البرہان فی تفسیر القرآن (کتاب)
البرہان فى تفسير القرآن شیعہ اہم ترین روایی تفاسير میں سے ہے جسے سید ہاشم بحرانی نے تحریر کیا ہے۔ مصنف نے اس تفسیر میں قرآن کریم کی آیات کے تناسب سے مختلف فقہی موضوعات، انبیاء کی داستان اور ان کی احادیث اور فضايل اہل بیت(ع) کی طرف اشادہ کیا ہے۔ بحرانی اخباری ہیں اور ان کی تفسیر اسی نہج پر لکھی گئی ہے۔ محققین اور مفسرین نے ان کے بعض مطالب پر اشکالات اور اعتراضات کئے ہیں۔
مشخصات | |
---|---|
مصنف | سید ہاشم بحرانی |
موضوع | تفسیر قرآن |
زبان | عربی |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | موسسہ الاعلمی |
اس تفسیر میں دوسری تفاسیر جیسے التبیان کے برخلاف کسی تجزیہ و تحلیل اور آیات کے معنی میں اجتہاد وغیرہ سے پرہیز کرتے ہوئے صرف قرآنی آیات کے ضمن میں وارد ہونے والی تفسیری روایات کی جمع آوری پر اکتفاء کیا گیا ہے۔
مولف اور تحریر کا مقصد
سید ہاشم بحرانی جو علامہ بحرانی کے نام سے معروف ہیں گیارہویں اور بارہویں صدی کے شیعہ فقہاء، محدثین اور مفسرین میں سے ہیں۔
کتاب کے مقدمے میں مصنف نے اس کام کے مقصد اور ہدف کو قرآن کی تفسیر اور اس کے اسرار و رموز کے حوالے سے اہل بیت(ع) کے نظریات سے آشنائی کیلئے کوئی منبع پیش کرنا قرار دیا ہے کیونکہ اس عظیم آسمانی کتاب کو سمجھنے کیلئے اہل بیت علیہم السلام کے نظرات سے واقفیت کی ضرورت کسی سے مخفی نہیں ہے۔ [1]
کتاب کا ڈھانچہ اور روش تحریر
علامہ بحرانی نے اس تفسیر میں قرآن کی تفسیر کے حوالے سے اہل بیت(ع) کی طرف سے صادر ہونے والی بہت سی احادیث کو جمع کیا ہے۔[2].
مؤلف کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
- کتاب البرہان، آپ کو علوم قرآن کے بہت سے اسرار و رموز سے آشنا کرتی ہے۔ بعض دینی علوم کے مسائل، انبیاء (ع) کی داستان اور فضائل اہل بیت (ع) کو آپ کے سامنے روشن کرتی ہے۔ میں نے ان احادیث کو معتبر اور قابل اعتبار کتابوں سے انتخاب کیا ہے جن کے مصنفین علماء و مشایخ میں سے ہیں۔ اکثر روایات کو شیعہ منابع سے نقل کیا ہے لیکن جہاں پر اہل سنت کی احادیث اہل بیت(ع) کی احادیث سے موافق ہیں یا ان میں اہل بیت (ع) کے فضائل بیان ہوئے ہیں، کو بھی نقل کیا ہے۔ ابن عباس سے بھی کچھ احادیث آیات کی تفسیر میں نقل کیا ہے کیونکہ وہ حضرت علی(ع) کا شاگرد ہیں۔[3]
اس کتاب میں مصنف کی روش کچھ اس طرح ہے کہ پہلے مورد نظر سورہ کا نام، محل نزول، اسکی فضیلت اور آیات کی تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس کے بعد وہ آیات جن کی تفسیر میں روایات وارد ہوئی ہیں، کو ذکر کرتے ہوئے اس سے مربوط روایات کو ذکر کرتے ہیں۔[4]
علامہ بحرانى اس کتاب میں صرف احادیث کو ذکر کرنے پر اکتفاء کیا ہے اور ہر حصے کے آخر میں اس حصے سے مربوط احادیث کے اسناد کو ذکر کیا ہے اور اہل سنت منابع سے نقل ہونے والی احادیث کے اسناد کو جداگانہ طور پر ذکر کیا ہے۔ علامہ بحرانی اپنی کتاب کو آیات کی تأویل بیان کرنے والی کتاب قرار دیتے ہیں،[5] اس سے ان کی مراد ائمہ سے نقل ہونے والی احدایث اور ان کی فضائل کا ذکر کرنا ہے۔ انہوں نے تفسیر کے دوران مطالب کی وضاحت کیلئے اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا ہے۔ لیکن اصل مطالب کو پیش کرنے سے پہلے ایک نسبتا طولانی مقدمے میں تفسیر سے متعلق اپنی نظریات اور اور مبانی کی توضیح دی ہے۔[6] ان کی اس کتاب پر ایک اور مقدمہ ابو الحسن شريف عاملى اصفہانى (متوفی 1138 يا 1140 ھ) نے مرآۃ الانوار و مشكاۃ الاسرار کے عنوان سے لکھا ہے۔
علامہ بحرانی نے باب نمبر 16 میں قرآنی مسائل کا دیباچہ اور تفسیر کے حوالے سے اپنی نظریات کو بنان کیا ہے۔ ان ابواب اور مقدمات سے جو چیز نتیجہ لیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی نظر میں قرآن کی تفسیر صرف اور صرف ائمہ معصومین (ع) کے ساتھ مختص ہے یہاں تک کہ اس کتاب کے آٹھویں باب میں انہوں نے صریحا دوسروں کو تفسیر کرنے سے منع کیا ہے۔ اگرچہ یہاں تفسیر سے ان کی مراد یہاں پر زیادہ تأویل سے ملتی جلتی ہے۔ پندرہویں باب میں قرآن اور اہل بیت (ع) کی ہمراہی اور ہمبستگی پر زور دیتے ہوئے اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ قرآن کا باطن اور اس کا علم صرف اور صرف ائمہ(ع) کی پاس ہے۔ آخری باب یعنی باب نمبر 16 کے مقدمے میں بعض منابع کی معرفی اور بعض تفسیری اصطلاحات کا ذکر کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان اصطلاحات جیسے ناسخ و منسوخ، محكم و متشابہ، عام و خاص اور تقديم و تأخير میں سے کسی ایک کی تعریف یا توضیح دیں۔ یوں روایات اور احادیث کے ذریعے قرآنی آیات کی تفسیر کیلئے زمینہ ہموار کرتے ہیں۔ جو چیز تفسیر البرہان پر حاکم ہے وہ ایک طرح سے اہل بیت(ع) کی حقانیت کا دفاع اور انکی فضائل کا بیان ہے۔
اس تفسیر کے مآخذ
اس تفسیر میں مصنف نے جن منابع روایی سے استفادہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
- تفسیر قمی
- تفسیر عیاشی
- بصائرالدرجات، محمد بن حسن صفار
- الکافی، کلینی
- قرب الإسناد، عبد اللہ بن جعفر حمیری
- الإرشاد
- الأمالی؛ الإختصاص، شیخ مفید
- کتاب الزہد، حسین بن سعید اہوازی
- کتاب سلیم بن قیس ہلالی
- کتاب ابن شاذان
- علی بن جعفر کے امام موسی بن جعفر(ع) سے پوچھے گئے سوالات
- من لا یحضرہ الفقیہ
- کمال الدین و تمام النعمۃ
- معانی الأخبار
- علل الشرائع
- بشارات الشیعۃ
- صفات الشیعۃ
- التوحید
- عیون أخبار الرضا
- الخصال
- ثواب الاعمال و عقاب الاعمال
- التہذیب، الإستبصار، الأمالی، شیخ طوسی
- خصائص الأئمۃ
- المناقب الفاخرۃ فی العترۃ الطاہرۃ، سید رضی
- المحاسن، احمد بن محمد بن خالد برقی
- تفسیر مجمع البیان، تفسیر جوامع الجامع، طبرسی
- مصباح الشریعۃ اس کتاب کی احادیث امام جعفر صادق (ع) سے منسوب ہیں۔
- منہاج الحق و الیقین، ولی بن نعمۃ اللہ حسینی رضوی حائری
- تأویل الآیات الباہرۃ فی العترۃ الطاہرۃ، شیخ شرف الدین نجفی
- ما أنزل من القرآن فی أہل البیت، شیخ محمد بن عباس بن مروان بن ماہیار معروف بہ ابن جُحام
- تحفۃ الإخوان، الطرائف، سید ابن طاوس
- ربیع الأبرار
- الکشاف فی تفسیر القرآن، زمخشری
- المناقب، محمد بن علی بن شہر آشوب
- مجموعہ ورام، شیخ أبی الحسین ورام
- الإحتجاج، شیخ احمد بن علی بن أبی طالب طبرسی
- کامل الزیارات، جعفر بن محمد بن قولویہ
- مشارق انوار الیقین، شیخ رجب برسی
ان کے علاوہ دوسرے منابع جن کا ذکر البرہان میں مختلف جگہوں پر کیا گیا ہے۔[7]
اعتراضات
محمد مہدی آصفی لکھتے ہیں:
- "تفسیر البرہان میں بہت زیادہ علمی جد و جہد انجام دینے کے باوجود اس کتاب میں غلو اور تحریف سے متعلق بعد ضعیف روایات بھی موجود ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محترم مصنف نے ضعیف احادیث کو الگ کرنے کی یا اصلا زحمت نہیں فرمائی ہے یا اس حوالے سے ان کا اقدام کافی نہیں تھا۔ انہوں نے ایسے مصادر اور منابع سے بھی احادیث نقل کئے ہیں جن پر جعل حدیث اور ضعیف ہونے کا الزام ہے۔ اس طرح انہوں نے بعض ایسے احادیث کو بھی نقل کئے ہیں جو سند کے اعتبار سے ضعیف اور متن کے اعتبار سے مشکوک ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ: البرہان علم تفسیر میں قدم رکھنے والے محققین کیلئے ایک مفید علمی سرمایہ ہے اور علم حدیث اور رجال سے آشنائی رکھنے اور احادیث کو ضعف، اضطراب، قوت اور صحت و سقم سے آشنائی رکھنے والے حضرات کیلئے ان احادیث کو استخراج کیلئے زمینہ ہموار کی ہے اور ضعیف اور مضطرب روایات کی موجودگی علامہ بحرانی کی اس کام کی اہمیت میں کوئی کمی اینجاد نہیں کرتی جس طرح علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار ضعیف و مضطرب روایات پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود اس کتاب کی اہمیت اور مکتب اہل بیت(ع) کے علمی خزانے کی اس عظیم جد و جہد کی قدر و قیمت میں کوئی نقص ایجاد نہیں کرتی۔ منتہی احادیث کی جمع آوری اور انہیں مرتب کرنا پہلا مرحلہ ہے دوسرا مرحلہ ان احادیث کا تجزیہ اور تحلیل کر کے صحیح اور ضعیف روایات کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ہے اور تیسرا مرحلہ ان صحیح اور قابل اعتماد احادیث سے تفسیر قرآن میں اہل بیت(ع) کی کیا روش اور طریقہ کار تھا اس حوالے سے ایک کلی اصول اور قوانین کا استخراج ہے۔ ان تینوں مراحل کی تکمیل کے بغیر اہل بیت(ع) کی احادیث تفسیری سے کماحقہ استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے"[8]
آیت اللہ معرفت اپنی کتاب التفسیر و المفسرون میں لکھتے ہیں:
- "سید ہاشم بحرانی فاضل محدیثن اور روایات کو جمع کرنے اور ان میں تحقیق و جستجو کرنے والے فاضل محققین میں سے ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں صرف احادیث کو جمع کیا ہے اس کے علاوہ نہ ان کے بارے میں کوئی چھان بین کی ہے اور نہ ان میں سے جو احادیث ظاہرا عقل اور نصوص قطعی کے مخالف ہیں ان کی تأویل یا ان کے تعارض کو ختم کرنے کیلئے کسی راہ حل کی تلاش کی ہے۔"[9]
سید محمد علی ایازی لکھتے ہیں:
- "مؤلف ان اخباریوں میں سے ہیں جو قرآن کی تفسیر کو صرف اور صرف اہل بیت(ع) کی طرف سے صادر ہونے والی احادیث کے ذریعے ہی ممکن سمجھتے ہیں اس کے علاوہ قرآن کی تفسیر کو جائز نہیں سمجھتے اور تدبر،اجتہاد، ذوق شخصی یا اپنے علاوہ کسی اور کے ذریعے نقل ہونے والی احادیث کے ذریعے قرآن کی تفسیر سے منع کرنے ہیں"۔[10]
طباعت
سنگی اور جدید طباعت
تفسیر البرہان کے سنگی طباعت کے قدیمی نسخوں کے علاوہ جدید طباعت کے مختلف نسخے جو اس وقت موجد ہیں وہ درج ذیل ہیں:
- چاپ حروفی 5 جلدوں میں (ایک جلد مقدمہ اور 4 جلد تفسیر) مؤسسہ اسماعیلیان قم کے توسط سے منتشر ہوئی ہے۔
- مؤسسہ الوفا بیروت نے 4 جلدوں میں
- اسلامیہ کتابفروشی تہران نے 5 جلدوں میں
- مؤسسہ الرسالۃ بیروت نے سنہ 1403 ھ میں
- ایک جدید طباعت 5 جلدوں میں مرکز چاپ و نشر مؤسسہ بعثت تہران کے توسط سے جو اس موسسہ کے تحقیقاتی کمیٹی کے تحقیق اور شیخ محمد مہدی آصفی کے مقدمے کے ساتھ منتشر ہوئی ہے۔
قلمی نسخے
- کتابخانہ وزیری یزد میں نمبر شمار (5998)
- کتابخانہ مرکزی دانشگاہ تہران نمبر شمار (833)
- دارالکتب قاہرہ نمیر شمار (19109 ب)
- کتابخانہ فیضیہ قم (39- 40- 16 تفسیر)
- کتابخانہ عمومی آیتاللہ حکیم، عراق نمیر شمار (690)
- کتابخانہ دانشکدہ ادبیات دانشگاہ تہران نمبر شمار (457)
- کتابخانہ دانشکدہ الہیات دانشگاہ تہران نمبر شمار 20 ب و 25 ب
- کتابخانہ آستان قدس رضوی مشہد نمبر شمار 83- 91
- کتابخانہ مدرسہ عالی شہید مطہری تہران نمیر شمار (2057)
حوالہ جات
- ↑ بحرانى، ہاشم، البرہان فى تفسير القرآن، ج ۱، ص ۴
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج۳، ص۹۳
- ↑ بحرانى، ہاشم، البرہان فى تفسير القرآن، ج۱، ص۴
- ↑ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی. ص۴۷۵
- ↑ بحرانى، ہاشم، البرہان فى تفسير القرآن، ج۱، ص۴
- ↑ بحرانى، ہاشم، البرہان فى تفسير القرآن، ج۱، ص۲-۵
- ↑ البرہان، ج ۱، ص ۷۰ - ۷۳.
- ↑ بحرانی، سیدہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، مقدمہ شیخ محمد مہدی آصفی.
- ↑ معرفت، محمدہادی، التفسیر و المفسرون، ص۳۳۰-۳۳۱
- ↑ ایازی،سید محمد علی. المفسرون حیاتہم و منہجہم. ص۲۰۱
مآخذ
- آقا بزرگ طہرانی، محمد محسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳.
- ایازی، سید محمد علی. المفسرون حیاتہم و منہجہم. تہران، انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۴ق.
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، چاپ محمود بن جعفر موسوی زرندی، تہران ۱۳۳۴ش.
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بعثت.
- خرمشاہي، بہاء الدين، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی. تہران، دوستان ، ناہيد ، ۱۳۷۷ش.
- معرفت، محمد ہادی، التفسیر و المفسرون، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، ۱۴۱۸ق.
بیرونی روابط
- برای دانلود تفسیر البرہان بہ این آدرس مراجعہ شود.[1]