مندرجات کا رخ کریں

"اہل بیت علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{شیعہ}}
{{شیعہ}}
 
ہ'''اہل‌‌ بیت''' خاندان پیغمبر اکرم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد]]ؐ کو کہا جاتا ہے اور [[آیت تطہیر]] اور [[آیت مودت]] میں ان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اور وہ [[امام علی علیہ السلام|امام علی]]ؑ، [[حضرت فاطمہ|فاطمہ زہراء]]ؑ، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن]]ؑ، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ کی اولاد میں سے نو  [[ائمۂ شیعہ|ائمہ معصومین]]ؑ سے عبارت ہیں۔
'''اہل‌‌ بیت''' خاندان پیغمبر اکرم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|حضرت محمد]]ؐ کو کہا جاتا ہے اور [[آیت تطہیر]] اور [[آیت مودت]] میں ان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اور وہ [[امام علی علیہ السلام|امام علی]]ؑ، [[حضرت فاطمہ|فاطمہ زہراء]]ؑ، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن]]ؑ، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ کی اولاد میں سے نو  [[ائمۂ شیعہ|ائمہ معصومین]]ؑ سے عبارت ہیں۔


[[شیعہ]] عقیدے کے مطابق اہل بیتؑ مقام عصمت کے مالک ہیں اور تمام اصحاب پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ان کی محبت و [[مودت]] مسلمانوں پر واجب ہے اور اہل بیتؑ مسلمانوں کی [[ولایت]] اور [[امامت]]  کے عہدیدار ہیں؛ نیز مسلمانوں پر فرض ہے کہ دینی مسائل میں اہل بیتؑ کو اپنا مرجع سمجھیں اور ان سے رجوع کریں۔
[[شیعہ]] عقیدے کے مطابق اہل بیتؑ مقام عصمت کے مالک ہیں اور تمام اصحاب پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ان کی محبت و [[مودت]] مسلمانوں پر واجب ہے اور اہل بیتؑ مسلمانوں کی [[ولایت]] اور [[امامت]]  کے عہدیدار ہیں؛ نیز مسلمانوں پر فرض ہے کہ دینی مسائل میں اہل بیتؑ کو اپنا مرجع سمجھیں اور ان سے رجوع کریں۔
سطر 10: سطر 9:
چنانچہ '''اہل بیت''' [یعنی اہل خانہ] کے معنی ایک گھر کے مکینوں کے ہیں۔ اور مسلمانوں کے اہل بیت کے خاص معنی ہیں جو بیان کئے جائیں گے۔<ref>المفردات فی غریب القرآن، ص29</ref>.
چنانچہ '''اہل بیت''' [یعنی اہل خانہ] کے معنی ایک گھر کے مکینوں کے ہیں۔ اور مسلمانوں کے اہل بیت کے خاص معنی ہیں جو بیان کئے جائیں گے۔<ref>المفردات فی غریب القرآن، ص29</ref>.


[لفظ] "آل" بھی در اصل "اہل" ہی تھا، حرف "ہاء" "ہمزہ = ء" اور پھر "الف = ا" میں تبدیل ہوا ہے۔<ref>لسان العرب، ج1، ص186</ref> لفظ "آل" کا استعمال "اہل" کی نسبت استعمال محدود ہے؛ کیونکہ آل کا اضافہ زمان و مکان اور فن و حرفت کی طرف نہیں ہوا ہے<ref>اور کسی کو آل مدینہ، آل مکہ، آل فن یا آل صنعت و تجارت نہیں کہا گیا ہے۔</ref> اور اس کا تعلق [[انسان]] سے ہے اور انسانوں کے سلسلے میں بھی صرف ان انسانوں کے لئے مختص ہے جو کسی خاص ـ مثبت یا منفی ـ مرتبت کے حامل ہیں جیسے: آل ابراهیم، آل عمران، آل فرعون۔<ref>المفردات، ص30</ref>.
[لفظ] "آل" بھی در اصل "اہل" ہی تھا، حرف "ہاء" "ہمزہ = ء" اور پھر "الف = ا" میں تبدیل ہوا ہے۔<ref>لسان العرب، ج1، ص186</ref> لفظ "آل" کا استعمال "اہل" کی نسبت استعمال محدود ہے؛ کیونکہ آل کا اضافہ زمان و مکان اور فن و حرفت کی طرف نہیں ہوا ہے<ref>اور کسی کو آل مدینہ، آل مکہ، آل فن یا آل صنعت و تجارت نہیں کہا گیا ہے۔</ref> اور اس کا تعلق [[انسان]] سے ہے اور انسانوں کے سلسلے میں بھی صرف ان انسانوں کے لئے مختص ہے جو کسی خاص ـ مثبت یا منفی ـ مرتبت کے حامل ہیں جیسے: آل ابراہیم، آل عمران، آل فرعون۔<ref>المفردات، ص30</ref>.


== اہل بیت قرآن میں ==
== اہل بیت قرآن میں ==
سطر 16: سطر 15:
لفظ '''اہل بیت''' قرآن میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
لفظ '''اہل بیت''' قرآن میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:


# [[سورہ ہود]] کی آیت 73 جس کا تعلق "[[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]ؑ" اور ان کی زوجہ سے ہے: <font color=green>{{حدیث|'''"قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ"۔'''}}</font>
# [[سورہ ہود]] کی آیت 73 جس کا تعلق "[[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]ؑ" اور ان کی زوجہ سے ہے: <font color=green>{{حدیث|'''"قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ"۔'''}}</font>
:ترجمہ: فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ تم پر اے گھر والو! اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں؛ یقیناً اے اس گھر والو! یقینا وہ قابل ستائش ہے، بزرگی والا۔
:ترجمہ: فرشتوں نے کہا: کیا تم اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ تم پر اے گھر والو! اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں؛ یقیناً اے اس گھر والو! یقینا وہ قابل ستائش ہے، بزرگی والا۔
# [[سورہ قصص]] کی آیت 12، جس کا تعلق خاندان [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]]ؑ سے ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ"۔'''}}</font>
# [[سورہ قصص]] کی آیت 12، جس کا تعلق خاندان [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]]ؑ سے ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِن قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ"۔'''}}</font>
سطر 29: سطر 28:
=== احادیث نبوی میں ===
=== احادیث نبوی میں ===
لفظ "اہل بیت" چار قسم کے معانی میں استعمال ہوا ہے جیسے: اعمّ (یا بہت عام)، عامّ، خاصّ اور اخصّ (یعنی زيادہ خاص)۔
لفظ "اہل بیت" چار قسم کے معانی میں استعمال ہوا ہے جیسے: اعمّ (یا بہت عام)، عامّ، خاصّ اور اخصّ (یعنی زيادہ خاص)۔
# ااہل بیت بمعنی اَعَمّ استعمال <br />یہ لفظ ان لوگوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جن کی [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آنحضرتؐ]] کے ساتھ  کوئی نَسَبی اور خاندانی قرابت داری نہیں ہے؛ اور یہ وہ لوگ ہیں جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آنحضرتؐ]] کی پیروی میں ثابت قدم اور استوار ہیں؛ جیسا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]]  نے [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]]<ref>مناقب ابن شهرآشوب، ج1، ص85; الصواعق المحرقة، ص281</ref> اور [[حضرت ابوذر غفاری|ابوذر غفاری]]<ref>مکارم الاخلاق، ص459</ref> کو اہل بیتؑ میں شمار کیا ہے۔ بعض روایات میں بعض دیگر افراد کو بھی اہل بیت میں شمار کیا گیا ہے؛ ابن حجر کی روایت کے مطابق [[اسامہ بن زيد]]<ref>الصواعق المحرقة، ص281</ref> اور طبری کے مطابق [[واثلة بن اسقع]]<ref>تفسیر طبری، ج22، ص12</ref> کو بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔
# ااہل بیت بمعنی اَعَمّ استعمال <br />یہ لفظ ان لوگوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جن کی [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آنحضرتؐ]] کے ساتھ  کوئی نَسَبی اور خاندانی قرابت داری نہیں ہے؛ اور یہ وہ لوگ ہیں جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آنحضرتؐ]] کی پیروی میں ثابت قدم اور استوار ہیں؛ جیسا کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]]  نے [[حضرت سلمان فارسی|سلمان فارسی]]<ref>مناقب ابن شہرآشوب، ج1، ص85; الصواعق المحرقة، ص281</ref> اور [[حضرت ابوذر غفاری|ابوذر غفاری]]<ref>مکارم الاخلاق، ص459</ref> کو اہل بیتؑ میں شمار کیا ہے۔ بعض روایات میں بعض دیگر افراد کو بھی اہل بیت میں شمار کیا گیا ہے؛ ابن حجر کی روایت کے مطابق [[اسامہ بن زيد]]<ref>الصواعق المحرقة، ص281</ref> اور طبری کے مطابق [[واثلة بن اسقع]]<ref>تفسیر طبری، ج22، ص12</ref> کو بھی ان لوگوں میں شامل ہیں۔
# اہل بیت بمعنی عامّ <br /> اہل بیت کے عام معنی میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے تمام نَسَبی اقرباء شامل ہیں جن پر صدقۂ واجبہ [[زکوٰة]] حرام قرار دیا گیا۔<ref>صحیح مسلم، ج4، ص1873، باب فضائل علی بن ابی طالب، حدیث7</ref> ابن حجر کی منقولہ روایت میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے چچا [[عباس بن عبدالمطلب|عباس]] اور ان کی اولاد کو بھی اہل بیت میں شمار کیا گیا ہے۔<ref>الصواعق، ص281</ref>.
# اہل بیت بمعنی عامّ <br /> اہل بیت کے عام معنی میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے تمام نَسَبی اقرباء شامل ہیں جن پر صدقۂ واجبہ [[زکوٰة]] حرام قرار دیا گیا۔<ref>صحیح مسلم، ج4، ص1873، باب فضائل علی بن ابی طالب، حدیث7</ref> ابن حجر کی منقولہ روایت میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے چچا [[عباس بن عبدالمطلب|عباس]] اور ان کی اولاد کو بھی اہل بیت میں شمار کیا گیا ہے۔<ref>الصواعق، ص281</ref>.
# اہل بیت بمعنی خاصّ <br /> اہل بیتؑ کے خاص معنی کا تعلق [[:زمرہ:ازواج رسولؐ|ازواج رسولؐ]] سے ہے؛ بے شک [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کی زوجات ـ لغوی اور عرفی لحاظ سے ـ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے اہل بیتؑ میں شامل ہیں۔ یہاں "بیت" سے مراد بیتِ سُکنی (یعنی مقام سکونت یا گھر) ہے جو بیتِ نَسَب یا نبوت کے معنی میں نہيں ہے۔
# اہل بیت بمعنی خاصّ <br /> اہل بیتؑ کے خاص معنی کا تعلق [[:زمرہ:ازواج رسولؐ|ازواج رسولؐ]] سے ہے؛ بے شک [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کی زوجات ـ لغوی اور عرفی لحاظ سے ـ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے اہل بیتؑ میں شامل ہیں۔ یہاں "بیت" سے مراد بیتِ سُکنی (یعنی مقام سکونت یا گھر) ہے جو بیتِ نَسَب یا نبوت کے معنی میں نہيں ہے۔
# اہل بیت بمعنی اَخَصّ <br />اہل بیت کے اس معنی میں خاندان [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کے وہ افراد شامل ہیں جو [[عصمت]] کی امتیازی خصوصیت کے حامل ہیں۔ [[آیت تطہیر]] اور [[آیت مباہلہ]] کا مصداق [[اصحاب کساء]] ([[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] (علیہم السلام)) ہیں۔</ref> است <ref>مشکل الآثار، ج1، ص332ـ 339; الصواعق المحرقه، ص281</ref> [[حدیث ثقلین]]، [[حدیث سفینہ]] اور ـ تمام زمانوں میں اہل بیتؑ کی موجودگی اور کردار پر تاکید کرنے والی ـ دوسری حدیثوں کے مطابق [[اصحاب کساء]] کے علاوہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ کی نسل سے دوسرے [[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمہ معصومین]]ؑ بھی اہل بیتؑ بمعنی الاخص میں شمال ہیں۔
# اہل بیت بمعنی اَخَصّ <br />اہل بیت کے اس معنی میں خاندان [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کے وہ افراد شامل ہیں جو [[عصمت]] کی امتیازی خصوصیت کے حامل ہیں۔ [[آیت تطہیر]] اور [[آیت مباہلہ]] کا مصداق [[اصحاب کساء]] ([[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] (علیہم السلام)) ہیں۔</ref> است <ref>مشکل الآثار، ج1، ص332ـ 339; الصواعق المحرقہ، ص281</ref> [[حدیث ثقلین]]، [[حدیث سفینہ]] اور ـ تمام زمانوں میں اہل بیتؑ کی موجودگی اور کردار پر تاکید کرنے والی ـ دوسری حدیثوں کے مطابق [[اصحاب کساء]] کے علاوہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ کی نسل سے دوسرے [[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمہ معصومین]]ؑ بھی اہل بیتؑ بمعنی الاخص میں شمال ہیں۔


=== ائمۂ معصومینؑ کی احادیث ===
=== ائمۂ معصومینؑ کی احادیث ===
[[ائمۂ معصومین علیہم السلام|ائمۂ معصومین]]ؑ کی حدیثوں میں لفظ "اہل بیت" تین معنوں میں استعمال ہوا ہے:
[[ائمۂ معصومین علیہم السلام|ائمۂ معصومین]]ؑ کی حدیثوں میں لفظ "اہل بیت" تین معنوں میں استعمال ہوا ہے:
# اہل بیت بمعنی عام <br />اہل بیت کے عام معنی میں تمام سچے مؤمنین شامل ہیں جیسا کہ [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ نے فرمایا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"من اتقى منكم وأصلح فهو منا أهل البيت"۔''' }}</font> (ترجمہ: جو بھی صالح اور پرہیزگار ہو وہ ہم اہل بیت میں سے ہے)۔<ref> القاضي النعمان المغربي، دعائم الإسلام، ج1، ص62</ref>[[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام]]ؑ نے اپنے اس قول کے اثبات کے لئے [[قرآن|قرآن کریم]] کی دو آیتوں سے استناد و استشہاد کیا ہے: <br /> <font color=green> {{حدیث|'''"وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ"۔'''}}</font>(ترجمہ: تم میں سے جو ان سے دوستی [اور محبت] کرے وہ ان ہی میں سے ہے)۔ <ref>سورہ مائدہ آیت 51۔</ref> <br /> <font color=green> {{حدیث|'''"فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي"۔''' }}</font>(ترجمہ: پس جو بھی میری پیروی کرے بے شک وہ مجھ سے ہے)۔ <ref>سوره ابراهیم آیت 36۔</ref>
# اہل بیت بمعنی عام <br />اہل بیت کے عام معنی میں تمام سچے مؤمنین شامل ہیں جیسا کہ [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ نے فرمایا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"من اتقى منكم وأصلح فهو منا أهل البيت"۔''' }}</font> (ترجمہ: جو بھی صالح اور پرہیزگار ہو وہ ہم اہل بیت میں سے ہے)۔<ref> القاضي النعمان المغربي، دعائم الإسلام، ج1، ص62</ref>[[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام]]ؑ نے اپنے اس قول کے اثبات کے لئے [[قرآن|قرآن کریم]] کی دو آیتوں سے استناد و استشہاد کیا ہے: <br /> <font color=green> {{حدیث|'''"وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ"۔'''}}</font>(ترجمہ: تم میں سے جو ان سے دوستی [اور محبت] کرے وہ ان ہی میں سے ہے)۔ <ref>سورہ مائدہ آیت 51۔</ref> <br /> <font color=green> {{حدیث|'''"فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي"۔''' }}</font>(ترجمہ: پس جو بھی میری پیروی کرے بے شک وہ مجھ سے ہے)۔ <ref>سورہ ابراہیم آیت 36۔</ref>
# اہل بیت بمعنی خاصّ <br />اہل بیت کے اس معنی میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے اعزاء و اقارب شامل ہیں؛ جیسا کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"وَكَانَ رَسُولُ اَللَّهِ ص إِذَا اِحْمَرَّ الْبَأْسُ وَأَحْجَمَ اَلنَّاسُ قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِهِ فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَهُ حَرَّ اَلسُّيُوفِ وَالْأَسِنَّةِ فَقُتِلَ عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ وَقُتِلَ حَمْزَةُ يَوْمَ أُحُدٍ وَقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَةَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: جب بھی دشمنوں کے ساتھ جنگ میں شدت آتی اور "دوسرے" پسپا ہونے لگتے تو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ اپنے اہل بیت (اہل خاندان) کو آگے بڑھا دیتے تھے اور انہیں اپنے اصحاب پر پڑنے والی تلواروں اور نیزون کے سامنے ڈھال قرار دیتے تھے؛ چنانچہ [[عبيدہ بن حارث]] [[جنگ بدر|بدر]] میں شہید ہوئے، [[حمزہ بن عبدالمطلب]] [[جنگ احد|احد]] میں اور [[جعفر بن ابی طالب|جعفر طیار]] [[جنگ موتہ]] میں شہید ہوئے۔ <ref>نهج البلاغه،نامه9</ref>.
# اہل بیت بمعنی خاصّ <br />اہل بیت کے اس معنی میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے اعزاء و اقارب شامل ہیں؛ جیسا کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"وَكَانَ رَسُولُ اَللَّهِ ص إِذَا اِحْمَرَّ الْبَأْسُ وَأَحْجَمَ اَلنَّاسُ قَدَّمَ أَهْلَ بَيْتِهِ فَوَقَى بِهِمْ أَصْحَابَهُ حَرَّ اَلسُّيُوفِ وَالْأَسِنَّةِ فَقُتِلَ عُبَيْدَةُ بْنُ الْحَارِثِ يَوْمَ بَدْرٍ وَقُتِلَ حَمْزَةُ يَوْمَ أُحُدٍ وَقُتِلَ جَعْفَرٌ يَوْمَ مُؤْتَةَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: جب بھی دشمنوں کے ساتھ جنگ میں شدت آتی اور "دوسرے" پسپا ہونے لگتے تو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ اپنے اہل بیت (اہل خاندان) کو آگے بڑھا دیتے تھے اور انہیں اپنے اصحاب پر پڑنے والی تلواروں اور نیزون کے سامنے ڈھال قرار دیتے تھے؛ چنانچہ [[عبيدہ بن حارث]] [[جنگ بدر|بدر]] میں شہید ہوئے، [[حمزہ بن عبدالمطلب]] [[جنگ احد|احد]] میں اور [[جعفر بن ابی طالب|جعفر طیار]] [[جنگ موتہ]] میں شہید ہوئے۔ <ref>نهج البلاغہ،نامہ9</ref>.
# اہل بیت بمعنی اَخَصّ <br />اس معنی میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے وہ اعزاء و اقارب خاص شامل ہیں جو خاص مقام و منزلت اور ([[عصمت]] سمیت) ممتاز خصوصیات کے حامل ہیں اور ان کا کلام اور ان کی سیرت معیارِ حق اور راہنمائے حقیقت ہے؛ جیسا کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"أُنْظُرُوا أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ، وَاتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ، فَلَنْ يُخرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى، وَلَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدىً، فَإ نْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا، وَإ نْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا، وَلا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا، وَلا تَتَأَخَرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا"۔'''}}</font> ترجمہ: اپنے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی]]ؐ کے خاندان کی طرف دیکھو اور اسی سمت چلو جس سمت وہ جا رہے ہیں اور ان کے نقش پا پر قدم رکھو کیونکہ وہ کبھی بھی تمہیں راہ حق سے منحرف نہیں کرتے اور تمہیں ہلاکت میں نہیں ڈآلتے۔ اگر وہ بیٹھیں تو بیٹھ جاؤ اور اگر اٹھ کھڑے ہوں تو اٹھو؛ ان سے سبقت نہ لو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے اور ان سے پیچھے نہ رہو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے)۔<ref>نهج البلاغه، خطبه97</ref>. [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام مجتبی علیہ السلام]] نے عراقی عوام سے مخاطب ہوکر فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''إنا اهل البيت الذين قال الله فينا: "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"۔'''}}</font><ref>سوره احزاب آیت 33۔</ref> (ترجمہ: ہم اہل بیت وہ خاندان ہیں کہ خداوند متعال نے ہماری شان میں ارشاد فرمایا: "اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے)۔<ref> نور الدين علي بن أبي بكر الهيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،ج9 ص172۔ تفسیر ابن کثیر، ج5، ص458</ref> روایات و احادیث اس بارے میں زیادہ ہیں۔
# اہل بیت بمعنی اَخَصّ <br />اس معنی میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]]ؐ کے وہ اعزاء و اقارب خاص شامل ہیں جو خاص مقام و منزلت اور ([[عصمت]] سمیت) ممتاز خصوصیات کے حامل ہیں اور ان کا کلام اور ان کی سیرت معیارِ حق اور راہنمائے حقیقت ہے؛ جیسا کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"أُنْظُرُوا أَهْلَ بَيْتِ نَبِيِّكُمْ فَالْزَمُوا سَمْتَهُمْ، وَاتَّبِعُوا أَثَرَهُمْ، فَلَنْ يُخرِجُوكُمْ مِنْ هُدًى، وَلَنْ يُعِيدُوكُمْ فِي رَدىً، فَإ نْ لَبَدُوا فَالْبُدُوا، وَإ نْ نَهَضُوا فَانْهَضُوا، وَلا تَسْبِقُوهُمْ فَتَضِلُّوا، وَلا تَتَأَخَرُوا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوا"۔'''}}</font> ترجمہ: اپنے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی]]ؐ کے خاندان کی طرف دیکھو اور اسی سمت چلو جس سمت وہ جا رہے ہیں اور ان کے نقش پا پر قدم رکھو کیونکہ وہ کبھی بھی تمہیں راہ حق سے منحرف نہیں کرتے اور تمہیں ہلاکت میں نہیں ڈآلتے۔ اگر وہ بیٹھیں تو بیٹھ جاؤ اور اگر اٹھ کھڑے ہوں تو اٹھو؛ ان سے سبقت نہ لو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے اور ان سے پیچھے نہ رہو ورنہ ہلاک ہوجاؤگے)۔<ref>نہج البلاغہ، خطبہ97</ref>. [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام مجتبی علیہ السلام]] نے عراقی عوام سے مخاطب ہوکر فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''إنا اهل البيت الذين قال الله فينا: "إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"۔'''}}</font><ref>سورہ احزاب آیت 33۔</ref> (ترجمہ: ہم اہل بیت وہ خاندان ہیں کہ خداوند متعال نے ہماری شان میں ارشاد فرمایا: "اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ تم لوگوں سے ہر گناہ کو دور رکھے اے اس گھر والو! اللہ تمہیں پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے)۔<ref> نور الدين علي بن أبي بكر الہيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد،ج9 ص172۔ تفسیر ابن کثیر، ج5، ص458</ref> روایات و احادیث اس بارے میں زیادہ ہیں۔


[[شیعہ کتب]] میں مؤخر الذکر دو معانی میں سے دوسرے معنی زیادہ رائج ہیں اور جب بھی لفظ "اہل بیت" کسی قید اور قرینے کے بعد استعمال ہوجائے اس میں "اہل بیت بمعنی اخص" مد نظر ہوتے ہیں۔
[[شیعہ کتب]] میں مؤخر الذکر دو معانی میں سے دوسرے معنی زیادہ رائج ہیں اور جب بھی لفظ "اہل بیت" کسی قید اور قرینے کے بعد استعمال ہوجائے اس میں "اہل بیت بمعنی اخص" مد نظر ہوتے ہیں۔
سطر 45: سطر 44:
اہل بیت بمعنی اخص کی نمایاں ترین خصوصیت [[عصمت]] ہے۔ یہ خصوصیت [[آیت تطہیر]] سے بخوبی قابل ادراک ہے؛ کیونکہ اس آیت کریمہ میں اہل بیت کو ایسے افراد کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے کہ خداوند متعال نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھے۔ آیت کریمہ میں لفظ "إنّما" اور اس آیت کریمہ کی شان نزول میں منقولہ احادیث سے ثابت ہے کہ یہ [[عصمت]] اہل بیت کی خصوصیات میں شامل ہے اور ان ہی کے لئے مختص ہے۔
اہل بیت بمعنی اخص کی نمایاں ترین خصوصیت [[عصمت]] ہے۔ یہ خصوصیت [[آیت تطہیر]] سے بخوبی قابل ادراک ہے؛ کیونکہ اس آیت کریمہ میں اہل بیت کو ایسے افراد کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے کہ خداوند متعال نے ارادہ فرمایا ہے کہ ہر قسم کی پلیدی کو ان سے دور رکھے۔ آیت کریمہ میں لفظ "إنّما" اور اس آیت کریمہ کی شان نزول میں منقولہ احادیث سے ثابت ہے کہ یہ [[عصمت]] اہل بیت کی خصوصیات میں شامل ہے اور ان ہی کے لئے مختص ہے۔


[[حدیث ثقلین]] بھی ـ [[متواتر]] [[حدیث|احادیث]] ميں شامل ہے اور اس کی سند میں کسی قسم کا شک و تردد نہیں ہےـ <ref> اہل سنت نے بے شمار اصحاب رسولؐ سے یہ حدیث نقل کی ہے جن کی تعداد ایک قول کے مطابق 25 (عبداللّه بن عبدالرحمان دارمی، سنن الدارمی، ط استنبول 1401/ 1981) اور دوسرے قول کے مطابق 35 ہے۔ (حسن بن محمد دیلمی، ارشاد القلوب، قم 1368 ہجری) جبکہ ایک قول کے مطابق یہ تعداد 37 ہے۔ راویوں کی یہی تعداد بعد کے طبقات میں بھی جاری رہی ہے اسی بنا پر اس کو متواتر کہا جاتا ہے۔ یہ حدیث اہل سنت کے معتبر ترین منابع میں نقل ہوئی منجملہ: صحیح مسلم بن حجاج ، (حسین راضی، سبیل النجاة فی تتمة المراجعات، در عبدالحسین شرف الدین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت،1402/1982) مسند ابن حنبل، (علی بن عبداللّه سمهودی، جواهرالعقدین فی فضل الشرفین، چاپ مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت 1415/1995) (سیوطی، الدرّ المنثور) (عبدالحسین شرف الدین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت 1402/1982) (محمد بن حسن صفار قمی، بصائرالدرجات فی فضائل آل محمد «ص»، چاپ محسن کوچه باغی تبریزی، قم 1404) (علامه طباطبائی، تفسیر المیزان) (سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ افست بیروت 1404ـ 140) سنن دارِمی ، (احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسوی خرسان، نجف 1386/1966) سنن تِرْمِذی ، (فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان) (احمد بن عبداللّه طبری، ذخائر العقبی ' فی مناقب ذوی القربی '، قاهره 1356، چاپ افست بیروت (بی تا)) المعجم الکبیر طبرانی ، (فخرالدین بن محمد طریحی، مجمع البحرین، چاپ احمد حسینی، تهران 1362ہجری شمسی) المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشابوری ، (محمد بن حسن طوسی، الامالی، قم 1414) الدر المنثور سیوطی ، (محمد بن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت (بی تا)) فرائدالسِّمْطَیْن جوینی خراسانی ، (محمد بن حسن طوسی، تلخیص الشافی، چاپ حسین بحرالعلوم، قم 1394/1974) (حسن بن یوسف علامه حلّی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، چاپ حسین درگاهی، تهران 1411/1991) (حسن بن یوسف علامه حلّی، نهج الحق و کشف الصدق، بیروت 1982) ینابیع المودة قُندوزی ، (علی بن ابی طالب ؑ، امام اول، نهج البلاغه، چاپ صبحی صالح، بیروت (1387)، چاپ افست قم (بی تا)) کنزالعُمّال متقی (محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، چاپ هاشم رسولی محلاتی، قم 1380ـ1381، چاپ افست تهران (بی تا)) و نیز اسدالغابة ابن اثیر. (محمد بن عمر فخررازی، التفسیر الکبیر، قاهره (بی تا)، چاپ افست تهران (بی تا))۔ مجموغی طور پر علمائے اہل سنت میں سے 150 افراد نے حدیث ثقلین کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ (خلیل بن احمد فراهیدی، کتاب العین، چاپ مهدی مخزومی و ابراهیم سامرائی، قم 1405)۔ نفحات الأزهار فی خلاصة عبقات الأنوار، جلد اوّل</ref> اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کی عصمت (بمعنی اخص) پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس حدیث میں اہل بیت "ثقل اصغر" کے عنوان سے [[قرآن]] کے برابر میں قرار پائے ہیں جو کہ [[قرآن|ثقل اکبر]] ہے؛ اور ان دونوں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کا ورثہ اور گرانبہا امانتیں قرار دیا گیا ہے جن میں کبھی جدائی نہيں آتی اور جو بھی ان کا دامن تھامے اور ان کی تعلیمات کی پابندی کرے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا۔ بےشک [[قرآن|قرآن کریم]] اللہ کی کتاب ہے اور اس میں کسی خطا یا انحراف کا امکان نہيں ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ"۔''' }}</font>(ترجمہ: باطل کا اس کے پاس گذر نہیں، نہ اس کے سامنے سے اور نہ ا سکے پس پشت سے،اتارا ہوا ہے اس ذات کی طرف سے جو حکمت والی ہے، ہر تعریف کی حق دار)۔<ref>سوره حم سجدہ/ (فصلت) آیت42۔</ref> چنانچہ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ بھی ـ جو [[قرآن]] کے ساتھ قرار پائے ہیں ـ [[قرآن]] کی طرح گمراہی اور انحراف کی راہ میں حائل ہیں اور انسان اگر ان کا دامن تھامے تو وہ کسی صورت گمراہی کا شکار نہ ہوگا۔
[[حدیث ثقلین]] بھی ـ [[متواتر]] [[حدیث|احادیث]] ميں شامل ہے اور اس کی سند میں کسی قسم کا شک و تردد نہیں ہےـ <ref> اہل سنت نے بے شمار اصحاب رسولؐ سے یہ حدیث نقل کی ہے جن کی تعداد ایک قول کے مطابق 25 (عبداللّہ بن عبدالرحمان دارمی، سنن الدارمی، ط استنبول 1401/ 1981) اور دوسرے قول کے مطابق 35 ہے۔ (حسن بن محمد دیلمی، ارشاد القلوب، قم 1368 ہجری) جبکہ ایک قول کے مطابق یہ تعداد 37 ہے۔ راویوں کی یہی تعداد بعد کے طبقات میں بھی جاری رہی ہے اسی بنا پر اس کو متواتر کہا جاتا ہے۔ یہ حدیث اہل سنت کے معتبر ترین منابع میں نقل ہوئی منجملہ: صحیح مسلم بن حجاج ، (حسین راضی، سبیل النجاة فی تتمة المراجعات، در عبدالحسین شرف الدین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت،1402/1982) مسند ابن حنبل، (علی بن عبداللّہ سمہودی، جواہرالعقدین فی فضل الشرفین، چاپ مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت 1415/1995) (سیوطی، الدرّ المنثور) (عبدالحسین شرف الدین، المراجعات، چاپ حسین راضی، بیروت 1402/1982) (محمد بن حسن صفار قمی، بصائرالدرجات فی فضائل آل محمد «ص»، چاپ محسن کوچہ باغی تبریزی، قم 1404) (علامہ طباطبائی، تفسیر المیزان) (سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، چاپ حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ افست بیروت 1404ـ 140) سنن دارِمی ، (احمد بن علی طبرسی، الاحتجاج، چاپ محمدباقر موسوی خرسان، نجف 1386/1966) سنن تِرْمِذی ، (فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان) (احمد بن عبداللّہ طبری، ذخائر العقبی ' فی مناقب ذوی القربی '، قاہرہ 1356، چاپ افست بیروت (بی تا)) المعجم الکبیر طبرانی ، (فخرالدین بن محمد طریحی، مجمع البحرین، چاپ احمد حسینی، تہران 1362ہجری شمسی) المستدرک علی الصحیحین حاکم نیشابوری ، (محمد بن حسن طوسی، الامالی، قم 1414) الدر المنثور سیوطی ، (محمد بن حسن طوسی، التبیان فی تفسیرالقرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت (بی تا)) فرائدالسِّمْطَیْن جوینی خراسانی ، (محمد بن حسن طوسی، تلخیص الشافی، چاپ حسین بحرالعلوم، قم 1394/1974) (حسن بن یوسف علامہ حلّی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، چاپ حسین درگاہی، تہران 1411/1991) (حسن بن یوسف علامہ حلّی، نہج الحق و کشف الصدق، بیروت 1982) ینابیع المودة قُندوزی ، (علی بن ابی طالب ؑ، امام اول، نہج البلاغہ، چاپ صبحی صالح، بیروت (1387)، چاپ افست قم (بی تا)) کنزالعُمّال متقی (محمد بن مسعود عیاشی، کتاب التفسیر، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، قم 1380ـ1381، چاپ افست تہران (بی تا)) و نیز اسدالغابة ابن اثیر. (محمد بن عمر فخررازی، التفسیر الکبیر، قاہرہ (بی تا)، چاپ افست تہران (بی تا))۔ مجموغی طور پر علمائے اہل سنت میں سے 150 افراد نے حدیث ثقلین کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔ (خلیل بن احمد فراہیدی، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم 1405)۔ نفحات الأزہار فی خلاصة عبقات الأنوار، جلد اوّل</ref> اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کی عصمت (بمعنی اخص) پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس حدیث میں اہل بیت "ثقل اصغر" کے عنوان سے [[قرآن]] کے برابر میں قرار پائے ہیں جو کہ [[قرآن|ثقل اکبر]] ہے؛ اور ان دونوں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کا ورثہ اور گرانبہا امانتیں قرار دیا گیا ہے جن میں کبھی جدائی نہيں آتی اور جو بھی ان کا دامن تھامے اور ان کی تعلیمات کی پابندی کرے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا۔ بےشک [[قرآن|قرآن کریم]] اللہ کی کتاب ہے اور اس میں کسی خطا یا انحراف کا امکان نہيں ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ"۔''' }}</font>(ترجمہ: باطل کا اس کے پاس گذر نہیں، نہ اس کے سامنے سے اور نہ ا سکے پس پشت سے،اتارا ہوا ہے اس ذات کی طرف سے جو حکمت والی ہے، ہر تعریف کی حق دار)۔<ref>سورہ حم سجدہ/ (فصلت) آیت42۔</ref> چنانچہ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ بھی ـ جو [[قرآن]] کے ساتھ قرار پائے ہیں ـ [[قرآن]] کی طرح گمراہی اور انحراف کی راہ میں حائل ہیں اور انسان اگر ان کا دامن تھامے تو وہ کسی صورت گمراہی کا شکار نہ ہوگا۔


[[اہل سنت]] کے بعض علماء کی رائے کے مطابق اہل بیت ـ یعنی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا]]ؑ اور بارہ [[ائمۂ شیعہ]] کی اخلاقی اور عملی [[عصمت]] میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور کسی گمراہ انسان کے سوا ـ جو اسلام کا منکر ہو ـ کوئی بھی اس میں شک نہیں کرتا؛ جس چیز میں اختلاف ہے وہ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کی علمی [[عصمت]] ہے۔<ref> النبراس، ص532، حاشیۃ بحرالعلوم</ref>، تاہم چونکہ [[حدیث ثقلین]] کے مطابق [[دین]] میں اہل بیت سے تمسک  ضلالت سے محفوظ رکھتا ہے چنانچہ اسی [[حدیث]] سے واضح طور پر اہل بیت کی علمی [[عصمت]] بھی ثابت ہوجاتی ہے۔
[[اہل سنت]] کے بعض علماء کی رائے کے مطابق اہل بیت ـ یعنی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا]]ؑ اور بارہ [[ائمۂ شیعہ]] کی اخلاقی اور عملی [[عصمت]] میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اور کسی گمراہ انسان کے سوا ـ جو اسلام کا منکر ہو ـ کوئی بھی اس میں شک نہیں کرتا؛ جس چیز میں اختلاف ہے وہ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کی علمی [[عصمت]] ہے۔<ref> النبراس، ص532، حاشیۃ بحرالعلوم</ref>، تاہم چونکہ [[حدیث ثقلین]] کے مطابق [[دین]] میں اہل بیت سے تمسک  ضلالت سے محفوظ رکھتا ہے چنانچہ اسی [[حدیث]] سے واضح طور پر اہل بیت کی علمی [[عصمت]] بھی ثابت ہوجاتی ہے۔
سطر 61: سطر 60:
[[آیت مباہلہ]] بھی دوسرے [[صحابہ|صحابہ رسول]]ؐ پر [[اصحاب کسا]] کی برتری کا ثبوت ہے؛ کیونکہ اس آیت میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان بچوں، مردوں اور خواتین میں سے بعض کو [[نجران]] کے [[عیسائیت|عیسائیوں]] کے ساتھ [[آیت مباہلہ|مباہلہ]] کرنے کے لئے اپنے ساتھ لے جائیں اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے مردوں میں سے [[امام علی علیہ علیہ السلام|حضرت علی]]ؑ، عورتوں میں سے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا]]ؑ کو اور بچوں میں سے [[امام حسن علیہ السلام|حسن]]ؑ اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]]ؑ کو منتخب کیا۔
[[آیت مباہلہ]] بھی دوسرے [[صحابہ|صحابہ رسول]]ؐ پر [[اصحاب کسا]] کی برتری کا ثبوت ہے؛ کیونکہ اس آیت میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کو حکم دیا گیا ہے کہ مسلمان بچوں، مردوں اور خواتین میں سے بعض کو [[نجران]] کے [[عیسائیت|عیسائیوں]] کے ساتھ [[آیت مباہلہ|مباہلہ]] کرنے کے لئے اپنے ساتھ لے جائیں اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے مردوں میں سے [[امام علی علیہ علیہ السلام|حضرت علی]]ؑ، عورتوں میں سے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا]]ؑ کو اور بچوں میں سے [[امام حسن علیہ السلام|حسن]]ؑ اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]]ؑ کو منتخب کیا۔


اس میں شک نہیں ہے کہ [[آیت مباہلہ|مباہلہ]] کے لئے ایسے افراد منتخب کئے جاتے ہیں جو [[ایمان]] اور قرب الہی کے حوالے سے اعلی مرتبے پر فائز ہوں، اور جس مباہلے کا ایک رکن رکین [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]] ؐ کی ذات ہو، ایسے افراد کو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]] کے ہمراہ جانا چاہئے جو یا تو مرتبے کے لحاظ سے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے برابر ہوں یا دوسروں کی نسبت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے رتبے سے قریب تر ہوں۔ اور پھر اگر مسلمانوں میں سے کوئی دوسرا فرد بھی [[ایمان]] و [[تقوی]] کے لحاظ سے اتنا بلند مرتبہ ہوتا، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ اس کو بھی مباہلے میں شامل کرتے؛ کیونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کی روش میں ذرہ برابر نا انصافی یا حکمت کے منافی اقدام کا امکان نہيں ہے۔<ref> علامه حلی، حسن بن یوسف، نهج الحق وکشف الصدق، ص179و 215 216؛ مقداد بن عبداللّه السیوری الحـلـی الاسدی (فاضل مقداد)، اللوامع الإلهیة، ص515؛ دلائل الصدق، ج2، ص132ـ 133</ref>.
اس میں شک نہیں ہے کہ [[آیت مباہلہ|مباہلہ]] کے لئے ایسے افراد منتخب کئے جاتے ہیں جو [[ایمان]] اور قرب الہی کے حوالے سے اعلی مرتبے پر فائز ہوں، اور جس مباہلے کا ایک رکن رکین [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]] ؐ کی ذات ہو، ایسے افراد کو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]] کے ہمراہ جانا چاہئے جو یا تو مرتبے کے لحاظ سے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے برابر ہوں یا دوسروں کی نسبت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے رتبے سے قریب تر ہوں۔ اور پھر اگر مسلمانوں میں سے کوئی دوسرا فرد بھی [[ایمان]] و [[تقوی]] کے لحاظ سے اتنا بلند مرتبہ ہوتا، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ اس کو بھی مباہلے میں شامل کرتے؛ کیونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کی روش میں ذرہ برابر نا انصافی یا حکمت کے منافی اقدام کا امکان نہيں ہے۔<ref> علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق وکشف الصدق، ص179و 215 216؛ مقداد بن عبداللّہ السیوری الحـلـی الاسدی (فاضل مقداد)، اللوامع الإلہیة، ص515؛ دلائل الصدق، ج2، ص132ـ 133</ref>.


[[حضرت ام سلمہ]] کے خادم [[ابو ریاح]] نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: اگر روئے زمین پر [[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] سے زیادہ عظیم اور بہتر افراد ہوتے تو خداوند متعال مجھے حکم دیتا کہ ان کی مدد سے [[مباہلہ]] کرو؛ یہ سب سے افضل ہیں۔<ref>قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ص287</ref>
[[حضرت ام سلمہ]] کے خادم [[ابو ریاح]] نے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: اگر روئے زمین پر [[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] سے زیادہ عظیم اور بہتر افراد ہوتے تو خداوند متعال مجھے حکم دیتا کہ ان کی مدد سے [[مباہلہ]] کرو؛ یہ سب سے افضل ہیں۔<ref>قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ص287</ref>
سطر 69: سطر 68:


== اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت ==
== اہل بیتؑ کی علمی مرجعیت ==
"علمی مرجعیت" ایک مشترکہ نقطہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور مسلمانوں کے اختلافی مسائل اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔ علمی مرجعیت وہ مرجعیت ہے جو اعتقادی اور شرعی مسائل میں [[قرآن]] و [[سنت]] نبوی کے حقائق کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ <ref>[http://www.dmsonnat.ir/Article-815.aspx|عبدالکریم بی آزار شیرازی، مقالہ: مرجعيت علمي اهل بيت در ميان مسلمانان]</ref>
"علمی مرجعیت" ایک مشترکہ نقطہ ہے جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور مسلمانوں کے اختلافی مسائل اسی کی طرف پلٹتے ہیں۔ علمی مرجعیت وہ مرجعیت ہے جو اعتقادی اور شرعی مسائل میں [[قرآن]] و [[سنت]] نبوی کے حقائق کی پردہ کشائی کرتی ہے۔ <ref>[http://www.dmsonnat.ir/Article-815.aspx|عبدالکریم بی آزار شیرازی، مقالہ: مرجعيت علمي اہل بيت در ميان مسلمانان]</ref>


=== حدیث ثقلین ===
=== حدیث ثقلین ===
[[حدیث ثقلین]] اہل بیت کی علمی مرجعیت کو نمایاں کرتی ہے کیونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ [[قرآن]] و [[عترت]] سے تمسک کریں اور ان کا سہارا لیں اور دامن تھامیں۔
[[حدیث ثقلین]] اہل بیت کی علمی مرجعیت کو نمایاں کرتی ہے کیونکہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ [[قرآن]] و [[عترت]] سے تمسک کریں اور ان کا سہارا لیں اور دامن تھامیں۔


مسلمانوں کا پہلا علمی منبع و مرجع [[قرآن]] کریم ہے جس کے بعد دوسرے درجے پر [[سنت]] نبوی ہے؛ اور اس سلسلے میں اہل بیتؑ کا کردار یہ ہے کہ وہ ترجمانِ [[قرآن]] بھی ہیں اور [[سنت]] نبوی کے حافظ و راوی بھی ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے [[قرآن]]ی حقائق کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے لئے بیان کیا؛ مگر ان حقائق کا دوسرا بڑا حصہ بیان نہیں کیا کیونکہ یا تو ان حقائق کے لئے حالات سازگار نہ تھے یا پھر مصلحت یہ تھی کہ انہیں بعد کے زمانوں میں بیان کیا جائے چنانچہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ نے باقیماندہ حقائق بعد کے ادوار میں بیان کرنے کا فریضہ اپنے بعد [[عترت]] (اہل بیت) کو سونپ دیا۔<ref>محمد حسين كاشف الغطاء، اصل الشیعة واصولها، 162۔</ref> نتیجہ یہ کہ: جو کچھ بھی [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے بیان کیا تھا ـ اس کی حفاظت کرنے ـ اور جو کچھ بیان نہیں کیا تھا، ـ اسے بیان کرنے ـ کی ذمہ داری اہل بیت کو سونپ دی گئی۔
مسلمانوں کا پہلا علمی منبع و مرجع [[قرآن]] کریم ہے جس کے بعد دوسرے درجے پر [[سنت]] نبوی ہے؛ اور اس سلسلے میں اہل بیتؑ کا کردار یہ ہے کہ وہ ترجمانِ [[قرآن]] بھی ہیں اور [[سنت]] نبوی کے حافظ و راوی بھی ہیں۔ اس میں شک نہیں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے [[قرآن]]ی حقائق کا ایک بڑا حصہ لوگوں کے لئے بیان کیا؛ مگر ان حقائق کا دوسرا بڑا حصہ بیان نہیں کیا کیونکہ یا تو ان حقائق کے لئے حالات سازگار نہ تھے یا پھر مصلحت یہ تھی کہ انہیں بعد کے زمانوں میں بیان کیا جائے چنانچہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ نے باقیماندہ حقائق بعد کے ادوار میں بیان کرنے کا فریضہ اپنے بعد [[عترت]] (اہل بیت) کو سونپ دیا۔<ref>محمد حسين كاشف الغطاء، اصل الشیعة واصولہا، 162۔</ref> نتیجہ یہ کہ: جو کچھ بھی [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے بیان کیا تھا ـ اس کی حفاظت کرنے ـ اور جو کچھ بیان نہیں کیا تھا، ـ اسے بیان کرنے ـ کی ذمہ داری اہل بیت کو سونپ دی گئی۔


اہل بیت کا دامن تھامنا اور ان سے تمسک کرنا [[قرآن ]] و [[سنت]] کی صحیح شناخت کا حقیقی راستہ ہے چنانچہ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ اسلامی معارف و احکام دین میں مسلمانوں کا علمی مرجع قرار پائے ہیں۔
اہل بیت کا دامن تھامنا اور ان سے تمسک کرنا [[قرآن ]] و [[سنت]] کی صحیح شناخت کا حقیقی راستہ ہے چنانچہ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ اسلامی معارف و احکام دین میں مسلمانوں کا علمی مرجع قرار پائے ہیں۔
سطر 86: سطر 85:
'''''مفصل مضمون: ''[[آیت تطہیر]]'''''
'''''مفصل مضمون: ''[[آیت تطہیر]]'''''


[[قرآن]] کریم [[آیت تطہیر]] <ref>سوره احزاب آیت 33۔</ref> میں اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کو ایسے افراد کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے جن کو خداوند متعال نے ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی سے پاک رکھا ہے اور دوسری طرف سے فرمایا ہے کہ [[قرآن]] کے حقائق الہیہ اور معارف مکنونہ کا ادراک پلیدیوں سے پاک افراد کے سوا دوسروں کے لئے ممکن نہیں ہے۔ <ref>سوره واقعه آیات 77ـ79۔ <font color=green> {{حدیث|'''"إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ٭ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ٭ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ"۔'''}}</font> (ترجمہ: یقینا یہ ایک بڑے مرتبے والا قرآن ہے ٭ ایک نظروں سے پوشیدہ کتاب کے اندر ٭ اسے نہیں چھو سکتے [نیز اس کا ادراک نہیں کرسکتے] سوائے پاک افراد کے)۔</ref> جس طرح کہ شرعی [[طہارت]] [[قرآن]] کی ظاہری صورت کو چھونے کی شرط ہے، رذائل، پستیوں اور پلیدیوں سے روح و جان کی پاکیزگی قرآنی حقائق و معارف کے ادراک کی شرط ہے؛ اور معارف و حقا‏ئق جس قدر زیادہ گہرائی اور لطافت رکھتے ہوں ان کے ادراک کے لئے اتنی ہی اعلی اور گہری روحانی طہارت کی ضرورت ہے اور اس طہارت و پاکيزگی کا اعلی ترین رتبہ '''"عصمت"''' ہے۔<ref>محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج19، ص137</ref> چنانچہ [[قرآن]] کے تمام معارف و حقائق اور لطائف و باریکیوں کا مکمل ادراک [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے معصوم خاندان کے سوا کسی کے لئے ممکن نہيں؛ چنانچہ ان کے  ادراک کے لئے اسی خاندان پاک کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
[[قرآن]] کریم [[آیت تطہیر]] <ref>سورہ احزاب آیت 33۔</ref> میں اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کو ایسے افراد کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے جن کو خداوند متعال نے ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی سے پاک رکھا ہے اور دوسری طرف سے فرمایا ہے کہ [[قرآن]] کے حقائق الہیہ اور معارف مکنونہ کا ادراک پلیدیوں سے پاک افراد کے سوا دوسروں کے لئے ممکن نہیں ہے۔ <ref>سورہ واقعہ آیات 77ـ79۔ <font color=green> {{حدیث|'''"إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ٭ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ٭ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ"۔'''}}</font> (ترجمہ: یقینا یہ ایک بڑے مرتبے والا قرآن ہے ٭ ایک نظروں سے پوشیدہ کتاب کے اندر ٭ اسے نہیں چھو سکتے [نیز اس کا ادراک نہیں کرسکتے] سوائے پاک افراد کے)۔</ref> جس طرح کہ شرعی [[طہارت]] [[قرآن]] کی ظاہری صورت کو چھونے کی شرط ہے، رذائل، پستیوں اور پلیدیوں سے روح و جان کی پاکیزگی قرآنی حقائق و معارف کے ادراک کی شرط ہے؛ اور معارف و حقا‏ئق جس قدر زیادہ گہرائی اور لطافت رکھتے ہوں ان کے ادراک کے لئے اتنی ہی اعلی اور گہری روحانی طہارت کی ضرورت ہے اور اس طہارت و پاکيزگی کا اعلی ترین رتبہ '''"عصمت"''' ہے۔<ref>محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج19، ص137</ref> چنانچہ [[قرآن]] کے تمام معارف و حقائق اور لطائف و باریکیوں کا مکمل ادراک [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ کے معصوم خاندان کے سوا کسی کے لئے ممکن نہيں؛ چنانچہ ان کے  ادراک کے لئے اسی خاندان پاک کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔


[[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"كتاب الله فيه نبأ ما قبلكم وخبر ما بعدكم وفصل ما بينكم ونحن نعلمه"۔''' }}</font>(ترجمہ: کتاب اللہ تمہارے ماضی کی خبریں اور تمہارے مستقبل کی خبریں موجود ہیں۔ یہ کتاب تمہاری زندگی سے متعلق حق و باطل کو الگ الگ کرنے والے احکام پر مشتمل ہے اور ہم انہیں [یعنی ان حقائق اور باریکیوں کو] جانتے ہیں)۔<ref>اصول كافی، ج 1، باب الراسخین فی العلم، حدیث1</ref>، اس سلسلے میں [[ائمۂ معصومین|ائمۂ اہل بیت]] متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
[[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"كتاب الله فيه نبأ ما قبلكم وخبر ما بعدكم وفصل ما بينكم ونحن نعلمه"۔''' }}</font>(ترجمہ: کتاب اللہ تمہارے ماضی کی خبریں اور تمہارے مستقبل کی خبریں موجود ہیں۔ یہ کتاب تمہاری زندگی سے متعلق حق و باطل کو الگ الگ کرنے والے احکام پر مشتمل ہے اور ہم انہیں [یعنی ان حقائق اور باریکیوں کو] جانتے ہیں)۔<ref>اصول كافی، ج 1، باب الراسخین فی العلم، حدیث1</ref>، اس سلسلے میں [[ائمۂ معصومین|ائمۂ اہل بیت]] متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
سطر 94: سطر 93:
=== آیت اولوالامر میں ===
=== آیت اولوالامر میں ===


خداوند متعال نے [[آیت اولوا الامر]] میں اپنی، اپنے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]] اور [[آیت اولو الامر|اولو الامر]] کی اطاعت کو واجب کردیا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ "۔''' }}</font>(ترجمہ:  اے ایمان لانے والو! فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں '''صاحبان امر''' (فرماں روائی کے حق دار) ہیں)۔<ref>سوره نساء آیت 59.</ref> چونکہ اس آیت کریمہ میں "[[اولو الامر|اولی الامر]]" معطوف ہے "الرسول" پر جبکہ لفظ "اطیعوا" (اطاعت کرو) کو دہرایا نہیں گیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اولوا الامر کی اطاعت کا معیار، اطاعت رسول کا معیار ہی ہے، اور اطاعت رسول صرف اس لئے واجب کی گئی ہے کہ وہ ایک الہی راہنما ہے اور مقام [[عصمت]] کا مالک ہے اور اگر رسول [[معصوم]] نہ ہوتا تو اس کی اطاعت ـ بغیر کسی قید و شرط کے ـ واجب نہ ہوتی؛ یہ قاعدہ [[اولو الامر]] کے سلسلے میں جاری و نافذ ہے اور ان کی اطاعت بھی اس لئے واجب قرار دی گئی ہے کہ وہ [[عصمت]] کی صفت سے متصف ہیں اور اس آیت میں اسی بنا پر ان کی اطاعت مطلق طور پر واجب ہے اور یہ اطاعت مشروط و مقید نہیں ہے۔
خداوند متعال نے [[آیت اولوا الامر]] میں اپنی، اپنے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]] اور [[آیت اولو الامر|اولو الامر]] کی اطاعت کو واجب کردیا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ "۔''' }}</font>(ترجمہ:  اے ایمان لانے والو! فرماں برداری کرو اللہ کی اور فرماں برداری کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں '''صاحبان امر''' (فرماں روائی کے حق دار) ہیں)۔<ref>سورہ نساء آیت 59.</ref> چونکہ اس آیت کریمہ میں "[[اولو الامر|اولی الامر]]" معطوف ہے "الرسول" پر جبکہ لفظ "اطیعوا" (اطاعت کرو) کو دہرایا نہیں گیا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اولوا الامر کی اطاعت کا معیار، اطاعت رسول کا معیار ہی ہے، اور اطاعت رسول صرف اس لئے واجب کی گئی ہے کہ وہ ایک الہی راہنما ہے اور مقام [[عصمت]] کا مالک ہے اور اگر رسول [[معصوم]] نہ ہوتا تو اس کی اطاعت ـ بغیر کسی قید و شرط کے ـ واجب نہ ہوتی؛ یہ قاعدہ [[اولو الامر]] کے سلسلے میں جاری و نافذ ہے اور ان کی اطاعت بھی اس لئے واجب قرار دی گئی ہے کہ وہ [[عصمت]] کی صفت سے متصف ہیں اور اس آیت میں اسی بنا پر ان کی اطاعت مطلق طور پر واجب ہے اور یہ اطاعت مشروط و مقید نہیں ہے۔


چنانچہ [[آیت اولوا الأمر]] نہ صرف رسول کے بعد اسلامی امت کی امامت کے حقدار افراد کی عصمت کی دلیل ہے بلکہ ان افراد کی اطاعت کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہے۔
چنانچہ [[آیت اولوا الأمر]] نہ صرف رسول کے بعد اسلامی امت کی امامت کے حقدار افراد کی عصمت کی دلیل ہے بلکہ ان افراد کی اطاعت کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہے۔
سطر 106: سطر 105:


=== حدیث سفینہ میں ===
=== حدیث سفینہ میں ===
اہل بیتؑ کے بارے میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبرؐ]] کی ایک مشہور حدیث [[حدیث سفینہ]] کے عنوان سے مشہور اور [[شیعہ]] اور [[سنی]] منابع میں بکثرت نقل ہوئی ہے۔ اس [[حدیث]]  میں [[اہل بیتؑ]] کو [[حضرت نوح علیہ السلام]] کی کشتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [[شیخ طوسی]] نے اپنی کتاب [[امالی شیخ طوسی|الامالی]] میں یہ [[حدیث]] [[ابوذر غفاری]] سے نقل کی ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ كَمَثَلِ سَفِينَةِ نُوحٍ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، مَنْ دَخَلَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: میرے اہل بیت کی مثال [[سفینۂ نوح]] کی مثال ہے، جو اس میں داخل ہوا نجات پا گیا اور جس نے سوار ہونے کی مخالفت کی وہ ڈوب گیا [اور نابود ہوگیا])۔<ref>الأمالی شیخ طوسی، ص 349.اسی طرح مراجعہ کریں: فضائل امیر المؤمنین ابن عقده کوفی ص 44، تحف العقول ابن شعبه حرانی ص 113، عیون اخبار الرضا شیخ صدوق ج 2 ص 27، الأمالی شیخ مفید ص 145</ref>یہ حدیث حاکم نیشابوری اور اہل سنت کے کئی مشہور محدثین نے بھی نقل کی ہے: <ref>رجوع کریں: مستدرک علی الصحیحین حاکم نیشابوری، ج2 ص 343. نیز رجوع کریں: مجمع الزوائد هیثمی ج9 ص 168، المعجم الاوسط طبرانی ج4 ص 10، المعجم الکبیر طبرانی ج 3 ص 46، شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید ج1 ص 218،الجامع الصغیر سیوطی ج1 ص 373، کنزالعمال متقی هندی ج12 ص94، الدر المنثور سیوطی ج3 ص 334۔</ref>
اہل بیتؑ کے بارے میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبرؐ]] کی ایک مشہور حدیث [[حدیث سفینہ]] کے عنوان سے مشہور اور [[شیعہ]] اور [[سنی]] منابع میں بکثرت نقل ہوئی ہے۔ اس [[حدیث]]  میں [[اہل بیتؑ]] کو [[حضرت نوح علیہ السلام]] کی کشتی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ [[شیخ طوسی]] نے اپنی کتاب [[امالی شیخ طوسی|الامالی]] میں یہ [[حدیث]] [[ابوذر غفاری]] سے نقل کی ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"إِنَّمَا مَثَلُ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ كَمَثَلِ سَفِينَةِ نُوحٍ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)، مَنْ دَخَلَهَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا غَرِقَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: میرے اہل بیت کی مثال [[سفینۂ نوح]] کی مثال ہے، جو اس میں داخل ہوا نجات پا گیا اور جس نے سوار ہونے کی مخالفت کی وہ ڈوب گیا [اور نابود ہوگیا])۔<ref>الأمالی شیخ طوسی، ص 349.اسی طرح مراجعہ کریں: فضائل امیر المؤمنین ابن عقدہ کوفی ص 44، تحف العقول ابن شعبہ حرانی ص 113، عیون اخبار الرضا شیخ صدوق ج 2 ص 27، الأمالی شیخ مفید ص 145</ref>یہ حدیث حاکم نیشابوری اور اہل سنت کے کئی مشہور محدثین نے بھی نقل کی ہے: <ref>رجوع کریں: مستدرک علی الصحیحین حاکم نیشابوری، ج2 ص 343. نیز رجوع کریں: مجمع الزوائد ہیثمی ج9 ص 168، المعجم الاوسط طبرانی ج4 ص 10، المعجم الکبیر طبرانی ج 3 ص 46، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج1 ص 218،الجامع الصغیر سیوطی ج1 ص 373، کنزالعمال متقی ہندی ج12 ص94، الدر المنثور سیوطی ج3 ص 334۔</ref>


[[حدیث سفینہ]] بھی اہل بیتؑ کی پیروی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے اپنے اہل بیت کو [[حدیث سفینہ|سفینۂ نوح]] سے تشبیہ فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بھی اس میں داخل اور سوار ہوجائے وہ غرق ہونے سے بچ گیا اور جس نے سوار ہونے سے روگردانی کی وہ ہلاک ہوگیا۔
[[حدیث سفینہ]] بھی اہل بیتؑ کی پیروی کے وجوب پر دلالت کرتی ہے؛ کیونکہ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے اپنے اہل بیت کو [[حدیث سفینہ|سفینۂ نوح]] سے تشبیہ فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بھی اس میں داخل اور سوار ہوجائے وہ غرق ہونے سے بچ گیا اور جس نے سوار ہونے سے روگردانی کی وہ ہلاک ہوگیا۔
سطر 118: سطر 117:
اہل بیتؑ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کی محبت کا وجوب ناقابل انکار ہے جس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اہل بیتؑ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کی محبت کا وجوب ناقابل انکار ہے جس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔


[[آیت مودّت]]<font color=green> {{حدیث| '''" قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى"۔''' }}</font>(ترجمہ: میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے)۔ <ref>سوره شوری آیت 23۔</ref> میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کے اعزاء و اقارب کی محبت کو [[اجر رسالت]] قرار دیا گیا ہے۔ آیت کریمہ میں [[قربیٰ]] سے مراد [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کے اقرباء ہیں اور یہ وہی شخصیات ہیں جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے، (یعنی [[اصحاب کساء]])۔
[[آیت مودّت]]<font color=green> {{حدیث| '''" قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى"۔''' }}</font>(ترجمہ: میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوا صاحبان قرابت کی محبت کے)۔ <ref>سورہ شوری آیت 23۔</ref> میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]ؐ کے اعزاء و اقارب کی محبت کو [[اجر رسالت]] قرار دیا گیا ہے۔ آیت کریمہ میں [[قربیٰ]] سے مراد [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کے اقرباء ہیں اور یہ وہی شخصیات ہیں جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے، (یعنی [[اصحاب کساء]])۔


[[ابن حجر مکی]] [[حب اہل بیت علیہم السلام|حب اہل بیت]]ؑ کے وجوب سے متعلق [[حدیث|احادیث]] کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "مذکورہ [[حدیث|احادیث]] سے [[حب اہل بیت علیہم السلام|حب اہل بیت]] کا وجوب اور بغض اہل بیت کی شدید حرمت ثابت ہوئی۔ بیہقی، بغوی اور دیگر نے حبِّ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسولؐ]] کے وجوب پر تصریح کی ہے۔ اور [[محمد بن ادریس شافعی|شافعی]] نے اپنے اشعار میں اس پر تصریح و تاکید کی ہے جیسا کہ انھوں نے کہا ہے:<ref>الصواعق المحرقه، ص217</ref>
[[ابن حجر مکی]] [[حب اہل بیت علیہم السلام|حب اہل بیت]]ؑ کے وجوب سے متعلق [[حدیث|احادیث]] کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "مذکورہ [[حدیث|احادیث]] سے [[حب اہل بیت علیہم السلام|حب اہل بیت]] کا وجوب اور بغض اہل بیت کی شدید حرمت ثابت ہوئی۔ بیہقی، بغوی اور دیگر نے حبِّ اہل بیت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسولؐ]] کے وجوب پر تصریح کی ہے۔ اور [[محمد بن ادریس شافعی|شافعی]] نے اپنے اشعار میں اس پر تصریح و تاکید کی ہے جیسا کہ انھوں نے کہا ہے:<ref>الصواعق المحرقہ، ص217</ref>
<font color=green>
<font color=green>
{{شعر آغاز}}
{{شعر آغاز}}
سطر 132: سطر 131:
{{شعر اختتام}}
{{شعر اختتام}}
[[فخرالدین رازی]] نے حب اہل بیتؑ کے وجوب پر یوں استدلال کیا ہے: <br />
[[فخرالدین رازی]] نے حب اہل بیتؑ کے وجوب پر یوں استدلال کیا ہے: <br />
"اس میں شک نہیں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی اکرم]]ؐ [[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]]ؑ اور[[امام حسین علیہ السلام|حسین]] (علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے اسی بنیاد پر یہ عمل پوری امت پر واجب ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''" وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: اور اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو)۔<ref>سوره اعراف آیت 158۔</ref> نیز خداوند عزّ و جلّ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ"۔''' }}</font>(ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا)۔<ref>سوره آل عمران آیت 31۔</ref>  نیز فرمایا ہے کہ:<font color=green> {{حدیث| '''"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔''' }}</font>(ترجمہ: تمہارے لیے پیغمبر خدا کی ذات میں اچھا نمونہ پیروی کے لیے موجود ہے اس کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو)۔<ref>التفسیر الکبیر، ج27، ص166۔</ref>
"اس میں شک نہیں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی اکرم]]ؐ [[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]]ؑ اور[[امام حسین علیہ السلام|حسین]] (علیہم السلام) سے محبت کرتے تھے اسی بنیاد پر یہ عمل پوری امت پر واجب ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے: <font color=green> {{حدیث|'''" وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: اور اور تم انہی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا سکو)۔<ref>سورہ اعراف آیت 158۔</ref> نیز خداوند عزّ و جلّ نے فرمایا: <font color=green> {{حدیث|'''"قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ"۔''' }}</font>(ترجمہ: کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا)۔<ref>سورہ آل عمران آیت 31۔</ref>  نیز فرمایا ہے کہ:<font color=green> {{حدیث| '''"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔''' }}</font>(ترجمہ: تمہارے لیے پیغمبر خدا کی ذات میں اچھا نمونہ پیروی کے لیے موجود ہے اس کے لیے جو اللہ اور روز آخرت کی امید رکھتا ہو)۔<ref>التفسیر الکبیر، ج27، ص166۔</ref>


[[اجر رسالت]] سے متعلق آیات کریمہ سے من حیث المجموع یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آنحضرت]]ؐ نے تبلیغ و ابلاغ کے عوض لوگوں سے کسی مادی اور غیر مادی اجرت نہیں مانگی ہے اور اگر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ نے اہل قربی کی محبت کو اپنی اجرت قرار دیا ہے تو اس کا فائدہ بھی مسلمانوں ہی کو ملتا ہے؛ جیسا کہ خداوند حکیم نے ارشاد فرمایا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ"۔''' }}</font>(ترجمہ: کہئے کہ میں نے تم سے جو اجر طلب کیا ہے، وہ تو تمہارے ہی لئے ہے۔ میرا اصل معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے)۔<ref>سوره سبأ آیت 47۔</ref>
[[اجر رسالت]] سے متعلق آیات کریمہ سے من حیث المجموع یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آنحضرت]]ؐ نے تبلیغ و ابلاغ کے عوض لوگوں سے کسی مادی اور غیر مادی اجرت نہیں مانگی ہے اور اگر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|آپ]]ؐ نے اہل قربی کی محبت کو اپنی اجرت قرار دیا ہے تو اس کا فائدہ بھی مسلمانوں ہی کو ملتا ہے؛ جیسا کہ خداوند حکیم نے ارشاد فرمایا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"قُلْ مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ"۔''' }}</font>(ترجمہ: کہئے کہ میں نے تم سے جو اجر طلب کیا ہے، وہ تو تمہارے ہی لئے ہے۔ میرا اصل معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر حاضر و ناظر ہے)۔<ref>سورہ سبأ آیت 47۔</ref>


== اہل بیت کی رہبری اور ولایت ==
== اہل بیت کی رہبری اور ولایت ==
سطر 140: سطر 139:
اہل بیت کی [[ولایت]] اور رہبری متعدد عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت ہے۔
اہل بیت کی [[ولایت]] اور رہبری متعدد عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت ہے۔


عقل کی رو سے ـ اور [[فلسفۂ امامت]] کو مد نظر رکھتے ہوئے ـ اس نتیجے پر پہنچـتے ہیں کہ [[عصمت]] '''امام''' کی اہم ترین شرطوں میں سے ایک ہے۔ آیات کریمہ بھی اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ رجوع کریں:[[آیت اولوا الامر]]<ref>سوره نساء آیت 59.</ref>  اور [[آیت صادقین]]۔<ref>سوره توبه آیت 119:<font color=green> {{حدیث|'''"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو)۔</ref>
عقل کی رو سے ـ اور [[فلسفۂ امامت]] کو مد نظر رکھتے ہوئے ـ اس نتیجے پر پہنچـتے ہیں کہ [[عصمت]] '''امام''' کی اہم ترین شرطوں میں سے ایک ہے۔ آیات کریمہ بھی اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ رجوع کریں:[[آیت اولوا الامر]]<ref>سوره نساء آیت 59.</ref>  اور [[آیت صادقین]]۔<ref>سورہ توبہ آیت 119:<font color=green> {{حدیث|'''"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَكُونُواْ مَعَ الصَّادِقِينَ"۔''' }}</font>(ترجمہ: اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو)۔</ref>


دوسری طرف سے اہل بیت علیہم السلام [[عصمت]] کی خصوصیت سے بہرہ مند ہیں چنانچہ اسلامی امت کی امامت و رہبری [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کے بعد اہل بیت کے لئے مختص ہے۔
دوسری طرف سے اہل بیت علیہم السلام [[عصمت]] کی خصوصیت سے بہرہ مند ہیں چنانچہ اسلامی امت کی امامت و رہبری [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کے بعد اہل بیت کے لئے مختص ہے۔
سطر 150: سطر 149:
اس سلسلے میں لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ [[حدیث ثقلین]] کی بہت سی نقلوں اور نسخوں میں اہل بیت سے تمسک کے ساتھ ساتھ [[ولایت]] [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ بھی بیان ہوئی ہے۔ بالفاظ دیگر [[غدیر خم|واقعۂ غدیر خم]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] نے اپنی عترت اور اہل بیت اور ان کی ولایت کے بارے میں بھی بہت سے حقائق بیان کئے اور مسلمانوں کو ان کی پیروی اور اطاعت کا حکم دیا؛ اور [[ولایت]] [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ کا اعلان بھی کیا اور [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ کو امت اسلامیہ کے ولی و رہبر کے عنوان سے پہچنوایا ہے۔<ref>ینابیع المودة، ص36ـ 40</ref> [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا]]ؐ نے ثابت کرکے دکھایا کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ کی ولایت و رہبری کا اعلان [[حدیث ثقلین]] کے مضمون و مفہوم کو عملی جامہ پہنانے کا پہلا مرحلہ ہے۔
اس سلسلے میں لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ [[حدیث ثقلین]] کی بہت سی نقلوں اور نسخوں میں اہل بیت سے تمسک کے ساتھ ساتھ [[ولایت]] [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ بھی بیان ہوئی ہے۔ بالفاظ دیگر [[غدیر خم|واقعۂ غدیر خم]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] نے اپنی عترت اور اہل بیت اور ان کی ولایت کے بارے میں بھی بہت سے حقائق بیان کئے اور مسلمانوں کو ان کی پیروی اور اطاعت کا حکم دیا؛ اور [[ولایت]] [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ کا اعلان بھی کیا اور [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ کو امت اسلامیہ کے ولی و رہبر کے عنوان سے پہچنوایا ہے۔<ref>ینابیع المودة، ص36ـ 40</ref> [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا]]ؐ نے ثابت کرکے دکھایا کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ کی ولایت و رہبری کا اعلان [[حدیث ثقلین]] کے مضمون و مفہوم کو عملی جامہ پہنانے کا پہلا مرحلہ ہے۔


ایک نکتہ یہ ہے کہ [[حدیث ثقلین]] کی بعض نقلوں میں ثقلین کے بجائے لفظ "خلیفتین" استعمال ہوا ہے اور قرآن و اہل بیت کو "خلیفتین" (دو خلیفہ) قرار دیا گیا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"إنّی تركت فيكم خليفتين: کتاب اللّه وأهل بيتي"۔''' }}</font>(ترجمہ: میں نے تمہارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے ہیں: قرآن اور اہل بیت)۔ <ref>المسند، ج5، ص181؛ مجمع الزوائد، ج9، ص163؛ فیض القدیر، ج3، ص14؛ کنزالعمال، ج1، ص166؛ نفحات الأزهار، ج2، ص284ـ 285</ref>، اس حدیث کے مطابق اہل بیت علیہم السلام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے جانشین ہیں اور ان کی جانشینی ہمہ جہت اور وسیع ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ [[حدیث ثقلین]] کی بعض نقلوں میں ثقلین کے بجائے لفظ "خلیفتین" استعمال ہوا ہے اور قرآن و اہل بیت کو "خلیفتین" (دو خلیفہ) قرار دیا گیا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"إنّی تركت فيكم خليفتين: کتاب اللّه وأهل بيتي"۔''' }}</font>(ترجمہ: میں نے تمہارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے ہیں: قرآن اور اہل بیت)۔ <ref>المسند، ج5، ص181؛ مجمع الزوائد، ج9، ص163؛ فیض القدیر، ج3، ص14؛ کنزالعمال، ج1، ص166؛ نفحات الأزہار، ج2، ص284ـ 285</ref>، اس حدیث کے مطابق اہل بیت علیہم السلام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے جانشین ہیں اور ان کی جانشینی ہمہ جہت اور وسیع ہے۔


غدیر خم کے مقام پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے اپنے خطبے کے ضمن میں [[قرآن]] اور [[عترت]] کو اپنی دو گرانقدر میراثوں سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"ولا تخلو الارض منهم، ولو خلت لانساخت بأهلها. ثم قال: اللهم إنك لا تخلي الارض من حجة على خلقك لئلا تبطل حجتك، ولا تضل أولياءك بعد إذ هديتهم، أولئك الاقلون عددا والاعظمون قدرا عند الله (عزوجل)"۔''' }}</font>(ترجمہ: زمین ہرگز ان (اہل بیت) سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ اگر ایسا ہوا تو زمین اپنے باشندوں پر غضبناک ہوجائے گی۔ اور پھر فرمایا: خدایا! تو ہرگز زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا اس لئے کہ تیری حجت و دلیل باطل نہ ہو اور تیرے دوست گمراہ نہ ہوں بعد اس کے کہ انہیں تو نے راہ ہدایت پر گامزن کیا ہے، وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں مگر اللہ عز وجل کے نزدیک نہایت بہت عظیم اور صاحبان قدر و منزلت ہیں)۔<ref> سليمان بن ابراهيم القندوزي الحنفي، ينابيع المودة لذوي القربى، (1220 - 1294 ه‍) تحقيق سيد علي جمال اشرف الحسيني، تاريخ النشر: 1416۔ ج3 ص74۔</ref>. بنابراین، اهل بیت، حجت‌های خداوند بر زمین‌اند، و امامت و رهبری متعلق به حجت‌های خداوند است.
غدیر خم کے مقام پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے اپنے خطبے کے ضمن میں [[قرآن]] اور [[عترت]] کو اپنی دو گرانقدر میراثوں سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"ولا تخلو الارض منهم، ولو خلت لانساخت بأهلها. ثم قال: اللهم إنك لا تخلي الارض من حجة على خلقك لئلا تبطل حجتك، ولا تضل أولياءك بعد إذ هديتهم، أولئك الاقلون عددا والاعظمون قدرا عند الله (عزوجل)"۔''' }}</font>(ترجمہ: زمین ہرگز ان (اہل بیت) سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ اگر ایسا ہوا تو زمین اپنے باشندوں پر غضبناک ہوجائے گی۔ اور پھر فرمایا: خدایا! تو ہرگز زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا اس لئے کہ تیری حجت و دلیل باطل نہ ہو اور تیرے دوست گمراہ نہ ہوں بعد اس کے کہ انہیں تو نے راہ ہدایت پر گامزن کیا ہے، وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں مگر اللہ عز وجل کے نزدیک نہایت بہت عظیم اور صاحبان قدر و منزلت ہیں)۔<ref> سليمان بن ابراہيم القندوزي الحنفي، ينابيع المودة لذوي القربى، (1220 - 1294ھ) تحقيق سيد علي جمال اشرف الحسيني، تاريخ النشر: 1416۔ ج3 ص74۔</ref>. بنابراین، اهل بیت، حجت‌ہای خداوند بر زمین‌اند، و امامت و رہبری متعلق بہ حجت‌ہای خداوند است.


[[حدیث ثقلین]] اہل بیتؑ کی امامت و رہبری پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کاایک ثبوت یہ ہے کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے بعض مواقع پر اس حدیث سے اپنی ولایت و امامت کے اثبات کے لئے استدلال و استناد کیا ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|آپ]]ؑ کا [[یوم شوری|شوری کے دن]] شوری کے اراکین کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اس حدیث سے استناد اس کی ایک مثال ہے۔<ref>مناقب ابن مغازلی، ص112</ref>
[[حدیث ثقلین]] اہل بیتؑ کی امامت و رہبری پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کاایک ثبوت یہ ہے کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے بعض مواقع پر اس حدیث سے اپنی ولایت و امامت کے اثبات کے لئے استدلال و استناد کیا ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|آپ]]ؑ کا [[یوم شوری|شوری کے دن]] شوری کے اراکین کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اس حدیث سے استناد اس کی ایک مثال ہے۔<ref>مناقب ابن مغازلی، ص112</ref>
سطر 158: سطر 157:
ایک موقع پر [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے [[طلحہ]] ، [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[سعد بن ابی وقّاص]] سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو اس حدیث کی صحت اور اپنی حقانیت پر گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص43</ref>، اور ایک بار [[خلافت]] [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے دور میں [[امام علی علیہ السلام|آپ]]ؑ [[مسجد النبی]]ؐ میں [[صحابہ رسولؐ|صحابہ]] سے مخاطب ہوکر اس حدیث سے استناد کیا اور انہیں اس حدیث کی صحت اور اپنی فضیلت کا گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص137</ref>
ایک موقع پر [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]]ؑ نے [[طلحہ]] ، [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[سعد بن ابی وقّاص]] سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو اس حدیث کی صحت اور اپنی حقانیت پر گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص43</ref>، اور ایک بار [[خلافت]] [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے دور میں [[امام علی علیہ السلام|آپ]]ؑ [[مسجد النبی]]ؐ میں [[صحابہ رسولؐ|صحابہ]] سے مخاطب ہوکر اس حدیث سے استناد کیا اور انہیں اس حدیث کی صحت اور اپنی فضیلت کا گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص137</ref>


[[احمد ابن حنبل]] نے [[ابوہریرہ]] سے نقل کیا ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے [[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]]، اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] علیہم السلام کی طرف دیکھا اور فرمایا:<font color=green> {{حدیث| '''"انا حرب لمن حاربكم وسلم لمن سالمكم"۔'''}}</font> (ترجمہ: میں ان لوگوں کے خلاف حالت جنگ میں ہوں جن کے خلاف تم برسر پیکار ہو اور ان لوگوں کے ساتھ امن و آشتی کی حالت میں ہوں جن کے ساتھ تم امن و صلح کی حالت میں ہو)۔<ref>احمد ابن حنبل، فضائل الصحابة، ج 2، تحقیق: وصی الله بن محمدعباس، مکة: جامعة ام القری، 1403ق/1983م، ص 767۔</ref> اس روایت سے بھی ثابت ہے کہ ان افراد کی اطاعت واجب ہے۔
[[احمد ابن حنبل]] نے [[ابوہریرہ]] سے نقل کیا ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ نے [[امام علی علیہ السلام|علی]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|فاطمہ]]، [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|حسن]]، اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] علیہم السلام کی طرف دیکھا اور فرمایا:<font color=green> {{حدیث| '''"انا حرب لمن حاربكم وسلم لمن سالمكم"۔'''}}</font> (ترجمہ: میں ان لوگوں کے خلاف حالت جنگ میں ہوں جن کے خلاف تم برسر پیکار ہو اور ان لوگوں کے ساتھ امن و آشتی کی حالت میں ہوں جن کے ساتھ تم امن و صلح کی حالت میں ہو)۔<ref>احمد ابن حنبل، فضائل الصحابة، ج 2، تحقیق: وصی اللہ بن محمدعباس، مکة: جامعة ام القری، 1403ق/1983م، ص 767۔</ref> اس روایت سے بھی ثابت ہے کہ ان افراد کی اطاعت واجب ہے۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم