33 روزہ جنگ

ویکی شیعہ سے
33 روزہ جنگ
33 روزہ جنگ میں جنوبی بیروت کے ضاحیہ میں رہائشی علاقے کی ویرانی کی تصویر
33 روزہ جنگ میں جنوبی بیروت کے ضاحیہ میں رہائشی علاقے کی ویرانی کی تصویر
تاریخ12 جولائی تا 14 آگست سنہ 2006ء
مقاملبنان، شمالی اسرائیل
نتیجہجنگ بندی اور سکیورٹی کونسل کی 1701ویں قرار داد قبول کرنا
فریق 1حزب‌اللہ لبنانتحریک أمل
فریق 2اسرائیلی فوج
سپہ سالار 1سید حسن نصر اللہ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان، عماد مغنیہ (حاج رضوان)[1] اور شہید خالد احمد بَزّی (حاج قاسم)[2]
سپہ سالار 2ایہود اولمرت اسرائیلی وزیر اعظم، دان حالوتص فوجی کمانڈر، عمیر پرتص وزیر جنگ[3]
نقصان 1180 فوجی اور 1183 عام شہری شہید، 15 ہزار گھر، ہزاروں کارخانے، ادارے اور دیگر مراکز ویران
نقصان 2165 ہلاک


33 روزہ جنگ سنہ 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔ اس جنگ کو «تموز جنگ» بھی کہا جاتا ہے۔ 2004ء میں اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ معاہدے کے برعکس تین لبنانی قیدیوں کو رہا نہیں کیا۔ ان کی رہائی کے لیے جولائی سنہ 2006ء میں حزب اللہ نے "الوعد الصادق" آپریشن میں دو اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کر لیا۔

اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے لبنان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ محققین کا خیال ہے کہ اسرائیل لبنان پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا اور حزب اللہ کی کارروائی نے اس حملے کو آگے لے آیا۔ اسرائیل نے سرکاری طور پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور اس کے دو قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن جنگ کے اختتام پر وہ مطالبات حاصل نہیں ہوئے۔

اس جنگ میں دونوں فریقوں کا نقصان ہوا تاہم دونوں فریقوں کے جانی و مالی اور انسانی نقصانات کا کوئی موازنہ نہیں تھا۔ اسلحے میں اپنی برتری کی وجہ سے اسرائیل نے لبنان کے ملک اور عوام کو کافی مادی اور انسانی جانی نقصان پہنچایا جس میں 15000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے اور ہزاروں حساس مراکز بشمول پاور پلانٹس، بندرگاہیں، پل وغیرہ تباہ ہو گئے

یہ جنگ 33 دن تک جاری رہی اور جنگ کے 34 ویں دن کی صبح 14 اگست سنہ 2006ء کو سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کی بنیاد پر جنگ بندی ہوگئی۔

سنہ 2004ء میں قیدیوں کا تبادلہ

سنہ 2004ء میں حزب اللہ اور اسرائیل نے بالواسطہ مذاکرات کے بعد قیدیوں کے تبادلے کا عہد کیا۔ اس تبادلے میں اسرائیل کے ایک قیدی اور تین لاشوں کے بدلے میں مختلف ممالک کے 436 مسلمان قیدیوں کو رہا کیا گیا جن کے ساتھ مزاحمتی بلاک کے 59 افراد کی لاشیں بھی شامل تھیں۔[4]

معاہدے کے برعکس اسرائیل نے سمیر قنطار سمیت تین اسیروں کو رہا نہیں کیا۔ سید حسن نصر اللہ نے قیدیوں کی رہائی کے دن اعلان کیا کہ ان تینوں افراد کی رہائی کا طریقہ اسرائیل سے دوسرے قیدی لینا ہے۔[5]

الوعد الصادق آپریشن

12 جولائی سنہ 2006ء کی صبح[6] حزب اللہ کی فورسز نے ایک اسرائیلی فوجی گاڑی پر حملہ کر کے دو قیدیوں لے لیا۔[7] اسرائیلی فورسز نے قیدیوں کی منتقلی کو روکنے کے لیے مداخلت کی لیکن اسرائیلی فوجی گاڑی میں دھماکہ ہوا اور بعض دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔[8] اس آپریشن میں مجموعی طور پر آٹھ افراد ہلاک اور دو کو گرفتار کر لیا گیا۔[8]

سید حسن نصر اللہ نے اسیروں کی رہائی کو بالواسطہ مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ہی امکان قرار دیا۔[9] اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے لبنان اور حزب اللہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔[10]

تاہم امریکی اور اسرائیلی ذرائع نے جنگ کے بعد یہ راز فاش کیا کہ اسرائیل نے اچانک حملہ کر کے دریائے لیطانی پر قبضہ کرنا تھا۔ یہ حملہ "الوعد الصادق" آپریشن کے دو ماہ بعد یعنی اکتوبر میں کیا جانا تھا۔[11] لیکن "الوعد الصادق آپریشن" نے ان کے منصوبے کو آگے بڑھا دیا۔[12]

جنگ کا آغاز

12 جولائی سنہ 2006ء کو اسرائیل نے لبنان اور حزب اللہ کے خلاف اعلان جنگ کیا۔[6] اسرائیلی 40,000 سے زیادہ فوجیوں کے ساتھ اس جنگ میں داخل ہوئے[13] جبکہ فضائیہ، سمندری اور زمینی ہتھیاروں کے لحاظ سے وہ حزب اللہ کی افواج سے بہت زیادہ مضبوط تھے اور اسرائیلی فوج اپنے آپ کو دنیا کی چھٹی بڑی فوج کہتی تھی۔[14]

حزب اللہ نے اسرائیلی جدید ہتھیاروں کے خلاف گوریلا جنگ کا ماڈل استعمال کیا۔ حزب اللہ نے جنوبی لبنان میں کئی سرنگیں بنائی تھیں اور جنگ کے دوران ان سے بہت استفادہ کیا۔ حزب اللہ نے ان سرنگوں کو کمانڈ یا گولہ بارود کے ذخیرے کے لیے استعمال کیا۔[15]

بہت سے عرب ممالک نے اس جنگ میں حزب اللہ کے بارے میں منفی موقف اختیار کیا تھا۔[16] اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر نے یہ دعوا کیا تھا کہ کئی عرب ممالک کے وزرائے خارجہ اور سفیر ان کے ساتھ بات چیت میں اسرائیل کے ہاتھوں حزب اللہ کی نابودی کے خواہاں ہیں۔[17]

لبنان میں بھی اعلیٰ عہدے داروں کے درمیان اختلافات تھے۔ اس وقت لبنان کے وزیر اعظم سینیورا نے اگرچہ اسرائیل کے حملوں کی مذمت کی تھی، لیکن اس نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔[18] جبکہ لبنان کے اس وقت کے صدر (ایمل لاہود) اور وزیر خارجہ (فوزی صلوخ) جیسے لبنان کے بعض عہدے داروں نے حزب اللہ کی حمایت کی۔[19] ایران، سوریہ، حماس اور اخوان المسلمین نے حزب اللہ کی حمایت کی۔[20] جنگ کے دسویں دن آیت اللہ خامنہ‌ای نے قاسم سلیمانی کے ساتھ سید حسن نصر اللہ کو ایک پیغام بھیجا اور ان سے کامیابی کا وعدہ دیا[21] اور جنگجوؤں کو دعائے جوشن صغیر پڑھنے کا مشورہ دیا۔[22] آپ نے جنگ بندی کے بعد سید حسن نصر اللہ کے نام ایک رسمی پیغام لکھا۔[23]

سنہ 2006ء کی 33 روزہ جنگ میں اسرائیل کے ہاتھوں لبنان کے بمباری شدہ علاقے

ایران کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی اس جنگ کے پہلے دن لبنان گئے۔ ایک ہفتے کے بعد وہ رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایران آیا اور پھر لبنان واپس گیا اور جنگ کے اختتام تک وہیں رہا۔[24]

اس جنگ کو عرب ممالک میں "33 روزہ جنگ"، "تموز جنگ" اور "چھٹی جنگ" جبکہ صہیونی حکومت کی طرف سے "دوسری جنگ" کے نام سے مشہور ہے۔[25]

جنگ کے اہداف

اسرائیلی حکام نے جنگ کے آغاز میں اور اپنی سرکاری تقریروں میں اس جنگ کے درج ذیل اہداف بیان کیا:

  • اسرائیل حزب اللہ کو غیر مسلح اور تباہ کرنا چاہتا تھا۔[26] جنگ کے خاتمے اور اس مقصد کے حصول میں ناکامی کے بعد اسرائیل نے لبنان کے کچھ حصوں پر دریائے لیطانی تک قبضہ کرنا چاہا۔[27] لیکن اس مرحلے میں بھی وہ ناکام رہا اور آخر کار سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1701 کو مان لیا جس کی بنیاد پر لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کی فوجیں اسرائیل کی سرحد سے دریائے لیطانی تک تعینات کی گئیں۔[28]
  • اسرائیل اپنے دو اسیروں کی رہائی چاہتا تھا۔[26]
  • اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس نے 33 روزہ جنگ کو ایک نئے مشرق وسطیٰ کی تخلیق کا آغاز سمجھا۔[29] تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل اور امریکہ ایک ایسا مشرق وسطیٰ بنانا چاہتے تھے جو ان کی اطاعت کرے اور ایک طرح کی امریکی کالونی بن جائے۔[26] سید حسن نصر اللہ کا خیال تھا کہ اگر لبنان 2006 کی جنگ میں ہار جاتا تو امریکی صہیونی منصوبہ شام کے ساتھ ساتھ فلسطینی مزاحمت اور پھر ایران کی ناکہ بندی کرنا تھا۔[30]

اسرائیل اپنے تمام ابتدائی اہداف سے پیچھے ہٹ گیا اور جنگ کے اختتام پر اپنے ابتدائی اہداف میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں کر سکا۔[31] محققین حزب اللہ کو اپنے اہداف کے حصول میں فتح مند سمجھتے ہیں۔[32]

قانا کا قتل عام

33 روزہ جنگ میں اسرائیلیوں نے قانا میں دوسرا قتل عام کیا۔ یہ حملہ اسرائیلی جنگجوؤں نے آدھی رات کو تین منزلہ عمارت پر کیا جس کے مطابق تقریباً 50 افراد شہید اور زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں زیادہ تر بچے تھے۔ یہ قتل 30 جولائی کو کیا گیا۔[33] قانا میں 28 عام شہری کے قتل ہونے پر اسرائیل نے 48 گھنٹے کی جنگ بندی کو مان لیا۔[34]

حزب اللہ کے حیرت انگیز کام

ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی فوجی طاقت کا موازنہ حزب اللہ سے نہ تو پہلے کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی اب۔[35] اس کے باوجود سید حسن نصر اللہ نے "الوعد الصادق" آپریشن کے بعد اپنی تقریر میں اعلان کیا کہ اگر اسرائیل تصادم اور جنگ کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسے ہم حیرت زدہ کریں گے۔[36]

اس جنگ میں حزب اللہ نے اہم فوجی سرپرائز دئے:

  • جنگ کے ابتدائی دنوں میں، حزب اللہ نے اسرائیل کے جدید فریگیٹ ساعر 5 (Sa'ar 5) پر میزائل حملہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔[37] سید حسن نصر اللہ نے اس آپریشن کا براہ راست اعلان کیا اور اسی تقریر میں میزائل کامیابی سے نشانے پر لگنے کا اعلان بھی کیا۔[37] اس کارروائی کی کامیابی سے اسرائیلی فوج کے حوصلوں میں ایک منفی لہر پیدا ہوئی اور مزاحمتی قوتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔[38] اسی طرح ایک اور فوجی جدید کشتی بھی حزب اللہ کے میزائیل کا نشانہ بن گئی۔[37]
  • حزب اللہ حیفہ کی اہم بندرگاہ پر میزائل حملہ کرنے میں کامیاب رہی اور کچھ مدت بعد، اس نے حیفہ سے مزید دور علاقوں اور قصبوں پر بھی حملہ کیا۔[39]
  • اسرائیلی فوج مرکاوا ٹینک سے لیس تھی اور اسے ایک مضبوط قلعہ سمجھتی تھی۔ حزب اللہ ان ٹینکوں کو راکٹوں سے تباہ کرنے اور دشمن کو اس طرح سے بہت زیادہ جانی نقصان دینے میں کامیاب رہی۔[40]
  • حزب اللہ نے اسرائیلی ہیلی کاپٹر کو بھی تباہ کر دیا۔[41]

جانی و مالی نقصانات

کامیابی کے جشن میں سید حسن نصراللہ:
«انسانی ذہن کیسے تصور کر سکتا ہے کہ لبنان کے چند ہزار مزاحمتی بچے 33 دن تک مشرق وسطیٰ کی سب سے طاقتور فضائیہ کے خلاف کھڑے ہوں گے... 40 ہزار افسروں، سپاہیوں اور دنیا کے سب سے طاقتور ٹینک اور خطے کی سب سے طاقتور فوج کا مقابلہ کرے؟ یہ مجاہدین اللہ کی مدد، اللہ کے تعاون اور اللہ کی رضا کے سوا ایسی فوج کو کیسے شکست دے سکتے ہیں؟»"'[42]

دونوں طرف سے ہونے والے مادی اور انسانی نقصانات کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔[32] ہتھیاروں کی برتری کی وجہ سے اسرائیل نے لبنان کے ملک اور عوام کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔[43] تباہیاں ایسی تھیں کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایک فیصد بھی احتمال نہیں دیتے تھے کہ ان دو سپاہیوں کے پکڑے جانے سے اتنی تباہی ہوگی اور جنگ کے نتائج کی پہلے سے منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔[11]

لبنان میں جانی و مالی نقصانات

اسرائیل نے اس جنگ میں 4,800,000 کلسٹر بم [یادداشت 1] کا استعمال کیا۔[45]

اسرائیل نے روزانہ اوسطاً 270 جنگی پروازیں کیں[46] اور بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ محققین نے ان حملوں کے لیے اسرائیل کے مقصد کے طور پر دو چیزوں کی نشاندہی کی ہے:

  • حزب اللہ کی تنصیبات کو تباہ کرنے اور لبنانی سرزمین میں اسرائیلی زمینی افواج کے داخلے کو آسان بنانے کے لیے مختلف علاقوں میں فضائی حملے۔
  • لبنان کی حکومت اور عوام پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ رائے عامہ کو حزب اللہ کے خلاف کھڑے ہونے پر مجبور کریں اور اس گروہ پر اسرائیل کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔[47]

اسرائیلی حملے خصوصی طور پر شیعہ نشین علاقوں پر ہوتے تھے۔[48] اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 15,000 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔[48] 31 جن میں ہوائی اڈے، تجارتی اور ماہی گیری کی بندرگاہیں، واٹر ہائیڈرولک سٹیشنز اور پاور پلانٹس شامل تھے۔ 80 پلوں اور تقریباً 90 کمپنیوں کو شدید نقصان پہنچا۔[48] دو ہسپتال مکمل نابود ہوئے اور تین ہسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا۔[48]

ضاحیہ، جنوبی بیروت

اس جنگ میں 1183 لبنانی شہری شہید ہوئے جن میں سے ایک تہائی بچے تھے۔[48] حزب اللہ نے مرنے والوں کے سرکاری اعداد و شمار نہیں بتائے ہیں۔ بعض محققین نے حزب اللہ کے ارکان کے جنازوں کی بنیاد پر شہداء کی تعداد 180 کے لگ بھگ بتائی ہے۔[49]

اسرائیل کے جانی و مالی نقصانات

حزب اللہ اس جنگ میں اسرائیل پر 4,000 راکٹ فائر کرنے میں کامیاب رہی۔[50] اور مجموعی طور پر اسرائیل کے 165 ہلاک ہوئے۔[51] جنگ کے دوران 56 مرکاوا 4 ٹینکوں پر حملہ کیا گیا جن میں سے بعض کی بعد میں مرمت ہوگئی۔[51] ساعر 5 فریگیٹ اور اسی طرح سپر ڈیفورا فریگیٹ[52] اور ایک ہیلی کاپٹر کو بھی نشانہ بنایا گیا۔[51]

بعض عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اس جنگ میں دیگر اسرائیلی جنگوں کے برعکس نہ صرف اسرائیلی فوج بلکہ ملک اسرائیل بھی شامل تھا۔[53] اس کے علاوہ اسرائیلی سرزمین پر حزب اللہ کے حملوں نے تباہی اور جانی نقصانات کی بحث کے علاوہ یہ اہم اثر بھی ڈالا کہ اسرائیلی عوام بھی سمجھ گئے کہ یہ جنگ ان کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے اور یہ اسرائیل کے اندرونی محاذ پر ایک بڑا دھچکا تھا۔[54]

جنگ بندی

سید حسن نصراللہ:
«انہوں نے یہ جنگ نہ لبنان کے لیے بند کی، نہ لبنانی بچوں اور عورتوں کے لیے، نہ ہی خوبصورت لبنان کے لیے، بلکہ صرف اسرائیل کے لیے۔»[55]

33 روزہ جنگ کے آخری دنوں میں اسرائیلیوں نے جنگ کے خاتمے کے لیے ایک نئی قرارداد پاس کرنے کی کوشش کی۔[56] اس جنگ میں اسرائیل نے 4,800,000 کلسٹر بم استعمال کیے جن میں سے 1,100,000 بم جنگ کے آخری 72 گھنٹوں میں گرائے گئے۔[45]

آخر کار، 12 اگست سنہ 2006ء کو سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا تاکہ جنگ کو ختم کیا جاسکے۔[57] اس قرارداد کے ڈرافٹ کو امریکہ اور فرانس نے مرتب کیا تھا اور ماہرین اس قرارداد کے لہجے کو اسرائیل کے حق میں قرار دیتے ہیں۔[28] اس قرارداد میں اسرائیل کی سرحد سے لے کر دریائے لیطانی تک ایک ایسے علاقے کے وجود کا مطالبہ کیا گیا جہاں لبنانی فوج اور اقوام متحدہ کی فوجیں تعینات ہوں گی۔[28]

یہ جنگ 33 دن تک جاری رہی اور فریقین کی جانب سے قرار داد منظور کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ جنگ بندی 14 اگست سنہ 2006ء کی صبح 8 بجے سے نافذ کی جائے گی جو کہ جنگ کا 34 واں دن ہے۔[58]

چھ روزہ جنگ سے موازنہ

سنہ 1967ء میں اسرائیلی فوج دریائے اردن کے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، شام میں گولان کی پہاڑیوں اور مصر کے صحرائے سینا پر قبضہ کرنے اور کئی عرب ممالک کی فوجوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی تھی۔[59] سنہ 1967ء میں عرب ممالک کی فوج نے چھ دن میں جنگ ہاری جبکہ حزب اللہ ملیشیا نے 33 دن کی جنگ میں فتح حاصل کی۔[60]

محققین کا خیال ہے کہ حزب اللہ کی فتح نے سنہ 1967ء میں مصر، شام اور اردن کی شکست کی تلافی کی، جس نے خطے کا سیاسی توازن بدل دیا تھا۔[60] ان دونوں جنگوں کا موازنہ عام لوگوں میں بہت مقبول تھا۔ قاہرہ اور عمان کے عام لوگوں سے نقل ہوا ہے کہ 33 روزہ جنگ کے دوران جنگ کے واقعات پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی مزاحمت کے دنوں کی تعداد پر بھی خصوصی توجہ تھی۔[60]

حوالہ جات

  1. «عماد مغنیہ، مغز متفکر عملیات‌ہای حزب‌اللہ چگونہ ترور شد؟»، سایت مشرق نیوز
  2. «بچہ مرفہی کہ امنیت اسرائیل را بہ خطر انداخت»، خبرگزاری فارس.
  3. «اسرار جنگ 33 روزہ شمارہ 18»، حبرگزاری تسنیم.
  4. الیاس، یومیات الوعد الصادق، 2006م، ج1، ص39.
  5. «مستند جنگ 33 روزہ و تبادل اسرا»، سایت آپارات.
  6. 6.0 6.1 رویوران، «دستاوردہای پیروزی حزب‌اللہ در جنگ 33 روزہ»، ص33.
  7. جمعی از نویسندگان، النصر المخضّب، 2006م، ص194.
  8. 8.0 8.1 پروندہ ویژہ جنگ 33 روزہ| ناگفتہ‌ہای عملیات وعدہ صادق حزب‌اللہ.
  9. جمعی از نویسندگان، النصر المخضّب، 2006م، ص231
  10. وکسمن، «اسرائیل پس از جنگ با حزب‌اللہ»، ص70.
  11. 11.0 11.1 عسگری، «نصراللہ: پیروزی مقاومت پیروزی ایران است»، ص31.
  12. عبدالستار، پیروزی حزب‌اللہ در جنگ 33روزہ، 1386ش، ص72.
  13. عبدالستار، پیروزی حزب‌اللہ در جنگ 33روزہ، 1386ش، ص80.
  14. ملاحظہ کریں: فاتحی، «بررسی توانمندی‌ہای نظامی حزب‌اللہ و اسرائیل در جنگ 33 روزہ».
  15. کروک، «چگونہ حزب‌اللہ اسرائیل را شکست داد؟»، ص106.
  16. حجازی، یک لبنان مقاومت یک اسراییل ادعا، 1385ش، ص137.
  17. «مستند الخراب الثالث، قسمت دوم»، سایت آپارات.
  18. حجازی، یک لبنان مقاومت یک اسرائیل ادعا، ص155.
  19. حجازی، یک لبنان مقاومت یک اسرائیل ادعا، ص144.
  20. حجازی، یک لبنان مقاومت یک اسراییل ادعا، 1385ش، ص143.
  21. «متن پیام امام خامنہ‌ای بہ سید حسن نصراللہ در زمان جنگ 33روزہ»، خبرگزاری تسنیم.
  22. «دعایی کہ رہبر انقلاب بہ مجاہدان حزب‌اللہ توصیہ کردند»، سایت آیت‌اللہ خامنہ‌ای.
  23. رہبر معظم انقلاب: پیروزی مقاومت اسلامی، پیروزی اسلام و عزت ملتہای عرب
  24. «در میانہ آتش»، سایت آیت‌اللہ خامنہ‌ای.
  25. عباسی، «تأثیر سیاست‌ہای آمریکا و فرانسہ بر روابط جمہوری اسلامی ایران و لبنان (مطالعہ موردی: جنگ 33 روزہ)»، ص171.
  26. 26.0 26.1 26.2 حطیط، «حرب 2006 علی لبنان.. خلفیة وأداء ونتائج»، سایت الجزیرہ.
  27. «مستند الخراب الثالث، قسمت سوم»، سایت آپارات
  28. 28.0 28.1 28.2 وکسمن، «اسرائیل پس از جنگ با حزب‌اللہ»، ص74.
  29. حجازی، یک لبنان مقاومت یک اسرائیل ادعا، ص149.
  30. «سید حسن نصراللہ: جنگ 33 روزہ با ہدف سیطرہ آمریکا بر منطقہ صورت گرفت»، خبرگزاری فارس.
  31. اسرار جنگ 33 روزہ شمارہ 8، خبرگزاری تسنیم.
  32. 32.0 32.1 رویوران، «دستاوردہای پیروزی حزب‌اللہ در جنگ 33 روزہ»، ص33.
  33. جمعی از نویسندگان، النصر المخضّب، 2006م، ص118.
  34. کروک، «چگونہ حزب‌اللہ اسرائیل را شکست داد؟»، ص106.
  35. جنگ 33 روزہ لبنان مقدمہ‌ای برای حملہ بہ ایران بود، خبرگزاری حوزہ.
  36. شدید، «المفاجأة الأولی.. ساعر (5) تحترق قبالة بیروت»، سایت العہد نیوز.
  37. 37.0 37.1 37.2 «مستند الخراب الثالث، قسمت اول»، سایت آپارات.
  38. «اطلاعات منتشر نشدہ از عملیات منحصربہ‌فرد حزب‌اللہ»، خبرگزاری تسنیم.
  39. «مستند الخراب الثالث، قسمت اول»، سایت آپارات.
  40. «مستند الخراب الثالث، قسمت دوم»، سایت آپارات.
  41. «مستند الخراب الثالث، قسمت سوم»، سایت آپارات.
  42. الیاس، یومیات الوعد الصادق، 2006م، ج2، ص372.
  43. رویوران، «دستاوردہای پیروزی حزب‌اللہ در جنگ 33 روزہ»، ص33.
  44. «بمب خوشہ‌ای چیست؟»، خبرگزاری ایسنا.
  45. 45.0 45.1 «مستند جنگ پنہان (جنگ 33 روزہ حزب‌اللہ لبنان با اسرائیل)»، سایت یوتیوب.
  46. رویوران، «دستاوردہای پیروزی حزب‌اللہ در جنگ 33 روزہ»، ص35.
  47. «مستند الخراب الثالث، قسمت سوم»، سایت آپارات.
  48. 48.0 48.1 48.2 48.3 48.4 سپہر، «گزارش: نگاہی آماری بہ خسارات لبنان در تہاجم اخیر اسرائیل»، ص185.
  49. کروک، «چگونہ حزب‌اللہ اسرائیل را شکست داد؟»، ص114.
  50. وکسمن، «اسرائیل پس از جنگ با حزب‌اللہ»، ص72.
  51. 51.0 51.1 51.2 «خسائر إسرائیل فی حرب تموز 2006م»، سایت المیادین.
  52. فاتحی، «بررسی توانمندی‌ہای نظامی حزب‌اللہ و اسرائیل در جنگ 33 روزہ»، ص121.
  53. «مستند الخراب الثالث قسمت چہارم»، سایت آپارات.
  54. «مستند الخراب الثالث قسمت چہارم»، سایت آپارات.
  55. الیاس، یومیات الوعد الصادق، 2006م، ج2، ص374.
  56. «جنگ 33 روزہ لبنان مقدمہ‌ای برای حملہ بہ ایران بود»، خبرگزاری رسمی حوزہ.
  57. وکسمن، «اسرائیل پس از جنگ با حزب‌اللہ»، ص74.
  58. الیاس، یومیات الوعد الصادق، 2006م، ج2، ص320.
  59. حجازی، یک لبنان مقاومت یک اسراییل ادعا، 1385ش، ص125.
  60. 60.0 60.1 60.2 کروک، «چگونہ حزب‌اللہ اسرائیل را شکست داد؟»، ص117.

یادداشت

  1. وہ بم جو بڑے بم کے پھٹنے کے بعد چھوڑے جاتے ہیں اور ہر ایک میں پھٹنے اور نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ بم ایک وسیع علاقے پر محیط ہوتے ہیں۔[44]

مآخذ