حزب اللہ لبنان
عمومی معلومات | |
---|---|
تاسیس | 1982ء |
نوعیت | سیاسی و عسکری |
سربراہ | سید حسن نصرالله |
ویب سائٹ | المقاومۃ الاسلامیۃ فی لبنان |
ملک | لبنان |
حزب اللہ لبنان ایک شیعہ سیاسی اور عسکری تنظیم ہے جس کا مرکز لبنان ہے اور جس کی تشکیل اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت سے اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے 1982ء میں ہوئی تھی۔ اس گروہ نے اسرائیل کے خلاف استشہادی کاروائیوں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ اس کے بعد اس نے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کیا اور اسرائیل کا مقابلہ کاتیوشا میزائلوں اور گوریلا جنگ سے کیا۔
اس پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ ہیں۔ اس سے پہلے صبحی طفیلی اور سید عباس موسوی اس مقام پر رہے ہیں۔ حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین متعدد فوجی لڑائیاں لڑی جاچکی ہیں جن میں 33 روزہ جنگ بھی شامل ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کو نہتا کرنے اور اس کے دو فوجیوں کو آزاد کروانے کے مقصد سے جنگ کا آغاز کیا جنھیں آپریشن الوعد الصادق کے دوران حزب اللہ نے اسیر کرلیا تھا۔
حزب اللہ نے شام کی حکومت کی حمایت میں داعش کا مقابلہ بھی کیا ہے۔ جماعت میں ثقافتی، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں بھی ہیں۔ المنار ٹی وی نیٹ ورک کا تعلق حزب اللہ سے ہی ہے۔
تاریخ اور تشکیل کا پس منظر
حزب اللہ سنہ 1982ء میں جمہوری اسلامی ایران کی حمایت سے وجود میں آیا۔ [1] پہلے اس نے صیہونی غاصبوں کے خلاف کئی سال تک خفیہ طور پر کام کیا۔ 11 نومبر سنہ 1984ء کو احمد جعفر قصیر نے جنوبی لبنان میں اسرائیلی افواج کے خلاف آپریشن استشہاد انجام دیا جس میں اس کے متعدد افراد ہلاک ہوگئے۔ 16 فروری سنہ 1985ء کو جب اسرائیل صیدا سے پیچھے ہٹ گیا تو حزب اللہ نے احمد جعفر قصیر کی آپریشن استشہاد کی ذمہ داری کو قبول کر لیا اور اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے نظریے اور حکمت عملی کا قانونی طور پر اعلان کر دیا۔[2]
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر حسین دہقان کے مطابق، اسرائیل نے ایران و عراق جنگ کے دوران سنہ 1982 میں آپریشن بیت المقدس کے بعد لبنان پر حملہ کیا تھا۔ آئی آر جی سی کمانڈروں کے ایک گروپ کو لبنان بھیجا گیا تاکہ وہ لبنان کی افواج کو اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کر سکیں۔ فوجی تربیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایرانی سے منسلک گروہوں میں بھی اتحاد پیدا کیا جو بالآخر حزب اللہ کی تشکیل کا سبب بنے۔[3] حزب اللہ کے نائب سیکرٹری جنرل نعیم قاسم کے مطابق امام خمینی نے ان گروہوں کو فوجی تربیت کے لئے لبنان روانہ کیا تھا۔ اس سے قبل جنبش اَمل، حزب الدعوہ، تجمع علمائے بقاع اور اسلامی کمیٹیوں نے اسرائیلی قبضے کے خلاف متحدہ جماعت بنانے پر اتفاق کیا تھا اور اس منصوبے کو امام خمینی نے بھی منظور کر لیا تھا۔ [4]
رہبری
حزب اللہ کے سب سے پہلے کمانڈر صبحی طفیلی تھے جو 5 نومبر سنہ 1989ء کو اس مقام کے لئے منتخب ہوئے۔ اس سے قبل گروہ کی قیادت سات سالوں تک ایک کونسل کے زیر نظر ہوتی رہی۔ [5] سید محمد حسین فضل اللہ، سوبی طفیلی، سید عباس موسوی، سید حسن نصراللہ، شیخ نعیم قاسم، محمد یزبک اور ابراہیم امین حزب اللہ کے بانیوں میں شامل ہیں۔ [6] صبحی طفیلی سے اختلافات اور ان پر تنقید کی وجہ سے مئی سنہ 1991ء کو سید عباس موسوی حزب اللہ کے نئے سکریٹری جنرل منتخب ہو گئے۔ [7] وہ 16 فروری 1992 کو اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہو گئے اور سید حسن نصراللہ کو حزب اللہ کونسل نے سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا۔ [8]
ممتاز شخصیات
حزب اللہ کی بعض ممتاز شخصیات مندرجہ ذیل ہیں:
سید حسن نصراللہ
سید حسن نصراللہ (پیدائش 1960) لبنان میں حزب اللہ کے تیسرے سکریٹری جنرل اور گروہ کے بانیان میں سے ایک ہیں۔ [9] وہ کچھ عرصہ کے لئے حزب اللہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رہے اور سنہ 1992ء سے پارٹی کے سکریٹری جنرل ہیں۔ ان کے دور میں اسرائیل 2000 میں لبنان سے دستبردار ہوا اور اس نے لبنانی قیدیوں کو رہا کیا۔
سید عباس موسوی
سید عباس موسوی حزب اللہ کے بانی اور دوسرے سکریٹری جنرل تھے۔ 1370 میں صبحی طفیلی کے ہٹائے جانے کے بعد وہ حزب اللہ کے نئے سکریٹری جنرل بنائے گئے۔ [10] اس سے قبل وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینی فوج کے ساتھ شانہ بشانہ لڑ چکے تھے۔ پارٹی سکریٹری جنرل کی حیثیت سے ان کا عہدہ نو مہینہ سے بھی کم رہا اور وہ اسرائیل کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ [11]
صبحی طفیلی
شیخ صُبْحی طُفَیلی (پیدائش 1327) لبنان میں حزب اللہ کے پہلے سکریٹری جنرل تھے اور سنہ 1989ء سے سنہ 1991ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ [12] سنہ 1998ء میں انہوں نے «ثَورۃالجیاع» تحریک (بھوک انقلاب) کی بنیاد رکھی۔ ان کے حامیوں نے کچھ سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں اور متعدد افراد مارے گئے۔[13] وہ حزب اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نقاد تھے۔ [14]
عماد مغنیہ
عماد مغنیہ جنہیں حاج رضوان کے نام سے جانا جاتا ہے، حزب اللہ کے ممتاز کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ اعلی عہدے دار اہلکاروں کی حفاظت اور حزب اللہ کی خصوصی کارروائیوں کے ذمہ دار تھے۔ وہ اسرائیل سے ہونے والی ۳۳ روزہ جنگ میں حزب اللہ کے فیلڈ کمانڈر اور آپریشن الوعد الصادق کے منصوبہ ساز اور رہنما بھی تھے۔ [15] اسرائیل نے انہیں 12 فروری سنہ 2008ء کو دمشق میں شہید کر دیا۔ [16]
اسرائیل سے مقابلہ
سنہ 1985ء میں حزب اللہ نے اسرائیل کے خلاف اپنے نظریہ اور حکمت عملی کو عوامی طور پر باقاعدہ آشکار کر دیا۔[17] ابتدائی برسوں میں حزب اللہ کی سرگرمیاں اسرائیلی افواج کے خلاف آپریشن استشہاد پر مرکوز تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ طریقہ بدل گیا۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید عباس موسوی کے قتل کے جواب میں گروہ نے شمالی فلسطین میں صہیونی بستیوں پر پہلی بار کاتیوشا راکٹ فائر کیے۔[18]
حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین کچھ اہم کارروائیاں مندرجہ ذیل ہیں:
آپریشن الوعد الصادق
سنہ 2006ء میں حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین ایک جنگ ہوئی تھی جسے جنگ تموز یا 33 روزہ جنگ کہا جاتا ہے۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ معاہدے کے برخلاف لبنانی تین قیدیوں کو رہا نہیں کیا جس کے جواب میں حزب اللہ نے جولائی سنہ 2006ء میں آپریشن الوعد الصادق کے تحت دو اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کر لیا۔ اسرائیل نے لبنان پر اپنے دو اسیروں کو آزاد کرنے اور حزب اللہ کو اسلحے سے پاک کرنے کے لئے حملہ کیا جس کے نتیجہ میں حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین 33 روزہ جنگ شروع ہو گئی۔ [19]
جولائی 1993 کی لڑائی
25 جولائی سنہ 1993ء کو اسرائیل نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے، لبنانی عوام اور حزب اللہ کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور لبنانی حکومت پر حزب ا للہ کی مزاحمت کو روکنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی خاطر لبنان پر حملہ کیا جس پر حزب اللہ کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ آخر کار 31 جولائی سنہ 1993ء کو دونوں فریقیں نے ایک معاہدے پر اتفاق کیا جس کے تحت حزب اللہ اسرائیلی جارحیت روکنے کے بدلے اسرائیلی زیر قبضہ علاقوں پر کتیوشا راکٹ لانچ کرنے سے گریز کرے گا۔ [20]
اپریل 1996 کی لڑائی
11 اپریل 1996 کو اسرائیل نے لبنان کے خلاف بہت شدید آپریشن کا آغاز کیا۔ یہ آپریشن چار قتل عام کی وجہ سے مشہور ہیں جن میں دوسرے دن سحمر، تیسرے دن ایمبولنس منصوری، ساتویں دن نبطیۂ فوقا و قانا شامل ہیں۔ اس حملے میں پچیس افراد شہید ہوئے جن میں حزب اللہ فورس کے چودہ ارکان بھی شامل تھے۔ یہ کارروائی 16 دن تک جاری رہی اور آخر کار اسرائیل نے اپریل میں حزب اللہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے میں اسرائیل نے شہریوں پر حملہ نہ کرنے اور فوجی تصادم میں صرف مزاحمتی قوتوں کے ساتھ کارروائی پر اتفاق کیا۔ [21]
آپریشن انصاریہ
حزب اللہ نے 5 ستمبر 1992 کو اسرائیلی کمانڈوز کی بحری جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے آپریشن انصاریہ کا اہتمام کیا جس میں 17 صہیونی ہلاک اور زخمی ہوئے۔ [22]
مزاحمت کے قیدیوں کی رہائی
جنوبی لبنان سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے بعد حزب اللہ کی کچھ قوتیں جیسے مصطفیٰ دیرانی اور شیخ عبد الکریم عبید اسرائیلی جیلوں میں تھے۔ حزب اللہ نے 7 اکتوبر 2000 کو جنوبی لبنان کے مزارع شَبعا میں ایک کاروائی کے دوران تین اسرائیلی فوجیوں کو پکڑا اور بیروت میں ایک اسرائیلی کرنل کو بھی گرفتار کیا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل نے کچھ لبنانی اور 400 فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو رہا کیا اور 59 شہدا کے جنازے حزب اللہ کے حوالے کئے۔ نیز انہوں نے 24 گمشدہ افراد کے انجام کا انکشاف بھی کیا اور ان بارودی سرنگوں کا نقشہ بھی اس کے حوالے کیا جو اس نے لبنانی سرحد پر لگایا تھا۔ آپریشن مبادلہ 29 اور 30 جنوری سنہ 2004ء کو ختم ہوا۔ [23]
حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور جرمنی کی ثالثی کے ذریعے 33 دن کی جنگ کے بعد سنہ 2008ء میں باقی لبنانی قیدیوں کو بھی رہا کر دیا۔ 33 روزہ لڑائی میں مزاحمتی شہداء کی میت اور لبنانی اور فلسطینی مزاحمت کے دیگر شہداء کے جسد خاکی سمیت ایک مراکشی دلال اور اس کے 12 رکنی گروپ کی لاش بھی اسرائیل سے اپنے قبضہ میں لے لیا۔ [24]
شام میں داعش کے خلاف موجودگی
حزب اللہ نے داعش کے خلاف جنگ میں شام کی حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ جس میں شام میں بدامنی شروع ہونے کے بعد حزب اللہ نے تکفیریوں کے خلاف شام کی فوج کے شانہ بشانہ لڑائی کی۔ [25] ’’آپریشن آزادی قصیر‘‘ شام میں حزب اللہ کی سب سے اہم کامیابی تھی۔ [26]
سیاسی سرگرمیاں
حزب اللہ نے پہلی بار 1992 کے لبنانی انتخابات میں 12 پارلیمانی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1996 میں اس نے دس سیٹیں حاصل کیں اور 2000 میں لبنانی پارلیمنٹ کی 128 میں سے بارہ سیٹیں حاصل کیں۔ [27] ملک بھر میں 2005 کے عام انتخابات میں اس نے صرف 14 سیٹیں حاصل کیں اور جنوبی لبنان میں اَمَل موومنٹ کے ساتھ اتحاد میں تمام 23 سیٹیں حاصل کیں اور محمد فنیش کو وزیر آب و توانائی کی حیثیت سے کابینہ میں بھیج دیا گیا۔
سنہ 2005ء کے بعد حزب اللہ کو 8 مارچ کے گروپ میں شامل کر لیا گیا۔ 2005 میں حریری کے قتل کے ساتھ ہی لبنانی سیاست میں نئی تبدیلیاں تشکیل پائیں۔ حزب اللہ کے 2005 میں بیروت میں ہونے والے اجتماع کے بعد 8 مارچ کا گروپ تشکیل دیا گیا تھا تاکہ اس گروپ کے تحت تخفیف اسلحہ کی مخالفت، اسرائیل کے مقابلے میں شام اور مزاحمت کی حمایت کی جاسکے۔ متحدہ محاذ جو حزب اللہ، اَمَل پارٹی اور حزب مسیحی آزاد سے ماخوذ تھا بعد میں لبنان اسلامی جماعت، اسلامی اتحاد موومنٹ (سنی جماعت) اور لبنان کی ڈیموکریٹک پارٹی (دروزی) نے بھی شمولیت اختیار کی۔[28] اس کے ساتھ ہی متحدہ ریاستیں امریکہ، فرانس، سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک کی حمایت کے ساتھ لبنان میں 14 مارچ کی تحریک تشکیل دی گئی جس میں شام کو لبنان سے دستبرداری اور مزاحمت کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ المستقبل (سنی)، حزب الکتائب و القواة البنانيۃ (عیسائی) نیز لبنانی ترقی پسند سوشلسٹ (دروز) اس تحریک کے اہم حامی تھے۔ [29]
اجتماعی سرگرمیاں
حزب اللہ ہمیشہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت پر مرکوز رہا ہے۔ اس کے باوجود پارٹی میں سماجی سرگرمیاں بھی ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
- اسرائیلی جارحیت اور قدرتی آفات کی وجہ سے خراب شدہ عمارات کی تعمیر نو کے لئے ادارہ جہاد سازندگی کا قیام۔
- بیروت کے جنوبی نواحی علاقوں میں 1988 سے سنہ 1991ء تک شہری فضلہ جمع کرنا۔
- بیروت کے جنوبی مضافات میں پینے کے پانی کی فراہمی۔
- زراعتی سرگرمیاں۔
- اسلامک ہیلتھ سوسائٹی اور متعدد طبی مراکز اور اسپتالوں کا قیام۔
- طلبا کو تعلیمی خدمات اور تعلیمی امداد فراہم کرنا۔
- شہداء کے اہل خانہ کو خدمات فراہم کرنے کے لئے شہداء فاؤنڈیشن کا قیام۔
- محروموں کی امداد کے لئے اسلامی خیراتی ریلیف کمیٹی کا قیام۔[30]*
میڈیا
حزب اللہ کے بعض میڈیا ذرائع مندرجہ ذیل ہیں:
- المنار ٹی وی: تأسیس 1991م تلویزیون المنار
- النور ریڈیو (http://www.alnour.com.lb) (تأسیس 1988ء)
- ہفتہنامہ العہد (http://www.alahednews.com.lb) [31]
- قاوم سائٹ: http://qawem.org
- جنوب لبنان سائٹ http://www.southlebanon.org
- حزباللہ کی میڈیا رابطہ کی سائٹ http://www.mediarelations-lb.org
حزب اللہ نے ملیتا کے علاقے میں اپنے ایک فوجی اڈے کو ملیتا میوزیم میں تبدیل کردیا ہے۔[32]
حامی اور مخالفین
دنیا میں حزب اللہ کے بہت حامی ہیں۔ حزب اللہ کے سب سے اہم حامی ایران اور شام ہیں۔ روس بھی حزب اللہ کو ایک جائز سماجی و سیاسی تنظیم سمجھتا ہے۔ [33] ایران نے حزب اللہ کے قیام اور اس کی افواج کو فوجی تربیت فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ [34] لبنان پر اسرائیلی حملے کے کھنڈرات کی تعمیر نو کے لئے ایران نے لبنانی تعمیر نو کا ہیڈ کوارٹر بھی قائم کیا ہے۔ [35] اس کے باوجود متحدہ امریکہ، عرب لیگ، خلیج تعاون کونسل وغیرہ نے حزب اللہ یا اس کے فوجی نظام کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا ہے۔ [36] اسرائیلی قبضے اور خطرے کے خلاف مزاحمت کے ساتھ ساتھ لبنانی فوج کا اسرائیل سے مقابلہ کرنے سے قاصر رہنا، ان لوگوں کی دلیلوں میں سے ایک ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ حزب اللہ کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں ہے اور اس کے پاس اسلحہ بھی ہونا چاہئے۔ [37]
کتابیات
حزب اللہ کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ کے رہنماؤں میں سے ایک نعیم قاسم کی کتاب ’حزباللہ لبنان المنہج التجریہ المستقبل‘ ہے۔ یہ کتاب حزب اللہ کی تاریخ، اہداف اور سرگرمیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ [38] اس کتاب کا ترجمہ «حزباللہ لبنان خط مشی، گذشتہ و آیندہ آن» (لبنانی حزب اللہ پالیسی، اس کا ماضی اور مستقبل) کے عنوان سے فارسی میں کیا گیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ سپاہ و حزباللہ لبنان خاطراتی از شیخ علی کورانی
- ↑ «احمد قصیر آغازگر عملیات شہادت طلبانہ در لبنان»، خبرگزاری صداو سیما
- ↑ «نحوہ شكل گیری حزب اللہ لبنان از زبان وزیر دفاع»
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۲۲-۲۵
- ↑ شیخ نعیم قاسم، حزب اللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۸۵
- ↑ حسینی، ««سیر تحول در رہبری و ایدئولوژی حزباللہ»»
- ↑ قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۸۵-۸۶
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۸۵-۸۶۔
- ↑ «مصاحبہ با حجۃالاسلام سید حسن نصراللہ عضو شورای مرکزی حزباللہ»، ص۴۲
- ↑ ہفتہنامہ خبری تحلیلی پنجرہ، شمارہ ۱۳۶۔
- ↑ زندگینامہ شہید سید عباس موسوی
- ↑ ہفتہنامہ خبری تحلیلی پنجرہ، شمارہ ۱۳۶
- ↑ ہفتہنامہ خبری تحلیلی پنجرہ، شمارہ ۱۳۶.
- ↑ سایت خبری- تحلیلی عماریون
- ↑ زندگینامہ شہید مغنیہ
- ↑ روایتہایی از ترور بینالمللی عماد مغنیہ
- ↑ «احمد قصیر آغازگر عملیات شہادتطلبانہ در لبنان»، خبرگزاری صداو سیما۔
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۱۵۸۔
- ↑ رویوران، «دستاوردہای پیروزی حزب اللہ در جنگ ۳۳ روزہ»، ص۳۳
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، 1423ھ، ص161-162۔
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۱۶۲-۱۶۹
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۱۶۲-۱۶۹
- ↑ نعیم قاسم، حزب اللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۲۰۴-۲۱۰
- ↑ گزارش کامل «عملیات رضوان»
- ↑ صور لـ ۹۰ شہیداً من حزباللہ سقطوا أثناء القیام بالواجب الجہادی فی سوریـا
- ↑ مختصات راہبردی اولین تجربہ عملیات برون مرزی حزباللہ
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۲۷۳-۲۷۶۔
- ↑ انتخابات داغ در کرانہ شرجي مديترانہ مروری بر مشخصات احزاب و جریانات سیاسی لبنان
- ↑ انتخابات داغ در کرانہ شرجي مديترانہ مروری بر مشخصات احزاب و جریانات سیاسی لبنان
- ↑ نعیم قاسم، حزباللہ، ۱۴۲۳ھ، ص۱۱۴-۱۲۰.
- ↑ زمانیمحجوب، «تأثیر نگرش معنوی بر پیروزی مقاومت حزباللہ».
- ↑ «حزباللہ يفتتح متحفا عسكريا عن مقاومتہ لاسرائيل في جنوب لبنان»
- ↑ https://www.tasnimnews.com/fa/news/1400/07/29/2593866/%D9%BE%D9%88%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D8%AD%D8%B2%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87-%D8%B1%D8%A7-%DB%8C%DA%A9-%D9%82%D8%AF%D8%B1%D8%AA-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%D8%B3%DB%8C-%D9%85%D9%87%D9%85-%D8%AF%D8%B1-%D9%84%D8%A8%D9%86%D8%A7%D9%86-%D9%85%DB%8C-%D8%AF%D8%A7%D9%86%DB%8C%D9%85-%D8%AD%D9%85%D8%A7%DB%8C%D8%AA-%D8%B1%D9%88%D8%B3%DB%8C%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D8%B7%D8%A7%D9%84%D8%A8%D8%A7%D9%86
- ↑ ناگفتہہایی از تاسیس«مقاومت اسلامی لبنان»
- ↑ فعالیتہای ستاد بازسازی لبنان بہ قوت قبل ادامہ دارد
- ↑ «آیا حزباللہ لبنان یک سازمان تروریستی است؟»
- ↑ «آیا حزباللہ لبنان یک سازمان تروریستی است؟»
- ↑ «معرفی کتاب حزباللہ لبنان، خط مشی، گذشتہ و آیندہ آن معرفی و نقد»، ص۱۱۵۔
مآخذ
- امام خمینی، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
- انتخابات داغ در کرانہ شرجی مديترانہ مروری بر مشخصات احزاب و جریانات سیاسی لبنان، نشریہ فرہنگی تحلیلی راہ، شمارہ ۴۱، خرداد ۱۳۸۸ش.
- «آیا حزباللہ لبنان یک سازمان تروریستی است؟»
- حزباللہ لبنان خط مشی، گذشتہ و آیندہ آن، شیخ نعیم قاسم، ترجمہ محمدمہدی شریعتمدار، تہران، انتشارات اطلاعات، ۱۳۸۳۔
- «حزباللہ يفتتح متحفا عسكريا عن مقاومتہ لاسرائيل في جنوب لبنان»، رویترز، ۲۲ می ۲۰۱۰م، مشاہدہ ۱۲ خرداد ۱۴۰۰ہجری شمسی۔
- حسینی، سید عماد، «سیر تحول در رہبری و ایدئولوژی حزباللہ»، شہروند، شمارہ ۴۸، خرداد ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
- زمانیمحجوب، محمود، «تأثیر نگرش معنوی بر پیروزی مقاومت حزباللہ»، معارف، شمارہ ۵۸، مرداد و شہریور، ۱۳۹۲ش
- نعیم قاسم، حزباللہ المنہج التجربہ المستقبل، بیروت، دارالہادی، ۱۴۲۳ق/۲۰۰۲م۔
- «مصاحبہ با حجۃالاسلام سید حسن نصراللہ عضو شورای مرکزی حزباللہ»، پاسدار اسلام، شمارہ ۶۷، فروردین ۱۳۶۷ہجری شمسی۔
- «معرفی کتاب حزب اللہ لبنان، خط مشی، گذشتہ و آیندہ آن معرفی و نقد»، مطالعات راہبردی بسیج، شمارہ ۲۹، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
بیرونی روابط