مندرجات کا رخ کریں

سید حسن نصر اللہ

ویکی شیعہ سے
(سید حسن نصرالله سے رجوع مکرر)
سید حسن نصر اللہ
کوائف
تاریخ پیدائشسنہ 1960ء
آبائی شہرالبازوریہ
ملکلبنان
تاریخ/مقام شہادت27 ستمبر سنہ 2024ء، بیروت
شریک حیاتفاطمہ یاسین (ام ہادی)
اولادہادی، محمد جواد، محمد علی، محمد مہدی، زینب
مذہبشیعہ اثنا عشری
سیاسی کوائف
مناصبسکریٹری جنرل حزب اللہ (لبنان)
پیشروسید عباس موسوی
علمی و دینی معلومات
اساتذہسید عباس موسوی، سید محمد باقر صدر
دستخط


سید حسن نصر اللہ (1960-2024ء)، لبنان کے شیعہ عالم دین، سیاستدان اور حزب اللہ لبنان کے تیسرے سکریٹری جنرل اور اس کے بانیوں میں سے تھے۔ حزب اللہ لبنان سید حسن نصر اللہ کے دور میں ایک علاقائی طاقتور تنظیم کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر آئی۔ سنہ 2000ء میں مختلف آپریشنز کے ذریعے جنوبی لبنان کو اسرائیل سے آزاد کرانے اور 2006ء کی اسرائیل کے ساتھ 33روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی کامیابی کی وجہ سے انہیں "سید مقاومت"(مزاحمتی بلاک کے سردار) کا لقب دیا گیا۔ اسی طرح اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور متعدد فتوحات کی وجہ سے سید حسن نصر اللہ عرب اور اسلامی دنیا میں مقبول ترین شخصیت، نیزعرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں سب سے طاقتور رہنما کے طور مشہور ہوئے۔

سید حسن نصر اللہ نے حوزہ علمیہ نجف اور قم سے دینی تعلیم حاصل کی۔ نجف میں شہید سید محمد باقر صدر اور سید عباس موسوی سے ان کا رابطہ قائم ہوا۔ ان کے مابین قائم شدہ تعلقات نے انہیں اسرائیلی قبضے کے خلاف جنگ کے میدان میں داخل کیا۔

سید حسن نصر اللہ نے سنہ 1975ء سے 1982ء تک تحریک امل میں عام رکن کی حیثیت سے کام کیا؛ لیکن سنہ 1982ء میں کچھ دیگر مجاہد علما کے ساتھ تحریک امل سے جدا ہوگئے اور حزب اللہ لبنان کی بنیاد رکھی۔ سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد 16 فروری سنہ 1992ء کو سید حسن نصر اللہ کثرت رائے سے حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

سید حسن نصر اللہ 27 ستمبر سنہ 2024ء بروز جمعہ جنوبی لبنان کے ضاحیہ نامی شہر پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے راکٹ حملے میں شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد دنیا کی مختلف شخصیات نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے تاثرات بیان کیے۔ عالم تشیع کے رہبر سید علی حسینی خامنہ ای، شیعہ مراجع تقلید میں سے سید علی حسینی سیستانی، ناصر مکارم شیرازی، حسین نوری ہمدانی، مختلف ممالک کے حکام نیز مزاحمتی بلاک کی مختلف تحریکوں جیسے حماس، فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک، یمن کی انصاراللہ تحریک، تحریک الفتح، عصائب اہل الحق، لبنان کی امل تحریک، عراق کی قومی حکمت تحریک اور عراق میں مقتدیٰ صدر کی تحریک نے بھی سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر تعزیتی بیان جاری کیا اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔ ان کی شہادت پر ایران میں پانچ روزہ اور لبنان، شام، عراق اور یمن میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔

نصر اللہ پر سنہ 2004ء، 2006ء اور سنہ 2011ء میں کئی بار اسرائیلی فوج کی جانب سے قاتلانہ حملے کیے گئے لیکن ہر بار ان کی جان بچ گئی۔

ان کا بیٹا سید ہادی سنہ 1997ء میں اسرائیلی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں پہلے ہی شہید ہوگئے تھے۔

سید مقاومت کا اسرائیلی قبضے کے خلاف جہاد

سید حسن نصر اللہ لبنان کی مشہور شخصیات میں سے تھے[1] انہیں سنہ 2000ء میں 22 سال کے بعد اسرائیلی قبضے سے جنوبی لبنان کی آزادی اور 33 روزہ جنگ کی فتح میں حزب اللہ کے کردار کی وجہ سے "سید مقاومت" کا لقب دیا گیا۔[2]

سید حسن نصر اللہ اسرائیل کے خلاف اپنی مزاحمت اور بار بار کی فتوحات کی وجہ سے عرب اور اسلامی دنیا میں سب سے زیادہ مقبول شخصیت،[3] عرب دنیا میں سب سے زیادہ مقبول رہنما[4] نیزعرب اور مشرق وسطیٰ میں سب سے جرات مند اور طاقتور رہنما کے طور پر معروف ہوئے۔[5] سید حسن نصر اللہ کے مبارزاتی اور پر شور خطابات اور عظمت کی حامل شخصیت ان کی محبوبیت کے عوامل سمجھے جاتے ہیں۔[6] یورونیوز کے مطابق، لبنانی، عرب اور اسلامی دنیا کے لاکھوں لوگ سید حسن نصر اللہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔[7] یورونیوز نے نصراللہ کو ایران کے سب سے قریبی اتحادی اور اسرائیل کے کٹر دشمن کے عنوان سے بھی یاد کیا ہے۔[8]

سید حسن نصر اللہ کی تقریر؛ لبیک یا حسین یعنی ...

حزب‌ الله لبنان کے جنرل سکریٹری

16 فروری سنہ 1992ء کو سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد سید حسن نصر اللہ کو اتفاق رائے سے لبنانی حزب اللہ کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔[9] جس وقت نصر اللہ حزب اللہ کا سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا تو ان کی عمر 32 سال تھی۔[10]

کہا جاتا ہے کہ سید حسن کی قیادت میں حزب اللہ ایک علاقائی طاقت میں بدل گئی[11] اور انہوں نے صیہونی حکومت کے خلاف متعدد فتوحات حاصل کیں، جن میں سب سے اہم سنہ 2000ء میں جنوبی لبنان کی آزادی، سنہ 2006ء میں 33 روزہ جنگ اور سنہ 2017ء میں دہشت گرد گروہوں کی شکست ہے۔[12] حسن نصر اللہ حزب اللہ کو امریکہ کے لیے آنکھ کا کانٹا اور اسرائیلی قبضے کے منصوبوں کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ سمجھتے تھے۔[13] لبنانی قیدیوں کی رہائی اور سنہ 2004ء میں اسرائیل سے مزاحمتی مجاہدین کی لاشوں کی بازیابی میں سید حسن نصر اللہ کے کردار کو بھی بنیادی اور کلیدی قرار دیا گیا ہے۔[14] حزب اللہ نے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کے دور میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور اس کے کچھ ارکان لبنانی مجلس نمائندگان میں رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔[15] سید حسن اسرائیلیوں کے قاتلانہ حملوں میں سر فہرست تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 2006ء[16] سے اسرائیلی افواج کے قتل کی دھمکیوں کی وجہ سے خفیہ طور پر زندگی کرتے تھے۔[17] ان کے خطابات ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عوام تک پہنچائے جاتے تھے۔[18] سید حسن نصر اللہ پر سنہ 2004ء، 2006ء اور 2011ء میں اسرائیل نے قاتلانہ حملہ کیا لیکن ہر بار وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔[19]

سید حسن نصرالله کا سنہ ۱۴۳۴ھ میں عاشورا کے دن عوام سے خطاب

ہم اپنی جان، اپنی اولاد اور اپنے مال کو امام حسینؑ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئےکہتے ہیں: لبیک یا حسینؑ۔ ہم اس عہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔ ہم تمام طاغوتیوں، ظالموں، مفسدین، موقع پرستوں اور ان لوگوں کو جو ہمارے ارادے، عزم اور مزاحمت کو توڑنے پر تلے ہوئے ہیں، کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ہم امام حسیںؑ کی اولاد ہیں، ان مردوں اور ان عورتوں اور ان جوانوں کی طرح میدان میں حاضر رہیں گے جنہوں نے جنہوں نے عاشورہ کے دن امام حسینؑ کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ جملہ کہا: «... هَیْهات مِنّا الذِّلّة»۔[20]

مزاحمتی گروہوں سے رابطہ

سید حسن نصر اللہ نے لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر مزاحمتی بلاک کی تحریکوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ سید حسن نصر اللہ ایرانی رہنماؤں اور حماس جیسے فلسطینی مجاہد گروہوں کے ہم خیال اور ان کے اتحادی تھے۔[21] طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران، سید حسن نصر اللہ نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت کے لیے جنوبی لبنان میں ایک مقاومتی محاذ بنایا اور اعلان کیا کہ یہ محاذ غزہ میں جنگ کے خاتمے تک جاری رہے گا۔[22] جس وقت سید حسن نصر اللہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے فائز تھے اس دوران حزب اللہ کے لبنان میں تحریک امل کے ساتھ بھی اچھے اور دوستانہ تعلقات تھے۔[23] نیز حزب اللہ کے شام، یمن اور عراق سے بھی رابطے تھے اور انہیں مدد فراہم کرتے تھے۔[24]

ایران کے ساتھ تعلقات

سید حسن نصر اللہ کے ایران اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے۔[25] انہوں نے کئی بار ایران کا سفر کیا اور ایرانی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی۔ انہوں نے سنہ 1981ء[26] یا سنہ 1982ء[27] میں پہلی بار جماران میں امام خمینی سے پہلی ملاقاتکی۔ سنہ 1986ء میں وہ حزب اللہ کے اراکین کے ساتھ امام خمینی سے ملنے گئے۔ امام خمینی سے ان کی آخری ملاقات امام خمینی کی وفات سے چند ماہ قبل، امل تحریک اور حزب اللہ کے درمیان کشمکش کے دوران ہوئی تھی۔[28]

دائیں جانب سے:سید حسن نصراللہ، حسن اختری، سید علی خامنہ ای، سید ابراہیم امین السید، سید عباس موسوی (۱۳۷۰شمسی)

سید حسن نصر اللہ کے لکھے ہوئے اپنے زندگی نامہ کے مطابق، آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کا آغاز سنہ 1986ء میں ہوا۔[29] انہوں نے کئی بار ایرانی عسکری اور سول حکام سے ملاقاتیں کیں، جن میں قدس فورس کے اس وقت کے کمانڈر قاسم سلیمانی، اس وقت کے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللٰہیان شامل ہیں۔[30]

سید حسن نصراللہ ایران کو حزب اللہ کا دوست اور حامی سمجھتے تھے اور اس کے مقابلے میں ایران کا دفاع کرتے تھے۔[31] جس وقت اسرائیل نے اپریل 2024ء کو دمشق میں ایرانی سفارتخانہ پر حملہ کیا اسرائیل کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے ایران کی حمایت کی۔[32] سید حسن نصر اللہ ایران کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات پر فخر کیا کرتے تھے۔[33]

نومبر 2009ء میں سید حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کی نئی سیاسی دستاویز کا اعلان کیا جس میں ایران میں ولایت فقیہ سے حزب اللہ کی وابستگی کو اس تنظیم کی پالیسیوں میں سے ایک کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔[34] الجزیرۃ نیوز نیٹ ورک[35] اور یورونیوز[36] کے مطابق حزب اللہ کے بعض ماہرین اور مخالفین سید حسن نصراللہ اور ان کی تنظیم کو لبنان میں ایران کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔

سید حسن نصرالله

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس دور کے یزید کا مقابلہ ہمیں کربلائی، حسینی اور زینبی بن کر کرنا ہے، وہ یزیدی عنصرامریکی اور صہیونی منصوبہ بندی ہے۔ ان کا یہ منصوبہ جس سے ہماری ملت، تہذیب، آسمانی مذاہب، اقوام اور مقدس مقامات کو خطرہ لاحق ہے۔ اور ہم اس یزید کے خلاف حسینی اور زینبی بن کر مقابلہ کریں گے۔ یہ جنگ ہمارے لیے ہر حوالے سے پہلی ترجیح کی حیثیت رکھتی ہے۔[37]

سوانح حیات اور تعلیم

سید حسن نصر اللہ 31 اگست سنہ 1960ء[38] یا سنہ 1962ء[39] کو مشرقی بیروت کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔[40] ان کے والد سید عبد الکریم اور والدہ نہدیہ صفی الدین[41] جنوبی لبنان کے شہر صور کے نواحی گاؤں الباروزیہ کے رہائشی تھے جوبیروت ہجرت کرگئے تھے۔[42] بعض تاریخی مآخذ کے مطابق سید حسن نصر اللہ کی پیدائش بازوریہ قصبہ میں ہوئی۔[43] ان کے 3 بھائی اور 5 بہنیں تھیں۔[44] سید نصر اللہ عالم نوجوانی میں اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ اپنے والد کی پھلوں کی دکان پر کام کرتے تھے۔[45]

اینفوگرافک زندگی سید حسن نصرالله

نصر اللہ نے ابتدائی تعلیم التربویہ علاقے کے النجاح پرائیوٹ سکول میں حاصل کی اور اپریل 1975ء میں لبنان میں خانہ جنگیوں کے آغاز کے ساتھ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے والد کے آبائی گاؤں بازوریہ منتقل ہوگئے اور شہر صور کے ہائی اسکول میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔[46] سید حسن نصر اللہ کے اپنے کہنے کے مطابق بچپنے سے ہی مدرسیہ دینیہ اور علما سے خاص شغف تھا؛ لیکن ان کے والدین اس کے مخالف تھے۔[47] سید حسن نصر اللہ سنہ 1976ء میں شہر صور کے امام جمعہ سید محمد غروی اور ان کے دوست سید محمد باقر صدر کی تشویق سے دینی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے نجف ہجرت کی۔ سید محمد نے ایک خط میں سید حسن کو شہید صدر سے ملوایا۔ شہید صدر نے سید عباس موسوی پر سید حسن نصر اللہ کی تعلیمی صورتحال پر نظر رکھنے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی ڈال دی۔[48] سنہ 1978ء میں نجف اشرف میں حوزہ علمیہ کے مقدماتی دروس مکمل کرنے کے بعد عراقی بعث پارٹی کے دباؤ[49] کی وجہ سے وہ لبنان لوٹ آئے۔ انہوں نے بعلبک میں ایک دینی مدرسے کی بنیاد رکھی، یہاں اپنی حوزوی تعلیم کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ تدریس بھی شروع کی۔[50] سید حسن نصر اللہ سنہ 1989ء[51] یا سنہ 1990ء[52] میں ایک سال کی مدت تک[53] حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوئے۔ یہاں سید محمود ہاشمی، سید کاظم حائری اور محمد فاضل لنکرانی جیسے اساتید کے دروس میں شرکت کی۔[54] سید حسن نصراللہ کی لبنان واپسی کی وجہ لبنانی حزب اللہ سے ان کے اختلاف کی افواہیں اور امل تحریک کے ساتھ حزب اللہ کے اختلافات میں اضافہ اور قیادت کونسل کا اصرار بتایا جاتا ہے۔[55]

سید حسن نصراللہ نے اپنی تعلیم کے علاوہ مختلف عسکری تربیت اور گوریلا کورسز بھی مکمل کیے۔[56]

شریک حیات اور اولاد

سید حسن نصراللہ سنہ 1978ء میں 18 سال کی عمر میں فاطمہ یاسین کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے جس کے نتیجے میں تین بیٹے محمد ہادی، محمد جواد اور محمد علی اور ایک بیٹی زینب پیدا ہوئی۔[58] ان کے بڑے بیٹے سید محمد ہادی 12 ستمبر سنہ 1997ء کو جنوبی لبنان میں اسرائیلی گشتی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں شہید ہوگئے۔ ان کے جسد خاکی صہیونیوں کے ہتھے چڑھ گئی اور ایک سال بعد اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے میں لبنان لایا گیا۔[59]

شهادت

ایرانی سپریم لیڈر آیت الله خامنہ ای تعزیتی پیغام

عظیم مجاہد، خطے میں مزاحمت کے علم بردار، بافضیلت عالم دین اور مدبّر سیاسی رہنما جناب سید حسن نصر اللہ رضوان اللہ علیہ لبنان کے کل رات کے واقعات میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے اور ملکوت اعلیٰ کی جانب پرواز کر گئے۔ مزاحمت کے سید عزیز نے اللہ کی راہ میں دسیوں سال جہاد اور اس کی دشواریوں کا صلہ ایک مقدس جنگ میں حاصل کیا۔ وہ ایسے عالم میں شہید ہوئے کہ بیروت کے ضاحیہ علاقے کے نہتے لوگوں کے دفاع اور ان کے تباہ ہو چکے گھروں اور جاں بحق ہو چکے ان کے عزیزوں کے لیے منصوبہ بندی کرنے میں مصروف تھے، اسی طرح انھوں نے دسیوں سال سے فلسطین کے ستم دیدہ لوگوں کے دفاع، ان کے غصب شدہ شہروں، دیہاتوں اور تباہ ہو چکے گھروں اور ان کے قتل ہو چکے عزیزوں کے لیے منصوبے بنائے تھے، پلاننگ کی تھی اور جہاد کیا تھا۔ اتنی زیادہ مجاہدت کے بعد شہادت کا فیض ان کا مسلمہ حق تھا۔ عالم اسلام نے ایک عظیم شخصیت کو، مزاحمتی محاذ نے ایک نمایاں علم بردار کو اور حزب اللہ نے ایک بے نظیر قائد کو کھو دیا ہے لیکن ان کے دسیوں سالہ جہاد اور تدبیر کی برکتیں کبھی بھی ختم نہیں ہوں گی۔ انھوں نے لبنان میں جو بنیاد رکھی اور مزاحمت کے دیگر مراکز کو جو سمت عطا کی وہ نہ صرف یہ کہ ان کے جانے سے ختم نہیں ہوگي بلکہ ان کے اور اس واقعے کے دیگر شہیدوں کے خون کی برکت سے اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ صیہونی حکومت کے کمزور ہو چکے اور زوال پذیر ڈھانچے پر مزاحمتی محاذ کی حملے اللہ کی مدد و نصرت سے شدیدتر ہوں گے۔ پست صیہونی حکومت کو واقعے میں فتح حاصل نہیں ہوئي ہے۔ سیدِ مزاحمت، ایک شخص نہیں تھے، وہ ایک راہ اور ایک مکتب تھے اور یہ راستہ بدستور جاری رہے گا۔ شہید سید عباس موسوی کا خون رائیگاں نہیں گیا، شہید سید حسن کا خون بھی رائيگاں نہیں جائے گا۔ میں سید عزیز کے والد گرامی اور ان کی اہلیہ محترمہ کی خدمت میں، جو اس سے پہلے اپنے ایک بیٹے سید ہادی کو بھی خدا کی راہ میں پیش کر چکی ہیں، ان کے محترم بچوں، اس واقعے میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ، حزب اللہ کے تمام افراد، لبنان کے عزیز عوام اور اعلیٰ حکام اور پورے مزاحمتی محاذ اور پوری امت مسلمہ کی خدمت میں عظیم نصر اللہ اور ان کے شہید ساتھیوں کی شہادت پر مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں اور ایران اسلامی میں پانچ دن کے عام سوگ کا اعلان کرتا ہوں۔ خداوند عالم انھیں اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے۔ والسلام علی عباد اللہ الصالحین
سید علی خامنہ ای
28 ستمبر 2024 [60]

سید حسن نصر اللہ صیہونی حکومت کے 27 ستمبر 2024ء بروز جمعہ جنوبی بیروت کے شیعہ آبادی والے علاقہ ضاحیہ پر تباہ کن اور شدید بمباری میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔[61]

الجزیرہ نیٹ ورک نے اسرائیلی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ اسرائیل نے اس بمباری میں تقریباً ایک یا دو ٹن کے 85 مورچہ شکن بم استعمال کیے؛ جب کہ جنیوا کنونشن میں ایسے بموں کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔[62] میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں کے مطابق سید حسن نصر اللہ کا جسم صحیح و سالم تھا؛ ان کی موت کی وجہ دھماکے کا جھٹکا یا شوک[63] یا بم دھماکے سے زہریلی گیس[64] بتایا گیا ہے۔

رد عمل

سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد مختلف قسم کا رد عمل سامنے آیا۔ حرم امام رضاؑ[65] اور حرم امام علیؑ نجف[66] میں عمومی طور پر ان کی شہادت کی خبر دی گئی۔ رہبر معظم سید علی حسینی خامنہ ای،[67] شیعہ مراجع تقلید، جیسے سید علی حسینی سیستانی،[68] ناصر مکارم شیرازی،[69] حسین نوری ہمدانی، [70] جعفر سبحانی،[71] سید موسی شبیری زنجانی،[72] عبد اللہ جوادی آملی،[73] بشیرحسین نجفی[74] حسین وحید خراسانی[75] نیز جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم[76] اور مجمع جہانی اہل‌ بیتؑ[77] نے تسلیت کے پیغامات جاری کیے۔

مختلف ممالک کے اعلیٰ حکام نے سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر تعزیتی پیغام بھیجا ہے جن میں ایران، روس، عراق، یمن[78] نیز مزاحمتی بلاک کی مختلف تحریکیں جیسے حماس فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک، یمن کی انصاراللہ تحریک، تحریک الفتح، عصائب اہل الحق، لبنان کی امل تحریک، عراق کی قومی حکمت تحریک اور عراق میں مقتدیٰ صدر کی تحریک نے بھی سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر تعزیتی بیان جاری کیا اور اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔[79] ایران میں پانچ روزہ[80] اور لبنان،[81] شام،[82] عراق[83] اور یمن[84] میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔ ایران کے حوزات علمیہ میں بروز اتوار عام تعطیل کا اعلان کیا گیا اور دینی طلاب و علما نے اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف مختلف مقامات پراحتجاج کیا۔[85] سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے سوگ میں ایران میں 29 ستمبر 2024ء کو تمام سینما گھر اور تھیٹر بند رکھنے کا اعلان کیا گیا۔[86] ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس دہشت گردانہ حملے کا حکم امریکہ نے جاری کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ کہ امریکہ خود کو صیہونی حکومت کی ملی بھگت سے بری نہیں کرسکتا۔[87]

مقبوضہ مغربی کنارے اور قدس کے جوانوں نے لبنان پر اسرائیل کے حملوں کے خلاف اور سید حسن نصر اللہ سے وفاداری کے اعلان کے لیے احتجاجی مارچ میں شرکت کی کال دی۔[88]

سیاسی سرگرمیاں: تحریک امل سے حزب اللہ تک

سید حسن نصر للہ نے نوجوانی کی عمر میں ہی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ان کی بعض سیاسی فعالیتیں یہ ہیں:

  • سید حسن نصر اللہ، امام موسی صدر سے خاص تعلقات کی وجہ سے سنہ 1975ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد امل تحریک کے رکن بنے اور اپنے بھائی سید حسین کے ہمراہ قصبہ الباروزیہ میں تنظیم امل کے سربراہ بنے۔[89]
  • سنہ 1982ء میں انہیں تحریک امل کے سیاسی ونگ کا نمایندہ بنا دیا گیا۔[90]
  • سنہ 1982ء میں، صیہونی حکومت کی افواج کے لبنان پر قبضے اور امل تحریک کے بعض رہنماؤں کی طرف سے اسرائیل اور لبنان کے درمیان امن منصوبے کے بعد، سید حسن نصر اللہ، سید عباس موسوی اور صبحی طفیلی جیسے مجاہد علماء کے ایک گروہ کے ساتھ الگ ہو گئے اور حزب اللہ کی ابتدائی بنیاد رکھی۔[91]
  • سنہ 1985ء میں بقاع نامی علاقے میں حزب اللہ کے نمایندے کے طور پر کام کیا۔[92]
سید حسن نصرالله
  • سنہ 1987ء میں وہ حزب اللہ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ اور پارٹی کی فیصلہ ساز کونسل کے رکن بنے۔[93]
  • سنہ 1989ء سے 1990ء تک قم میں سکونت کے دوران تہران میں حزب اللہ کے نمایندے کے طور پر کام کیا اور ساتھ ہی مجموعی طور پر ایران میں حزب اللہ کے امور کا جائزہ لینے کی ذمہ داری سنبھالی۔[94]
  • سنہ 1992ء میں سید عباس موسوی کی شہادت کے بعد حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکریٹری بنے۔[95]
  • انہوں نے سنہ 1982 سے 1992ء تک اپنی پوری توجہ حزب اللہ پر مرکوز کردیں۔ وہ اس کی مرکزی کمیٹی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ مقاومت کے لئے افراد کی تربیت اور اس کی عسکری یونٹ کی تشکیل کے سربراہ بھی رہے۔ کچھ عرصہ تک وہ ابراہیم امین السید (بیروت میں حزب اللہ کے عہدہ دار) کے معاون بھی رہے اور کچھ مدت تک حزب اللہ کے اجرائی معاون بھی رہے۔[96]

سید حسن نصر اللہ نے سنہ 1981ء میں امام خمینی سے وجوہات شرعیہ حاصل کرنے اور حسبیہ اور شرعی امور کو سنبھالنے کی اجازت حاصل کی۔[97] نیز وہ بیروت اور جبل عامل میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے نمائندے اور وکیل تھے۔[98]

ان سے مربوط آثار

سید حسن نصر اللہ کی شخصیت کے بارے میں بہت سے افراد نے ان کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں؛ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

مکتوب آثار

  • "سید عزیز" نامی کتاب (جو فارسی زبان میں حجۃ الاسلام والمسلمین سید حسن نصر اللہ کی خود بیان کی ہوئی سوانح عمری ہے) جس کے مولف حمید داود آبادی ہیں اور جو آیت اللہ خامنہ ای کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔
  • سید حسن نصرالله: انقلابی جنوبی قلمی اثر: رفعت سید احمد؛ ترجمہ اسماء خواجہ زاده، نشر معارف نے سنہ 2016ء میں قم سے شائع کیا۔
  • زبور مقاومت؛ سید حسن نصرالله کا زندگی نامہ، ان کے موقف اور نظریات پر مشتمل کتاب جسے محمد حسین بزی نے تحریر کی ہے اور مصطفی اللہیاری نے ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب کو پہلی بار سازمان تبلیغات اسلامی پبلشرز نے 2008ء میں شائع کیا ہے۔
  • آزاد ترین مرد جہان" نامی کتاب جو فارسی زبان میں ہے اور جس کے مولف راشد جعفر پور ہیں۔
  • "نصر اللہ" نامی کتاب، سید حسن نصر اللہ کے ساتھ محمد رضا زائری کی گفتگو پر مشتمل ہے۔
  • کتاب "رہبری انقلابی سید حسن نصر اللہ"،یہ کتاب آزیتا بیدقی قرہ باغ کی تالیف ہے۔[99]

ترانے اور ڈاکیومینٹری

  • "سید حسن نصر اللہ کی زندگی پر ایک نگاہ" کے عنوان سےایک ڈاکیومینٹری ایران کے نیوز چینل پر نشر ہوئی ۔
  • "منادیان آزادی" نامی ڈاکیومینٹری کا وہ حصہ جو سید حسن نصر اللہ سے متعلق تھا ؛ یہ بھی نیوز چینل سے نشر ہوا۔
  • "نصر اللہ در چشم دشمنان" نامی ڈاکومینٹری کو المیادین نامی ٹی وی چینل نے ان کی تقریروں، تصویروں، اسرائیلی ماہرین کے تجزیے اور تحلیلوں کی بنیاد پر بنایا ہے جس کا دورانیہ 50 منٹ ہے۔
  • "حکایۃ حسن" نامی ڈاکومینٹری کو ٹی وی چینل العربیۃ نے نشر کیا۔اس ڈاکیومینٹری کے نشرکی وجہ سے ٹی وی چینل ڈائریکٹر کو اپنے عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔[100]

ترانے اور ویڈیو کلپ

  • ترانہ"نصر اللہ" علی نفری کی آواز میں[101]
  • ترانہ "یا نصر اللہ" عربی زبان میں ، آواز علی عطار[102]
  • ترانہ"ما باز می گردیم" فارسی زبان میں، آواز علی رضا[103]
  • ترانہ أحبائی، آواز لبنانی عیسائی گلوکار جولیا بطرس (2006 ء)[104]
  • ترانہ یا نصرالله، آواز لبنانی سنگر علاء زلزالی (2007 ء)[105]
  • ترانہ" امانتدار بانوی دمشق"، دو زبانوں والا پہلا ترانہ ادارہ تکریم سرداران شہید جہان اسلام نے پیش کیا۔ سنگر مجتبی مینوتن و حامد محضر نیا اور اشعار میثم حاتم و محسن رضوانی۔[106]


حوالہ جات

  1. نوری، شیعیان لبنان، ۱۳۸۹شمسی، ص۱۷۲۔
  2. «حسن نصر الله.. خریج الحوزات الذی یقود حزب الله اللبنانی»، شبکه الجزیرة۔
  3. «روزنامه آلمانی: سید حسن نصرالله محبوب‌ترین شخصیت جهان عرب و اسلام است»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  4. «نصرالله محبوب‌ترین رهبر جهان عرب»، خبرگزاری جام‌جم آنلاین.
  5. «محافل صهیونیست: نصرالله با شهامت‌ترین رهبر جهان عرب است»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  6. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليميۃ»، شبکه الجزیرة.
  7. «حسن نصرالله نزدیک‌ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز.
  8. «حسن نصرالله نزدیک‌ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز.
  9. «الأمین العام لحزب الله السید حسن نصرالله»، وبگاه الخنادق؛«سید حسن نصرالله: سمبل مقاومت»، وبگاه دیپلماسی ایرانی.
  10. «سید حسن نصرالله: سمبل مقاومت»، وبگاه دیپلماسی ایرانی.
  11. «سید حسن نصرالله به شهادت رسید»،‌ خبرگزاری ایسنا.
  12. «الأمین العام لحزب الله السید حسن نصرالله»، وبگاه الخنادق.
  13. «سید حسن نصرالله: من سخنگوی ایران نیستم»، خبرگزاری انتخاب۔
  14. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليمية»، شبکه الجزیرة۔
  15. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ ۳۳ روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر۔
  16. «"معاریف" تکشف فی تقریر حول وحدة حمایة نصرالله تفاصیل محاولات اغتیاله»، وبگاه النشرة۔
  17. ملاحظہ کیجیے:‌ «سید حسن نصرالله: من سخنگوی ایران نیستم»، خبرگزاری انتخاب؛ «حسن نصرالله نزدیک‌ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز.
  18. «نگاہی به سه دهہ سکانداری نصرالله در حزب‌الله/ سید حسن؛ چریک معمم»، خبرگزاری خبرآنلاین۔
  19. ملاحظہ کیجیے:‌ «ترورہای نافرجام سید»،‌ وبگاه ہمشهری آنلاین؛ «"معاریف" تکشف فی تقریر حول وحدة حمایۃ نصرالله تفاصیل محاولات اغتیالہ»، وبگاه النشرة۔
  20. «سخنرانی سید حسن نصرالله، دبیر کل حزب الله لبنان، در روز عاشورا ۱۴۳۴» ؛ سایت مقاومت اسلامی لبنان.
  21. «حسن نصرالله نزدیک‌ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز.
  22. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليمية»، شبکه الجزیرة.
  23. «سید حسن نصرالله: من سخنگوی ایران نیستم»، خبرگزاری انتخاب.
  24. «يديعوت أحرونوت: اغتيال نصر الله زلزال هائل بالمنطقة يصعب معرفة نتائجه»، شبکه الجزیرة۔
  25. ملاحظہ کیجیے:‌ «حسن نصرالله نزدیک‌ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز۔
  26. «سید حسن نصرالله»، وبگاه فرہیختگان تمدن شیعہ۔
  27. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۴۱.
  28. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۴۱و۴۲۔
  29. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۴۴.
  30. «حسن نصرالله نزدیک‌ ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز۔
  31. «سید حسن نصرالله: من سخنگوی ایران نیستم»، خبرگزاری انتخاب۔
  32. «حسن نصرالله نزدیک‌ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز۔
  33. «سید حسن نصرالله: من سخنگوی ایران نیستم»، خبرگزاری انتخاب۔
  34. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليميۃ»، شبکہ الجزیرة۔
  35. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليمية»، شبکه الجزیرة۔
  36. «حسن نصرالله نزدیک‌ترین متحد ایران و دشمن سرسخت اسرائیل که بود؟»، یورونیوز۔
  37. سخنرانی سید حسن نصرالله، دبیر کل حزب الله لبنان، در روز عاشورا 1434 ؛ سایت مقاومت اسلامی لبنان.
  38. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليمية»، شبکہ الجزیرة؛ خامہ یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ ۳۳ روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر۔
  39. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۱۱.
  40. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۱۱۔
  41. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليميۃ»، شبکہ الجزیرة۔
  42. «سید حسن نصرالله»، وبگاه فرهیختگان تمدن شیعه؛ «سید حسن نصرالله رهبر و الگوی جهان عرب»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  43. «حسن نصر الله.. خریج الحوزات الذی یقود حزب الله اللبنانی»، شبکه الجزیرة؛ «سید حسن نصرالله: سمبل مقاومت»،‌ وبگاه دیپلماسی ایرانی.
  44. «حسن نصر الله.. خریج الحوزات الذی یقود حزب الله اللبنانی»، شبکه الجزیرة.
  45. «زندگینامه: سید حسن نصرالله»، وبگاه همشهری آنلاین.
  46. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ 33 روزه»، مؤسسہ فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر.
  47. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۱۴-۱۹.
  48. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ 33 روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر
  49. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ 33 روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر.
  50. «سید حسن نصرالله»، وبگاه فرهیختگان تمدن شیعه؛ «زندگینامہ: سید حسن نصرالله»، وبگاه همشهری آنلاین.
  51. نوری، شیعیان لبنان، ۱۳۸۹شمسی، ص۱۴۴.
  52. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۳۴.
  53. نوری، شیعیان لبنان، ۱۳۸۹شمسی، ص۱۴۴؛ «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليمية»، شبکه الجزیرة۔
  54. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۳۴.
  55. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ 33 روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر.
  56. «زندگینامه سراسر مبارزه و مجاهدت شهید سید حسن نصرالله»، خبرگزاری العالم۔
  57. «Hizbullah versus "Israel": tras la muerte de Nasrallah»، المیادین.
  58. «سید حسن نصرالله»، وبگاه فرهیختگان تمدن شیعه.
  59. «سید ہادی نصرالله که بود؟»،‌ خبرگزاری بین‌المللی قدس۔
  60. «سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر آیت اللہ خامنہ ای کا تعزیتی پیغام »، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله خامنه‌ای.
  61. «حسن نصر الله.. قائد جعل من حزب الله قوة إقليمية»، شبکه الجزیرة.
  62. «A closer look at type of weaponry believed to have been used in Beirut attack»، Al Jazeera Media Network؛ «استفاده از ۸۵ تن بمب برای ترور نصرالله»،‌ خبرگزاری مشرق نیوز.
  63. نگاه کنید به: «کانال 12 اسرائیل: نصرالله بر اثر خفگی در محل بدون تهویه کشته شد»، خبرگزاری العربیه فارسی؛ «جزئیات تازه از ترور دبیرکل حزب‌الله لبنان»، خبرگزاری دنیای اقتصاد.
  64. «ماده‌ای که به موقعیت‌یابی شهید سید نصرالله کمک کرد»، خبرگزاری العالم؛‌ «ادعای تازه اسرائیل درباره جزئیات ترور سید حسن نصرالله»، خبرگزاری تابناک.
  65. «لحظه اعلام خبر شهادت سید حسن نصرالله در حرم مطهر رضوی»، خبرگزاری مهر.
  66. «لحظه اعلام شهادت شهید نصرالله در حرم امام علی(ع)»، خبرگزاری خبرآنلاین.
  67. «پیام تسلیت به مناسبت شهادت جناب سید حسن نصرالله رضوان الله علیه دبیر کل شهید حزب‌الله لبنان»، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله خامنه‌ای.
  68. «واکنش‌های منطقه‌ای و بین‌المللی به شهادت دبیرکل حزب‌الله لبنان»، خبرگزاری مهر.
  69. «آیت‌الله مکارم شیرازی: امت اسلامی مجاهدت‌های شهید سید حسن نصرالله را فراموش نمی‌کند»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  70. «پیام آیت‌الله نوری همدانی در پی شهادت سید حسن نصرالله»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  71. «آیت‌الله سبحانی شهادت سید مقاومت را تسلیت گفت»، خبرگزاری ایسنا۔
  72. «پیام تسلیت آیت‌الله العظمی شبیری زنجانی در پی شهادت سید حسن نصرالله»، خبرگزاری رسمی حوزه.
  73. «آیت الله جوادی آملی شهادت سید حسن نصرالله را تسلیت گفت»، خبرگزاری جمهوری اسلامی۔
  74. «آیت‌الله العظمی بشیر نجفی: آزادگان جهان بدانند که خون این سید مجاهد به هدر نخواهد رفت»، خبرگزاری رسمی حوزه.
  75. «تسلیت آیت‌الله العظمی وحید خراسانی به مناسبت شهادت سید مقاومت»، خبرگزاری رسمی حوزه.
  76. «جامعه مدرسین حوزه علمیه قم درپی شهادت سید حسن نصرالله: جهان جز با نابودی اسرائیل و آمریکا روی صلح و آسایش را نخواهد دید»، خبرگزاری شفقنا.
  77. «بیانیه مجمع جهانی اهل‌بیت(ع) در پی شهادت دبیرکل حزب‌الله لبنان»، خبرگزاری ابنا.
  78. «واکنش‌های منطقه‌ای و بین‌المللی به شهادت دبیرکل حزب‌الله لبنان»، خبرگزاری مهر.
  79. «واکنش مقاومت به شهادت سید حسن نصرالله»، باشگاه خبرنگاران جوان.
  80. «پیام تسلیت به مناسبت شهادت جناب سید حسن نصرالله رضوان الله علیه دبیر کل شهید حزب‌الله لبنان»، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله خامنه‌ای.
  81. «اعلام 3 روز عزای عمومی در لبنان»، خبرگزاری العالم.
  82. «واکنش‌های منطقه‌ای و بین‌المللی به شهادت دبیرکل حزب‌الله لبنان»، خبرگزاری مهر.
  83. «واکنش مقاومت به شهادت سید حسن نصرالله»، باشگاه خبرنگاران جوان.
  84. «واکنش مقاومت به شهادت سید حسن نصرالله»، باشگاه خبرنگاران جوان.
  85. «راهپیمایی و خروش حوزویان و ملت داغدار قم در روز یکشنبه»، خبرگزاری رسمی حوزه.
  86. «سینماها و تئاترها تا اطلاع ثانوی تعطیل شدند»، خبرگزاری ایسنا.
  87. «پیام دکتر پزشکیان در پی شهادت سید حسن نصرالله»، پایگاه اطلاع رسانی ریاست جمهوری اسلامی ایران.
  88. «واکنش‌های منطقه‌ای و بین‌المللی به شهادت دبیرکل حزب‌الله لبنان»، خبرگزاری مهر.
  89. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ 33 روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر؛ «سید حسن نصرالله»، وبگاه فرهیختگان تمدن شیعہ.
  90. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ 33 روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر؛ «سید حسن نصرالله»، وبگاه فرهیختگان تمدن شیعه.
  91. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌ہای داخلی تا جنگ ۳۳ روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر۔
  92. خامه‌یار، «حزب الله و سید حسن از جنگ‌های داخلی تا جنگ ۳۳ روزه»، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امام موسی صدر.
  93. «سید حسن نصرالله رهبر و الگوی جهان عرب»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  94. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۳۴.
  95. «سید حسن نصرالله رهبر و الگوی جهان عرب»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  96. صحیفة الوحده: السید حسن نصر الله سیرة ذاتیة.. قوة شخصیة وعبقریة
  97. خمینی، صحیفه امام، ۱۳۸۹شمسی، ج۱۵، ص۳۳۸.
  98. داودآبادی، سید عزیز، ۱۳۹۱شمسی، ص۳۴.
  99. کتاب‌هایی برای معرفی «سید مقاومت»، وبگاه خبرگزاری تسنیم.
  100. شبکه العالم، نصر الله مدیر شبکہ العربیہ را اخراج کرد
  101. «نصرالله»، پایگاه جامع موسیقی ایران.
  102. «معرفی نغمه‌هایی که به افتخار سید شهید حزب الله تولید شدند»، خبرگزاری مهر.
  103. «معرفی نغمه‌هایی که به افتخار سید شهید حزب الله تولید شدند»، خبرگزاری مهر.
  104. گفتگو با «جولیا پطرس» خواننده مسیحی لبنانی، خبرگزاری فارس.
  105. «سید حسن نصرالله که بود؟»، پایگاه اطلاع‌رسانی و خبری جماران.
  106. «نماهنگ امانندار بانوی دمشق (سید حسن نصرالله)»، وبگاه آپارات.

مآخذ