سپاہ قدس

ویکی شیعہ سے



سپاہ قدس یا قدس فورس جو کہ اسلامی انقلابی گارڈ کور (سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران) سے وابستہ ایک برگئیڈ ہے، جو اس ادارے کی بیرون ملک سرگرمیوں کی ذمہ دار ہے۔ قدس فورس 1990میں اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر اعلیٰ سید علی خامنه‌ای کے حکم سے قائم کی گئی تھی۔

قدس فورس کے پہلے کمانڈر احمد وحیدی نے سات سال تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ 1998 میں قاسم سلیمانی کو ایران کے سپریم لیڈر نے قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا اور 2020 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم سے بغداد کے ہوائی اڈے پر حملہ کر کے شہید کر دیا گیا اور اسماعیل قاآنی کو اس فورس کا نیا کمانڈر مقرر کردیا گیا۔

بیرون ملک مشاورتی اور فوجی موجودگی، خطے میں ائمہ معصومین علیہم السلام کے مزارات جیسے شیعہ مقامات اور نشانیوں کی حفاظت اور لبنان میں حزب اللہ اور عراق میں حشد الشعبی جیسے مزاحمتی گروہوں کو منظم کرنا اس فورس کی سب سے اہم سرگرمیوں میں سے ہیں۔ قدس فورس کی بعض عسکری اور مشاورتی فعالیتوں میں اس فورس کا عراق اور شام میں داعش اور تکفیری گروہوں کے خلاف لڑنے کے لیے حاضر ہونا ہے۔

قدس فورس فلسطینی مزاحمت کی بھی حمایت کرتی ہے اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرتی ہے تاکہ وہ اسرائیل کے خلاف کھڑے ہو سکیں۔

تاریخ اور قیام کی کیفیت

اسلامی انقلابی گارڈ کور کی قدس برگیڈ، جسے سپاہ قدس کہا جاتا ہے، اسلامی انقلابی گارڈ کور کی پانچ برگیڈ[یادداشت 1]میں سے ایک ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دوسرے رہبر سید علی خامنہ ای کے حکم سے سنہ 1990میں قدس فورس کو IRGC میں شامل کیا گیا۔[1]

کہا گیا ہے کہ قدس فورس کی سرگرمیوں کی تاریخ رمضان کیمپ اور بدر بریگیڈ تک جاتی ہے۔[2] رمضان بَیس سپاہ پاسداران کی پہلی فورس تھی جو 1983میں مرتضی رضائی کی کمان میں سرحدوں سے باہر کارروائیاں کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔[3] تاہم، کچھ لوگوں نے قدس فورس کی اصل کو آزادی کی تحریکوں کی اکائی[یادداشت 2] کے طور پر سمجھا ہے۔[4]

آیت اللہ خامنہ ای نے 17 جنوری سنہ 2020 عیسوی کو نماز جمعہ کے خطبات میں قدس فورس کو سرحدوں کی محدودیت سے عاری جنگجو کے طور پر متعارف کرایا جو جہاں ضرورت ہو وہاں حاضر ہوتے ہیں اور اپنی جانوں اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ دوسری قوموں اور خطے کے کمزوروں کی مدد کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور ایران سے جنگ، دہشت اور تباہی کا سایہ کو دور کرتے ہیں۔[5]

کمانڈر

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: قاسم سلیمانی

IRGC کی قدس فورس کے پہلے کمانڈر احمد وحیدی نے 1990سے 1998تک 7 برس اس فورس کی کمانڈ کی۔[6] القدس فورس کے دوسرے کمانڈر قاسم سلیمانی کو اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر سید علی خامنہ ای نے 1998میں اس فورس کی کمان کے لیے مقرر کیا۔[7] قاسم سلیمانی 3 جنوری سنہ 2020ء کو اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم سے امریکی ڈرون کے ایک دہشت گردانہ حملے میں بغداد ائیرپورٹ کے قریب، ابو مہدی المہندس او بعض دیگر ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ اس واقعے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر معظم نے اسماعیل قاآنی کو قدس فورس کا نیا کمانڈر مقرر کیا۔[8]

سرگرمیاں

سپاہ قدس کی کچھ سرگرمیاں درج ذیل ہیں:

خطے میں مزاحمت کے مراکز کو منظم کرنا

القدس برگیڈ کی اہم ترین فعالیتوں میں سے ایک خطے میں آنے والے بحرانوں کی مدیریت اور حزب الله لبنان، حَشد الشعبی عراق، لشکر فاطمیون اور انصار الله یمن جیسے مزاحمتی گروپوں کو منظم کرنا اور انہیں تقویت دینا ہے۔[9] ان گروہوں کا مشترکہ ہدف امریکہ اور اسرائیل اور ان کے منصوبوں کے خلاف لڑنا ہے۔[10] آیت اللہ خامنہ ای نے پوری دنیا میں حزب اللہ کے عوامی گروہوں کی تشکیل کو امام خمینی کے خوابوں میں سے ایک تصور کیا، جسے اب قدس فورس کے اہداف میں سے ایک کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اسے فعال کیا گیا ہے۔[11]

مختلف ممالک میں مشاورتی اور عسکری موجودگی

قدس فورس کی اہم سرگرمیوں میں سے ایک خطے کے بحرانوں میں مشاورتی اور عسکری موجودگی ہے۔[12] سپاہ قدس کا خطے کے مختلف ممالک میں حضور اور فعالیتوں میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • بوسنیا میں فعالیت

قدس فورس کی یورپ کے مسلمانوں کی حمایت میں پہلی باضابطہ موجودگی کا تعلق بوسنیا کی جنگ سے ہے۔[13] بوسنیا اور ہرزیگوینا میں سربوں، بوسنیائیوں اور کروٹس کے درمیان،[14] خانہ جنگی کے دوران قدس فورس کو بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کی ذمہ داری سونپی گئی اور اس وقت بوسنیا کے پاس کوئی مضبوط فوج نہیں تھی۔[15]

  • افغانستان میں سرگرمیاں

1980 کی دہائی کے اوائل میں سابق سوویت یونین کے حملے کے بعد افغانستان میں قدس فورس کی موجودگی سرحدوں سے باہر کی دیگر سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔[16] افغانستان میں قدس فورس کے اولین کاموں میں سے ایک شیعہ مجاہد گروپوں کی تشکیل تھا جنہیں آٹھوں پارٹیوں سے جانا جاتا تھا، جنہوں نے بعد میں حزب وحدت اسلامی افغانستان کے ساتھ اتحاد کیا اور اسی اسلامی جمعیت افغانستان[یادداشت 3] کے ساتھ بھی تعاون کی جو برهان‌ الدین ربانی اور احمد شاه مسعود کی سربراہی میں کام کرتی تھی۔[17]

  • 33 روزہ جنگ

33 روزہ جنگ، اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ کے درمیان 2006 میں لڑی گئی تھی[18] اور کہا گیا ہے کہ اس وقت قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی ان تمام 33 دنوں کے دوران آپریشن روم میں اور حزب اللہ کے کمانڈروں کے ساتھ موجود تھے۔[19] ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ کی روحانی، مادی، ہتھیاروں، سازوسامان اور میڈیا کی حمایت اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور دیگر حکام کی خواہش ہے۔[20]

  • عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ
قاسم سلیمانی؛ 1998سے 2020 تک IRGC کی قدس فورس کے کمانڈر

عراق اور شام میں داعش اور تکفیری گروہوں کے خلاف جنگ قدس فورس کی اہم سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔[21] یہ سرگرمیاں مشاورتی مدد، ڈیزائننگ اور کمانڈنگ آپریشنز اور فوجی آپریشنز کی شکل میں ہوتی رہی ہیں۔[22]

  • یمن میں موجودگی

یمن میں قدس فورس کی موجودگی کے حوالے سے خبریں مختلف ہیں۔ سعودی اتحاد کا میڈیا 2014 میں یمنی انقلاب کے بعد قدس فورس کے کچھ افراد اور کمانڈروں کی موجودگی کا دعویٰ کرتا ہے۔[23] ان ذرائع ابلاغ کے مطابق قدس فورس کے کچھ افراد میزائلوں، ڈرونز اور دیگر اسلحے کی دیکھ بھال، تعمیر یا ایران سے یمن میں انصار اللہ کو منتقل کرنے ذمہ دار ہیں۔[24] دوسری جانب اس وقت IRGC قدس فورس کے اقتصادی امور کے ذمہ دار رستم قاسمی نے 2019 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ قدس فورس یمن میں موجود نہیں ہے۔[25]

فلسطینی مزاحمتی گروہوں کو تقویت اور ان کی حمایت

قدس فورس فلسطینی مزاحمت کی حمایت کرتی ہے۔ حماس کے ایک رہنما کے مطابق قاسم سلیمانی نے قدس فورس میں اپنی کمان کے دوران حماس کو اسرائیل کے خلاف جدید ہتھیاروں سے لیس کیا ہے۔[26] ایران کے سپریم لیڈر آیت الله خامنه‌ای نے بھی کہا ہے: قاسم سلیمانی نے ان امریکیوں کے خلاف فلسطینیوں کی مدد کی جو فلسطینیوں کو کمزور حالت میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ وہ ان سے جنگ نہ کر سکیں۔ انہیں مزاحمت کرنے کے قابل بنایا اور غزہ کی پٹی جیسا ایک چھوٹا سا علاقہ صہیونی حکومت کے تمام تر دعووں کے سامنے کھڑا ہوا۔[27] جون 2023ء میں، آیت اللہ خامنہ ای کے نام ایک خط میں، فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت اور 12 روزہ جنگ میں قدس فورس اور اس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی کے کردار پر شکریہ ادا کیا۔[28] نیز الاقصیٰ طوفان آپریشن کے بعد قدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے اس فورس کی حمایت کا اعلان کیا۔[29]

ائمہ معصومین علیہم السلام کے مزارات کا دفاع اور حفاظت

کہا گیا ہے کہ قدس فورس کی کارروائیوں میں سے ایک خاص طور پر عراق اور شام میں عتبات اور شیعہ اماموں کے مزارات کی داعش اور تکفیری گروہوں کے خطرات اور حملوں سے حفاظت کرنا تھا۔[30] اس سلسلے میں سامرا پر داعش کے حملے کو بے اثر کرنا ان کارروائیوں میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جو کہ 5 جون 2014ء کو داعش نے سامرا شہر پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جس کا مقصد حرم امام هادیؑ اور امام حسن عسکریؑ پر قبضہ کرنا اور انہیں تباہ کرنا تھا۔ اس حملے میں سامرا کے کچھ محلوں پر قبضہ کر لیا،[31] لیکن قاسم سلیمانی کی سربراہی میں قدس فورس، مزاحمتی گروہوں اور عراقی فوج کے تعاون سے ان حملوں کو پسپا کر دیا۔[32]

حوالہ جات

  1. «نیروی قدس سپاه چگونه شکل گرفت؟»، سایت خبرگزاری فارس.
  2. «نیروی قدس سپاه چگونه شکل گرفت؟»، سایت خبرگزاری فارس.
  3. محمدپور، «تأثیر عملیات‌های نامنظم قرارگاه رمضان در جنگ تحمیلی»، ص77.
  4. «واحد "نهضت‌های آزادیبخش"؛ گروهی مورد حمایت "منتظری" که در خدمت دشمن بود»، سایت خبرگزاری تسنیم.
  5. «اینک نیروی بدون مرز قدس!»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت الله خامنه‌ای.
  6. «سپاه قدس چگونه تشکیل شد؟»، خبرگزاری دانشجویان ایران.
  7. «حکم انتصاب سرتیپ قاسم سلیمانی به فرماندهی سپاه قدس سپاه پاسداران انقلاب اسلامی»، پایگاه اطلاع‌رسانی آیت‌الله خامنه‌ای.
  8. «با حکم رهبر معظم انقلاب، سردار اسماعیل قاآنی فرمانده نیروی قدس سپاه شد»، سایت خبرگزاری تسنیم.
  9. بهمن، «نقش نیروی قدس در حل بحران‌های غرب آسیا»، ص16-19.
  10. خسروشاهین، «بازدارندگی محور مقاومت».
  11. «اینک نیروی بدون مرز قدس!»، سایت Khamenei.ir.
  12. بهمن، «نقش نیروی قدس در حل بحران‌های غرب آسیا»، ص20.
  13. «نیروی قدس در کدام جنگ‌ها حضور یافت؟»، سایت خبرگزاری مشرق.
  14. «بالکان غربی یا یوگسلاوی سابق از گذشته‌ای تلخ تا آینده‌ای روشن»، سایت مؤسسه مطالعات و تحقیقات بین المللی ابرار معاصر.
  15. «مروری بر فعالیت‌های نیروی قدس سپاه و سردار سلیمانی؛ از بوسنی تا سوریه»، سایت خبر آنلاین.
  16. «ایران از کدام گروه‌های مجاهد شیعه و سنی افغانستانی حمایت کرد؟»، سایت خبرگزاری آنا.
  17. «مروری بر فعالیت‌های نیروی قدس سپاه»، سایت خبر آنلاین.
  18. شفیعی، مرادی، «تأثیر جنگ 33 روزه لبنان بر موقعیت منطقه‌ای ایران»، ص24.
  19. «ناگفته‌های جنگ 33روزه در گفتگو با سرلشکر حاج قاسم سلیمانی»، سایت Khamenei.ir.
  20. «ناگفته‌های جنگ 33روزه در گفتگو با سرلشکر حاج قاسم سلیمانی»، سایت Khamenei.ir.
  21. نجابت، «گروهک تروریستی داعش و امنیت ملی جمهوری اسلامی ایران؛ چالش‌ها و فرصت‌ها»، ص112.
  22. «نیروی قدس سپاه چگونه تشکیل شد و در منطقه چه کرد؟»، خبرگزاری تسنیم.
  23. «ترور مسئول سپاه قدس در یمن شکست خورد»، سایت تحولات جهان اسلام.
  24. «ترور مسئول سپاه قدس در یمن شکست خورد»، سایت تحولات جهان اسلام.
  25. «معاون سپاه قدس: در یمن حضور نداریم»، سایت انصاف.
  26. «حمدان للمیادین: الشهید سلیمانی لعب دوراً مهماً فی تعبئة صفوف المقاومین»، سایت المیادین.
  27. «بیانات آیت‌الله خامنه‌ای در دیدار با مردم قم»، سایت Khamenei.ir.
  28. «پیام تقدیر دبیرکل جهاد اسلامی از رهبر انقلاب: از شما و فرمانده نیروی قدس که در هدایت نبرد کنار ما بودند تشکر می‌کنم»، خبرگزاری تسنیم.
  29. «پیام سردار قاآنی به فرمانده گردان‌های القسام»، ایسنا.
  30. «روایت عراقی‌ها از نقش شهید سلیمانی در نجات سامرا»، سایت خبری فاش نیوز.
  31. «همه چیز درباره حمله داعش به سامراء»، سایت خبرگزاری ابنا.
  32. «روایت عراقی‌ها از نقش شهید سلیمانی در نجات سامرا»، سایت خبری فاش نیوز.

نوٹ

  1. سپاہ پاسداران مختلف ذمہ داریوں کے ساتھ پانچ افواج پر مشتمل ہے: زمینی فورس، بحری فورس، ایرو اسپیس فورس، مزاحمتی رضاکار (بسیج) اور قدس فورس۔(«سه روایت از تشکیل سپاه پاسداران»، خبرگزاری ایسنا.)
  2. IRGC کی آزادی کی تحریکوں کا یونٹ انقلاب کے آغاز میں محمد منتظری کی ذمہ داری کے تحت قائم کیا گیا تھا جس کا مقصد انقلاب کو بیرون ملک متعارف کروانا اور برآمد کرنا تھا، اور محمد منتظری کے بعد سید مہدی ہاشمی (حسین علی منتظری کے داماد کے بھائی) نے اس کی سربراہی کی۔ محمد علی رجائی کی حکومت میں، لبریشن موومنٹ یونٹ کو IRGC میں ضم کر دیا گیا، اور اس دوران اس کا دنیا بھر میں آزادی کی دیگر تحریکوں کے ساتھ بہت قریبی تعاون تھا۔(بارسقیان، سرگه، شهروند، شماره47، اردیبهشت 1387ش.)
  3. اسلامی تحریک افغانستان ایک سیاسی جماعت ہے جو برہان الدین ربانی کی قیادت میں مصری اخوان المسلمون کے زیر اثر قائم ہوئی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس پارٹی کی بنیاد 1957 میں رکھی گئی تھی۔(«جمعیت اسلامی افغانستان»، سایت پیام آفتاب۔)

مآخذ