر صرف مَہرالمثل کو مرد کی گردن پر واجب الادا قرار دیتے ہیں۔[25]
پہلے زمانے میں بھی بعض فقہاء مہر السنہ سے زیادہ مہر رکھنے کو صحیح نہیں سمجھتے ہوئے فرماتے تھے: اگر مہر "مہر السنہ" سے زیادہ معین کرے تو خودبخود "مہر السنہ" کی طرف لوٹ آتی ہے اور اس سے زیادہ دینا شوہر پر واجب نہیں ہے۔[26]
حوالہ جات
- ↑ سایٹ دختیران
- ↑ مجلہ حوزہ
- ↑ فرہنگ موضوعی قرآن مجید. تالیف کامران فانی و بہاءالدین خرمشاہی، مہریہ
- ↑ سورہ نساء کی آیت نمبر 4 میں
- ↑ دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، ص۴۷
- ↑ و ان طلقتموھن من قبل ان تمسوهن و قد فرضتم لهن فریضة فنصف ما فرضتم
- ↑ نساء ۲۰ و ۲۱
- ↑ نساء، ۴
- ↑ . مسالک الافہام، ج ۳، ص۱۸۴.
- ↑ وسائل، ج ۱۴، ص۶۰۴
- ↑ میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲:أما شُوم المزأة فَکثرة مَہرِہا و عُقوقُ زَوجِہا
- ↑ عن النبی(ص): حق مہر میں سخت گیری نہ کی جائے کیونکہ مرد عورت کے اضافی اخراجات تو کسی طور پر بھی دے دیتا ہے لیکن اس کے دل میں بیوی سے متعلق کینہ اور دشمنی ایجاد ہو جاتی ہے۔ میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲
- ↑ مواعظ العدیدہ، ص۷۵.
- ↑ بحار الانوار ج۹۳ ص۱۷۰ روایت ۱۰
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب، موسسہ انتشارات علامہ، بیتا، ج۳، ص۳۵۰، ۳۵۱، و متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، موسسہ الرسالہ، ج۱۳، ص۶۸۰.
- ↑ سایت آیت اللہ بہجت
- ↑ درہم کی وزن کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔
- ↑ سایت آیت اللہ سیستانی
- ↑ جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۱۷۴- ۱۷۹. توضیح المسائل مراجع، ج ۲، ص۱۲۹، چاپ ہشتم، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۲۴، ہ ق
- ↑ مادہ ۱۰۷۹ قانون مدنی
- ↑ مادہ ۱۰۹۳ قانون مدنی
- ↑ ۱۰۹۲ قانون مدنی
- ↑ سایت الف
- ↑ سایت خبرآنلاین
- ↑ پورتال انہار
- ↑ جواہر الکلام، ج ۳۱، ص۱۵- ۱۸. ج ۳۱، ص۴۷.
مآخذ
- فرہنگ موضوعی قرآن مجید: الفہرس الموضوعی للقرآن الکریم. کامران فانی؛ بہاءالدین خرمشاہی، انتشارات ہدی، ۱۳۶۹ش.
- دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، انتشارات جاویدان.
- مسالک الافہام، زین الدین بن علی العاملی الشہید الثانی، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، قم، ۱۴۱۴ق.
- شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق.
- محمدی ری شہری، میزان الحکمہ، انتشارات دارالحدیث.
- مشکینی، علی، مواعظ العددیہ، نشر الہادی.
- ابن شہر آشوب، مناقب، موسسہ انتشارات علامہ، بیتا.
- متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، موسسہ الرسالہ.
- علامہ مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، دارالکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۲ش.
- نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
- توضیح المسائل مراجع، انتشارات جامعہ مدرسین، قم.