صبحی طفیلی
| کوائف | |
|---|---|
| تاریخ پیدائش | 1948ء |
| آبائی شہر | پریتال، بعلبک |
| ملک | لبنان |
| پیشہ | عالم دین، سیاستدان |
| سیاسی کوائف | |
| مناصب | حزب اللہ لبنان کے جنرل سیکرٹری |
| جانشین | سید عباس موسوی |
| علمی و دینی معلومات | |
| اساتذہ | سید محمد باقر الصدر |
صبحی طفیلی (پیدائش 1948ء) لبنان ایک شیعہ عالم دین اور حزب اللہ لبنان کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے، جنہوں نے 1989ء سے 1991ء تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ اپنے تین سالہ دور قیادت میں انہوں نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد اور فلسطینی انتفاضہ کی بھرپور حمایت کی۔
حزب اللہ کے مرکزی کونسل کے دوسرے اجلاس (1991ء) میں سید عباس موسوی ان کے جانشین منتخب ہوئے۔ بعد ازاں صبحی طفیلی نے 1998ء میں "ثورۃ الجیاع" (بھوکوں کا انقلاب) کے نام سے ایک تحریک شروع کی، جس کے نتیجے میں شام نواز لبنانی حکومت نے انہیں ان کے گھر میں نظر بند کر دیا۔ وہ حزب اللہ کے ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔
سوانح حیات

صبحی طفیلی 1948ء میں لبنان کے علاقے بقاع کی بعلبک تحصیل کے ایک گاؤں بریتال میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے نجف میں دینی تعلیم حاصل کی اور سید محمد باقر صدر کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔ طفیلی کے مطابق انہوں نے 1979ء میں بقاع کے علاقے میں "مجلس علمائے مسلمین" نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔[1] انہیں 1988ء کو امام خمینیؒ کی طرف سے امور حسبہ میں اجازت نامہ ملا۔[2]
حزب اللہ کی قیادت
صبحی طفیلی حزب اللہ لبنان کے بانی اراکین میں سے تھے۔ سن 1989ء میں وہ اس تنظیم کے پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ اپنے دور قیادت میں انہوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح جد و جہد اور فلسطینی انتفاضہ کی حمایت کو ترجیحی بنیادوں پر جاری رکھا۔[3]
ابتدا میں وہ حزب اللہ اور جمہوری اسلامی ایران کے تعلقات کے حامی اور نظریۂ ولایت فقیہ کے طرفداروں میں سے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ان کے نظریات میں تبدیلی آ گئی۔[4] طفیلی حزب اللہ کی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر منتخب ہونے سے پہلے سن 1985ء سے 1989ء تک بقاع میں حزب اللہ کے مسئول رہ چکے ہیں۔[5]
حزب اللہ سے علیحدگی

سن 1991ء کو حزب اللہ کے دوسرے مشاورتی اجلاس میں جب سید عباس موسوی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، جس کے بعد حزب اللہ کے اندر صبحی طفیلی کا اثر و رسوخ کم ہونے لگا۔[6] بعد میں انہوں نے سن 1998ء میں بقاع میں "بھوکوں کا انقلاب" کے نام سے ایک احتجاجی تحریک شروع کی، جس میں ان کے حامیوں نے بعض سرکاری دفاتر پر حملے کیے۔ اس واقعے میں شدید جھڑپیں ہوئیں اور دو افراد، منجملہ شیخ خضر طلیس اور ایک فوجی افسر ہلاک ہوئے۔[7]
ان واقعات کے بعد لبنانی حکومت اور فوج کے فیصلے کے مطابق طفیلی کو نظر بند کر دیا گیا۔ حزب اللہ نے بھی مذکورہ واقعے میں طفیلی کے اس اقدام پر اعتراض کیا۔ اسی طرح انہوں نے یوم القدس کے موقع پر حزب اللہ کی سالانہ مرکزی تقریب کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی طرف سے ایک الگ پروگرام ترتیب دیا، جس کے نتیجے میں 24 جنوری 1998ء کو ان کی حزب اللہ سے باضابطہ علیحدگی کا اعلان کر دیا گیا۔[8]
حزب اللہ سے اختلافات
صبحی طفیلی اور حزب اللہ کے درمیان مختلف امور میں اختلافات پیدا ہوئے، جو کم و بیش برقرار ہیں:
- لبنانی سیاست میں مداخلت: وہ حزب اللہ کی ملکی سیاست میں شمولیت اور ان کے بقول فاسد نظام کے ساتھ تعاون کے سخت مخالف تھے۔ ان کے مطابق حزب اللہ کو صرف اسرائیل کے خلاف مزاحمت پر توجہ دینی چاہیے۔
- ایران سے تعلقات: وقت کے ساتھ وہ حزب اللہ پر ایران کے اثرورسوخ سے نالاں تھے۔ ان کے خیال میں ایران حزب اللہ کو اپنے علاقائی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔
- بھوکوں کا انقلاب: سن 1998ء میں طفیلی نے بقاع میں غربت اور بدعنوانی کے خلاف ایک عوامی تحریک چلائی، جس کے دوران فوج سے براہ راست جھڑپیں ہوئیں اور ان کے تعلقات حزب اللہ اور حکومت دونوں سے خراب ہوگئے۔
- شام کی جنگ میں حزب اللہ کی شرکت: طفیلی کے مطابق حزب اللہ کا شامی حکومت کی حمایت میں جنگ میں حصہ لینا، اس کے اصلی مزاحمتی مشن کے منافی ہے۔[9]
مذکورہ اختلافات پر حزب اللہ کا موقف
شیخ نعیم قاسم اپنی کتاب «حزب اللہ لبنان؛ حکمت عملی، گذشتہ اور آیندہ» میں تحریر کرتے ہیں کہ حزب اللہ کے ساتھ صبحی طفیلی کے نظریاتی اختلافات وقت کے ساتھ بڑھتے گئے، یہاں تک کہ حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری سے ان کی برکناری اور سید عباس موسوی کے انتخاب کے بعد انہوں نے حزب اللہ میں کوئی عہدہ قبول نہیں کیا، اور اکثر اوقات حزب اللہ کی سماجی، رفاہی اور سیاسی پالیسیوں پر متفاوت نظریات رکھتے تھے، جس کا اظہار وہ میڈیا میں کھلے عام کرتے تھے۔[10]
نعیم قاسم کے مطابق طفیلی کی قیادت میں بقاع میں شروع ہونے والی تحریک تنظیمی اصولوں کے منافی اور علیحدگی پسندانہ اقدامات پر مشتمل تھی، کیونکہ حزب اللہ کے اصول کے مطابق کوئی بھی اقدام شورائے حزب اللہ کی منظوری کے بغیر نہیں ہونا چاہیے تھا، اور طفیلی نے عملی طور پر ان اصول کی مخالفت کی۔[11]
شیعہ سنی اتحاد پر زور
صبحی طفیلی ہمیشہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اتحاد کے حامی رہے ہیں۔ وہ لبنان کے اندر اور عالمی سطح پر مسلم اتحاد کو اسلام کی کامیابی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق اسلام کی کامیابی طاقت اور اقتدار میں نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی وحدت میں مضمر ہے۔ ان کا کہنا ہے: "ہم تبھی طاقتور ہوں گے جب شیعہ اور سنی مسلمانوں کو، عقیدتی اختلافات کے باوجود، ایک ہی سیاسی پرچم تلے جمع کرنے میں کامیاب ہوں۔"[12]
حوالہ جات
- ↑ «گفت وگویی متفاوت با منتقد ایران و حزب اللہ»، سایت فردانیوز۔
- ↑ «اجازہ نامہ بہ آقای صبحی طفیلی، در امور حسبیہ و شرعیہ»، سایت روحاللہ۔
- ↑ «صبحي الطفيلي»، سایت شبکہ الجزیرہ۔
- ↑ احمد، «من ہو صبحي الطفيلي “أبرز مؤسسي حزب اللہ”»، سایت AARC مصر۔
- ↑ «Tufayli, Subhi Ali Al- (1948–)»، سایت انکلوپدیا۔
- ↑ «گفت وگویی متفاوت با منتقد ایران و حزب اللہ»، سایت فردانیوز۔
- ↑ «صبحي الطفيلي»، سایت شبکہ الجزیرہ۔
- ↑ قاسم، حزباللہ لبنان: خطمشی، گذشتہ و آیندۂ آن، 1386شمسی، ص178۔
- ↑ احمد، «من ہو صبحي الطفيلي “أبرز مؤسسي حزب اللہ”»، سایت AARC مصر۔
- ↑ قاسم، حزباللہ لبنان: خطمشی، گذشتہ و آیندہ آن، 1386شمسی، ص177-178۔
- ↑ قاسم، حزباللہ لبنان: خطمشی، گذشتہ و آیندہ آن، 1386شمسی، ص177-178۔
- ↑ «گفت وگویی متفاوت با منتقد ایران و حزب اللہ»، سایت فردانیوز۔
مآخذ
- احمد، ولید «من ہو صبحي الطفيلي “أبرز مؤسسي حزب اللہ”»، سایت AARC مصر، تاریخ درج مطلب: 28 سپتامبر 2024م، تاریخ اخذ: 8 مہر 1403ہجری شمسی۔
- قاسم، نعیم، حزباللہ لبنان: خطمشی، گذشتہ و آیندہ آن، تہران، اطلاعات، 1386ہجری شمسی۔
- «گفت وگویی متفاوت با منتقد ایران و حزب اللہ»، سایت فردانیوز، تاریخ درج مطلب: 6 خرداد 1391شمسی، تاریخ اخذ : 8 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «اجازہ نامہ بہ آقای صبحی طفیلی، در امور حسبیہ و شرعیہ»، سایت روحاللہ، تاریخ درج مطلب: 14 آبان 1367، تاریخ اخذ 8 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «صبحي الطفيلي»، سایت شبکہ الجزیرہ، تاریخ درج مطلب، 3 اکتبر 2004ء، تاریخ اخذ: 8 مہر 1403ہجری شمسی۔
- «Tufayli, Subhi Ali Al- (1948–)»، سایت انکلوپدیا، تاریخ اخذ: 8 مہر 1401ہجری شمسی۔